جریدہ "الواقۃ"
کراچی، شمارہ (5 / 6 ) شوال، ذیقعد 1433ھ/ ستمبر، اکتوبر
2012
خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
سیّد خالد جامعی ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )
قسط نمبر 1 | قسط نمبر 2 |
حضرت عمر فرماتے تھے'' ذلک فتی الکھول نہ لسان سنول وقلب عقول" ( سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٥) ''یہ ایسے نوجوان ہیں جنھیں پختہ عمر لوگوں کا فہم و بصیرت حاصل ہے۔ ان کی زبان علم کی جو یا اور قلب عقل کی محافظ ہے ۔'' حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ حاضر دماغ ، عقل مند ، صاحب علم ، حلیم و بردبار شخص نہیں دیکھا۔ حضرت عمر مشکل مسائل کو حل کرنے کے لیے حضرت عباس کو بلاتے اور کہتے ایک مشکل مسئلہ پیش آچکا ہے پھر ان کے قول کے مطابق ہی عمل کرتے حالانکہ ان کی مجلس میں بدری صحابہ بھی موجود ہوتے تھے۔'' فیقول قد جاء ت معضلة ثم لا یجاوز قولہ و ان حولہ لاھل بدر'' ( سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٧) لہٰذا حضرت عباس کو کم عمری کے باوجود حضرت عمر اکابر صحابہ ، بدری صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے
یہ مقام ابن عباس کو دین کے لیے محنت سے ملا اور محنت کا طریقہ کیا تھا حضرت عباس کی زبان مبارک سے ان کے الفاظ میں سنیئے کہ:
"میں نے خود اکابر صحابہ کرام کے پاس جا جاکر رسول اللہ کی احادیث اور دین کا علم حاصل کرنا شروع کردیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی ایک حدیث فلاں صحابی کے پاس ہے ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ قیلولہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر میں نے چادر بچھائی اور ان کے دروازے کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا ، ہواؤں نے میرے سر اور جسم پرگردو غبار لاکر ڈال دیا ، اتنے میں وہ صحابی نکل آئے اور مجھے اس حال میں دیکھ کر کہا آپ رسول اللہﷺ کے بھائی ہیں آپ مجھے بلالیتے میں حاضر ہوجاتا ۔ آپ نے کیوں زحمت فرمائی میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے میں وہ حدیث آپ سے حاصل کرنے آیا ہوں اور اس کام کے لیے میرا آنا ہی زیادہ مناسب ہے"۔
اس جدوجہد ، دلچسپی، کوشش، خشوع و خضوع اور
احترام علم و اکرام حدیث کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکابر صحابہ کی رحلت کے بعد لوگ طلب
علم کے لیے حضرت عباس کے پاس آنے لگے۔ ( مجمع الزوائد ، ج٩،ص٢٧٧، وتذکرہ الحفاظ
ج١،ص٤٣) فرماتے تھے کہ میں ایک حدیث یا ایک مسئلے کو تیس تیس صحابہ کرام سے معلوم
کرتا تھا۔ ان کنت لاسئال عن الامر الواحد
ثلثین من اصحاب النبی ﷺ
(سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٤)
علم دین عہد رسالت میں
کیسے حاصل کیا جاتا تھا اور اس طریقے سے حاصل کرنے والوں کو کن کن شدید آزمائش سے
گزرنا پڑتا تھا کن اصولوں کی پاسداری کرنی ہوتی تھی اور پھر ان اہل علم کا مرتبہ
امت میں کیا ہوتا تھا اس کے لیے حضرت ابو ہریرہ
کی زندگی دیکھیے۔ رسالت مآب ﷺنے
مسجد نبوی ﷺمیں ایک چھپڑ
ڈالواکر علم دین سیکھنے والوں کے لیے مخصوص کردیا تھا۔ یہ اصحاب صفہ تھے یہی ان کی
رہائش گاہ درس گاہ تھی جس کے معلم رسالت مآب ﷺتھے
۔ علم الٰہی علم دین اور علم نبوی ﷺکے
حاملین ان طالبان کی کفالت اہلِ مدینہ کے ذمہ تھی، ان کو کسی سے سوال کرنے کی
قطعاً اجازت نہ تھی ۔ خواہ کچھ بھی گزرجائے اور کیا کیا زمانے ان پر نہیں گزرے ،
بھوک ، نقاہت، غربت،فقروفاقہ،افلاس، غربت اور فاقے کے باعث یہ اصحاب نماز میں کھڑے
ہوتے تو گرجاتے، رسالت مآب ﷺ
نماز سے فارغ ہوکر فرماتے تم لوگوں کو اگر معلوم ہوجائے کہ تمہارے لیے ان فاقوں کے
بدلے اللہ کے یہاں کیا کیا اجرو ثواب ہے تو تم خواہش کرو کہ ان فاقوںمیں مزید
اضافہ ہو۔ (جامع ترمذی باب ما جاء فی معیشة اصحاب النبیﷺ)عصر
حاضر کے ذہن کے لیے اس زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے زماں و مکاں
میں مقید محصور اور مسرور ہے۔ تعقل غالب اس طرز زندگی سے ہم آہنگ ہے لہٰذا یہ قابل
قبول نہیں۔ صفہ میں بہت سے طالبان دین تھے۔ حضرت ابو ہریرہ بھی انہی میں سے ایک
طالب علم تھے اکثر بھوک سے بے ہوش ہوکر گرجاتے صحابہ سمجھتے کہ مرگی کا دورہ ہے
حالانکہ یہ حالت بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ (جامع ترمذی ، مسحولہ بالا) اس فقروفاقہ
قربانی کا صلہ یہ نکلا کہ آپ نے سب سے زیادہ احادیث روایت کیں ان کی تعداد٥٣٧٤ہے۔ (اصابہ
،ج٧،ص٢٠١) حضرت ابو ہریرہ ٧ ہجری میں اسلام لائے مگر اس کثرت سے آپ کی احادیث کے
دو اسباب ہیں ۔ وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ (١):
"میں ہمیشہ رسول ﷺکے
ساتھ رہتا تھا نہ اچھا کھانا کھاتا تھا اور نہ اچھا کپڑا پہنتا تھا اور نہ کسی سے
خدمت لیتا تھا، بھوک کے باعث کبھی کبھی مجھے اپنے پیٹ کے بل زمین پر لیٹ جانا پڑتا
تھا کبھی فرماتے کنت رجلا مسکیناََ اخدم
رسول اللّٰھ ﷺ علیٰ مل بطنی وکان المھاجرون یتغلھم ایفام علیٰ اموالھم
(صحیح مسلم باب فضائل ابوہریرہ) میں ایک مسکین شخص تھا رسول اللہ ﷺ
کی خدمت کرتا تھا اور در دولت ہی سے کچھ کھانے کو مل جاتا تھا حضرات مہاجرین تجارت
میں مشغول رہتے اور انصاری صحابہ اپنے باغات میں (اس لیے مجھے آپ کی احادیث و
اقوال محفوظ کرلینے کا زیادہ موقع میسر آیا) دوسری وجہ حضرت ابی بن کعب یہ بتلاتے ہیں کہ ابو ہریرہ رسول اللہ ﷺسے
ایسے سوالات کرلیا کرتے تھے جن کی ہمت ہم میں سے کوئی نہیں کرسکتا تھا۔(اصابہ
،ج٧،ص٢٠٢) علم دین جو اصل علم ''العلم'' ہے حضرت ابو ہریرہ اس کے اس قدر حریص تھے کہ دنیا کی ساری نعمتیں
ان کے نزدیک اس علم کے سامنے ہیج تھیں۔ ایک بار رسول اللہ ﷺنے
ان کی غربت ،خستہ حالی،مسکینی ، فقر و فاقہ کشی کے پیش نظر بلایا اور فرمایا : التسالنی عن ھذہ الغنائم ابو ہریرہ غنیمت
کے ان مالوں میں سے کچھ مانگو۔ حضرت ابو ہریرہ
نے اس غربت و افلاس کے عالم میں جواب دیا اسئلک ان تعلمنی مما علمک اللّٰھ
اللہ کے رسول ﷺمجھے وہ علم عنایت
فرمادیجیے جو اللہ نے آپ کو عنایت فرمایاہے۔(اصابہ،ج٧،ص٢٠٤) رسالت مآب ﷺ
نے آپ کے ذوق و شوق کے پیش نظر آپ کے لیے دعائیں بھی کیں اس لیے آپ کا حافظہ غضب
کا تھا ۔ محدثین آپ کو احفط اصحاب محمد اور احفظ من روی الحدیث فی عصرہ کہتے ہیں۔
ایک بار حضرت ابو ہریرہ نے رسالت مآب ﷺسے
بھول جانے کی شکایت کی کہ آپ سے بہت سی باتیں سنتا ہوں لیکن یاد نہیں رہتیں۔تو آپ
نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ میں نے چادر پھیلادی اس پر آپ نے کچھ پڑھا پھر آپ کے
حکم سے میں نے اسی چادر کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگالیا اس دن کے بعدسے میں کبھی
آپ کی کوئی بات نہیں بھولا (صحیح مسلم و جامع ترمذی ابوا ب المناقب و الفضائل) حضرت
ابو ہریرہ کی رائے تھی کہ صحابہ کرام میں سے کوئی شخص بھی رسول اللہ ﷺسے
اس کثرت سے روایتیں نقل نہیں کرتاجس کثرت سے میں نقل کرتا ہوں البتہ عبداللہ بن
عمروبن العاص مجھ سے زیادہ روایات نقل کرتے ہیں اس لیے وہ لکھتے ہیں اور میں نہیں
لکھتا ہوں فانہ کان یکتب ولا اکتب (صحیح بخاری باب کتابةالعلم) حیرت ہے
کہ حضرت ابو ہریرہ کی حفظ کردہ روایات کی تعداد حضرت عبداللہ بن عمربن العاص سے
بہت زیادہ ہیں۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ
سے کسی نے کہا کہ کیا ابو ہریرہ نے واقعی آپ لوگوں سے زیادہ احادیث رسول اللہﷺ
سے سنی ہیں یا یوں ہی روایت نقل کرتے ہیں ۔ حضرت طلحہ نے جواب دیا انھوں نے واقعی
وہ روایات آپ سے سنی ہیں جو ہم لوگوں نے نہیں سنی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ
مسکین شخص تھے مال و دولت ان کے پاس نہ تھا ۔ وہ رسول اللہ ﷺکے
مہمان تھے ۔ آپ ہی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے ، اور ہمہ وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور
ہم لوگ اہل و عیال اور مال و متاع والے تھے ۔ ہماری حاضری صرف صبح ، شام ہوئی تھی
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو روایات وہ بیان کرتے ہیں انھوں نے رسول اللہ ﷺسے
ہی سنی ہیں اور ہم اپنے مشاغل کی وجہ سے ان سے محروم رہ گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر
نے بھی ایک موقع پر کہا ابو ہریرہ ہم لوگوں کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ
کی صحبت میں زیادہ رہتے تھے اور آپ کی احادیث زیادہ محفوظ رکھتے تھے (جامع ترمذی
مناقب ابی ہریرہ)۔اسلامی تہذیب و تاریخ میں علم دین اگر مال و دولت کی حرص اور
دنیا طلبی کی ادنیٰ سی آرزو کے بغیر اس مجاہدانہ درویشانہ طریقے سے حاصل ہوتو پوری
امت کے لیے خیروبرکت کا ذریعہ بنتا ہے لیکن جب دین کے عالم اور معلم دین کو
دنیاکمانے کے لیے استعمال کریں بڑے علماء ان مدارس میں کام کرنا پسند کریں
جہاںتنخواہ زیادہ ملتی ہو اور علماء مدارس میں تدریس ترک کرکے اسلامی بینکوں کی
ملازمت اختیار کرلیں کہ مدارس میں تنخواہ بہت کم ہوتی ہے اور طلباء ان مدرسوں کا
انتخاب کریں جہاں وظیفے زیادہ ہوں رہائش کی سہولتیں عمدہ ہوں اور کھانے پینے کا
اعلیٰ معیار ہو اور مدارس طلباء کو راغب کرنے کے لیے اشتہارات شائع کریں اور اپنے
اشتہارات میں طلباء کو دعوت دیں کہ ان کے یہاں بھاری وظیفہ ملتا ہے ایئر کنڈیشنڈ
درسگاہیں ہیں کھیل کے میدان ، سوئمنگ پول اور باغات ہیں اور علم دین بھی ہے تو ان
رویوں کے نتیجے میں جو علم دین حاصل ہوگا وہ روح سے خالی اور دنیا کی لذتوں ،
دلچسپیوں سے معمور علم ہوگا۔ یہ علم نہ فرد کی آخرت بدل سکتا ہے نہ امت کی تقدیر۔
ایسے علم سے پناہ مانگنے کی ضرورت ہے جس کا تقاضہ دنیا کے لیے ہو اور جو صرف دنیا
سے تمتع کو سہل ترین بنادیتا ہو صرف علم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس کے ساتھ ساتھ
خشیت خشوع و خضوع درکار ہے۔ انہی حضرت ابوہریرة کے بارے میں ابو عثمان الہندی
تابعی کہتے ہیں کہ میں ایک بار سات دن تک حضرت ابو ہریرہ کے یہاں مہمان رہا مجھے
معلوم ہوا کہ انھوں نے ان کی اہلیہ اور خادم نے رات کے تین حصے کرلیے ہیں باری
باری ایک ایک شخص اپنے حصۂ شب میں جاگتا ہے اور یہ ان لوگوں کا مستقل معمول ہے۔ (اصابہ
، ج٧،ص٢٠٦) حضرت عمر نے انھیں بحرین کا عامل بنادیا تھا لیکن جلدہی آپ نے ان خدمات
سے سبکدوشی حاصل کرلی دوبارہ حضرت عمر نے عامل بنانا چاہا تو انکار کردیا دنیا سے
اس قدر لاتعلقی کے باوجود وفات سے پہلے آپ رونے لگے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا من فلة الزادر وندة المفازة
سفر سخت ہے اور زاد راہ کم ہے یہ خوف آخرت تھا ور نہ ان کے پاس زاد راہ کم نہ تھا
اگر ان کے پاس کم تھا تو پھر کس کے پاس زیادہ ہوگا۔ کیا امت مسلمہ کے پاس ایسے شیخ
الحدیث موجود ہیں اگر نہیں ہیں تو یہ امت زوال کے اندھیرے سے کبھی نہیں نکل سکتی۔
آج کے دین دار امراء اور لوگوں کے خدام ایسے ہوں گے کہ وہ رات کو عبادت کے لیے
تیار ہوں ؟ ان امراء کا خدام کے ساتھ رویہ کیا ہے کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔
اسی لیے امراء کے گھروں میں ڈکیتیاں، چوریاں، قتل وخون اغواء کی وارداتیں انہی
خدام کے ذریعے ممکن بنائی جاتی ہے جن کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک کیا جاتاہے ۔
اگر یہ امراء اخوت اسلامی کو ملحوظ رکھتے تو یہی خدام ان کے جان و مال و آبرو کی
حفاظت کرتے لیکن اخوت اسلامی صرف لفظ کی سطح پر ہے عملی زندگی اخوت کے اس روحانی
تصور سے خالی ہے جو ''مواخات'' کے ذریعے تاریخ کے صفحات میں قیامت تک کے لیے محفوظ
ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے اس سطح کی مواخات تو ممکن نہیں عصر حاضر میں امراء کی جانب سے
ہمدردی ، محبت اور انفاق کی ادنیٰ سے ادنیٰ سطح بھی گھروں کے خدام کے لیے روا نہیں
رکھی جاتی ۔ ہماری معاشرت سرے سے اسلامی ہی نہیں ہے۔
حضرت زید بن حارثہ رسالت
مآب ﷺکے خادم اور غلام
تھے ان کے والد اور چچا کو ان کا سراغ ملا تو وہ مکہ آئے اور فدیہ کے لیے زر کثیر
رسالت مآب ﷺ کو پیش کیا ۔ آپ
نے حضرت زید کو بلایا اور فرمایا ان لوگوں کو پہچانتے ہو اپنے والد اور چچا کو
انھوں نے پہچان لیا آپ نے ان سے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو یہ زید ہیں اگر یہ
تم لوگوں کے ساتھ جانا چاہیں انھیں اختیار ہے ۔ رسالت مآب ﷺنے
زید کی گردن سے غلامی کا طوق اتار دیا مگر حضرت زید نے رسالت مآب ﷺکی
محبت کا طوق غلامی دوبارہ گلے میں ڈال لیا اور اپنے باپ و چچا کے ساتھ جانے سے
انکار کردیا ۔ حضرت زید کی اس محبت کے باعث رسالت مآب ﷺنے
حرم شریف میں قریش کو گواہ بناکر انھیں اپنا بیٹا قرار دیا وہ زیدبن محمد کہلانے
لگے ۔ کیا عہدِ حاضر کے دین داروں کے لیے خدام و غلام سے برتاؤ کے اس واقعے میں
کوئی سبق ہے رسالت مآب ﷺنے
اس غلام اور خادم کو بیٹا بنانے کے بعد ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ غزوۂ موتہ کا
جو لشکر جو آٹھ ہجری میں روانہ ہوا اس کے امیر آپ ہی تھے ۔ آپ کی شادی اپنی پھوپھی
زاد بہن حضرت زینب سے فرمائی پھر طلاق کے بعد آپ نے والد کی باندی سے ان کا نکاح
فرمایا جن سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔ اس غلام اور خادم سے رسول اللہ ﷺکی
محبت کا حال یہ تھا کہاایک بار وہ کہیں باہر سے مدینہ طیبہ آئے حضرت عائشہ روایت
کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ
میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ زید نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ اتنی سرعت کے ساتھ ان
کے استقبال کے لیے نکلے کہ آپ کی چادر جسم مبارک کے نیچے کھسک گئی اور آپ ﷺاسے
گھسیٹتے ہوئے ہی باہر نکل گئے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی آپ کو اس
حالت میں باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا آپ نے ان کو گلے لگایا اور بوسہ دیا۔ ان کی
بہادری اور قائدانہ صلاحیت کے باعث جس غزوہ میں حضرت زید تشریف لے جاتے لشکر کا
امیر انہی کو بنایا جاتا جب رسالت مآب ﷺخود
غزوہ میں جاتے تو مدینہ میں اپنا خلیفہ زید کو بناکر جاتے۔(جامع ترمذی،باب ماجاء
فی المعانقہ والقبلة، فتح الباری، ج٧، ص٨٧، بحوالہ سنن نسائی)
کیا عہد حاضر کی کوئی
دینی شخصیت اپنے خادم سے یہ تعلق محبت، قرابت، الفت ظاہر کرسکتی ہے؟ ایک غلام حضرت
زید اور ان کی اہلیہ ایک باندی ام ایمن کے
بطن سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔ آپ کی پرورش رسالت مآب ﷺ
نے پوتے کی طرح کی۔ پندرہ سال کی عمر میں غزوۂ خندق میں شرکت کی اجازت ملی، کئی
غزوات میں شریک ہوئے اور کئی میں امیر بناکر بھیجے گئے۔ رسالت مآب ﷺنے
وفات سے پہلے آپ کو بیس سال کی عمر میں امیر لشکر مقرر کیا، اس لشکر میں حضرت
ابوبکر، عمر،سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو عبیدہ الجراح جیسے جلیل القدر سپاہی
حضرت زید کی قیادت میں شریک تھے ۔ بعض حضرات کو اس پر اشکال ہوا تو آپ ﷺ
نے فرمایا زید بھی امارت کے اہل تھے اور واللہ مجھے انتہائی محبوب بھی تھے۔ اسی
طرح یہ اسامہ بھی واللہ امارت کے اہل ہیں اور مجھے انتہائی محبوب بھی ہیں۔لقد کان خلیفاََ للامارة
واہم اللّٰہ ان کان من احب الناس الیٰ واہم اللّٰہ ان ھذا لخلیق لھا وان ھذا لمن
احب الناس الیٰ (صحیح
مسلم با ب فضا ئل زید بن حارثہ وابنہ اسامہ و صحیح بخاری باب غزونہ زید بن حارثہ و
باب بعث النبی وجامع ترمذی مناجت زید بن حارثہ ) صحیح مسلم کی ایک روایت میں آتا
ہے میں تم لوگوں کو اسامہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ وہ
تم لوگوں کے صالحین میں سے ہیں۔ فاوصیکم بہ
فانہ من صالحیکم۔
حضرت اسامہ یعنی ایک غلام
باپ اور ایک باندی ماں کے صاحب زادے سے رسالت مآب ﷺکی
محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کو اپنی گود میں لیتے ایک بار ان کی ناک صاف کرنے کے
لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ رہنے دیجیے میں صاف کیے دیتی
ہوں آپ نے فرمایا عائشہ احبیہ فانی ا حبہ
عائشہ یہ مجھے محبوب ہے تم بھی اس سے محبت کیا کرو ( جامع ترمذی مناقب اسامہ بن
زید) رسالت مآب ﷺکے انتقال کے بعد
بعض اصحاب کی رائے تھی کہ لشکر حضرت اسامہ
کی قیادت میں نہ بھیجا جائے اور کسی سن رسیدہ ، شخص کو امیر بنایا جائے
لیکن حضرت ابوبکر نے اس لشکر کے بارے میں کسی تبدیلی کی رائے کو قبول نہیں کیا۔ یہ
لشکر صحیح سالم فتح یاب لوٹا کیا عہد حاضر کے مسلمانوں کے لیے یہ طریقہ قابل قبول
ہوسکتا ہے ؟ کیا وہ حضرت ابن عباس اور
حضرت اسامہ بن زید جیسے کم عمروں کی علمیت اور قیادت کو بخوشی قبول کرلیں گے؟ ایک
کمسن نوجوان کی قیادت میں جہاد کے لیے ایک سپاہی کے طور پر شریک ہونے میں حضرت
ابوبکر،حضرت عمر جیسے کسی بدری صحابی کو کوئی تردد نہ تھا انا ، خود پرستی، خود
نمائی، برتری ،عظمت کے تمام تصورات اتباع رسالت نے ختم کردیئے تھے دین کو یہ عاجزی
، یہ سادگی، یہ رویہ، یہ ایمان، یہ اسلوب مطلوب ہے لیکن یہاں تو معاصرانہ رقابتیں
ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ، اگر دعوت نامے میں نام آگے پیچھے کردیا جائے تقریر
میں تقدیم و تاخیر ہو تو تعلقات ختم کردیئے جاتے ہیں اس کا نام عصرو حاضر میں دینی
حمیت ہوگیا ہے ۔ عقلیت کے مارے ہوئے جدید ذہن اس فکر و نظر سے محروم ہیں جو خیر
القرون کا طرۂ امتیازتھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے لیے رسالت مآب ﷺنے
ارشاد کیا :'' انعم الرجل عبداللّٰہ لو کان
یصلی من اللیل'' عبداللہ بہترین شخص میں کیا ہی اچھا ہو
وہ تہجد بھی پڑھنے لگیں اس ارشاد کے بعد حضرت عبداللہ کا حال یہ تھا کہ '' بعد ذالک لابنام من اللیل الا قلیلا
''حضرت عبد اللہ رات کو بس برائے نام ہی سوتے تھے ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم فی
المناقب) رسالت مآب ﷺنے ایک بار حضرت
عبد اللہ بن عمر کا کندھا پکڑ کر فرمایا '' کن فی الدنیا کانک غریب اور عابر سیل وعد نفسک من اھل القبور''(
جامع ترمذی باب ما جاء فی قصر الامل) یعنی دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم پردیسی ہو
یا مسافر اور اپنے کو اہل قبور یعنی مردوں میں شمار کرو اس ارشاد کی تعمیل میں
حضرت عبداللہ بن عمر نے بے زارانہ زندگی گزار دی دنیا سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔
شہادت عثمان کے بعد بعض صحابہ نے آپ سے بیعت کرنا چاہی لیکن آپ نے منع فرمادیا ۔
حضرت علی و حضرت معاویہ کے مابین شدید اختلافات ہوئے تب بھی بعض صحابہ نے کہا کہ
آپ کے نام پر تقریباً سب متفق ہی ہوجائیں گے لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے کیونکہ
حضرت عمر نے بھی وصیت کی تھی کہ خلافت کے لیے مشورے میں میرے بیٹے عبداللہ کو بھی
شامل کریں لیکن خلافت کے لیے ان کا انتخاب نہ کریں۔ (البدایہ والنھایہ،ج٧،ص١٤٥)
حضرت عثمان نے انھیں قاضی بنانا چاہا تو آپ راضی نہ ہوئے (طبقات ابن سعد،ج٤، ص ١٤٦
) دنیا سے اس قدر گریز کے باوجود انفاق میں بے مثال تھے راہِ خدا میں کثرت سے مال
و دولت خرچ کرتے تھے ۔غلام باندی کو آزاد کردیتے آپ کے غلام نافع کے لیے ایک ہزار
دینار کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے لوجہ اللہ آزاد کردیا ۔یہ غلام آپ کے شاگرد خاص
تھے ۔ فیاضی سخاوت انفاق کا یہ عالم اس وقت تھا جب دنیا سے مکمل گریز بھی تھا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود کی شہادت ہے ''ان املک شباب قریش لنفسہ عن الدنیا عبد اللّٰہ بن عمر''(اصابہ
،ج٤،ص١٠٧) ترجمہ:'' قریش کے نوجوانوں میں دنیا کے معاملے میں اپنے نفس پر سب سے
زیادہ قابو رکھنے والے عبد اللہ بن عمر
ہیں۔ '' ان کے مقام کا اندازہ صرف اس بات سے کیجیے کہ خلافت کی پیش کش
ہورہی ہے مگر آپ قبول نہیں فرمارہے۔ عہدۂ قضا کو رد کررہے ہیں اور ایک عہد حاضر
کے دنیا دار اور اہل دین ہیں جو خلافت، حکومت،سلطنت کے لیے ہر وہ کام کررہے ہیں جس
کی شریعت میں اجازت نہیں ہے اقتدار کی غلام گردشوں میں گردش کرنے کا شوق انھیں کس
کس وادی میں لیے پھرتا ہے سب پر عیاں ہے جس کو یہ عہدے نہیں مل رہے وہ اسے طلب
کرنے میں مصروف ہے خود اپنے لیے خطابات ایجاد کرلیتا ہے کوئی عہدہ نہ ملے تو اپنے
اپنے علاقوں اور جماعتوں میں خلیفہ بن کر قیادت فرمارہے ہیں اور اپنی جماعت کے
لوگوں سے اسی اطاعت اور نظم و ضبط کا مطالبہ کررہے ہیں جو صرف ''الجماعت '' کے
امیر کے لیے مطلوب ہے۔ ہر شخص کو امت کی قیادت رہنمائی کا شوق ہے نہ اس کے پاس زہد
ہے نہ علم نہ خدا کا وہ خوف جو تمام معاملات کو درست کردیتا ہے ۔ ایسی قیادت امت
کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عمر نے مدائن کا حاکم بنایا
اور پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا تھا لیکن وہ سب راہ خدا میں خرچ کرتے اور خود
اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے ( کتاب ذکر اھل اصبھان) کیا یہ کردار ہمیں عہد
حاضر کی اسلامی ریاستوں کے انقلابی رہنماؤں اور دینی قیادت کے رویوں میں نظر آرہا
ہے۔ ان کے تو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے ضروریات زندگی تعیشات زندگی سے بدل گئی
ہیں اس پر فخر بھی ہے ہر تعیش کو یہ ضرورت قرار دیتے ہیں اور اسلام کی عظمت اس سے
وابستہ کردیتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کے
صاحب زادے سالم کی روایت ہے کہ ان کی دعوت ولیمہ میں حضرت ابو ایوب انصاری میزبان
رسول بھی مدعو تھے ۔ جب وہ تشریف لائے تو انھوں نے دیکھا کہ میرے مکان کی دیواروں
پر کپڑے کے پردے لٹکے ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر حضرت ابو ایوب نے سخت ناگواری کا
اظہار فرمایا اور کہا دیواروں کو کپڑے پہناتے ہو۔ حضرت ابن عمر نے کہا عورتیں غالب آگئیں حضرت ابو ایوب ناراض ہوئے اور کھانا کھائے بغیر چلے گئے اور
کہا '' حسن حثیت ان لغلبہ النساء فلم
اخش ان یغلینک لا ادخل لکم بینا ولا اکل لکم طعاما '' ( صحیح بخاری ھل یرجع اذا رای منکر
فی الدعوة) خیر القرون کا ہر فرد ایمان ، یقین، عمل میں ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔
ایک دوسرے کا محاسب ، نگران، خیر خواہ ناصح اور خلاف سنت عمل پر فوری گرفت کرنے
والا اور جس کی گرفت کی جارہی ہے اس کا تقویٰ دیکھیے کہ وہ اپنے عمل کی کوئی تادیل
توجیح پیش نہیں کررہے اس کو حیلے بہانے سے شرعی ثابت کرنے پر تیار نہیں دیانتداری
اور ایمانداری کا عالم یہ ہے کہ حضرت ابن عمر جیسے زاہد عابد شخص کے بارے میں
میزبان رسول کا سخت نقد چھپایا نہیں جارہا بلکہ ابن عمر کے صاحب زادے حضرت سالم اس
واقعے کو امت سے چھپانے کے بجائے اس کو روایت کرکے امت کے لیے محفوظ کررہے ہیں کہ
مومنین ایک دوسرے کے اعمال کے کیسے نگراں ہوتے ہیں اور حق کے اظہار پر کسی کو
ناگواری نہیں ہوتی سورۂ عصر کی آیت ( و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر)کی
بہترین تفسیر یہی واقعہ ہے ۔کیا یہ صورت حال عہد حاضر میں ممکن ہے؟ عہد حاضر میں
یہ صورت درپیش ہو تو سب سے پہلے اس واقعے کی روایت ہی نہیں کی جائے گی اور اگر
ایسا واقعہ علم میں آگیا تو فوری طور پر کہہ دیا جائے گا کہ طبیعت میں بہت تشدد ہے
یہ ٹھیک نہیں ہے سب چلتا ہے۔ حضرت عمار بن یاسر کا کان کسی غزوہ میں کٹ گیا اس کے
کٹنے پر عمار نے خوشی بلکہ فخر کا اظہار کیا فرماتے تھے جو کان کٹ گیا وہ زیادہ
بہتر تھا اس کان سے جو بچ گیا اس لیے کہ وہ اللہ کے راستے میں کام آگیا ۔ عصر حاضر
میں یہ مرحلہ درپیش ہو تو سب سے پہلے پلاسٹک سرجن کے مطب آباد ہوں گے۔ اسی ایمان
کے باعث رسالت مآب ﷺنے فرمایا تھا '' دم عمار ولحمہ حرام علی النار ان لغطیمہ ''( فتح الباری ،ج٧،ص٩١) جہنم کی آگ
کے لیے حرام ہے کہ وہ عمار کے خون اور گوشت کو کھائے۔ حضرت سیدنا معاویہ ملک شام
کے حاکم ہوئے، حضرت عبادہ بن صامت وہیں قیام پذیر تھے۔ ایک دن ایک خطیب نے خطبے
میں حضرت معاویہ کی موجودگی میں ان کی تعریف شروع کر دی۔ حضرت عبادہ نے زمین سے
خاک اٹھائی اور خطیب کے منہ پر مار دی حضرت معاویہ نے جب اس عمل پر گرفت کی تو
فرمایا ہمیں رسول اللہ ﷺنے
یہی حکم دیا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والوں کے منہ پر خاک ڈال دیں (سیر اعلام
النبلائ، ج٣، ص١٠) قیام شام میں آپ نے حضرت معاویہ کے بعض امور پر نکیر فرمائی اور
حضرت معاویہ نے اسے تسلیم بھی کیا لیکن کیا عہد حاضر کی علمیت و تعقل کے لیے یہ
طریقہ قابل قبول ہے جہاں بڑے بڑے دین دار لوگ اپنے رسائل و جرائد اور اداروں میں
اپنے لیے بڑے بڑے القابات درج کرنے پر اپنی شان میں قصیدے پڑھے جانے پر کوئی
اعتراض نہیں کرتے ان قصائد کو پڑھ کر دنیا دنگ ہوتی ہے۔ دینی جماعتیں اور دینی
تحریکیں ہر سال کسی خاص تقریب میں یا خاص موقع پر اپنے قصائد خود دنیا کے سامنے
پیش کرتی ہیں اور اسے کسی سطح پر بھی بدعت تصور نہیں کیا جاتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنی رائے دیجئے