جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی
الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
آج شہر کی فضا پر آغازِ صبح ہی سے خاموشی و سکوت کا دورہ
ہے، لوگ گھروں میں دَبکے پڑے ہیں، اس لیے کہ نکلنا نہیں چاہتے۔ آج
نفاذِ اسلام کی تحریک کے سب سے بڑے داعی جلسۂ عام سے خطاب کرنے والے ہیں۔ جن
کے دل نفاذِ نظامِ اسلامی کی تڑپ رکھتے ہیں وہ جلسۂ عام میں جمع ہورہے ہیں۔ حکومتِ
وقت کے جبر و استبداد کے باوجود ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ خطاب شروع ہوا اربابِ اقتدار سے پُرزور
مطالبہ کیا گیا کہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے، ابھی فضا پر اس مجاہدِ عصر کی آواز کی
گونج باقی ہی تھی کہ یک بیک سپاہیوں کی بہت بڑی نفری حملہ آور ہوئی۔ ان اللہ کے بندوں
کے پاس تھا ہی کیا جو اپنا دفاع کرتے۔ اک نشہ تھا جس کی بے خودی انہیں یہاں تک
لے آئی تھی۔ یہ وہ نشہ نہیں تھا جو قدموں کو بہکا دیتی ہے اور عقل و خِرد کے پردوں
کو چاک کردیتی ہے، بلکہ یہ وہ نشہ تھا جو روح و قلب پر سرشاری طاری کردیتی ہے اور ذہن
و فکر کو عقل سے گویا کردیتی ہے۔ ابھی یہ عالم و حشت و سراسیمگی جاری ہی تھا کہ فضا
تکبیر کے کلمات سے گونج اٹھی، مغرب کا وقت آچکا تھا، لاٹھی برداروں نے تاریکی کے طلوع
ہوجانے پر اور کچھ اپنے تھک جانے کے باعث بھی ہاتھ روک لیے، انہوں نے جانا کہ جس طرح
تاریکی روشنی پر غالب آگئی بعینہ وہ بھی پیروکارانِ حق پر غالب آگئے، مگر
وہ نادان نہیں جانتے کہ روشنی ہمیشہ تاریکی کے سینے کو چیر کر ہی نمودار ہوتی ہے۔ خزاں
نے ہمیشہ باغوں کو اجاڑا اور گلشن کو برباد کیا، مگر اُمیدِ بَہار پر ہی درختوں کی زندگی
کا مدار ہے اور پھر بارش کی ایک بوند زمین کو زندگی سے ہَمکنار کردیتی ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭