اتوار، 4 مئی، 2014

ادراک. اداریہ

شوال 1434ھ/  اگست ، ستمبر2013، شمارہ  17

ادراک .اداریہ

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

آج امت مسلمہ کی حالت 

آج امت مسلمہ کی حالت اس کبوتر کی مانند ہے جو بوقتِ مصیبت اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مصیبت ٹل گئی ۔ اس کچھوے کی طرح ہے جو اپنے سر اور پیر کو جسم کے اندر داخل کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ آنے والی مشکل سے بچ گیا ۔ ادراک و آگہی جہاں اہلِ بصیرت کے لیے نعمتِ الٰہی ہے وہیں بزدلوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ۔ تاہم آج سے چودہ صدیوں قبل ہادی عالم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اس نعمتِ الٰہی کی بشارت دنیا کو دے دی تھی:
(  اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) (یونس :٦٢)“ سن رکھو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کسی طرح کی غمگینی ۔”
pdf Download Link @ AlWaqiaMagzine
حالات کی خواہ کتنی ہی سنگینیاں کیوں نہ ہوں حاملِ ایمان قلوب تقدیرِ الٰہی پر راضی برضا رہتے ہیں جبکہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ کسی آزمائش کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ اہل ایمان کا قلب ہر آزمائش کو ایمان کا مستقبل سمجھتا ہے جبکہ کج رو آزمائش سے نجات ، خواہ ایمان کی قیمت ہی پر کیوں نہ ہو ، کو فلاح و کامرانی خیال کرتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کی یہ آیتِ کریمہ ایسے لوگوں کے لیے نصِ قطعی ہے :
(اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ  ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ  ) (البقرة : ٢١٤)“ کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل کردیئے جاؤ گے جبکہ تم پر ہنوز وہ پیش ہی نہیں آیا جو تم سے قبل کے لوگوں پر گزر چکا ہے ( دعوتِ حق کے سبب ، مخالفین کی عداوت سے ) ان پر تنگی اور سختی آئی اور وہ لرزا دیئے گئے حتیٰ کہ رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ؟ سن رکھو اللہ کی مدد قریب ہے ۔ “
یہ ہے پہچان خاصانِ خدا کی ہر زمانے میںکہ خوش ہو کر خدا ان کو مصائب میں مبتلا کر دے

یہ دور فتن ہے!

تقدیرِ الٰہی اٹل ہے وہ ہماری بزدلانہ خواہشات کے احترام میں تبدیل نہیں ہو سکتی ۔ ہمیں اللہ کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا وگرنہ اللہ ہمارا ہرگز محتاج نہیں۔ وہ لوگ جن کے سینے نعمتِ ایمانی سے لبریز ہیں انہیں چند حقیقتوں کا ادراک کرنا ہی پڑے گا ۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ آمدِ دجال سے متصل عہد ہے ۔ چونکہ دجال ایک فرد بھی ہے اور نظام بھی ۔ ہم نظام میں داخل ہو چکے ہیں اور فرد کی آمد کا انتظار ہے ۔ ماضی قریب کے جن مسلم رہنماؤں نے جس عہد کے آمد کی مسلسل اطلاع دی وہ عہد اب آچکا ہے ۔ مولانا مودودی (م ١٩٧٩ء ) نے اپنے دور میں کہا تھا کہ “ دجال کا اسٹیج تیار ہو چکا ہے ۔ “ آج کہا جا سکتا ہے کہ اس اسٹیج میں کھیلا جانے والا ڈرامہ اب شروع ہو چکا ہے ، بس مرکزی کردار کی آمد ابھی باقی ہے ۔ ایسے حالات میں آزمائشیں طرح طرح کے بھیس بدل بدل کر ایک بندہ مومن کی زندگی میں داخل ہوتی ہیں ۔ فرمانِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ہے :
ان امتکم ھذہ جعل عافیتھا فی اوّلھا و سیصیب آخرھا بلاء و امور تنکرونھا و تجی ء فتنة فیرقق بعضھا و تجی ء الفتنة ۔” (صحیح مسلم ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، مسند احمد ، سنن بیہقی ، مصنف ابن ابی شیبہ )“بے شک اس امت کی عافیت اس کے پہلے دور میں ہے اور اس کے بعد کے دور میں عنقریب آزمائشیں آئیں گی ایسے امور درپیش ہوں گے جو تمہارے لیے عجیب ہوں گے، مسلسل آزمائشیں آئیں گی، آنے والی آزمائش گزشتہ کو حقیر بنا دے گی ۔”
ہم لوگ اس حقیقت کا ادراک نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس کا ادراک کرکے اپنی پر از تعیش زندگی کو رنج و تکلیف میں اور اپنے لمحات مسرت افزا کو حزن و ملال میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے ۔ آخرت کا یقین ہماری زندگیوں میں عملا کمزور پڑ چکا ہے اور فلسفہ بابری  (بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست) نے ہمارے دلوں میں اپنا رسوخ پیدا کر لیا ہے ۔
ہم لوگ اپنے علم و دلیل کی رو سے اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے مگر ہماری طبیعتیں ظن و تخمین کی پیروی سے کہاں باز آنے والی ہیں ۔ ہم قرآن و حدیث کے بعض حصوں کو تو مرکزِ فہم و توجہ ٹھہراتے ہیں ۔ مگر بعض حصوں کی طرف قصداً ہماری نگاہیں کترا کر گزر جاتی ہیں ۔

قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا ذکر

قرآنِ کریم میں سب سے زیادہ جس قوم کا ذکر ہے وہ بنی اسرائیل ہے ۔ اس قوم کا سب سے زیادہ ذکر کرنے کی آخر وجہ کیا تھی؟ قرآنِ کریم عبث میں قصے نہیں سناتا ۔ یہ حکمتوں کا مخزن ہے مگر وہ نظر چاہیئے جو اتھاہ گہرائیوں میں جا کر گہر ہائے آبدار حاصل کرلینے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے کہ امت مسلمہ قدم بقدم گزشتہ قوموں کی پیروی کرے گی ۔ اس خبر کو جو ہمیں نصِ قطعی کے ذریعے معلوم ہو رہا ہے اس کی روشنی میں اگر ہم بنی اسرائیل کے رویوں کا مطالعہ کریں ، جبکہ قرآنِ کریم نے بنی اسرائیل کی نفسیات بڑی وضاحت سے پیش کر دی ہے ۔
بنی اسرائیل بر سہا برس فرعونِ مصر کی غلامی میں رہے ۔ مسلم امہ بھی اکثر و بیشتر استعمار کی غلامی میں رہی ۔ حتیٰ کہ غلامی کے بعد اب آزادی میں بھی غلامی کے مزے لیے جا رہے ہیں ۔ بر سہا برس کی غلامی نے بنی اسرائیل کو اس درجہ خود غرض اور مفاد پرست بنا دیا تھا کہ انہوں نے وقت کے پیغمبر کو بھی ٹکا سا جواب دے دیا تھا کہ
(فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) (المائدة : ٢٤)“ ( اے موسیٰ ! ) آپ اور آپ کا رب جائے اور ان سے لڑائی کرے ہم تو یہیں کھڑے رہیں گے ۔ “
کہیں ہم بھی وقت آنے پر یہی جواب تو نہیں دیں گے ؟؟؟

وطنِ عزیز پاکستان


ہمارے وطن عزیز پاکستان کو اس وقت جن دگرگوں حالات کا سامنا ہے وہ اہل بصیرت سے مخفی نہیں ۔ ہم تباہی کے آخری دہانے پر کھڑے ہیں پھر بھی ادراک نہیں رکھتے ۔ ہر گروہ نے تفرق و انتشار کی راہ اختیار کرلی ہے اور اتحاد ملت کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا ۔ ہر سیاسی جماعت عوام اور ملک سے مخلص ہے مگر عوام اور ملک کے لیے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ آخر کب یہ رہنمایانِ قوم ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کی بجائے مملکتِ عزیز کی تعمیروترقی میں اپنی جہد وسعی کا آغاز کریں گے ؟
وطن عزیز کے بد خواہ ہر طرح سے پاکستان کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہیں لیکن ہم ابھی تک بحیثیت مجموعی ایک ذمہ دارانہ روّیہ اختیار کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ وطن عزیز کا تقریباً ہر شخص باستثنائے قلیل اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پوری دیانتداری سے نبھانے کی بجائے خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے ۔
قوموں کی تعمیر میں قوم کے ہر فرد کا حصہ ہوتا ہے ۔ ہم دوسروں کی طرف نظر امید ڈالنے کی بجائے اپنے حصے کی شمع کیوں روشن نہیں کرتے ؟
اگر وطنِ عزیز کا ہر فرد اپنی ذاتی حیثیت کی اہمیت کا ادراک کرلے اور اپنے کارِ جہد و سعی کو درست سمت سے آشنا کر دے تو یقین جانیے یہ وقتی بحران تو بہت معمولی ہیں ، ہم تاریخ بدل دیں گے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے