اتوار، 12 مئی، 2013

Das Kapital

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

Das Kapital


ایم ابراہیم خاں PDF Download Link @ AlWaqiaMagzine


جن کتابوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ان میں Das Kapital بھی نمایاں ہے۔ کارل مارکس نے جرمن میں Das Kapital لکھی تو معیشت اور سیاست سے متعلق علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اور جب اس کا ترجمہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں کیا گیا تو گویا انقلاب برپا ہوگیا۔ 1867 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سرمایہ دارانہ نظام کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ مارکس کی زندگی میں اس کتاب کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی۔ دوسری اور تیسری جلد کا مواد تیار تھا۔ مارکس کے دوست فریڈرک اینجلز نے 1885 اور  1894میں دوسری اور تیسری جلد شائع کی۔ چوتھی جلد کارل کوٹسکی نے 1905-1910 میں شائع کی۔ کارل مارکس نے اس بات کو تصریحا بیان کیا ہے کہ کس طور سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور کس طرح اہل سرمایہ معاشرے کے دیگر تمام طبقات کا استحصال کرتے ہیں۔

داس کیپٹال کا بنیادی تصور
کارل مارکس نے اس بات کو زور دے کر بیان کیا کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں مزدور کا استحصال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک استحصال کا سلسلہ نہیں رکے گا، تب تک معاشرے میں مجموعی طور پر اصلاح احوال کی صورت بھی نمودار نہ ہوسکے گی۔ کارل مارکس کا استدلال یہ بھی تھا کہ مزدور کا استحصال کیے بغیر سرمایہ دارانہ معاشرہ چل نہیں پاتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آجر کسی بھی شے کی تیاری کے عوض مزدور کو اس کی محنت کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ادائیگی کرتا ہے مگر دوسری طرف وہ مصنوعات کو خاصی بلند قیمت پر فروخت کرکے سارا منافع اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ اس سے ایک قدم آگے جاکر سرمایہ دار طبقہ بہت سی اشیا کی مارکیٹ ویلیو بھی خود ہی مقرر کرتا ہے۔ آجر چونکہ پیداواری ذرائع اور آلات پر قابض اور متصرف ہے اس لیے اپنی مرضی کے مطابق منافع بٹور سکتا ہے، اور بٹورتا ہے۔ ہر معاشرے میں یہی ہوتا رہا ہے۔ جہاں خواندگی کی شرح اور شعور کا معیار بلند ہو وہاں مزدوروں کا استحصال آسان نہیں ہوتا، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا استحصال کیا ہی نہیں جاتا۔ ہاں، ایسے معاشروں میں استحصال کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ محنت کش طبقہ چونکہ اپنے حق سے بہت کم پاتا ہے اس لیے اس کی محنت سرمایہ دارانہ نظام کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ نتیجتا مزدور کمزور تر اور سرمایہ دار مستحکم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ چیز معاشرے میں اچھی خاصی خرابی پیدا کرتی ہے۔
کارل مارکس نے اپنی کتاب میں معیشت کے سماجی پہلو پر عمدہ بحث کی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ معاشرے میں عمومی فلاح کے تصور کو غیر معمولی وقعت دیتے ہیں، تاہم اس کے باوجود ہم اسے اخلاقی اصولوں پر مبنی کتاب قرار نہیں دے سکتے۔ مارکس کی خواہش تھی کہ دنیا میں کسی بھی انسان کا استحصال نہ کیا جائے، اور ایسے حالات پیدا ہی نہ ہوں جن میں لوگ ایک دوسرے کا استحصال کریں۔ اس قسم کے خیالات پر عمل کے لیے ایسی حکومت درکار ہوا کرتی ہے جو ان خیالات کی افادیت پر یقین رکھتی ہے۔ کارل مارکس کی زندگی میں اس نظریے پر عمل اس لیے ممکن نہ ہوسکا کہ کوئی بھی حکومت ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی اور پھر اشتراکیت کے لیے لوگوں کو نفسیاتی طور پر تیار کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ کسی بھی انقلابی نظریے کو عمل کی دنیا میں پیش کرنے کے لیے پہلے لوگوں کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس کتاب میں مارکس کا اصل موضوع معیشت ہے۔ کارل مارکس ماہر معاشیات سے کہیں بڑھ کر حقیقی مفہوم میں فلسفی تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ فلسفی وہ ہے جو دنیا کو سمجھنے ہی کی کوشش نہ کرے، بلکہ اسے تبدیل کرنے پر بھی توجہ دے۔ انہوں نے سرمایہ داری پر مشتمل نظام کو تمام معاشرتی خرابیوں کی بنیاد قرار دیا ہے اور ایک ایسے معاشرے کا خواب اپنے قارئین کی آنکھوں کو بخشا ہے جس میں تمام انسان برابر ہوں اور کسی بھی معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے مل کر معیاری زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہوں۔ کتاب میں سرمائے اور اس کے تفاعل کو بنیاد بناکر بحث کی گئی ہے۔ معاشرے میں سرمایہ جو کردار ادا کرتا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہوتا ہے وہی اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ سرمائے کے کردار پر کارل مارکس نے اس قدر جامع بحث کی ہے کہ پڑھنے والا داد دیئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ کتاب میں سرمائے کے مختلف پہلو اس انداز سے بیان کیے گئے ہیں کہ قاری پر بے نقاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ محنت، سرمائے اور زمین کے تفاعل اور آجر کے کردار پر ایسی وقیع بحث بہت کم پڑھنے کو ملی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی فطری سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔ اگر معاشی سرگرمیوں کو کسی بھی اعتبار سے کنٹرول نہ کیا جائے تو کسی بھی معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کا پنپنا عین فطری امر ہے۔ مگر جب معاملات کو کنٹرول نہیں کیا جاتا تو دولت چند ہاتھوں میں سمت جاتی ہے۔ دولت یا معاشی پیداوار کے ذرائع کا اس طور چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجانا معاشرے کے اکثریتی طبقے کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ کارل مارکس نے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا تھا جس میں تمام افراد کو معاشی سرگرمیوں میں پوری قوت کے ساتھ حصہ لینے کا موقع ملے اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کریں۔ اس صورت میں بے روزگاری کے مسئلے پر احسن طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے، کیونکہ معاشرے کے ہر فرد کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اس فرض کو کس طور ادا کرتی ہے، یہ دیکھنا باقی تھا۔ مارکس کے نظریات کی بنیاد پر روس میں انقلاب برپا ہوا، زار کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ایک ایسی ریاست معرض وجود میں آئی جس میں ہر فرد کو معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ یہ سب کچھ آسان نہ تھا، اس لیے جبر سے بھی کام لیا گیا۔ روس نے پڑوسی ریاستوں کو ملاکر سوویت یونین تشکیل دی۔ یہ خاصا منفرد تجربہ تھا۔ اشتراکیت کو ایک ٹھوس نظریے کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ یہ نظریہ کارل مارکس کا دیا ہوا ہے، تاہم اس پر عمل بیسویں صدی کے اوائل میں کیا گیا۔ مشرقی یورپ نے اشتراکیت کو تیزی سے قبول کیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ان علاقوں میں ترقی کم ہوئی تھی۔ مغربی یورپ نے اپنے آپ کو مستحکم کرنے کے بعد عالمی معیشت میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی یورپ کے مابین فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ مارکس نے لکھا تھا کہ وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جس میں مساوات بنیادی نظریہ ہو۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ سیاست اور معیشت کے وقیع موضوع کو علمی انداز سے پیش کیا جائے تاکہ لوگ ان کے بارے میں اپنے خیالات درست کرسکیں۔
اشتراکیت پر تنقید
سیاسی مبصرین اشتراکیت پر سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ فطرت کے اصولوں کے خلاف قائم کیا جانے والا نظریہ ہے۔ معاشرے میں تمام افراد مساوی صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے، لہٰذا انہیں سب کچھ مساوی طور پر دیا بھی نہیں جاسکتا۔ مختلف صلاحیتوں کی بنیاد پر دیا جانے والا معاوضہ بھی مختلف ہونا چاہئے۔ اشتراکیت کے معاملے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پیداواری ذرائع پر کسی فرد کا نہیں، بلکہ ریاست کا کنٹرول ہوتا ہے۔ انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ معاشی میدان میں اپنا کردار خود مختاری کے ساتھ ادا کرے۔ اس سے یہ بات کبھی ہضم نہیں ہوسکتی کہ اس نے جو کچھ محنت سے حاصل کیا ہے اس سے چھین لیا جائے۔ سابق سوویت یونین کا قیام بھی بالجبر عمل میں لایا گیا تھا۔ روس میں زار خاندان کی بادشاہت ختم ہوئی تو اشتراکی آگے بڑھے اور وہ سب کچھ کیا جو ایک اشتراکی معاشرے کے قیام کے لیے ناگزیر تھا۔ روس میں لینن نے جو نظام حکومت قائم کیا وہ رومانی تصور کی حیثیت سے تو بہت اچھا تھا، تاہم عمل کی دنیا میں بہت سی قباحتیں پیدا ہوئیں۔ تمام املاک لوگوں کی مرضی کے خلاف ریاستی کنٹرول میں چلی گئیں۔ کوئی بھی شخص یہ بات کس طور گوارا کرسکتا تھا کہ اس کی برسوں یا عشروں کی کمائی اس طرح چھین لی جائے۔ مزاحمت ہوئی اور معاملہ خون خرابے تک پہنچا ۔ جن علاقوں میں اشتراکیت کو نافذ کیا گیا وہاں ریاستی جبر نے تمام متعلقہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ مشرقی یورپ اس معاملے میں واضح مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اشتراکی ممالک میں ریاستی جبر ایسا شدید تھا کہ لوگ مستقل خوف کے سائے میں زندگی بسر کرتے تھے۔ کسی میں ہمت نہ تھی کہ ریاست کے خلاف کھڑا ہوتا۔ ریاستی مشینری جاسوسی کے مربوط نظام کے تحت کام کرتی تھی۔ حکومت یا ریاست کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ ریاست کے خلاف سوچنے والوں کو بلا تامل موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ لوگوں کو نقل و حرکت میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اشتراکی ریاستوں میں اندرونی سفر بھی بہت سی پابندیوں کے تحت تھا۔
''داس کیپٹل'' ایک ایسی کتاب ہے جس کا مطالعہ انسان کے ذہن کی بہت سی گتھیوں کو سلجھانے میں غیر معمولی معاونت کرسکتا ہے۔ جو لوگ دنیا میں کسی بھی نئے نظریے اور انقلاب کی گنجائش محسوس نہیں کرتے، ان کے لیے ''داس کیپٹل'' خیالات بدلنے والی کتاب ثابت ہوسکتی ہے۔
کارل مارکس کا سوانحی خاکہ
جن لوگوں نے زمانے کی سمت بدلی ہے ان میں کارل مارکس بھی نمایاں ہیں۔ مارکس کا شمار ان فلسفیوں میں ہوتا ہے جن کی سوچ نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نظریات دینے والے تو بہت سے ہیں، مگر کسی نظریے کو خالص علمی انداز سے پیش کرکے انقلاب کی راہ ہموار کرنے والے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مارکس نے تاریخ کو خالص علمی انداز سے پیش کیا اور اس تصور کو تقویت فراہم کی کہ انسان کی تمام مساعی کی پشت پر کوئی نہ کوئی مفاد کارفرما ہوتا ہے۔
کارل مارکس 5 مئی 1818 کو جرمنی (پرشیا) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے جرمن فلسفی ہیگل سے خاصا اثر قبول کیا، تاہم ان کے Idealism کو یکسر مسترد کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ تاریخ کا مطالعہ علم کی حیثیت سے مادہ پرستی کے تناظر میں کرنا چاہئے۔ مارکس کا خیال تھا کہ ایک نہ ایک دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرلے گی کہ محنت کش طبقے ہی کو حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ فریڈرک اینجلز کے ساتھ مل کر مارکس نے 1848 میں اشتراکیت کا منشور پیش کیا۔ اس کتاب کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے دوران کارل مارکس نے نیو یارک ٹربیون اور دیگر اخبارات و جرائد کے لیے مضامین لکھ کر گزر بسر کی۔ مارکس کا شمار معاشی تاریخ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کا انتقال 14 مارچ 1883 کو لندن میں ہوا اور وہیں مدفون ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے