بدھ، 19 ستمبر، 2012

نکسنیات سے دجالیات تک; پاکستان کس رُخ پر ؟

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

نکسنیات سے دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر ؟

محمد احمد

قسط نمبر 2قسط نمبر 1
١- پاکستان کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ امریکا کے صدر ٹرومین سے بارک حسین اوباما تک یہ ملک کبھی بھی اپنے معاملات مکمل آزادی سے نہ چلا سکا ۔ اس کی اوّلین وجہ ملک کا اسلامی تشخص ، ملک کے پہلے سربراہ کے خصوصی حکم برائے اسلامی غیر سودی معاشی نظام کی نفی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کےسورہ بقرہ کے اختتمامی رکوعات میں وضاحت کردہ معاشی خدوخال کو قابلِ غور نہ سمجھنا رہا ہے ۔ چونکہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افرادِ کار بوقتِ تخلیقِ پاکستان برٹش انڈیا کی روایت (Legacy)کے اسیر ہوتے ہوئے اپنے آپ کو تبدیل نہ کر پائے ۔ اسی لیے وہ پاکستان کی موجودہ معاشی بے بسی ، تباہ حالی اور بربادی کی ذمہ دارہ سے بچ نہیں سکتے ۔


٢- عالمگیر جنگوں کے اختتام پر سرد جنگ (Cold War)کا آغاز ہوگیا ۔ یہ سرد جنگ سرمایہ دارانہ نظام کے سربراہ امریکا اور اشتراکیت کے علمبردار روس (USSR) کے درمیان اپنے گلوبل مفادات کے لیے رہی ۔ پاکستان امریکا کے دام رنگ میں آگیا ۔پوری وضاحت لیکن اختصار کی خاطر صدر نکسن کے کارناموں اور ان کے تباہ کن اثرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ شائد کہ دل میں اتر جائے مری بات ۔

٣- چند روز قبل ایک انگریزی اخبار میں امریکا کے ایک وکیل جناب رچرڈ وائنسٹے کا ایک مضمون '' کیا فورڈ نے نکسن کو درست معافی دی '' شائع ہوا۔فورڈ کا بعمر ٩٢ سال حال میں انتقال ہوا ۔ یہ نکسن کے نائب صدر تھے ۔ ٧٠ء کی دہائی میں نکسن اپنے دوسرے دورِ صدارت میں مشہور زمانہ واٹر گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے بہت بدنام ہوئے ۔ پارلیمانی عدالتی کارروائی ( IMPEACHMENT ) سے بچنے کی خاطر انہوں نے اپنا استعفیٰ فورڈ کو پیش کردیا اور امریکن آئین کے مطابق فورڈ صدر بن گئے ۔ حالانکہ نکسن نے ان سے کوئی معافی طلب نہ کی مگر فورڈ نے ( سیاسی بنیاد پر ) انہیں معاف کردیا ۔ اس لیے یہ '' قانونی '' (Judicial) معافی تو نہ ہوئی مگر نکسن مؤاخذہ سے بچ گئے ۔ ان کی امریکی شہریت کو کوئی گزند نہ پہنچی اور وہ سابق صدر کے ٹائٹل سے محروم ہوگئے ۔ قانون کا سامنا نہ کرنا اور امریکا کی صدارت سے استعفیٰ اپنے نائب کو پیش کرنے کا بزدلانہ عمل دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سب سے بڑے سپہ سالار کے قطعاً شایانِ شان نہ تھا ۔ ان کی سر شت اور لاشعور میں تیزی سے پروان چڑھنے والا منفی اندازِ فکر پنہاں تھا۔

٤-پہلی مدت صدارت کے دوران موصوف نے پُر پُرزے نکالنے شروع کردیئے تھے مگر وہ اپنی '' چالاکیوں '' سے دوسری بار منتخب ہوگئے اور جب ان کی '' چالاکیوں '' کے راز طشت از بام ہوئے تو وہ ایک ناپسندیدہ امریکی شہری کی سطح پر آگئے ۔نکسن کے پہلے زمانۂ صدارت ( ١٩٧١ء ) میں سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی و سیاسی تلاطم برپا تھا اور ادھر امریکا میں جناب صدر طلباء کے قصرِ سفید (White House)کے محاصرے میں '' پریشا ن '' ہوکر بطور حفظِ ما تقدم 13400طلباء کو اندیشۂ نقصِ امن اور دیگر الزامات میں حوالۂ زنداں کر بیٹھے ۔ بالفاظِ دیگر امریکا میں حالات دگرگوں تھے اور پاکستان اس وقت نکسن کے دستِ راست ہنری کسنجر کے لیے چین کے خفیہ دورے کاسفارتی بندوبست کر رہا تھا یعنی بیک وقت نکسن اپنا ( ویتنامی خلجان سے گلو خلاصی والی خارجہ حکمت عملی کا ) الّو سیدھا کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنا طاقتور بحری بیڑہ بھیجنے کا ''مژدئہ جانفزا '' بھی سنا رہا تھا کہ وہ ہندوستان کے طیارہ بردار جہاز اور ساحلِ سمندر پر اتارنے والی فوج کے بحری بیڑہ کا قلع قمع کرتے ہوئے سقوطِ ڈھاکہ سے بچانے کا کردار ادا کرے گا ۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔ کیا خوب نکسن نے پاکستان کے ( امریکا کے لیے چینی دروازہ کھلوانے کے ) احسان کا بدلہ چکانے میں دیر نہیں لگائی اور سقوطِ ڈھاکہ کا زہر آلود خنجر ہمارے وطن کی پشت میں پورا اتار دیا ۔ اس طرح بنیے کی '' بغل میں چُھری اور منہ میں رام رام '' والی لَے میں اپنی لَے ملادی ۔

٥- انہی دنوں امریکن فضائیہ مغربی پاکستان صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخواہ ) میں واقع بڈابیر کی ائر بیس سے اپنے جاسوسی مشن کے U-2 نامی ہوائی جہاز USSRکی فضائی حدود میں وقتاً فوقتاً اڑایا کرتی تھی ۔ ایک U-2روس نے اپنی سرحدوں کے اندر مار گرایا ۔ روسی حکومت نے پاکستان کو سخت وارننگ دی کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو بدابیر کو ایٹمی حملہ سے تباہ کردیا جائے گا ۔ ان حالات میں پاکستان کے سیاستدانوں کے لیے امریکی صدور کے '' جذبۂ پُشت پناہی '' کے شر سے بچنے کے لیے صمیمِ قلب سے توبہ کرنے کا نہایت مناسب موقعہ تھا ۔ افسوس یہ موقع بھی ہم گنوابیٹھے !

٦ -بہر حال قدرت نے ہمارا کسی حد تک انتقام لیتے ہوئے امریکا پر واٹر گیٹ کی '' لاٹھی '' بَرسادی ۔ پوری امریکی قوم تڑپ اٹھی اور نکسن کو اوجِ ثریّا سے اوندھے منہ زمین پر پٹخا دیا گیا ۔ حیرت ہے نکسن بڑی خود اعتمادی ( بلکہ ڈھٹائی ) سے کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور دنیا کے طوفانی دورے پر چل پڑا ۔ اس کا یہ عمل ایک متوازی خارجہ پالیسی کے مماثل تھا اور ایک امریکی شہری یو ایس لوگان ایکٹ (US Lugan Act) کے زیر اثر ایسے عمل کے ذریعہ بآسانی قابلِ مؤاخذہ ہوسکتا تھا ۔ یہ صدر جمی کارٹر کا دور تھا ۔ وہ چاہتے تو ایکشن لیا جا سکتا تھا ۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے بحیثیت مجموعی تمام امریکی صدور پر انگلیاں اٹھتی ۔ اس لیے وہ چاہنے کے باوجود بھی ایسا قدم نہ اٹھا سکے ۔ کاش وہ یہ قدم اٹھالیتے تو ان کا امریکی قوم پر احسان ہوتا اور آج وہ اس نہ ختم ہونے والی وار اون ٹیرر (War on Terror)کے حصار میں نہ ہوتی ! نکسن نے اپنے سامنے دو مقاصد رکھے پہلا : امریکی قوم کی اس سے شدید نفرت کا انتقام اور دوسرا : پہلے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو ایک عالمی مدبر (World Statesman) کی حیثیت دلوانا ۔

٧ -سوویت یونین نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے سوویت ریاستوں پر وقتاً فوقتاً فوجی یلغار جاری رکھی مگر اپنے فولادی پردوں (Iron Curtain)سے تجاوز نہ کیا ۔ جونہی اس نے اپنے فوجیوں سے لدے ہوئے طیارے کابل کے ہوائی اڈے پر اتارے اور اپنی فولادی پردوں میں چھپے رہنے کی پرانی روش سے تجاوز کیا اور ایک آزاد مسلم مملکت کی بیحرمتی کی ۔ جواباً کابل یونیورسٹی کے چند پُرجوش طلباء نے عالمی اسلامی جہاد کی بسم اللہ کی ۔ سوویت یونین کے خلاف اس غیر معمولی جہاد کے لڑنے والے پرانے زمانہ کی تھری ناٹ تھری بندوق سے مسلح ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور مجاہدین ( اب امریکا بطورِ استہزاء انہیں '' جہادی '' کہنے لگا ہے ) کہلائے ۔ یہ کمیونسٹوں کے پُر زور مخالف صدر ریگن کا دور تھا ۔ سوویت یونین کے مخالفین اور معاندین امریکا کے محبوبین تھے مثلاً عبد اللہ عزام ، اسامہ اور زرقاوی وغیرہم ۔

٨ -اس جاری و ساری عظیم الشان جہاد کو رچرڈ نکسن نے اپنی شیطانی منفی سوچ و فکر کا محور اور مطمح نظر بنا لیا ۔ عام فہم الفاظ میں ہائی جیک (Hi-Jack)کرلیا ۔ رچرڈ نکسن مجاہدین سے ملنے پاکستان آئے ۔ انہوں نے اس کو خوش دللی سے خوش آمدید کہا اور پُرتپاک استقبالیہ دیا ۔ نکسن نے مجاہدوں کے جوش و جذبہ کو سراہا ، ان کے مشن کی تعریف کی اور چلے گئے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ صدر ریگن کے اتباع میں مجاہدین کے محسنین میں شامل ہوجاتے مگر ان کے دماغ میں ایک عجیب طغیانی (BRAIN WAVE)آئی اور انہوں نے اپنے مذکورہ بالا ( پیرا نمبر ٦ ) تباہ کن مقاصد کے لیے پلان بنانا شروع کردیا ۔ اعلیٰ درجہ کے فارن پالیسی جرائد (Prestigious foreign policy journal) میں زہریلے مضامین لکھنے شروع کردئیے۔ پہلے وہ اپنی پوزیشن عالمی حلقۂ دانشوران میں بنانے پر تُل گئے ۔ جب انہیں کچھ کامیابی نظر آنے لگی تو '' فتنہ انگیزی '' پر اتر آئے ۔ ٩٠ء کی دہائی میں امریکا نے اپنی ویتنامی ہزیمت (Vaetnamese Fiasco)سے کسی طور بچنے کا راستہ نکالتے ہوئے چین کو راضی کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بمعہ ویٹو پاور بنوادیا ۔ امریکا نے کولڈ وار (Cold War)کی باقیات بین الاقوامی فوجی معاہدات   (SEATO & CENTO) جو ایشیائی خطہ سے متعلق تھے تحلیل کردئیے ۔ گو نکسن نے اس پروسیجر (Procedure) میں اپنی صدارت اوّل کے دوران کچھ حصہ ضرور ڈالا تھا مگر اسے علم نہ تھا کہ قدرت نے عظیم ملک چین کو پاکستان کا قابلِ اعتماد دوست بنا ڈالا ۔

٩-اپنے مضمون کی طرف واپس پلٹتے ہوئے یہ بتانا پڑے گا کہ نکسن قلمی محاذ پر اپنی منفی اندازِ فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے سرمایہ داری کے مفکرین اور سوشلزم و کمیونزم کے پرچارک لکھاریوں کو یکجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ وقت کا دھارا یہ بتارہا تھا کہ صرف سوویت یونین کی طاقت کے سورج کو غروب ہونا تھا جس کے نتیجہ میں سرد جنگ کا مکمل خاتمہ ، معاہدئہ شمالی اوقیانوس ( کی ضرورت ختم ہونے پر اس ) کی تحلیل اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی کرسی سے کالعدم سوویت یونین کی ( وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا ۔!) محرومی وقوع پذیر ہوچکے ہوتے اور دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہوتا ۔ نہ کوئی 9/11اور نہ( کسنجر کا ) نیو ورلڈ آرڈر۔ مگر نکسن کی انانیت کا جادو کیسے سر چڑھ کر بولتا !

١٠-نکسن اپنے عالمی سفر کے دوران برطانیہ ، روس اور امریکا کے ارباب حل و عقد کو بآور کرانے لگتے ہیں کہ وہ سرد جنگ کے زخموں اور آپس کی رنجشوں کو قطعاً بھلادین اور اپنے لیے صرف ایک ہدف اور ایک دشمن :'' عالم اسلام '' مقرر کرلیں ۔بظاہر نکسن نہ اسلام دشمن تھا اور نہ کسی اسلامی ملک سے کوئی پُرخاش رکھتا تھا مگر بباطن اس کے عزائم اپنی قوم ( امریکن ) کے خلاف تھے کہ انہوں نے اسے اوجِ ثریا سے دھکّا دیا تھا ۔ اس لیے وہ انہیں '' مزہ '' چکھانا چاہتا تھا ۔ دیگر ممالک کے بالمقابل یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عالم اسلام سیاسی ، دفاعی اور معاشی میدان میں ان کے لیے کبھی خطرہ (THREAT) کا موجب نہ تھا مگر نکسن نے بڑی عیاری سے پروگرام بنایا کہ وہ افغان جہاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی امریکن قوم و سپاہ اور سیاسی لیڈران کو ایک اسلامی ہوّے (ISLAMOPHOBIA)سے ڈرائے تو نہ صرف وہ اس کے جھانسے میں آجائیں گے بلکہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں بھی کامیاب ہوجائے گا ۔ چین نے نکسن کی منفی حکمتِ عملی (Negative Strategy)سمجھنے میں دیر نہ لگائی اور اس کا توڑ نکالنے میں کامیاب ہوگیا ۔ چینی مسلمان مائوزے تنگ کے دور میں مصائب کا شکار رہے تو اب وہ اپنے دینی تقاضوں کے نبھانے کے قابل ہوگئے ۔ موجودہ حالات میں چین عالم اسلام کا قابلِ بھروسہ پارٹنر بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور ہر قسم کی منافقت سے احتراز کرتا ہے ۔

١١- روس سے خیر کی تمنّا رکھنا عبث ہے ۔زارِ روس کے زمانہ سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ٹوٹتے رہے ۔دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کی افواج نے روس کی طرف پیش قدمی کی تو مارشل اسٹالن نے ، جو مسلمانوں کو بے پناہ مظالم سے قریباً موت سے ہم آغوش کردیتا تھا اور اپنی لال فوج (RED ARMY)سے ان مظلوموں کی کثیر آبادیوں کو تتّر بتّر کردیا کرتا تھا ، مسلم علماء و زعماء کے اجتماع سے جذباتی اپیل کی اور ان کے جذبۂ حبّ الوطنی کو خوب ابھارا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کمیونسٹ افواج کے شانہ بشانہ ہٹلرکی افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لیں ۔ مسلمانوں کی سادگی ، حمیت اور معصومیت کی بے ساختہ داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ وہ بے چارے ان ظالموں کے جھانسے میں فوراً آگئے اور اپنی قیمتی جانوں کا اپنے رب کے حضور نذرانہ دیتے ہوئے (In the battele of leningrad) دشمن کو تاریخی شکس فاش دے گئے ۔ روسی ادب ان کی عظیم داستانوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اسی لیے روسی اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے بَرملا تلقین کرتے ہیں کہ جنگِ عظیم دوم درحقیقت ان کے لیے عظیم جذبۂ حبّ الوطنی کی جنگ تھی۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012 سے ماخوذ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے