اللہ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں
محمد تنزیل الصدیقی
الحسینی
(اداریہ )
جریدہ
"الواقۃ" کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012
درحقیقت آج اللہ ہمارے لیے محض ایک نسخۂ شفا کی حیثیت رکھتا
ہے ۔ ایک ایسا نسخہ شفا کہ جب ہر راہ سے ناکامی ہوئی ۔ ہر مسیحا نے جواب دے دیا تو
اللہ کو بھی بغرض آزمائش آزمایا کہ شاید کامیابی ہو اور جب اللہ کی طرف سے کامیابی
مل جاتی ہے تو ہم اسے ایسے ہی بھول جاتے ہیں جیسے مریض صحتیابی کے بعد اسپتال کی راہ
بھول جاتا ہے ۔ آہ، پامالیِ حسرت اور خوننابۂ کشی مدام یقین و وفا۔ ہم نے اللہ کی
قدر ہی نہ جانی
( وَ مَا قَدَرُوا اللّٰھَ حَقَّ
قَدْرِہِ )
جب اللہ سے تعلق محض رسم بن جائے ، جب اللہ کی ہستی محض
ایک احساس قرار پائے ، جب اللہ کی محبت صرف دعوے کی حد تک رہ جائے اور جب اللہ کا تقاضائے
عبودیت نبھانے سے انسان قاصر ہوجائے ۔ تب --ہاں-- تب ، اسے چاہئیے کہ وہ اللہ ربّ العزت
کے عذاب کا انتظار کرے ۔ عذاب محض یہ نہیں ہے کہ انسانی جسم تکلیف میں آجائے اور اس
کی روح اضطراب محسوس کرے ۔ بلکہ عذابِ الٰہی کی ایک بھیانک شکل یہ بھی کہ اللہ ہمارے
دلوں پر غفلت کی مہر لگادے ۔ آج بدقسمتی سے ہم بحیثیت اجتماعی اسی عذاب میں مبتلا ہیںمگر
احساس نہیں رکھتے ۔
'' رمضان المبارک '' الٰہی نعمتوں میں سے ایک
نعمت ہے مگر ہماری عیاری و مکاری نے اس ماہِ مقدس کو بھی ایک تہوار اور اس فریضۂ عبادت
کو ایک رسم بنا ڈالا ۔ ہم روزے بھی رکھتے ہیں ، فطرے بھی دیتے ہیں اور اپنی زکٰوة بھی
نکالتے ہیں ، مگر محض ایک رسم و رواج کے طور پر ۔اس ماہِ مقدس کی آمد بار بارآمد ہماری
زندگیوں میں اس لیے ہوتی ہے کہ شاید ہم تقویٰ شعار بن جائیں مگر کتنے ہی رمضان گزر
گئے ہمارے پُر از غفلت قلوب پر کوئی اثر نہ پڑا ۔
پھر اس ماہِ مقدس کے سب سے مقدس عشرے میں ہماری سرکشی ربّ
تعالیٰ کی رحمتوں کو للکارتی ہے ۔ بازاروں میں سب سے زیادہ بے حیائی اسی عشرے میں ہوتی
ہے ۔ وہ عشرہ کہ جس کی پانچ مقدس راتوں میں الٰہی مغفرت تلاش کرنے کا حکم دیا گیا
۔ ان راتوں میں مرد اپنے عورتوں کو سامانِ عید کی تلاش لیے بازاروں کی رونق بڑھاتے
ہیں ۔ بقول شاہ سلیمان پھلواروی :
'' عوام الناس عید کے ظاہر سے انبساط و احتشام
و اکل و شرب کے مشاغل میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ گویا یہ ماہِ مبارک ایک بلا تھی
جو ٹل گئی ۔''
آہ، ہماری غفلت ہمارے زندگیوںمیں اس درجہ داخل ہوچکی ہے
کہ اب بیداری کی صورت نظر نہیں آتی ، جب بھی غیرتِ حق نے کروٹ لینی چاہی جذبہ سفلی
کی شہوت انگیزیوں سے اسے تھپکی دے دے کر سلادیا ۔ اب تو یہ قوم کسی معجزے کی منتظر
ہے ۔
آج ہمیں اپنے اعمالِ بد کی سزا مل رہی ہے ۔ گناہ اجتماعی
ہے اسی لیے سزا بھی اجتماعی ہے ۔ ہم اللہ سے اپنے رشتے توڑ چکے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ
اس نے بھی ہم سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے ۔ ہم اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر نہیں
جانتے کہ یہ فریب ہم خود اپنے آپ کو دے رہے ہیں ۔
اے غفلت کیش مسلماں! کب تک تمہاری آنکھوں پر یہ خوابیدہ
بوجھ گراں پڑا رہے گا؟ کب تک تمہاری شہوات و لذات دنیاوی تمہیں غفلت و سرکشی پر اکساتی
رہیں گی ؟ کب تک دنیا کی محبت تمہیں حق و باطل کی تمیز سے محروم رکھے گی ؟ کب تک تمہاری
پامالیِ حسرت کی داستانِ خونچکاں سے سطح ارضی کا سینہ آہ کے نشتر سے گھر کیے رہے گا
؟ کیا تم اس کے منتظر ہو کہ تم پر مہلت و قیام کی حجت ہی تمام کردی جائے ؟
( ھَلْ یَنْظُرُونَ اِلاَّ أَنْ یَأْتِیَھُمُ
اللّٰھُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِکَةُ وَ قُضِیَ
اِلأَمْرُ وَ اِلَی
اللّٰھِ تُرْجَعُ الأمُورُ )(البقرة:٢١٠)
''کیا انہیں اس بات کا انتظار
ہے کہ خود اللہ ان کے پاس ابر کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور امور اپنی انتہا
کو پہنچ جائیں ۔''
سنّت الٰہیہ اٹل ہے یہ وقت آزمائش عمل کا وقت ہے محض زبانی
جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا ، درِ توبہ و انابت پر دستک دیئے بغیر رجوع الی اللہ تعالیٰ
کی ہر ہر سعی ناکام رہے گی ۔ ہماری ناکامیوں کا سبب ہمارے گناہ ہیں ، دامنِ اعمال کے
یہ بدنما داغ جنہیں خود ہماری روسیاہیوں نے جِلا دی ہے ، دھل سکتے ہیں مگر اس کے لیے
چشم ندامت کو فیاض ہونا پڑے گا ، دل کو اصنام دنیوی سے منزہ کرنا پڑے گا اور ذہن و
فکر پر صرف اسی ایک الٰہ واحد کی بادشاہت کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔
جب ہم یہ سب کرلیں گے تو دنیا بھی ہمارے قدموں میں ڈھیر
ہوجائے گی ۔ ہم پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی سَر کرلیں گے اور سمندر کی گہرائیوں کو بھی
چیر لیں گے ۔ بڑے سے بڑے طاغوت میں بھی یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ ہمارے جذبۂ ایمانی
کے سامنے ٹھہر سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے