بدھ، 9 جولائی، 2014

عراق ، شام اور مصر کا معاشی بحران

ذیقعد و ذی الحجہ 1434ھ/ ستمبر اور اکتوبر 2013، شمارہ  18
نور حدیث            بسلسلہ نادر احادیث فتن عراق ، شام اور مصر کا معاشی بحرانمحمد تنزیل الصدیقی الحسینی

نور حدیث                                                                                                               بسلسلہ نادر احادیث فتن

عراق ، شام اور مصر کا معاشی بحران

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حدیث
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -- « مَنَعَتِ الْعِرَاقُ دِرْهَمَهَا وَقَفِيزَهَا وَمَنَعَتِ الشَّأْمُ مُدْيَهَا وَدِينَارَهَا وَمَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّهَا وَدِينَارَهَا وَعُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ وَعُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ وَعُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ ». شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ لَحْمُ أَبِى هُرَيْرَةَ وَدَمُه ۔

ترجمہ

سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " عراق اپنے درہم اور قفیز کو روکے گا ، شام اپنے مدی اور دینا کو روکے گا اور مصر اپنے اردب اور دینار کو روکے گا اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے ، اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسےپہلے تھے ، اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے ۔" ( پھر ابو ہریرہ t نے فرمایا کہ ) اس پر ابو ہریرہ کا گوشت اور خون گواہی دیتا ہے ۔
تخریج
(1)                      صحيح مسلم ، کتاب الفتن ، باب فی منع العراق درھما ۔
(2)                     سنن ابي داود ، کتاب الخراج ، باب فِى إِيقَافِ أَرْضِ السَّوَادِ وَأَرْضِ الْعَنْوَةِ ۔
(3)                     مسند احمد ، مسند ابي هريره
(4)                     السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب السير، باب قَدْرِ الْخَرَاجِ الَّذِى وُضِعَ عَلَى السَّوَادِ ۔
حکم فی الحدیث
یہ حدیث مسلم کی ہے ، اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور حدیث بالکل صحیح ہے ۔
شرح
« مَنَعَتِ الْعِرَاقُ دِرْهَمَهَا وَ قَفِيزَهَا » " عراق اپنے درہم اور قفیز کو روکے گا " عراق بلادِ اسلامیہ کا مشہور خطہ ہے ۔ عہدِ خلافتِ راشدہ ہی میں یہ خہ اسلامی عملداری کا حصہ بن گیا تھا ۔ درہم اور قفیز سے مراد اس کی کرنسی  اور روک لینے سے مراد معاشی بحران ہے ۔« وَ مَنَعَتِ الشَّأْمُ مُدْيَهَا وَ دِينَارَهَا » " اور شام اپنے مدی اور دینا کو روکے گا " شام بھی بلادِ اسلامیہ کا مشہور خطہ ہے اپنی تاریخی اہمیت کے اعتبار سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔ یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سر زمین ہے جس قدر انبیائے کرام اس خطے میں مبعوث ہوئے اور کہیں نہیں ہوئے ۔ اس کی جغرافیائی حیثیت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے ۔ قدیم شام میں موجودہ شام ، اردن ، لبنان ، اور فلسطین و اسرائیل کا پورا حصہ شامل ہے ۔ مدی اور دینار سے مراد اس کی کرنسی ہے اور روک لینے سے مراد معاشی بحران ۔ « وَ مَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّهَا وَ دِينَارَهَا » " اور مصر اپنے اردب و دینار کو روکے گا " عراق اور شام کی طرح مصر بھی بلادِ اسلامیہ کا اہم مقام ہے ۔ اپنی تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے تاریخ عالم میں امتیازی اہمیت کا حامل ہے ۔ اردب اور دینار سے مراد اس کی کرنسی ہے اور روک لینے سے مراد معاشی بحران ۔
یہ تینوں عالم اسلام کے وہ خطے ہیں جو زمانہ ما قبل اسلام بھی اپنی امتیازی شناخت رکھتے تھے ۔ یہ تینوں خطے نبی کریم ﷺ کے عالی قدر خلفائے کرام کے زمانہ میں بلادِ اسلامیہ میں شامل ہوئے ۔ ان خطوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی یہ خبر بقول امام شوکانی آثارِ نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ امام نووی نے درہم ودینار روک لینے سے متعلق دو اقوال پیش کیے ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے :
" وَالثَّانِي وَهُوَ الْأَشْهَر أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّ الْعَجَم وَالرُّوم يَسْتَوْلُونَ عَلَى الْبِلَاد فِي آخِر الزَّمَان ، فَيَمْنَعُونَ حُصُول ذَلِكَ لِلْمُسْلِمِينَ ۔"
"اور دوسرا اور مشہور قول یہ ہے کہ اس کا مطلب ہے عجم اور روم ( کے ممالکِ کفار ) آخری زمانے میں ان ممالک ( اسلامیہ ) پرغلبہ پائیں اور اس  کا  ( یعنی معاشیات کا ) حصول مسلمانوں کے روک دیں گے ۔ "


امام مسلم بھی اس حدیث کو کتاب الفتن ہی میں روایت کرتے ہیں ۔ امام شوکانی بھی اس تاویل کو مبنی بر صواب قرار دیتے ہیں اور عظیم آبادی کا رجحانِ غالب بھی یہی محسوس ہوتا ہے باوجودیکہ امام ابو داود نے اس حدیث کو کتاب الخراج کے تحت روایت کیا ہے ۔
« وَ عُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ » " اور تم ایسے ہوجاؤ گے جیسے پہلے تھے " یہاں نبی کریم ﷺ کے مخاطب اہلِ ایمان ہیں ۔ اس معاشی بحران کا اصل اثر انہیں پر پڑے گا ۔ ایک مشہور حدیث ہے :
" بَدَأَ الْإِسْلَام غَرِيبًا ، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ "
" اسلام کا آغاز غربت سے ہوا تھا اور عنقریب وہ دوبارہ اپنی ابتدا کی طرف لوٹے گا ۔"
یہاں یہی مراد ہے گو بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان پہلے کی طرح کفر کی طرف راغب ہوجائیں گے لیکن الفاظ حدیث پر غور کرنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پہلے کی طرح مفلوک الحال ہوں گے نہ کہ مرتد و کافر ۔
یہ حدیث دور فتن کی ان اہم ترین نشانیوں میں سے ہے جس کا مشاہدہ آج ہم اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔  عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد اور امریکی حملے کے نتیجے میں جو تباہیاں ہوئیں ان کا سب سے بڑا اثر لوگوں کی معیشت پر پڑا ۔ پورے پورے خاندان تباہ و بر باد ہوگئے ۔ اسی طرح شام کی علوی ( نصیری ) حکومت کے مظالم وہاں کی سنی آبادی پر گاہے گاہے ظاہر ہوتے رہتے تھے کہ 2011ء میں وہاں اسدی حکومت اور مخالفین میں باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا ۔ چونکہ قدیم شام میں لبنان ، اردن اور فلسطین و اسرائیل بھی شامل ہیں اور ان تمام خطوں کے باشندگان اس وقت سے مبتلائے مصائب و آلام ہیں جب سے مملکت اسرائیل کا ناسور وہاں پیدا ہوا ۔ ان خطوں کی معیشت اور امن و امان کی صورت حال برباد ہو کر رہ گئی ۔
ان ممالک کے بعد ہم مصر کا جائزہ لیتے ہیں ۔ جدید مصر ان کے مقابلے میں خاصا ترقی یافتہ ہے ۔ اخوانیوں کی کامیابی کے بعد وہاں اسلامی بیداری کی لہر کو ایک مہمیز لگی اور وہاں امن و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ لیکن عالمی طاغوتی طاقتوں کو یہ صورت حال کس طرح منظور ہو سکتی تھی ۔ چنانچہ محض ایک برس میں مصر میں عالمی سازشوں کے زیرِ اثر مصر کی سیکولر فوج نے بغاوت کرکے 2013ء میں اخوانیوں کے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کو بر طرف کر دیا اور سر کردہ اخوانی رہنماؤں کو پابندِ سلاسل ۔ مصر کے اسلام پسندوں نے بھرپور احتجاج کیا مگر اس احتجاج کو بزورِ طاقت کچل دیا گیا ۔ نہتے عوام پر کی گئی اس طاقت آزمائی پر نہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے واویلا کیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سے کوئی رکن چیں بہ جبیں ہوا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مصر کے اسلام پسند عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں اور معیشت بری طرح متاثر ہوچکی ہے ۔
مصر کی اس بدحالی کے ساتھ ہی نبی کریم ؤ کی یہ حدیث حرف بحرف پوری ہوگئی اور ایک جلیل القدر صحابی کی شہادت عملاً وقوع پذیر ہوگئی ۔
فوائد و نکات
اس حدیث سے حسبِ ذیل نکات واضح ہوتے ہیں :
1      عراق ، شام اور مصر میں معاشی بحران پیدا ہوگا ، جو ہو رہا ہے ۔
2      اس بحران کا اثر وہاں کے اہلِ ایمان پر پڑے گا 
3                                           اس معاشی بحران کے نتیجے میں وہاں کے مسلمان دوبارہ غربت کی زندگی کی جانب لوٹنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
4      چونکہ یہ روایت دورِ فتن سے متعلق ہے اس لیے جب اس کا وقوع ہوگا تو وہ دورِ فتن قرار پائے گا ۔

طاغوتی معاشرے کی خاصیت

                " طاغوتی معاشروں میں حکمراں طبقہ پیدائش دولت کے وسائل پر قابض و متصرف ہوتا ہے اورتقسیم دولت میں غالب حصہ پاتا ہے ۔ قومی دولت پر اس کا حق ہوتا ہے ۔ قومی دولت کے سارے وسائل بشمول انسانی وسائل کو وہ اپنی جائدادسمجھتا ہے ۔ وہ ملکی قوانین کی تدوین ، نظام اخلاق کی تشکیل ، معاشرتی اقدار کی ترویج اور رسوم و روایات کی تعمیل اس طرح کرتا ہے جس سے اس کے طبقاتی مفادات کی بقا کی ضمانت ملے ۔ اس کا وجود ایک مکڑی کی طرح ہے جو قوانین و ضوابط کا جال بنتی ہے ۔ یہ جال اس کے وجود کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے ۔ مکڑی کو مار دیا جائے جال کو چھوڑ دیا جائے تو بھی کیڑوں اور مکھیوں کے لیے یہ جال وبال جان ہی رہتا ہے ۔ انقلاب اور آزادی کی تحریکوں کی کامیابی اور بقا کے لیے مکڑی کے وجود سے نجات ہی ضروری نہیں ، جال کو مٹا دینا بھی ناگزیر ہے ۔ "

جناب ابو الحسن کی غیر مطبوعہ تالیف" جمہوریت یا جمبوریت " سے ماخوذ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے