پیر، 4 مارچ، 2013

نکسنیات سے دجالیت تک۔ ایک تحقیقی و تنقیدی اضافہ

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/جنوری، فروری 2013

نکسنیات سے دجالیت تک۔ ایک تحقیقی و تنقیدی اضافہ

محمّد احمد

1۔ کرہ ارض پر بسنے والے دو گروہِ جن و انس اپنے ایمان اور عمل کے جواب دہ ہیں۔ ہر مسلمان بھائی سورہ رحمان میں بار بار بیان کی گئی آیت مبارکہ:" تو (اے جنو اور انسانو ) تم اپنے پر ورگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟" سے بخوبی واقف ہو گا۔ ہمیں نہ صرف اپنے انفرادی اعمال کی نگہداشت کر نی ہے۔ بلکہ اجتماعی امور میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا تا کہ دنیا میں اچھی زندگی (حیات طیبہ ...النحل 97 ) کے ساتھ آخرت میں حق کی ترازو میں پلڑا بھاری ہو سکے۔


2۔ اجتماعی امور کی انجام دہی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون از حد ضروری ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔" (المائدة:2 )

اب یہ گروہ جن و انس کو اللہ تعالیٰ اختیار دے رہا ہے کہ وہ اپنی منزل کا تعین کس طرح کر تے ہیں۔ آیا وہ حزب اللہ کی جماعت میں بر ضا و رغبت شامل ہو نا پسند فرمائیں گا یا اپنی کشتی کی پتوار اپنے اور اللہ کے دشمن کے حوالے کر کے حزب الشیطان کی پارٹی کے ممبر بنیں گے۔

3۔ یہود نے شروع سے ہی اپنے لیے سر کشی شرارت، بغاوت، اپنے انبیاء علیھم السلام کو تنگ کر نا ستانا اور بالآخر قتل کر دینا اور جنگ و جدل کی آگ دنیامیں بھڑکانے کا شیوہ بنا رکھا ہے۔ القرآن کا اس ضمن میں تبصرہ مندرجہ ذیل ہے:

"اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جا تا ہے وہ ان میں سے اکثر کو تو سر کشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لیے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے ، وہ جب بھی کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ یہ ملک بھر میں شر و فساد مچاتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادیوں سے محبت نہیں کرتا۔" ( المائدة 64)

ہمیں باری تعالیٰ کی مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں وار اون یٹر ر کے پس منظر اور پیش منظر کا بھر پو ر جائزہ لینا ہو گا۔ قارئین کرام سے ہماری گزارش ہو گی کہ وہ (رمضان المبارک 1433ھ) ہمارے مضمون: "نکسینات سے دجالیت تک" کے پیرا 4 میں بیان کردہ نکسن کے دست راست ہنری کیسنجر کے کارناموں پر نظر ڈالیں۔ یہ صاحب یہودیوں کے نمایاں اور مدبر سیاست دانوں Statesman میں شمار ہو تے ہیں۔ رچرڈ نکسن کو اوج ثریا سے پٹخا کر تخت الشری پہنچا کر بھی ان کا بال بیکا نہ ہوا۔ پا کستان کا مشرقی بازو کٹ گیا اور اب تک پا کستان USSR،USA اور NATOکی 30 سالہ طویل خون آشام جنگ میں الجھا رہا ہے۔ امت مسلمہ پُر امید ہے کہ حق تعالیٰ عنقریب اس جنگ کی آگ بجھا دیں گے۔قوم یہود نے اپنے جلیل القدر نبی اور رسول حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو بھی بڑا خوار کیا اور انہیں ایذ ا پہنچائی۔اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس صفت قبیح سے بچنے کی نصیحت کر تے ہیں:

" اے ایمان والو ! ان لوگوں جیسے نہ بن جا ئو جنہوں نے مو سیٰ کو تکلیف دی بس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فر ما دیا ، اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھے۔ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) با تیں کیا کرو۔ تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دےاور جو بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی تابعداری کر ے گا اس نے بڑی مراد پا لی۔"(الاحزاب69-71)

4۔ دینِ وحدانیتِ کا ملہ کی علمبردار ملت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ کا ش کہ وہ مندرجہ با لا نصیحت کو غور سے سنتی اور عمل پیرا ہو تی۔ آج کل لو گ شادیوں میں رنگ برنگی چہل پہل سے خوب لطف اندوز ہو تے ہیں۔ آخر معاشرہ میں چلن ان رنگین تقریبات (Bridal Glamour) کا بہت ہو گیا ہے اور دلہن باقاعدگی سے سنہرے جزدان میںملفوف "مصحف مبارکہ " کے سائے تلے اپنے بابل کے گھر سے الوداع ہو تی ہے۔کاش کہ تقریب کے شرکاء بو قت نکاح پیرا 3 میں بیان کر دہ الاحزاب کی آیات 70 اور 71 پر کو غور فر تے اور عمل پیرا ہو تے نکاح خوانوں نے ساڑھے چودہ سو سال سے ان احکامات کا اعادہ تسلسل و تواتر سے بر قرار رکھا ہے ! الا چند بد خواہوں کے !!!

5۔ قوم یہود کی چا لبازیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیں باری تعالیٰ کی بیان کردہ یہودیوں کی صفت (المائدة 64)" ...... وہ جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکانا چا ہتے ہیں۔" پر غور کر نا ہو گا۔ پہلی بات یہ یاد رکھیے کسی نے کسنجر سے پو چھا کہ کیا وہ یہودی ہے ؟ اس نے انکار کرتے ہو ئے جو ا ب دیا کہ وہ امریکن ہے۔ "امریکا نے لڑائی کو زبر دست طریقہ سے بھڑکانے کا انتظام کر لیا اور جناب ٹرومین صدر امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما نا گا ساکی پر نیو کلیر بموں سے حملہ کرتے ہو ئے نہ صرف دنیا کو بتلا دیا کہ وہ جنگ کی آگ بھڑکانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں بلکہ جاپان پر قبضہ بھی کیا اور اس کے مکینوں کی سائیکی Psyche) ) بھی بگاڑ دی۔ جاپانی ابھی تک ان زخموں کو نہیں بھولے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ پہلے چابی سے چلنے والے کھلونے بنا یا کرتے تھے اور اب دیو ہیکل بحری جہاز اور بہترین دنیا بھر میں مقبول پُر تعیش کاریں اور دیگر ماڈرن اشیاء بنا نے لگے ہیں اور دنیا میں معاشی طور پر خوشحال ہیں۔ دونوں عظیم جنگیں ختم ہو چکیں۔ ان گرم جنگوں کے بعد سرد جنگ کا دور دورہ ہے۔ یہ کو لڈ وار قوم یہود پر ایک شدید اعصابی تنائو ڈال رہی ہے۔ کیو نکہ آئندہ آنے والی تباہ کن اور دیر پا جنگوں کے جراثیم اس سرد جنگ کے گو لہ میں بند ہیں۔قادر مطلق اپنی عظمت و عزت والی الکتاب میں فر ما رہے ہیں:

" اور جب تم نے کہا اے مو سیٰ ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہر گز صبر نہ ہو سکے گا ، اس لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ ، ککڑی ، گیہوں ، مسور اور پیاز دے آپ نے فر ما یا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کر تے ہو؟ اچھا شہر میں جائو وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی۔ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو نا حق قتل کر تے تھے یہ ان کی نا فرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔" (البقرة 61)

اور مزید مالک الملک ارشاد فر ماتے ہیں:

" یہ تمہیں ستانے کے سوا اور زیادہ کچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے ، اگر لڑائی کا مو قع آجائے تو پیٹھ مو ڑ لیں گے ، پھر مدد نہ کیے جائیں گے۔ ان پر ہر جگہ ذلت کی مار پڑی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یا لو گوں کی پناہ میں ہوں ، یہ غضب الٰہی کے مستحق ہو گئے اور ان پر فقیری ڈال دی گئی ، یہ اس لیے کہ یہ لو گ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے تھے اور بے وجہ انبیا ء کو قتل کرتے تھے ، یہ بدلہ ہے ان کی نافر مانیوں کا اور زیادتیوں کا۔" (آل عمران 112)

6۔ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کی نکاح کی تقریبات میں دین اسلام خصوصاً موت ، قیامت میں حساب کتاب اور آخرت کی ابدی راحتوں اور عذابوں کے بیان پر تواتر سے زور دیا جاتا رہا ہے۔ پیرا (4 ) میں سورة الاحزاب کی چند آیات مبارکہ کا ذکر تھا ، تو سورة آل عمران آیت 102 میں حاضرینِ تقریبِ نکاح سے ارشاد فر مایا جارہا ہے۔" اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے چاہیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔" اب دیکھئے اس آیت میں اور یہود پر غضب الٰہی والی آیت کے در میان 10 آیت کے فرق سے اتصالی ربط کتنا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ مگر امت میں غور و فکر اور عملِ صالح کی شدید کمی ہے۔نو جوانوں پر جنون طاری ہے کہ وہ کسی طور امریکا جائیں اور وہاں ڈیرہ ڈال لیں کیونکہ اس ملک میں آباد کاروں کے لیے بے شمار ذرائع و مواقع ہیں جبھی تو اس کو Land of Opportunities کہا جا تا ہے۔ اب کس طرح ان لوگوں کو ذہن نشین کرایا جائے کہ بعض Opportunities صریحاً گناہ کے کام ہیں۔ بعض لو گوں کا سفر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی سفری دستاویزات چرا کر لے جانا (یعنی تصویر بدل کر جانا اور کچھ عرصے بعد اپنے حقیقی نام اختیار کرنے کا اشتہار شائع کرانے کے بعد دہری شہریت کو باقاعدہ ((Regularizeکرانا یا پھر امریکی عورت سے شادی رچانا اور جب امریکی شہریت کو استحکام حاصل ہو جائے تو شادی ختم ! یا پھر مصنوعی یعنی کاغذی شادی Paper Marriage جس کو Marriage of Convenienceبھی کہا جا تا ہے۔ان لو گوں کے بارے میں القرآن فیصلہ کرتا ہے:

"........ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پو شیدہ بد کاری کرو ، منکرین ایمان کے (اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔" (المائدة 5)۔

امریکیوں نے ان چند لو گوں کی قبیح حرکات نوٹ کیں ! فضائی مستقر پر وطن سے تمام عارضی تجارتی اور حکومتی کاموں پر جانے والوں پر تابڑ توڑ ایک جیسی لاٹھی سے حملہ کر دیا۔ اس کا تعلق ١١/٩ کے کسنجر کے پرل ہاربر والے بیان سے ہے۔جاپان کے ہتھیار (ان کے سامنے ) ڈالنے کے بعد کوئی تک نہیں بنتی البتہ پرل ہاربر کے محل وقوع کا سمندر کا پانی نہایت صاف شفاف ہے اور گہرے سمندر میں ڈوبے ہو ئے امریکی بحریہ کے دیو ہیکل جہازوں کا قبر ستان دیکھنے والوں کا دل دہلا دیتا ہے۔ یہی تو ان کی مسکینی اور ذلت ہے ، یہی تو فر قان حمید کی ( اٰیات محکمات ھُنّ ام الکتاب )(آل عمران 7) کی شان ہے کہ ان کے نہ بھلا دینے والے غموں اور ڈپریشن (Depression) کا صدیوں پہلے ذکر کر دیا گیا ہے۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرہ (Tom, Dick and Harry)  جانتا ہے کہ 11/9 کے پیچھے کن لو گوں کا ہاتھ ہے کیونکہ جڑواں مینار ( Twin Towers ) کی مکمل تباہی صرف ہوائی جہاز ٹکرانے سے نہیں ہو سکتی تھی بلکہ بارودی سرنگیں ہی اس بڑی عمارت کو گرائونڈ زیرو بنا سکی اسی لیے ان لو گوں کے جملہ حواریوں کو ١١/٩ کے دن چھٹی پر رکھا گیا تھا ____" گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے " والوں کا عمل____ جو وطن عزیز کے بد خواہوں نے دکھایا اور گروہ در گروہ ملک بدر( Deport )ہو ئے۔ القرآن انہیں منافقین کے خطاب سے نوا زتا ہے اور ان کے دلوں کی اندرونی کیفیات بیان کرتے ہوئے وطن ، کے وفا شعار شہریوں کو ان کے کرتوت کس طرح نمایاں کرتا ہے:

...." ان کی لڑائی تو آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اس لیے کہ یہ بے عقل لو گ ہیں": الحشر 14

ان بے عقلوں نے آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی (Leg Pulling)! یہ بے عقل لوگ خود بر باد ہو تے ہیں اور دوسروں کی نائو بھی ڈبو تے ہیں:

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم:نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

7۔ جب سے دین اسلام نافذ العمل رہا ہے اور جاری رہے گا ، اربوں اور کھربوں کی تعداد میں امت کے افراد رشتہ مناکحت میںمنسلک ہو گئے۔ دو آیا ت (ال عمران 102 اور الاحزاب 70 اور 71 ) جو ان تقریبات میں تلاوت کی جاتی ہیں ، کا ذکر پچھلے اوراق میں کیا جا چکا ہے۔ تیسری آیت صلہ رحمی (منافقین قطع رحمی کے گناہ کبیرہ پر جمے ہو ئے ہیں ) کی پو ری نو ع انسانی کو تلقین کر رہی ہے۔انتہائی بڑی تعداد کے کانوں میں بتقریب نکاح ،اس آیة مبارکہ کی تلاوت کی صدا بھی گونج چکی ہے۔ رب العالمین حکم دیتے ہیں:

" اے لو گو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دو نوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے"۔ النساء 1

8۔ جس طرح ہم نے پیرا 3 میں قارئین کرام سے درخواست کی تھی کہ وہ نکسنیات سے دجالیت تک والے مضمون سے ڈاکڑ کسنجر کا (Nexus) مطالعہ فر مائیں ، اسی طرح پیرا 13 میں عالم اسلام کا منفرد اور معتبر جہاد افغان نستان بھی زیر نظر رہے جب دشمنوں کو اپنی دقیانوسی رائفلوں اور تائید ربانی سے شکست فاش دیتے ہو ئے مجاہدین دریائے آمو پار کراتے ہوئے گھر بھیج رہے ہو تے ہیں۔ ایسے کس طرح طے ہوا؟ عالم اسلام کو کبھی مرضِ سردجنگ لا حق نہوا، البتہ امریکہ اور سوویت یونین اس مہلک مرض میں مبتلا رہے۔یاد رہے کہ موخر الذکر وائی ملک عدم آباد ہو چکا ہے۔ دو نوں ممالک کے مذاکرات ہوئے سوویت یونین نے امریکہ کو دھمکی دی کہ اگر تم نے ہمارا بندو بست نہ کیا تو جس طرح تم نے ہیرو شیما نا گا ساکی آگ کا کھیل کھیلا ہم بھی ایسے ہی کیل کانٹے سے لیس ہیں اور ایسا ہی تماشا دکھانے کا دم خم رکھتے ہیں جناب رونالڈ ریگن، ٹرخ گئے۔ جنگوں میں سو دے بازی جا ئز ہے ضیاء الحق صاحب مدبر حکمران تھے مگر ان کے بر خوردار جو نیجو نے اپنی حکومت بھی گنوائی اور وطن عزیز کی عزت بھی کاش کہ بغیر پارٹی الیکشن سودے بازی (Bargaining) کے بعد ہو تا۔ بہر حال جو ہو تا ہے منظور خدا ہو تا ہے۔

9۔ منافیقین کی صفوں میں کسی بھی ملک، مذہب اور قومیت کے افراد پا ئے جا سکتے ہیں۔ ان لو گوں کا ملت کو نقصان پہنچانا اتنا مضر ہے کہ حق تعالیٰ نے دو زخ میں ان کا اُخروی ٹھکانا سب سے نچلی جگہ مقرر کر رکھا ہے:

" منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ (درک الاسفل من النار ) میں جائیں گے ... النساء ١٤٥"

 یقینی بات ثابت ہو ئی کہ جنگ کی آگ بھڑکا نے، میں ید طولیٰ رکھنے والوں نے واشنگٹن میں در یا ئے پو ٹو میک (Potomac) کے کنارے در ک الا سفل من النار سے مشابہت رکھنے والی نامی (Hell's Bottom) جگہ 1943ء کے ١١۔٩ میں منتخب فر مائی اور وہاں اپنے جنگی کا موں کو پانچ کو نے والی عمارت (PENTAGON) سے کنٹرول کرتے ہیں۔

10۔ جب کرہ ارض مہیب جنگی بادلوں (Mushroom Cloud) کا خود اکیلے ٹھیکہ بھی لینا ہو، دوسروں کو ان با دلوں کی تیاری سے رو کنا ( nptکے ذریعہ ) اور رقومات کا حاصل کر نا ہو تو کیسا طرز عمل اختیار کر نے سے یہ ممکن ہو سکے گا۔ آسمانوں اور زمینوں کے کلی مالک ہمیں بتا رہے ہیں:

" بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں تو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے یہ اس لیے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں (غیر یہودی ) کے حق کا کوئی گنا ہ نہیں یہ لو گ با وجود جاننے کے اللہ تعا لیٰ پرجھوٹ کہتے ہیں۔" ال عمران75

11۔ ہمارے بعض مسلمان یہود کی پیروی میں سودی قرضہ لینے اور اس کو ہڑپ کر جا نے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہود کا شرک اور مال ہڑپ کرنا دور سید نا موسیٰ علیہ السلام میں سونے کے بچھڑے کی پرستش کر نے کی وجہ سے، ان کے رگ و ریشہ (DNA) جاری ہے کتاب ہدایت ہمیں مزید تفصیل سے آگا ہ کرتی ہے:

" ہاں بے شک میں انہیں بخش دینے وا لا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں اور راہ راست پر بھی رہیں۔ اے مو سیٰ ! تجھے اپنی قوم سے (غافل کر کے ) کون سے چیز جلدی لے آئی؟ کہا کہ وہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے ہیں اور میں نے اے رب ! جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہو جائے۔ فر ما یا ! ہم نے تیری قوم تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سا مری نے بہکا دیا ہے۔ پس مو سیٰ (علیہ السلام ) سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لو ٹے اور کہنے لگے کہ اے میری قوم وا لو ! کیا تم سے تمہارے پر وردگار نے وعدہ نہیں کیا تھا؟ اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہو ئی ؟ بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پر وردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کا خلاف کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کا خلاف نہیں کیا۔ بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لا د دیے گئے تھے انہیں ہم نے ڈال دیا، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیے۔ پھر اس نے لو گوں کے لیے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا، یعنی بچھڑے کا بت جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی پھر کہنے لگا کہ یہی تمہارا بھی معبود ہے۔ اور مو سیٰ کا بھی، لیکن مو سیٰ بھول گیا ہے۔کیا یہ گمراہ لو گ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی با ت کا جوا ب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے۔ اور ہارون (علیہ السلام ) نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم وا لو ! اس بچھڑے سے تو صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے تمہارا حقیقی پر وردگار تو اللہ رحمان ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو، اور میری بات مانتے چلے جائو۔ انہوں نے جو اب دیا کہ مو سیٰ (علیہ السلام ) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے۔ مو سیٰ (علیہ السلام ) کہنے لگے اے ہارون انہیں گمراہ ہو ا دیکھتے ہو ئے تجھے کس چیز نے رو کا تھا۔ کہ تو میرے پیچھے نہ آیا۔ کیا تو بھی میرے فر مان کا نا فر مان بن بیٹھا۔ ہا رون (علیہ السلام ) نے کہا کہ میرے ماں جائے بھا ئی ! میری داڑھی نہ پکڑ، اور سر کے بال نہ کھینچ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر رہا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فر مائیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری با ت کا انتظار نہ کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام ) نے (سا مری سے ) پو چھا تیرا کیا معاملہ ہے۔اس نے جو اب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں نہیں دکھائی نہیں دی، تو میں فر ستادہ الہیٰ کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈا ل دیا اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لیے بھلی بنا دی۔ کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھو نا اور ایک اور بھی وعدہ تیرے ساتھ رہے جو تیرے سے ہر گز نہیں ٹلے گا (یعنی آخرت کا عذاب) اور اب تو اس معبود کو بھی دیکھ لینا (جس کا اعتکاف کیے ہو ئے تھا ) کہ ہم اس کو جلا کر دریا میں ریزہ ریزہ اڑا دیں گے۔" (طٰہٰ 82-97)

12۔ سید نا مو سیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی سے آگاہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے خصوصی پُر خاخاش رکھنے والی قوم سے تعلق رکھنے کے متعلق رب کائنات نے ہمیں اپنے مقدس کلام میں بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔مثلاً اس سونے کے بچھڑے کے بت کو اگر سیدنا مو سیٰ بتاہ و بر باد کر رہے تھے تو ان لو گوں کو بھی چاہیے تھا کہ خود بھی سبق حاصل کر تے، تو بہ کر تے اور بات ختم ہو جاتی ..... مگر اس خدا فرا موش اور دولت کی حد درجہ پجاری قو م نے عادتاً اس بچھڑے کی یاد اپنے دل میں بسا لی اور اپنے معبد خانوں (Temples, Synagoue) میں ایک چھوٹا سا بچھڑے کا بت بطور یاد گار سجا کر پرستش کرتے چلے آرہے ہیں ! پھر ان لوگو ں اور مشرکوں کے در میان تفریق تو نہ ہو ئی۔ اگر ہم عقیدہ توحید پر ایمان و یقین رکھنے والے شرک سے انتہائی بیزار ہوں اور اہل تورات اپنے دل میں شرک کے پر چارکوں کے لیے نرم گو شہ رکھتے ہوں پھر ہمیں انڈیا کو علاقہ کی بڑی طاقت ماننے پر مجبور کریں۔ ہمیں کتاب مبین ان کی اس قبیح خصلت سے خبر دار کر چکی ہے:

" تمہارے پاس تو موسیٰ (علیہ السلام ) یہی دلیلں لے کر آئے لیکن تم نے پھر ھی، بچھڑا پو جا تم ہو ہی ظالم۔ جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو کھڑا کر دیا (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہو ئی چیز کو مضبوط تھا مو اور سنو ! تو انہوں نے کہا ہم نے سنا اور نا فر مانی کی اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت (گو یا ) پلا دی گئی بسب ان کے کفر کے۔ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں برا حکم دے رہا ہے اگر تم مو من ہو۔" البقرہ 92-93

13۔ اہل تو رات شرک (بلا شبہ شرک بہت بڑا گناہ ہے۔ لقمٰن 13) سے خوب لت پت ہو گئے تو کیوں نہ وہ اہل ہند کے ہم قافیہ (یہود و ہنود ) ہم نیوالہ و پیالہ ہوں ! خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔الحمد للہ بذریعہ قرآن ہمارے لیے دنیا میں بسنے والوں کے لطائف و غرائب دن بدن عیاں سے عیاں تر ہو تے جارہے ہیں۔ آج (20 نومبر 2012) کے اخبارات سے شواہد ملے ہیں کہ نیدر لینڈ میں ایک نو عمر لڑکی سے ایک درندہ صفت شخص نے 1999 ء میں زنا بالجبر اور قتل کرنے کے بعد قریبی کھیت میں لاش ڈال دی اور فرار ہو گیا۔ پو لیس نے ڈی این اے (مو جودہ صدی کی سائنسی تحقیق ) کے حوالے سے 3700 افراد کے ڈی این اے کے مو قعہ واردات کے ڈی این اے سے ان تیرا (13) سا لوں کے دوران موازنہ کیا تو قاتل گرفت میں آگیا۔اشربوا فی قلوبھم العجل (بچھڑے کی محبت پلا دی گئی ) کیا عجب صیہونیوں اور کٹر یہودیوں کے ڈی این اے اس الوہی حقیقت کی بر ملا گواہی دیں اگر مسلم سائنسدان اس ضمن میں تحقیقات کا ڈول ڈالیں !! رہی اہل ہند کی بات تو ان کی بچھڑے کی ماں سے حد درجہ محبت سارے عالم میں الم نشرح ہے تو کیوں نہ یہود و ہنود کے فکر و عمل میں چولی دامن کا ساتھ ہو۔

14۔ سامری نے اپنے بچھڑے والی چالاکی سے " مجھے نہ چھونا " کہتے رہنے کی سزا پائی، بیا با نوں میں چلا گیا اور راندہ در گاہ ہو گیا۔ یہ مساس (Touch) جب سزا بنتا ہے تو احسن تقویم والی مخلوق کو اسفل سافلین کے گڑھے میں گرا دیتا ہے (سورہ التین ) اپنے جلیل القدر پیغمبرسے آسمانی رزق (منّ و سلویٰ ) بند کراکر کسی بستی میں جا کر ساگ پات پیاز کھانے کو ترجیح دیتا ہے اور تو اور اپنی قوم کے نبیوں کی وقتاً فوقتاً ٹارگٹ کلنگ کر تا ہے تو کیوں نہ رب کا ئنات انہیں ذلت و مسکنت کے عذاب سے نو ازے؟ امریکن اپنے ملک کے انتخاب اور الیکشن کے انتخابی نشانات کی روایات وغیرہ کو تقدس کا در جہ دیتے ہیں۔ غور کیجئے ملکوں کے مالک ہمیں اس بارے میں کیا ارشاد فر ماتے ہیں:

" جن لو گوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے وا لوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسے) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔" الجمعہ 5

موجودہ امر یکی صدر کو ان کی قوم نے " گدھے " گاڑی کا استعمال (وحی الہیٰ کے مطابق) کرنے ہی کے لیے منتخب کیا ہے اللہ کی باتیں جھٹلا کر لا تعداد معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا خون بہا کر اور ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا کر (Collateral Damgae) (جنگ میں معمولی نقصان جس کا ارادہ نہ کیا ہو ) سے تعبیر کر تا ہوا حکمران کس طرح احکم الحاکمین کی پکڑ سے بچ سکتا ہے؟ اللہ (نباالعظیم۔ النبا۔2)

دنیا بھر کے اخبارات (Print Media) کی عظیم ترین خبر سے بڑی عظیم خبر (Breaking News) صدیوں سے بدستور نشر کر رہا ہے حتیٰ کہ وہ صور اسرافیل سے ساری کائنات (Universe) مطویات بیمینہ (زمین اس کی مٹھی میں اور آسمان داہنے ہاتھ میں لپٹے ہو ئے۔الزمر۔ ٦٧ ) وقوع پذیر ہو جائے گی تک بتا رہا ہے۔ یہ سوال پیدا ہو تا ہو گا کہ اب تک یہ کیوں نہ ہوا؟ اس کی تشریح ہمارا پالنے والا رب کرتا ہے:

اور اگر اللہ تعالیٰ لو گوں پر ان کے اعمال کے سبب داروگیر فر مانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا، لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایک معیاد معین تک مہلت دے رہا ہے، سو جب ان کی معیاد معین آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا ... فاطر۔45

یہ معیاد معین دنیا میں بھی ہو سکتی ہے اور یوم قیامت تو ہے ہی۔ دنیا کی معیاد معین بمعنی سزا تو مجرمین کی فرد جرم (charge sheet) طویل کر نے لیے ہو سکتی تا کہ رہتی دنیا دنیا کو عبرت حاصل ہو(غور و فکر کر نے والوں کے لیے القرآن کی مختصر سورت " الفیل " کا فی ہے ) بہر حال بے پناہ ظلم ڈ ھانے والوں کورب کائنات کا انتباہ ہے:

" رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج، ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔" الاعراف 182-183

15۔ ان لوگوں کی جرائم کی فہرست میں جادو کی متعدد اقسام فراعنہ مصر کے دور سے چلی آرہی ہیں۔ اس قبیح عادت میں شیطانوں نے انہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں خوب مبتلا کیا مو جو دہ دور میں امر یکہ میں اس کا عمل دخل ان کی افواج کے افسران با لا میں بھی پا یا جا تا ہے۔سید نا سلیمان علیہ السلام پر ان لو گوں نے بے ہو دہ الزام لگا یا کہ جادو کے بانی وہ تھے حالانکہ جادو گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اس الزام کی نفی فر ماتے ہو ئے ارشاد فر ماتے ہیں:

"اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت ) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لو گوں کو جا دو سکھا یا کرتے تھے اور بابل میں ہاروت ماروت دو فر شتوں پر جواتارا گیا تھا، وہ دو نوں بھی کسی شخص کو اس وقت نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر، پھر وہ لو گ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالی کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لو گ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے، اور وہ بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والا کا آخرت میں کو ئی حصہ نہیں۔ اور وہ بد ترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فرو خت کر رہے ہیں کاش کہ یہ جانتے ہو تے۔" البقرہ 102

16۔ فی زمانہ مسلمانوں کے ایمان زوال پذیر ہیں بو جوہ تعویذ، گنڈوں کا استعمال اور غیر مسلم جادوگروں (مسلمان جا دو کے عمل اختیا ر کرتے ہی دائر اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ) سے رجوع کرنے سے یہود، چو نکہ اس تجارت پر شروع سے ہی فائز ہیں، ورلڈ لیڈر ہیں مسلمانوں کا گروہ اپنے کام جادوئی زور پر انجام دینے پر مصر رہا تو وہ کس طرح دجال کے چنگل سے بچ پائے گا۔ اس لیے وار اون ٹیرر (war on terror) میں امریکی اور مغربی اقوام کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔ فر شتوں کے کہنے میں کو ئی ابہام نہیں ہو تا اگر وہ کہیں کہ وہ آزمائش ہیں۔ مگر انسان اس پر اصول کا اطلاق ایسا ہی ہے جیسے باطل تردید کے لیے مذاہب کا کسی استاد سے حاصل کیا جائے، استاد شاگرد کو اس یقین دہانی پر باطل مذہب کا علم سکھائے کہ وہ اس کی تر دید کرے گا۔ لیکن علم حاصل کرنے کے بعد اپنی نیت ٹھیک نہ رکھ سکے اور وہ خود بد مذہب ہو جائے، اس کا غلط استعمال کرے اور دوسروں کو گمراہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لو گوں کے شر سے بچائے (آمین )

17۔ پچھلی عالمی جنگوں کے سبب قوم یہود تمام عالم میں پھیل گئی مگر اپنی دولت سے حد درجہ محبت اور منفی چا لا کیوں سے جیسا کہ پیرا 10 میں یہود اور غیر یہود کی تقسیم کا ذکر ہوا، انہوں نے دو لت دنیامیں کاغذ کا سکہ پہلے چلا یا اور بنکاری نظام کے تحت پلاسٹک کے سکے مو جودہ دور میں رائج کر چکے ہیں۔ 2 فیصد ان کی آبادی ہے اور 80 فیصد دو لت رکھتے ہو ئے 98 فیصد ریاستہائے متحدہ امر یکہ کی آبادی پر بری طرح حاوی ہیں۔ ہمارا ظن غالب ہے کہ سامری لامسک کی طرح قرآن حکیم ہی کے بتائے ہو ئے شیطانی مساس کی بناء ایسا ہو رہا ہے:

"سود خور لو گ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح وہ کھڑا ہو تا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنادے، یہ اس لیے ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لیے وہ ہے جو گزرا اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور جو پھر دو بارہ (حرام کی طرف )لو ٹا وہ جہنمی ہے ایسے لو گ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔" البقرہ 275

18۔ اپنے ایک مضمون "پا کستان بلائوں کی زد میں ...تدراک کی تمنا" میں سودی گماشتوں کے چلن کا مفصل تجزیہ مجلہ الوقعة کے پچھلے دو شماروں میں کیا۔ مندجہ با لا اعداد و شمار ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ وہ سر ما یا دار سو سائٹی کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ہوس زر، ہوس ملک گیر ی میں متبدل ہو تی ہے۔ جبھی تو حساب کے دن جہنمیوں کے غول میں یہود کہہ رہے ہوں گے! "کاش موت (میرا ) کام ہی تمام کر دیتی۔ میرے مال نے بھی مجھے کچھ نفع نہ دیا۔ میرا غلہ بھی مجھ سے جا تا رہا۔" الحاقہ 27، 28، 29

ان لوگوں کا بس چلے تو دنیا کے ہر غیر یہود شخص سے اس کا سونا چاندی غصب کرلیں مگر پوری انسانیت کے لیے باری تعالیٰ اصولی بنیاد فراہم کر تے ہیں:

"اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہو جائیں گے تو رحمن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی بنا دیتے اور زینوں کو بھی جن پر چڑھا کرتے۔ اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے اور سونے کے بھی، اور یہ سب یو نہی اس زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیز گاروں کے لیے (ہی) ہے ": الزخرف 33-35

گو یہود لالچ میں ایک انتہا پر پہنچ جائیں گے۔ اسلامو فو بیا کے مرض میں رچرڈ نکسن نے پوری امر یکن قوم کو شدید درجہ مبتلا کرنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ حالانکہ بوقت موت وہ صرف ایک ناکام اور نا مراد امریکن شہری تھا۔ اس کی جان توڑ کو شش کے عالمی منفی اثرات دیر پا رہیں گے اور ان اثرات کو نکسنیات مستقبل میں گرا دینا چا ہے گا، چونکہ یہ اثرات کرہ ارض پر پھیل چکے ہیں اس لیے مغرب کے مفکرین نے انہیں اپنے گلو بلائزیشن کے رچرڈ میں واضح جگہ دی ہے۔ اور اپنے کار ہا ئے نمایاں کو کو مذہب و دین سے بیگا نہ رکھنے کی بھر پور کو شش بھی کی ہے۔ اس طرح عالم اسلام سے حد درجہ نفرت و بغاوت مغربی دنیا میں بے انتہا فروغ پا رہی ہے۔

19۔ اسلام حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے دنیا کا مذہب بن گیا۔ رہا منفی و مثبت طرز فکر کا معاملہ، وہ بھی دور آدم میں اس طرح پیش آیا جس کا قرآن ذکر کرتا ہے:

"آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنادو، ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا ان میں سے ایک نذر قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں ہی کا عمل قبول کرتا ہے گو تو میرے قتل کے لیے دست درازی کر ے لیکن میں تیرے قتل کے لیے ہاتھ نہ بڑھائوں گا، میں تو اللہ تعالیٰ پر وردگار عالم سے خوف کھاتا ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے یہی بدلہ ہے۔ پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کو ے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپادے، وہ کہنے لگا ہائے افسوس ! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہو گیا کہ اس کوے کی طرح اپنے بھائی کی لاش دفنا دیتا؟ پھر تو (بڑاہی ) پشیمان اور شرمندہ ہو گیا۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گو یا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گو یا تمام لوگوں کو زندہ کردیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لو گ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبر دستی کرنے والے ہی رہے۔" المائدہ 27 سے 32 تک۔

20۔ یہ دنیا والوں پر اللہ تعالیٰ کا کرم خاص ہے کہ وہ ظلم و زیادتی اور فساد فی الارض پر مصر رہنے والے حکمرانوں کا ہر دور و زمانہ میں قلع قمع کرتا رہتا ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فر ماتے ہیں:

"اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کر تا تو زمین میں فساد پھیل جاتا، لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔" البقرہ251

مثبت سوچ رکھنے والے، امر بالمعروف و نہی المنکر اور اللہ تعالیٰ سے تقویٰ کر نے والے ہر دور میں فلاح و کامیابی سے سر فراز رہے ہیں۔ بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں بشرطیکہ صبر کا اہتمام ہو (ماخوذ من البقرہ 249) جس طرح ہمارا اور تمام لوگوں کا پروردگار ہم سے مخاطب ہے اور پرانے زمانہ کا واقعہ بتا رہا ہے (اسی طرح حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے مخاطب ان کی بعثت کے زمانے میں ہو ا تھا:

"اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مدد گار بن جائو۔ جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مدد گار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مدد گار ہیں، پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا تو ہم نے مو منوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے ..." الصف ... 14

21۔ پر وردگار عالم ہمیں پہلے ہی متنبہ فرما چکے ہیں کہ: "آپ (اور ہم لوگوں سے بھی ) سے یہود و نصاریٰ ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدا یت ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اپنے منصب کا پو را پو را حق ادا کر دیا مگر ہم بحیثیت مجموعی (مجرم ہیں ) نے با وجود اپنے پاس علم آجانے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہو گا اور نہ مدد گار۔"(ما خوذ من البقرہ 120 ) ہم سب اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ ہم بلائوں میں گرفتار (war on terror) اپنے اعمال کے سبب ہیں اور اپنا محاسبہ خود بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ سمندری پا بندیاں (Sanctions) ہیں تو مسلمان ملکوں پر (کسی زمانہ میں یہ بحری محاصرہ (Naval Blocade) کہلایا جاتا تھا اور اس کو واضح انداز میں جنگی عمل (Act of War) سمجھتے ہو ئے جنگ چھڑ جا یا کر تی تھی ) ہماری چھوٹی سے چھوٹی خواہش سے لے کر بڑی سے بڑی خواہشات تک معمولی سے معمولی حملہ آور افواج کے افسران کے تابع ہیں۔ جو توپو ں کے گولے اور مسائلز (Missiles) ہماری سر زمین پر برسیں وہ ہم خود اپنی بندر گاہوں سے بعحلیت اپنے ٹرکوں پر لاد کر طور خم اور چمن کی سرحد وں پر ان کے حوالے کرتے ہیں تاکہ وہ دیر نہ لگائیں اور عوام الناس (جو آب حشرات الارض کی طرح ہو گئے ہیں ) کا شکار کھیلیں۔ کیا اولعزم و باہمت قوم کا وطیرہ ایسا ہو نا چاہیے؟ ہر گز نہیں! مسلمانوں کے لیے ہمت ہا رنا مطلقاً حرام ہے کیونکہ انہیں من حیث الجماعہ بہترین امت قرار دیا گیا ہے جو تمام لو گوں کے لیے ذمہ دار (Responsible) ہے کہ انہیں نیک باتوں کا حکم کرتی رہی، بری باتوں سے روکتی رہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت پر کامل بھروسہ اور ایمان سے قطعاً غفلت نہ برتے۔ اگر اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر تھا، ان میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثریت فساق و فجار پر مشتمل ہے ( ماخوز من ال عمران 110)

22۔ نکسنیات کا باب ختم ہو نے کے ساتھ ستاھ دجالیت نے زور شور سے سر اٹھایا۔ یہود، ہنود و نصاریٰ کی آرزوئیں تو بڑھتی چلی جائیں گی مگر مالک الملک اپنا فیصلہ اور اپنی مرضی بیان فرماتے ہیں:

"کیا ہر شخص جو آرزو کرے اسے میسر ہے؟ اللہ ہی کے ہاتھ ہے یہ جہان اور وہ جہان۔" النجم 24۔ 25

23۔ بہر حال مندرجہ بآلا آرزو رکھنے والوں کے لیے کسی مو قعہ پر ہر سطح زمین ایک سونے کا پہاڑ نمودار ہو جائے تو یہ کیسے اپنے طرز عمل کا اظہار (Behave) کریں گے۔ ہم صحیحین سے نقل کریں گے:

"قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک فرات سے سونے کا ایک پہاڑ ظاہر نہ ہو جائے۔ لوگ اس سونے کے لیے جنگ کریں گے۔ اس کے نتیجے میں 99 فیصد لوگ قتل ہو جائیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کو یہ تو قع ہو گا کہ شائد وہی زندہ بچ جائے۔" صحیح مسلم، الفتن، حدیث 2894

" جو اس مو قع پر موجود ہو اسے چاہیے کہ وہ اس میں سے کو ئی چیز نہ لے.." صحیح البخاری، الفتن حدیث 7119

اس سو نے کے ظاہر ہو نے کا سبب یہ ہو گا کہ دریا اپنے بہائو کا رخ تبدیل کرے گا۔ اس سے قبل یہ طلائی پہاڑ مٹی سے اٹا ہوا اور غیر معروف ہو گا۔ مگر جب کسی وجہ سے پانی اپنا راسہ بدلے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ظاہر فر مادے گا۔ عہد حاضر میں ترکی نے دریا پر بند (Atature Dam) اور شام نے بھی ایک بند (الثورة ) تعمیر کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں اس محل وقوع کے اطراف میں مختلف اقسام کی فیکٹریاں بھی ہیں۔ اس وجہ سے دریا میں پانی کی قلت واقع ہو رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ سونے کا پہاڑ عنقریب نمودار ہو جائے۔ اس اختتامی جنگوں (End of Time Battle) کے لیے دجالیت کے ایک اہم مہرے (Geoorge W Bush) نے بڑے خشوع و خضوع سے وہاں تک اپنی قوم کو لے جانے کی تمنا کی تھی۔

24۔ ہم لوگ اہل مغرب کی نظروں میں وحشی، ناخواندہ، غیر مہذب ناکام حتیٰ کہ بدمعاش ریاستیں قرار پا چکے ہیں۔ نادانی میں مسلم عوام الناس بھی اپنے آپ کو ایسا سمجھ چکے ہیں۔ کیا واقعتاً ایسا ہی ہے؟ نہیں!! اللہ تعالیٰ فراعنہ عالم کو ترقی یافتہ نہیں قرار دیتے۔ کیا یہ واقعی سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم (حق تعالیٰ ) جو بھی ان کے مال و الاد میں اضافہ کیا جارہے ہیں ترقی کے منازل طے کررہے ہیں؟ ہرگز نہیں!! وہ شعور ہی نہیں رکھتے کہ ترقی یا فتہ کون لو گ ہو تے ہیں۔ یقیناً ترقی یافتہ اور بلند درجات والے وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو اپنے رب کی آیتوں (چاہے ان کا تعلق آفاق و انفس سے ہو یا وحی الہٰیہ سے ) پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور جو لوگ راہ خدا تھوڑا بہت جو کچھ بھی دیتے ہیں مگر ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ مالک انہیں قبول کرتا ہے یا نہیں اس وجہ سے کہ وہ قیامت میں اس کے حضور پیش ہو نے والے ہیں۔ یہی لوگ تیزی سے نہ صرف تر قی کررہے ہیں بلکہ بھلائیاں سمیٹ رہے ہیں۔ (ماخوذ من سورة المومنون آیات 55 سے 61 تک

25۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے صحیح قلب سے دست بد عا ہیں کہ وہ ہمیں تو بہ النصوح کی توفیق ارزاں کردے اور سود (ہر اقسام کے) شکنجہ سے ہماری گردنوں کو نکال کر اپنی رضا کے راستہ پر گامزن کردے۔ (آمین)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے