جمعرات، 22 مئی، 2014

مقام محمدی ﷺ

شوال 1434ھ/  اگست ، ستمبر2013، شمارہ  17

مقام محمدی

پروفیسر یوسف سلیم چشتی




علامہ اقبال مرحوم نے یہ اشعار اپنے متعلق لکھے تھے مگر ان سے زیادہ مجھ پر صادق آتے ہیں ۔
چوں بنام مصطفےٰ خوانم درُود
از خجالت آب می گردد وجود
عشق می گوید کہ اے پابند غیر
سینہ تو از بتاں مانند دیر
چوں نداری از محمد رنگ و بود
از درود خود میالآ نام او
دنیا کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ یہ بھی ہے :
(١) دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور تمام بڑے فلسفے (مدارسِ فکر ) ساتویں صدی قبل مسیح ، سے لے کر چھٹی صدی عیسوی کے آخر تک پیدا ہو گئے ۔اور جب یہ تمام فلسفے اور مذاہب 700BC to 600AC پیدا ہو چکے تو ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں یعنی 610AC میں ایک نبی امی ﷺ نے قرآن پیش کر کے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور
(٢) ساری دنیا کو چیلنج بھی کر دیا ۔
(٣) ساری دنیا میں ایک حیرت انگیز اور اس کے ساتھ سب سے بڑا مذہبی ، ذہنی اور سیاسی انقلاب بھی بر پا کر دیا ۔
(٤) بلکہ اگر یوں کہا جا ئے کہ زمین اورآسمان پیدا کر دیا تو کو ئی مبالغہ نہیں ہو گا ۔
(٥)اور تمام بنی آدم کو دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حریت ، اخوت اور مساوات کے اُصول سہ گانہ کی نعمت سے بہرہ اندوز کیا۔
(٦) اور خدا ، انسان ، اور کائنات کے ربط باہمی کو منطقی بنیادوں پر قائم کر کے ترقی دارین کا دروازہ کھول دیا ۔اور ان حقائقِ سہ گانہ کی بنیادوں پر ایسے تمدن ، ایسی تہذیب اور ثقافت کا قصر رفیع تعمیر کیا جس کی نظیر چشم انسان تو کیا چشم فلک نے بھی کبھی نہیں دیکھی تھی ۔
(٧) خلاصہِ کلام یہ ہے کہ اس نبی امیﷺ نے ٦٣ سال کی مختصر مدت میں نئی زمین پیدا کر دی ، نیا آسمان پیدا کر دیا اور انسانوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جن کو صحابہ کرام کہتے ہیں جو دن کو گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاد کرتے تھے اور رات میں اپنے آنسوؤں سے زمین کو سیراب کرتے تھے اور اپنے سجدوں سے زمین کو رشک افلاک بناتے تھے ۔ جن کی تسبیح و تہلیل پر فرشتوں کو رشک آتا تھا اور جن کی شانِ عفت پر حوریں رشک کر تی تھیں جن کے غض بصر پر حمص کی عیسائی عورتوں نے جو انہیں دیکھنے کے لیے بن سنور کر بالا خانوں میں بیٹھی ہوئی تھیں ،بے اختیار یہ کہا تھا کہ '' یہ مسلمان انسان نہیں ہیں ، فر شتے ہیں '' اس لیے کے ان کے سپہ سالار امین الامة حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح نے ان کو ہدایت کر دی تھی کہ تمہارے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے یہودی اور عیسائی عورتیں سولہ سنگھار کے ساتھ نکلی ہیں اس لیے تم اپنی نگاہیں نیچی رکھنا ، کسی عورت کی طرف مت دیکھنا ۔
یہ بات بھی لائق تو جہ اور قابلِ غور ہے کہ بعثت نبویﷺ یا نزول قرآن کے بعد سے آج تک نہ تو دنیا میں کو ئی نیا مذہب پیدا ہو ا ہے نہ نیا مدرسہ فکر School of Philosophy بظاہر نئے فلسفے قدیم فلسفوں کی جدید تعبیرات ہیں ۔اگر وقت ہو تا یا مجھ میں دماغی طاقت ہو تی تو میں دو تین گھنٹے میں اس دعوے کو مبرہن کر دیتا ۔ تا ہم ارباب علم کے تفنن طبع کے لیے تین مثالیں دئیے دیتا ہوں ۔
(١) میک ٹیگریٹ نے کہا کہ Ego is real, God must goمگر اس سے دو ہزار سال پہلے سانکھ درشن اور جین دھرم نے یہی بات کہہ دی تھی ۔ میک نے پرانی شراب کو نئی بوتل میں بھر دیا ہے ۔
(٢) ہرل نے کہا کہ صرف مظاہر مو جود ہیں مگر ان کی پشت پر کوئی حقیقت بھی ہے ؟اسے نہ ہم جانتے ہیں اور نہ جان سکتے ہیں ۔لیکن اس سے دوہزار سال قبل ناگار جُن نے یہی بات کہہ دی تھی ۔ جو بدھ دھرم کے چوتھے فلسفیانہ اسکول Nihilismکا سب سے بڑا شارح ہے اور منطقی موشگافیوں کے لحاظ سے عصر حاضر میں اگر کوئی اس کا صحیح مد مقابل ہے تو بریڈ لے  bradley ہے ۔
(٣) ہیگل کی Absolute Idealismکا بڑا شہرہ ہے ، مگر شری ولبھ اچاریہ نے پندرھویں صدی میں اس کی بہتر تعبیر کر دی تھی ۔بس یہ تین مثالیں کافی ہیں ۔
میں نے اس غیر معمولی بات پر بہت غور کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں ، جو میرا قیاس ہے ، وہ یہ کہ غالباً اللہ نے اپنی حکمت بالغہ اور مشیت کاملہ کی بنا پر یہ فیصلہ فرمایا ہو کہ قرآن ابدی اور ارفع اور اعلیٰ صداقتوں کا حامل ہے اور اس میں Profoundest Philosophy and Highest truthپو ری وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے گا ۔اس لیے اس وقت نازل کر نا مناسب ہو گا، جب عقلِ انسانی اپنی انتہا کو پہنچ جائے ، یعنی اس ذرہ کمال پر جس سے بالاتر مقام اس کے لیے عقلاً متصور نہ ہو سکے ۔جن لوگوں نے میری طرح انڈین فلاسفی Hinduism, Jainism  and Buddhismکا با معان نظر کم از کم پچاس ساٹھ سال تک مطالعہ کیا ہے ، وہ یقینا مجھ سے متفق ہوں گے کہ ہندی فلسفہ بلا شبہ فکر انسانی کی معراج ہے ۔ہندو ، جین اور بودھ مفکرین میں ہر فلسفی نے اپنے اپنے دور میں ، کوسِ انا ولا غیری بجا یا ہے ۔ وینکٹ ناتھ المعروف بہ ویدانت دیشک جو شری رام نوج اچاریہ کے فلسفہ واشسٹ ادویت کا سب سے بڑا شارح ہے ، ١٢٦٨ء میں پیدا ہوا تھا اور ١٣٧١ء میں وفات پائی (١٣٧١ - ١٢٦٨ =١٠٣) بیس سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہو ا ۔ تین سال تپس اور دھیان (مجاہدات اور مراقبات ) میں بسر کئے ، اور اسی سال تک مسلسل بذریعہ تحریر و تقریر مسلک کا منڈن اور ہندوستان کے تمام مدارس فلسفہ کا کھنڈن کر تا رہا ۔ اس نے شنکر اچاریہ کے فلسفے ادویت Non Dualism پر ایسے ایسے شدید اعتراضات کئے ہیں کہ بڑے بڑے حامیان فلسفہ شنکر کے حواس گم ہو جاتے ہیں ۔
جس وقت قرآن نازل ہو ا تمام دنیا کے فلسفے اور مذاہب عالم وجود آچکے تھے ۔اور فکر انسانی اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی ۔ لہٰذا سا توں صدی عیسوی میں یہ کتا ب نازل ہو ئی جو :
فاش گیویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتاب نیست چیزے دیگر است
چوں بجا ں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد ، جہاں دیگر شود
با مسلماں گفت جاں بر کف بنہ
آنچہ از حاجت فزوں داری بدہ
واضح ہو کہ جو انقلاب قرآن نے پیدا کیا وہ نہ کسی فلسفے نے ، نہ کسی مذہب نے نہ کسی Cultنے ، نہ کسی تحریک نے ، اور نہ کسی جماعت نے ، نہ کسی فرقے نے ، بقولM.N.Roy پیغمبر اسلام نے صرف ایک انقلاب ہی برپا نہیں کیا بلکہ He was the Greatest Revolutionary the world has ever seenآنحضرت ﷺ کے برپا کردہ انقلاب کے سامنے لنین کا انقلاب بچوں کا کھیل نظر آتا ہے ۔ لنین نے شیاطین کی فوج جمع پیدا کی ، جبکہ آنحضرت ﷺ نے Supermenکی جماعت تیار کر دی ۔جنہوں نے دنیا کو عدل و امن سے معمور کردیا ۔The Historical vide role of Islam لنین نے صرف معاشی انقلاب برپا کیا ۔آنحضرت ﷺ نے ہمہ گیر انقلاب بر پا کیا ، لنین نے غور فکر کا در وازہ بندکر دیا جب کہ
The birth of Islam is in the eyes of a Phil. The birth of inductive intellect in the world.
اب سوال یہ ہے کہ ظہور اسلام کے وقت دنیا میں مختلف النوع مذاہب بھی اور فلسفے بھی اور اخلاقی ضوابط Ethical codes بھی تو اسلام یا قرآن کی کیا ضرورت تھی ؟ پیغمبر ﷺ نے کس کمی کو پو را کیا ؟ بالفاظِ دیگر قرآن کی کیا ضرورت تھی ؟یا آپ ﷺ کا کار نامہ کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ظہور اسلام یا بعثت کے وقت دنیا میں سب کچھ تھا مگر توحید باری تعالیٰ نہیں تھی ۔قرآن نے یا آنحضرت ﷺ نے اس کمی کو پو را کیا اور دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے مکمل نظام عطا کر دیا جو انسان کی زندگی کے ہر شعبے پر حکمران ہے اور ہرشعبے میں رہنمائی کرتا ہے ۔ ظہور اسلام کے وقت دنیامیں حسب ذیل مذاہب مو جود تھے:
١- شنٹو جاپان کا قومی یا قدیمی Indigenous  مذہب ہے اس کا مطلب ہے ۔ قومی دیوتاؤں کا راستہ ! ان دیوتاؤں کی سر تاج سورج کی دیوی ہے ۔ سورج کی پو جا600BC میں جاپان سے لے کر یو نان تک پھیلی ہوئی تھی ۔ سورج کو خدا کا بیٹا Son of Godکہتے تھے، از ہندوستان تا یونان ۔ اس کے علاوہ ہر ملک میں مقامی خدا کے بیٹے معبود بنے ہو ئے تھے چو نکہ بادشاہ سورج کی دیوی کی اولاد ہے ، اس لیے اب شنٹوازم کا مطلب ہے شاہ پرستی ، چنانچہ ولی عہد کو '' آفتاب کا مبارک فر زند '' کہتے ہیں ۔ آج کل شنٹو مجموعہ ہے :شاہ + فطرت +اسلاف پرستی کا ۔ توحید الٰہی کا دوردور تک نشان نہیں مل سکتا ۔
٢- Toa Ismکا بانی لاؤزی Lao-Tseتھا جو کنفیوشش کا ہم عصر تھا(تاریخ ولادت 604BC) اس کی تصنیف کا نام ''ناؤٹے گنگ '' ہے جو اس مذہب کی مقدس الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے ۔Tao کالفظی معنیٰ ہے راستہ یاطریق ۔ The absolute in itself is unknowableآگے چل کر شرک اور بت پرستی ، خانقاہیں ۔ توحید غائب ہو گئی اور دیوی دیوتاؤں کی پو جا شروع ہو گئی ۔تم کائنات کو اپنی مرضی سے ہم آہنگ نہیں کر سکتے ، اس لیے تم خود حالات سے ہم آہنگی پیدا کر لو ۔
٣-کنفیوشش ( 551 - 473 BC )اس نے اخلاقی اور سیاسی نظام پیش کیا ۔ ان تینوں مذاہب میں توحید ایزدی کی تعلیم نہیں ہے ۔شخصیت پرستی اور بت پرستی عام ہے۔
٤- ہندو دھرم میں شرک بھی ہے ، توحید بھی ہے لیکن بت پرستی عام ہے ۔ ساتویں صدی عیسوی میں عام ہو چکی تھی ۔(توحید افراد میں تھی ، قوم مشرک تھی ) ۔
٥- جین دھرم اور ۔
٦- بودھ دھرم میں خدا کا انکار ۔
٧- Zor میں یزداں اور اہر من یعنی توحید کے بجائے ثنویت Dualismہے ۔
٨- مانی کا مذہب مختلف مذاہب کا مجموعہ ہے ۔ اس کی بنیا دی تعلیم توحید نہیں ہے بلکہ Matter is Evil لہٰذا مقصود حیات ترکِ دنیا ہے ۔
٩- Gnosticismمسلک عرفان نصرانیت کے ابتدائی زمانے میں عیسائیوں میں ایک فرقہ پیدا ہوا ۔ چونکہ توحید کا حامی تھا اس لیے تثلیث نے اسے ختم کر دیا ۔
١٠- مزدکیت میں خدا کا کوئی تصور نہیں تھا ، صرف معاشی نظام تھا ، مزدک پہلا اشتراکی تھا ۔ زن ، زر اور زمین تینوں مشترک ۔
١١- متہرا ازم عیسائیت کا سب سے بڑا رقیب تھا ۔ متہرا خدا کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ مصلوب ہو ا ، اب آسمان پر ہے ۔
١٢- صابی ۔ عراق کے ستارہ پرست تھے اور انہوں نے احبار کو اربابا من دون اللہ بنا لیا ۔
١٣- یہودیت میں توحید تھی مگر رفتہ رفتہ عُزیر ابن اللہ بن گیا ۔
١٤- عیسائیت میں بھی توحید تھی مگر ظہور اسلام کے وقت ساتویں صدی عیسوی میں توحید کی جگہ تثلیث دماغوں پر حکمران تھی اور مسیح ابن اللہ تھا ۔جب خالد جانباز رضی اللہ عنہ دمشق کے دوازے پر دستک دے رہے تھے ، تو عیسائی یہ بحث کر رہے تھے کہ ولادت یسوع کے بعد مریم Virginرہیں یا نہیں ؟ یسوع انسان تھے یا خدا دو نوں ؟ متعدد فرقے اسی طرح لڑ رہے تھے ، جس طرح چنگیز اور ہلاکو کے زمانے میں احناف اور شوافع ، معتزلہ اور اشاعرہ ،سنی اور شیعہ آپس میں لڑ رہے تھے ۔
١٥- مجوسیت : یہ زر تشی مذہب کی بگڑی ہو ئی شکل تھی ۔ خدا پرستی کے بجائے آتش پرستی اور رسوم پرستی ، یہ حالات تھے جب ٦١٠ ء میں آنحضرت ﷺ نے مکے میں توحید ایزدی کا علم بلند کیا ۔یہ دنیا ئے مذہب کا سب سے بڑا انقلاب تھا ۔
Mohammad is certainly the greatest revolutionary the world has ever seen as well as the most successful of all the religious Personalities of the world.
چونکہ قرآن کے ساتھ دین کامل ہو گیا اور نعمت تمام ہو گئی اس لیے مشیت نے دین کی روح یعنی توحید باری کو اس طرح کامل کر دیا کہ اس پر کو ئی اضافہ نہیں ہو سکتا ، اور شرک کے تمام رستوں کو اس طرح مسدود کر دیا کہ اب کو ئی شخص انتہائی کو شش کے باوجود کو ئی چور دروازہ نہیں کھول سکتا ۔اور میرے طویل مطالعے اور غور و فکر کی روسے قرآن یا اسلام کا کمال بس اسی میں مخفی یا مضمر ہے :
Nobody can improve upon the doctrine of the unity of God as propounded by the unlettered Prophet of the desert.
ورنہ اخلاقی تعلیم توسب مذاہب میں مو جود تھی ۔ قرآن کو اس باب میں کو ئی خصوصیت حاصل نہیں ہے ، ہاں اسے یہ فخر ضرور حاصل ہے اس نے شرک کی تمام ممکن صورتوں کو مٹا دیا اور چونکہ صرف مردِ حر ، توحید کے اقتضاء پر عمل کر سکتا ہے اس لیے قرآن و حدیث نے غلامی کی تمام صورتوں کو بھی مٹا دیا ہے ۔
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی ففغور و خاقاں نے گدائے رہ نشیں
کانٹ کہتا ہے کہ جب تک انسان کو حریت کاملہ حاصل نہ ہو وہ اخلاقی زندگی بسر نہیں کر سکتا ، کاش ! کو ئی مسلمان کانٹ کو بتاتا کہ یہ نعمت صرف آپ ﷺ نے انسان کو دی ۔ مگر سلاطین عثمانی ، تر کانِ تیموری کی طرح خود اسلام سے بیگانہ تھے ، بتاتا کون ؟ سلیمان نے یورپ کو نہیں بتا یا ، اورنگ زیب نے ہندوستان کو نہیں بتا یا ۔ انسان کی بنیا دی کمزوری شرک ہے ، اس لیے قرآن یا آنحضرت ﷺ نے شرک کی تمام صورتوں ، شرک فی الوجود ، شرک فی الذات ، شرک فی الصفات ، شرک فی الحکم ، شرک فی العبادات ، شرک فی التصرف ، شرک فی التاثیر اور شرک فی الآثار کو مٹایا ۔
جب انسان کو حریت کاملہ حاصل نہ ہو وہ اللہ کی عبادت نہیں کر سکتا اس لیے آپ ﷺ نے غلامی کی تمام صورتوں ، یعنی جسمانی غلامی ، نفسِ ناطقہ کی غلامی ، علم (حاصل کرنے ) کی غلامی ، پیشے کی غلامی ، رنگ ، نسل اور ذات پات کی غلامی ، سیاسی غلامی اور معاشی غلامی کو مٹا دیا ۔ چونکہ بانیان مذاہب کو خدا بنایا گیا تھا ، اس لیے آپ ﷺ کو حکم ہو ا :
( قُلْ ِنَّمَا أَنَا بَشَر مِّثْلُکُمْ یُوحَی ِلَیَّ ) (١)
جس دین نے ساری دنیا کو ہر قسم کی غلامی سے رہائی بخشی تھی ۔ ١٩٧٨ء سے اس دین متین کے پیرو کا ر ہر قسم کی غلامی میں مبتلا ہیں ۔ اور مزید کرم یہ ہے کہ ١٩٤٧ء کے بعد تاایں دم غلامی کی ہر نوع میں روز بروز شدت و غلظت ہو تی جارہی ہے ۔ آنحضرت ﷺ توحید کے سب سے بڑے علمبردار ہیں لیکن آپ کے عشاق میں اس وقت شرک کے سب سے بڑے حامی اور مشرکوں کے سب سے بڑے سر دار ہیں ۔ اصلاح احوال کی ایک ہی صورت ہے
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن
( وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعَا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ) (٢)
 یعنی مسلمان کو تد بر فی القرآن کی دعوت دینا ۔ میرا عقیدہ ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھ لینے کے بعد کوئی شخص شرک کی کسی صورت کا بھی ارتکاب نہیں کر سکتا ۔ پس قرآن خود بھی پڑھو اور دوسروں کو بھی پڑھاؤ !
من آنچہ شرط بلاغ ست باتومی گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
آپ ﷺ کی خصوصیات
١- صرف آپ کی شخصیت تاریخی طور پر ثابت ہے ۔ اگر میں مناظرانہ رنگ میں یہود یا نصاریٰ یا ہنودیا مجوس سے کہوں کہ حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور رام یا کرشن یا زرتشت کی شخصیت تاریخی طور پر ثابت کرو تو چاروں دم بخود ہو جائیں گے ۔
٢- دوسری خصوصیات : آپ ﷺ نے اپنی وفات سے قبل اپنا پیغام کتابی صورت میں مکمل امت کو دے دیا جس کی Genuineness authencity and integrity and purityکا اعتراف اپنے تو اپنے دشمنوں کو بھی ہے ۔ ولیم میور نے ١٨٦١ء میں لکھا تھا :
There is no book under the sun which for the last qw century has remained with so pure a text.
٣- آپ ﷺ کی زندگی اگر چہ محدثین کی کوششوں سے محفوظ ہے ، لیکن آپ کی تیسری خصوصیات یہ ہے کہ ساری حدیث کی کتابیں تلف ہو جائیں تو صرف قرآن سے آپ ﷺ کی سیرت مرتب ہو سکتی ہے ۔صرف گیتا سے شری کرشن کی لائف مرتب نہیں ہو سکتی ، توریت سے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی ، زبور سے داؤد علیہ السلام کی اور انجیل سے عیسیٰ علیہ السلام کی ، دھمپد سے گوتم بدھ کی ، انگ سے مہاویر کی حیات مرتب نہیں ہو سکتی ۔
٤-آپ ﷺ واحد پیغمبر یا مصلح ہیں ، جس نے جو تعلیم دی اس پر خود بھی عمل کر کے دکھایا اور دوسروں سے بھی عمل کرادیا ۔
٥- آپ ﷺ واحد پیغمبر یا رسول یا مصلح ہیں جس نے اضداد کو جمع کر دیا ۔ یعنی آپ نے Idealismاور Realismکو جمع کر دیا ۔Communismاور Capitalismکو جمع کر دیا ۔ MatterاورSpirit کو جمع کر دیا ۔ دنیا اور دین کو جمع کر دیا ۔ Laityاور Clergyکو جمع کر دیا ۔ HereafterاورHere کو جمع کر دیا ۔
٦- آپ ﷺ کی پوری زندگی محفوظ ہے ۔
٧-آپ ﷺ نے بیک وقت تین نعمتیں دنیا کو دیں ، یہ فخر کسی مصلح کو حاصل نہیں ہے ۔ آپﷺ نے ایک قوم بنائی ، اسے مکمل آئین حیات دیا اور مکمل اخلاقی نظام Highest ethical ideal اور اخلاقی نصب العین پھر بالفعل حکمران بنا دیا ۔تاکہ دنیا قول اور عمل میں مطابقت کا نظارہ دیکھ سکے ۔
٨- اللہ رب العالمین ہے ، آپ ﷺ رحمت للعالمین ہیں ۔
٩- اللہ کائنات پر رؤف اور رحیم ہے ، آپ ﷺ مومنوں پر ۔
١٠- آپ ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی ، کمالات نبوت ختم ہو گئے ۔ آپ ﷺ کی ختمیت بقول حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ ، ذاتی ہے ، اور آپ کی امت خیر الاامم ہے ۔ ( کنتم خیر امة ) (٣)
١١- آپ کی گیارہویں خوبی یا خصوصیت تعلیم یہ ہے کہ انسانی شخصیت کے تینوں پہلوؤں : علم و جذبہ و ارادہ کی یکساں تر بیت Harmonious developmentکا دستور العمل عطا کر دیا۔
١٢- جہاد فی سبیل اللہ کو رہبانیت اسلام قرار دیا  یعنی اسلام میں ترک دنیا ہے ، مگر وہ غار و کوہ میں خلوت نشینی کا نام نہیں بلکہ میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ کے لیے ترکِ دنیا کر دینا ۔
١٣- آپ ﷺ نے ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شرک اور بت پرستی ، شخصیت پرستی اور اوہام پرستی سے پاک کر دیا ، اور ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ ، اور اس کے رسول ﷺ اور دین اسلام کی محبت کا رنگ پیدا کر دیا ۔
ہمارا فرض
ہمارا فرض اس وقت یہ ہے کہ ہم روحانیت اور مادیت میں امتزاج کے طریق کار کو ، جو آپ ﷺ نے ہمیں مذہب کی تاریخ میں پہلی مر تبہ عطا کیا ، دنیا میں عام کر دیں ۔ اس کے دو فائدے ہو ں گے :
(١) ہم مورد فضلِ الٰہی بن جائیں گے ۔
(٢) یورپ کو اس وقت اسی نسخے کی ضرورت ہے ۔  نتیجہ یہ ہو گا یورپ اسلام کے مطالعے کی طرف مائل ہو جائے گا ۔(٤)
 حوالہ جات
(١)     کہف :١١٠
(٢)    آل عمران : ١٠٣
(٣)    آل عمران : ١١٠
(٤)    لارڈ لوتھین کا مشورہ ١٩٣٨ء                  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے