ہفتہ، 27 جولائی، 2013

تبصرہ کتب: ایران کی چند اہم فارسی تفسیریں(جلد سوم)

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

تبصرہ کتبایران کی چند اہم فارسی تفسیریں(جلد سوم)

مولف  :  ڈاکٹر کبیر احمد جائسی
طبع : ستمبر ٢٠١٠ئ-٢٤٤ ، صفحات-مجلد ،
قیمت :٢٠٠ رُپےناشر:قرطاس ، آفس نمبر ٢ ، عثمان پلازہ ، بلاک 13-B، گلشن اقبال ، کراچی


ادارئہ علوم اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ( علی گڑھ ، یوپی ، انڈیا ) کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر کبیر احمد جائسی کی کتاب '' ایران کی چند اہم فارسی تفسیریں'' اہم مفسرینِ ایران اور ان کی تفاسیر کے مطالعات پر مبنی ہے ۔ جسے ادارئہ قرطاس چار جلدوں میں پیش کر رہا ہے ۔ اس سلسلے کی ابتداء محمد بن جریر طبری ( م ٣١٠ھ ) کی مشہور زمانہ تفسیر ''جامع البیان '' کے فارسی ترجمہ سے ہوئی ہے اور اس کا اختتام چودہویں صدی ہجری تک کے اہم ایرانی مفسرین پر مبنی ہوگا ۔
زیرِ تبصرہ کتاب اس سلسلے کی تیسری جلد ہے ۔ اس جلد میں جن فارسی تفاسیر سے متعلق اپنے حاصلِ مطالعہ کو مصنف نے پیش کیا ہے ، وہ حسبِ ذیل ہے
:
(١) اسرار الفاتحہ از معین الدین واعظ فراہی ہروی
(٢) حدائق الحقائق از معین الدین واعظ فراہی ہروی 
(٣) تفسیر شاہی از امیر ابو الفتح بن مخدوم الخادم الحسینی عربشاہی ( م ٩٧٦ ھ )
(٤) منہج الصادقین فی الزام المخالفین از ملا فتح اللہ بن شکر اللہ کاشانی
(٥ ) تفسیر شریف لاہیجی از قطب الدین محمد بن شیخ علی عبد الوہاب اشکوری دیلمی لاہیجی
ایران میں شیعہ مذہب کا اثر و نفوذ بہت زیادہ رہا ہے ۔ بالخصوص زیر تبصرہ جلد میں دسویں و گیارہویں صدی ہجری کی فارسی کتبِ تفاسیر کا تعارف کروایا گیا ہے جو تیموری عہدِ حکومت ( ٧٨٣ -٩١١ ھ ) اور صفوی عہدِ حکومت ( ٩٠٧ -١١٣٥ ھ ) سے تعلق رکھتی ہیں ۔ صفوی عہدِ حکومت کو ایران کی فکری و نظری تاریخ میں جو خصوصی اہمیت حاصل ہے وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں ۔ خود مصنف اس عہد کی تاریخی اہمیت اور کتبِ تفاسیر پر اس کے اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' ایران کی تاریخ میں دسویں صدی ہجری کو دو وجوہ سے خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اوّل یہ کہ اس صدی میں ایران میں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی جس نے بزور شمشیر ایران میں شیعی مذہب کو سرکاری مذہب قرار دے کر ملک کی تقریباً پچانوے فیصد آبادی کو شیعہ بنا دیا ۔ اس حکومت کے بانی شاہ اسماعیل صفوی نے '' امام زمان '' کا گماشتہ ہونے اور ان ہی سے '' شمشیر و تاج و فرمان '' پانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ اس کے اس دعوے کو جن لوگوں نے دل و جان سے قبول کیا اور اس کی سلطنت کے قیام کا سبب بنے ان کو ذبیح اللہ صفا نے '' شمشیر زنانِ بی فرہنگ سرخ کلاہ '' ( سرخ ٹوپی والے ، وحشی ، تلوار چلانے والے ) کے نام سے یاد کیا ۔ ڈاکٹر ذبیح اللہ صفا کے دیے ہوئے اس نام سے اُن لوگوں کی شخصیت اور طرزِ حیات کا مبہم سا سہی ، اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ دوسراسبب اس صدی کی اہمیت کا یہ ہے کہ اس میں فارسی زبان میں متعدد ایسی تفسیریں لکھی گئیں ، جن کا چلن کئی صدیوں تک برقرار رہا ۔ ''(ص ٩٥[
ایرانی مفسرین چونکہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے اسی لیے ان کی کتبِ تفاسیر میں اپنے مذہب کی حمایت و نصرت کا جذبہ بڑی شدت کے ساتھ غالب رہا ۔ کتاب کے لائقِ تکریم مصنف نے امانت و دیانت کے ساتھ ان کتبِ تفاسیر کا تعارف کروایا ہے ۔ چونکہ وہ خود شیعہ مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اسی لیے انہوں نے ان فارسی تفاسیر کی عبارتوں کو پیش کرنے میں کسی قسم کی توجیہ ، تاویل اور تفسیر سے گریز کی راہ اختیار کی ہے ۔ وہ خود لکھتے ہیں :
'' میں چونکہ اثنا عشری نہیں ہوں اس لیے میری پوری شعوری کوشش یہ رہی ہے کہ صرف اتنی ہی باتیں لکھوں جو فارسی عبارت میں ہیں ۔ میں نے اپنی تحریر میں ہر طرح کی توجیہ ، تاویل اور تفسیر سے احتراز کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے ۔ تیسری جلد کی اتنی تاخیر سے منظر عام پر آنے کی وجہ قلت مواد کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھی کہ مجھ کو آگ کے دریا سے گزرنا تھا اور اپنے دامن کو جلنے سے محفوظ بھی رکھنا تھا ۔ '' (ص ١٠ -١١)
اس کتاب کا مطالعہ ایرانی عقائد و نظریات اور ان کی فکری ارتقاء کے حوالے سے مفید علمی مباحث پر مشتمل ہے ۔ فاضل مصنف نے ان کتبِ تفاسیر کا سرسری تعارف نہیں کروایا ہے بلکہ کتاب کے مالہ و ما علیہ سے بھی تعرض کیا ہے ۔ کتاب کا پسِ منظر اور اس عہد کی علمی و فکری تاریخ بھی بیان کی ہے ۔ جس سے کتاب کے علمی استناد میں اضافہ ہوا ہے ۔
ادارہ قرطاس نے کتاب کی طباعت بڑے سلیقے سے کی ہے ۔ صفحہ ٢٢ پر حاشیے کی عبارت غلط طریقے سے متن میں شامل ہوگئی ہے ۔ امید ہے آئندہ طباعت میں اصلاح کرلی جائے گی ۔
( محمد تنزیل الصدیقی الحسینی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے