ہفتہ، 5 جولائی، 2014

مسئلہ فلسطین کی نظریاتی بنیادیں

شوال 1434ھ/ اگست 2013، شمارہ  17
مسئلہ فلسطین کی نظریاتی بنیادیں  نذر حافی



مسئلہ فلسطین کی نظریاتی بنیادیں


نذر حافی

کسی بھی مسئلے کو حل کرنے اور سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھا جائے جبکہ کسی بھی مسئلے کودبانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے نظریاتی طور پر پر سرد خانے میں پھینک دیاجائے۔موجودہ صدی میں استعمار نے دیگر مسائل کی مانند  کچھ ایسا ہی مسئلہ فلسطین کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کی۔
مسئلہ فلسطین (issue of Palestine) کی نظریاتی بنیادوں کو ایک کالم میں بیان کرنا کسی بھی طور پر ایک دریاکو کوزے میں بند کرنے سے کم نہیں۔یہ کام اگرچہ مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے تا ہم ااپنی بساط کے مطابق ہم کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی حد تک  حقِ قلم ادا ہوجائے۔
ہم سب سے پہلے قارئین کویہ  بتانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی  (Zionist) کہا جاتا ہے۔ جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون (Zion) یروشلم (Jerusalem) کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے ابتدامیں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔ یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔
 ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان (Solomon, Sulaymān) کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔
یہودیوں نے 27 اگست 1897میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کے لیے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔ بعد ازاں انجمن محبین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بناکر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبین صہیون سے مربوط یا ان کے ہم فکر ہوتے ہیں۔
یہودیوں نے اسرائیل (Israel) کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اس کا نام انہوں نے محبین صہیون اس لیے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور قوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکروفریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔
 فرعون (pharaoh) کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسی کی صورت میں ان کے لیے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اولا تو اللہ تعالی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیا بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرئے۔ حضرت موسی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرارہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جارہے تھے چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔ حضرت موسی علیہ السلام (Moses/Musa A.S) کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسی نے اپنا عصا دریائے نیل (Nile) کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔ دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسی کے ہمراہ کوہ سینا (Mount Sinai) تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسی پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کرلو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔
 جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔ اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفروشرک اور گمراہی میں مبتلا تھے چنانچہ حضرت موسی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسی ، تم اور تمہار رب دونوں جاواور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ حضرت موسی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا جس کے بعد 40برس تک اکرام خداوندی نے ان کی طرف سے منھ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔
40سال بعد حضرت موسی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب ، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسی وصال فرماگئے۔ ا ن کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے جنہوں نے دریائے اردن (Arden, Jordan)کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحا کو فتح کیا اور یہ اریحا ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا ۔اریحا کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الہی حکومت کا قیام تھا لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناپر بنی اسرائیل الہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔ اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کردی۔
 چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی جس پر حضرت طالوت ، حضرت داود  اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔ حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کردیئے ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔بعد ازاں بابل (Babylon) کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar II) نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو ،اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ قت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو (Khosrau) نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔
98قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف مکابی نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کردیا۔ لیکن 63قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے اس لئے انہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی جو ایک مکار یہودی تھا۔ 64اور 66کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔
 رومنی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزادی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔بعد ازاں 667میں شر انگیزیوں کے باعث انہیں حجاز (Hijaz) سے باہر نکالا گیا ۔ حجاز کے بعد انہوں نے شام (Syria) کا رخ کیا جہاں سے 890میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کردیاگیا پھر یہ معتوب قوم پرتگال (Portugal) میں گھسی جہاں سے انہیں 920میں نکال دیاگیا۔ پھر یہ سپین (Spain) میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں 1110میں فرار ہونا پڑا سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ (England) کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290میں نکالا گیا پھر یہ فرانس (France) میں آٹپکے جہاں سے انہیں 1306میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم (Belgium) میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا جہاں سے انہیں1370میں بھگایا گیا۔ پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے جہاں سے انہیں 1380میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے جہاں سے انہیں 1434میں دوبارہ نکال دیا گیا۔ پھر انہوں نے ہالینڈ (Holland) کا رخ کیا جہاں سے انہیں 1442میں باہردھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس (Russia) میں داخل ہوئے جہاں سے 1510میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا پھر یہ اٹلی (Italy) میں گھسے 1540میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی (Germany) پہنچے لیکن 1551میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا پھر یہ ترکی (Turkey) میں گھسے اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہرطرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔ چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو ویانا  (Vienna) میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔
فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اس وقت منظر عام پر آئی جب 1862میں ایک جرمن یہودی موسی ہیٹس کی کتاب روم اور یروشلم مارکیٹ میں آئی۔ اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔
اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔ 1896میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل (Theodor Herzl) نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔ اس کتاب یا رسالے میں اس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اولا یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیا یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خودمختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔
انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی جس کے باعث ہرزل 1897میں سوئزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ صحافی اپنے موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کردیئے۔ ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیااور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔
اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی۔ چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے قربانیوں کی نہ صرف بھینٹ چڑھادیتے تھے بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملادیتے تھے۔ چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے تاکہ ان کا تمام مکروفریب عربوں تک محدود ہوجائے۔
 چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی سازباز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی یہاں تک کہ 1948میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔
مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھر ا جب ٧٤٩١  میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائند وں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا،اس کمیشن کے قیا م کا مقصد یہ تھا کہ سر زمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔
فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔
  ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔ دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔
اقوام متحدہ (United Nations) نے بھی یہودیوں کو مایو س نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔ اسی سال بر طانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمامتر جنگی ساز وسامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔
اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کر کے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلا ن ہو نا تھا ادھر اس وقت کے امریکی صدر ٹرومن (Harry S. Truman) نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔برطانیہ، امریکہ، اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر (Egypt)، اردن، لبنان (Lebanon) ، عراق (Iraq)، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔
سامراج نے سب سے پہلے تو اسے فلسطین کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی لیکن اپنی اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس مسئلہ کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔ایک طرف تو اس مسئلہ کو عربوں کا مسئلہ کہا گیا اور دوسری طرف عرب حکمرانوں کے درمیا ن پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے سازش شروع کر دی گئی۔
سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سردخانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔
اسرائیل نے بھی دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف وہراس میں مبتلا کئے رکھا اور فلسطین کے خون سے ہولی کھیلتا رہا یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے بصیرت، نظریئے، اور خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں ٩٧٩١ تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن بصیرت اور نظریئے کے اعتبار سے کسی مسیحا کے منتظر تھے۔
جہاد افغانستان ، ایرانی انقلاب اور متعدد اسلامی تحاریک کے قیام اور جدوجہد نے جہاں پورے عالم اسلام میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی ، وہیں فلسطینیوں کی تحریک کو ایک نئی جہت بھی دی ۔ استعمار نے مسئلہ فلسطین کو دبانے کے لئے اسے محض عربوں کا مسئلہ قرار دے دیا تھا جبکہ عالم اسلام کی جدید فکری بیداری کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ ایک اسلامی مسئلے کے طور پر ابھرا۔دنیائے اسلام کو اپنی طاقت کا احساس ہوا اور مسلمانوں میں از سرِ نو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرانے کی سوچ زندہ ہوگئی۔
یوں فلسطین کا مسئلہ جسے استعمارنے مقامی اور عربی بناکرسردخانے میں پھینکنے کی کوشش کی تھی اور دبانا چاہاتھا، ایک مرتبہ پھراسلامی اور نظریاتی بن کر ابھر آیا اور اس وقت فلسطین استعمار کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکا ہواہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے