اتوار، 6 جولائی، 2014

شام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال

شوال 1434ھ/ اگست 2013، شمارہ  17

شام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ابو محمد معتصم باللہ




شام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال

ابو محمد معتصم باللہ

شام (Syria) کے دارالحکومت دمشق (, Dimishq Damascus) کے نواحی علاقے میں ٢١ اگست بروز بدھ کو کیمیائی ہتھیاروں (Chemical Weapon Attack) سے حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ٢٠٠٠ افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ جن میں ٣٠٠ سے زائد تعداد معصوم اور کم عمر بچوں کی تھی ۔ اتنی بڑی انسانی آبادی کا اس قدر مظلومیت کے ساتھ مرنا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔ یقینا عالمی سطح پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔
شام کی جنگ کئی حوالوں سے انتہائی اہم ہے ۔ احادیث میں ابواب الفتن میں شام کا بکثرت ذکر آیا ہے ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے شام کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے ۔ ارباب علم و تحقیق بخوبی واقف ہیں کہ دجال نے سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب سے جو سوالات پوچھے تھے ۔ ان میں جن مقامات کا ذکر تھا وہ سب شام میں ہیں ۔ بیسان کے نخلستان (palm trees of Baisan) ، طبرستان کے دریا اور عین زغر کا چشمہ آب (spring Zughar) یہ سب شام میں واقع ہیں ۔ اس لیے شام کی جنگ کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
 شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا نتیجہ  صرف یہی نہیں ہے کہ جس کے پھٹنے سے کیمیائی گیسوں کا اخراج ہواور ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے جائیں  بلکہ اس کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما (Barack Hussein Obama II) پہلے ہی سے یہ تنبیہہ کرچکے ہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ریڈ لائن ہوگا اور سب جانتے ہیں کہ سرخ نشان کو پار کرنے کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
اب امریکا کو شام میں کھل کر مداخلت کرنے کا زریں موقع مل گیا ہے ۔ اس موقع پر امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈمپسی نے کہا ہے کہ شام میں باغیوں کی حمایت میں فوج داخل کرنا امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ باغیوں کی تحریک کے پیش نظر بھی ہمارے مفادات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں فوج کشی خطے میں امریکی اتحادیوں کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ ان کا اشارہ اسرائیل اور اردن کی جانب تھا جن کا پچھلے ہفتے انہوں نے دورہ بھی کیا تھا۔خبر رساں ادارے '' اے ایف پی '' کے مطابق امریکی فوج کے سربراہ نے ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس الیوٹ اینگل کو بھیجی گئی ای میل میں شام میں فوجی مداخلت سے گریز کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''شام میں فوجی مداخلت چاہے وہ محدود پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو امریکا کے مفاد میں نہیں۔ ہم صرف وہاں پرہی فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں جہاں امریکی قوم کے مفادات ہوں ، شام میں فی الحال ایسا نہیں ہے۔ باغی امریکا کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پیش نظر ہمارے قومی مفادات ہیں۔''
لیکن ان کی اصل نیت اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے کہ '' شام میں شہریوں کی بڑے پیمانے پرہلاکتوں کی ذمہ دار بشار الاسدد (Bashar Hafez al-Assad) کی فضائیہ اور جنگی جہازوں کو تباہ کرنا ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اگر شام میں مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ صرف فوجی کارروائی تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ مسئلے کے حل تک امریکا کے کردار کو تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ شام میں جاری تحریک کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ یہ ایک طویل المدتی جنگ ہے جو بشار الاسد کی اقتدار سے برخاستگی کے بعد بھی جاری رہنے کا خدشہ ہے۔'' سب سمجھ سکتے ہیں کہ مسئلے کے حل سے ان کی کیا مراد ہے ۔
شام میں اس وقت کئی عناصر باہم برسر پیکار ہیں ۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے کہا ہے کہ شام کی حدود چونکہ قدیم نہیں ہیں اور اس لیے آئندہ بھی اس کی کئی حصوں میں تقسیم ممکن ہوسکتی ہے ۔
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا معاملہ اب عالمی سطح پر سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے ۔ بشار الاسد اور ان کے حامی اس کا ذمہ دار اپنے مخالفین کو قرار دیتے ہیں جبکہ شامی افواج کے مخالف عناصر اس کو بشار الاسد اور اور اس کی رجیم کی کارروائی قرار دے رہے ہیں ۔
ایران اور روس نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ذمہ دار بشار الاسد کے مخالفوں کو قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ یقینا اہم ہے کہ آخر شامی افواج کے مخالفین کو یہ کیمیائی ہتھیار کس نے دیئے ؟ اور اگر کسی  نے دیئے تو کیا وہ اس واقعہ کا براہ راست ذمہ دار نہیں ؟
دوسری طرف فرانس نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے اس واقعے کے بارے میں کہا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے تو شام کے خلاف طاقت استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم فرانس نے یہ واضح نہیں کیا کہ طاقت کے استعمال کی صورت کیا ہو گی؟ فرانس کے وزیر خارجہ لوراں فیبیوس نے مزید کہا '' فرانس کا موقف بڑا واضح ہے کہ اس بہیمانہ واقعے کا ضرور نوٹس لیا جا ئے اور اس خوف ناک واقعے کا ردعمل سامنے لا یا جائے۔''
شاید اب وہ وقت دور نہیں کہ جب شام کی جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ عالمی طاقتیں اس میں پوری قوت کے ساتھ ملوث ہورہی ہیں ۔ اللہ رب العزت مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے