بدھ، 30 مارچ، 2016

دیارِ غیر میں مقیم ایک پاکستانی لڑکی کی فکری الجھنیں مغربی معاشرے میں مسلم والدین کا روّیہ

مصادر شرعیہ                                                                                                                                             

دیارِ غیر میں مقیم ایک پاکستانی لڑکی کی فکری الجھنیں

1۔ بے حجابی اور بدکاری

محمد عالمگیر ( آسٹریلیا )

ترجمہ

ابو عمار سلیم

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی معاشرہ کو شیاطین جن و انس نے مل کر ایک ایسے گھناؤنے معاشرہ میں تبدیل کر دیا ہے جس کا طرہ امتیاز ہی فحاشی اور بد کرداری ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُس معاشرہ میں گونا گوں خوبیاں بھی ہیں جنہیں ہم مسلمان بڑی حسرت سے تکتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم یہ سب اچھی چیزیں خود کیوں نہیں اپنا لیتے ۔ مگر ان تمام اچھائیوں کے باوجود ان کی بے حجابی ، عریانیت اور فحاشی کے عوامل ان کے تمام خصوصیات کو گہنائے دے رہی ہیں ۔ وہ لوگ جو ان سے بے تحاشا متاثر ہیں اپنے طور طریقوں میں ان کی اسی غلط روش کو بلا روک ٹوک اختیار کرنے کے لیے تیز ترین مقابلے میں مبتلا ہیں اور خود بھی فحاشی اور بے حجابی کی اسی منزل تک پہنچے ہوئے ہیں جہاں شیطان انہیں لے جانا چاہتا ہے ۔ ہمارے ملک کے بہت سارے لوگ اپنی روزی اور معاش کی تگ و دو کی خاطر ان مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں ۔ ایسے لوگوں کی اولادیں بھی ان کے ساتھ وہاں مقیم ہیں ۔ ان بچے اور بچیوں پر اس معاشرہ کے اثرات بھی اثر پذیر ہو رہے ہیں ۔ کچھ صالح اذہان اس روش کو قبول نہیں کر رہے اور ان کے دلوں اور ذہنوں میں بے تحاشا خلجان بھی ہے اور وہ سیدھا اور صاف راستہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ ان بچوں اور نوجوانوں کے پاس ایسے ذرائع بہت محدود ہیں جو ان کی رہنمائی کرسکیں ۔ ہمارے مجلے سے وابستہ ایک معروف اہل قلم محترم محمد عالمگیر جو خود عالم بھی ہیں ، بڑے اساتذہ کے تربیت یافتہ بھی ہیں اور ایک دور رس ذہن بھی رکھتے ہیں فی الوقت آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور نوجوانوں کی ذہنی الجھنوں کو بذریعہ خط و کتابت اور ای میل دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ برادر مکرم عالمگیر صاحب نے از راہ شفقت ہمارے مجلّے کے لیے آسٹریلیا میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان لڑکی سے اپنے ای میل کے ذریعہ کیے گئے سوال جواب ارسال کیے ہیں جس کا ترجمہ قارئین الواقعہ کے ذہنی ذوق جمال کے لیے اس خیال کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ اس کے ذریعہ شاید پاکستان میں مقیم نوجوانوں کی بھی راہ نمائی ہو جائے ۔سوالات تیکھے بھی ہیں اوران کے جوابات بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے بے حجابانہ لکھے گئے ہیں جو شائد کسی کے لیے قابل قبول نہ ہو مگر ہمارا خیال ہے کہ جب شرعی معاملات پر گفتگو ہو تو بات بے لاگ ہونی چاہئے تاکہ شک کے دریچے بند ہو جائیں ۔ اللہ عالمگیر صاحب کی ان کاوشوں کی انہیں بہترین جزا عطا کریں ۔ آمین ثم آمین ( ابو عمار سلیم )

نستعلیق فونٹ میں آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے۔۔۔۔
سوال نمبر 1
میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کے 72 فرقوں میں سے ایک کے سوا سب کے سب جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔ میں جہنم میں جانے سے بہت ڈرتی ہوں ۔ ایک مغربی ملک میں رہتے ہوئے ہم لوگ ہر طرح کی بد کاری اور فحاشی کا نظارہ کرتے ہیں اور اس کا حصہ بھی بنے ہوئے ہیں ۔ مجھے علم ہے کہ مجھے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہئے مگر پھر بھی میرے ذہن میں بسا اوقات یہ خیال آتا ہے کہ میرے مغربی دوست لڑکے اور لڑکیاں یہ سب کچھ کیسے کرتے ہیں ؟ مجھے بتائیں کہ میں اس سے کیسے محفوظ رہوں اور ایک اچھی مسلمہ کیسے بن کے رہوں ؟
جواب
کوئی بھی صحیح الدماغ مسلمان جہنم میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر آپ یہ کیوں سمجھتی ہیں کہ آپ بھی اس عریانی اور فحاشی کا حصہ ہیں ۔ پوری دنیا ایک دار العمل ہے ۔ آپ کو اس وقت تک کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ آپ خود اپنے آپ کو اس گندگی میں نہ ڈالیں ۔ آپ کے اعمال آپ کی اپنی پسند کے تابع ہوتے ہیں ۔ آپ کا جہنم میں نہ جانے کا خوف اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے اندر سچائی اور پاکیزگی کے احساسات موجود ہیں ۔ جنہیں یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ، تو انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جہنم بھی کسی چیز کا نام ہے ۔ اگر آپ آگ سے کھیلیں گی تو جلنے کا خطرہ تو رہے گا ۔ اگر خدانخواستہ آپ کا دوست کوئی لڑکا ہے تو یقیناً وہ آپ پر غلبہ پانے کی کوشش کرے گا ۔ آپ لاکھ کوشش کریں کہ آپ کی دوستی ان تمام غلط راستوں سے مبرا رہے مگر وہ تو نفسانی خواہشات سے دور نہیں رہے گا اور اگر بد قسمتی سے آپ کی کوئی سہیلی ایسی ہے جس کے نزدیک پارسائی اور عصمت وغیرہ کا کوئی حقیقی تصور نہیں ہوگا تو یقیناً وہ آپ کو اس گناہ کے دلدل کے قریب لائے گی ، اس کی ترغیب دلائے گی اور آپ کو اس گناہ میں مبتلا کر کے آپ کے لیے جہنم کا راستہ ہموار کر دے گی ۔ اسی طرح اگر آپ مخرب اخلاق عریانی اور فحاشی والے ٹی وی پروگرام یا انٹرنیٹ پر ایسی ہی گندگی سے پرہیز نہیں کرتی ہیں تو یہ بھی آپ کی ہوا و ہوس کو مزید بھڑکانے میں مددگار ہوں گی ۔ ممکن ہے کہ یہ آپ کی مغربی سہیلیوں کے لیے کوئی معیوب بات نہ ہو کہ وہ کسی ڈانس پارٹی میں جائیں یا برہنہ سمندر کے کنارے سیر کریں اور شراب سے بھی اجتناب نہ کریں اور پھر ان سب پر سوا یہ کہ رات کسی دوست کے ساتھ گزارنے چلی جائیں ۔
ہمارا اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ '' زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو '' کیونکہ زنا اسلامی زندگی اور معاشرت میں سب سے گھناؤنی حرکت ہے ۔ آپ یہ پوچھ سکتی ہیں کہ قریب بھی نہ پھٹکو سے کیا مراد ہے ۔ تو عرض یہ ہے کہ یہی تو حجاب کا مرکزی نقطہ ہے مرد و عورت کا بے حجابانہ ملنا اور قریب ہونا ہی تو زنا کی طرف بڑھاتا ہے اور بے شرمی کا راستہ کھولتا ہے ۔ میں نے آپ کو مرد و عورت کے تعلقات کے بارے میں ایک واضح اشارہ دے دیا ہے ۔ قرآن سے آپ کو مزید ہدایات مل جائیں گی ۔ اس سے زیادہ نہ میں کچھ کر سکتا ہوں اور نہ ہی کوئی اور ۔ آپ کا ایمان اور آپ کا عقیدہ آپ کے عمل کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ اگر کوئی اللہ کے احکامات پر سختی سے کار بند رہنا چاہتا ہے تو چاہے لوگوں کی طرف سے کیسی ہی مزاحمت کیوں نہ ہو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ۔ لوگوں کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے اللہ کے احکامات سے نہ تو رو گردانی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے توڑا مروڑا جا سکتا ہے ۔ میرا ذاتی ایمان ہے کہ اللہ کے احکامات پر مکمل عمل ہی حقیقی پر سکون زندگی کی ضمانت ہے ۔ عمل کا اچھا یا برا ہونا انسان کی اپنی صوابدید پر ہے اور یہی سزا یا انعام پر منتج ہوتا ہے ۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ کا ضمیر آپ کو درست راستہ پر رکھنا چاہتا ہے تو تمام بری صحبتوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو اچھے کاموں کے لیے وقف کر دیں ۔ اپنی پڑھائی اور اپنے پیشہ پر توجہ دیں اپنے گھر والوں اور عزیزوں سے گھلیں ملیں اور اپنے خول سے باہر نکل کر اپنے معاشرہ کی بہتری کے لیے وقت نکالیں ۔ خصوصی طور پر معاشرہ کی پسی ہوئی مظلوم ، مشکلوں میں گھری ہوئی خواتین کی مدد کریں اور سب سے آخر میں یہ کہ اگر آپ کے ارد گرد لوگ غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو آپ ان سب سے علیحدہ رہیں ۔ اپنا راستہ صاف رکھیں اور اپنے اللہ سے مدد مانگیں اور اسے راضی رکھیں۔
سوال نمبر 2
جب میں یہ کہتی ہوں کہ میرے ارد گرد فحاشی پھیلی ہوئی ہے تو میرا کہنا یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے دائیں بائیں لوگوں کو ایسی حرکات میں مشغول پاتی ہوں جو مجھے بہت ناگوار ہوتی ہیں ۔ میں ان سے دور رہنے کے لیے اپنی توجہ دوسری طرف مرکوز کر لیتی ہوں ۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کے اندر نہ تو ضبط نفس ہے اور نہ ذاتی خود داری ۔ جب قرآن کہتا ہے کہ زنا سب سے بڑا گناہ ہے تو اس کا اصل مقصد کیا ہے ؟ یعنی اگر کوئی یہ عمل کر گزرے تو اس کو معافی مل سکتی ہے یا نہیں ؟ میری یہودی سہیلیوں کا خیال ہے کہ شادی سے قبل کچھ کیا جائے تو یہ زنا ہے ۔ اگر یہ سب کچھ کرنا زنا میں شامل ہے تو کیا لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کو چومتے دیکھنا بھی زنا اور گناہ کا کام ہے ؟ اسلام کا حکم ہے کہ زنا سے بچو مگر یہاں رہتے ہوئے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے اس لیے کہ یہ کام تو ہمارے چاروں اُور ہو رہا ہے ۔ میں اس کے بارے میں اپنے دوستوں سے بات بند کر دیتی ہوں یا ایسا کچھ ہوتا ہوا دیکھوں تو میں اس سے دور تو ہو جاتی ہوں مگر اپنی سوچ کو کیا کروں کہ دماغ میں خیالات تو بہر صورت آتے ہیں ؟
جواب
اصل میں زنا کا اصولی تعلق ازدواجی بندھنوں کے بغیر جنسی عمل سے ہے ۔ ازدواجی بندھن کے بغیر کا مطلب شادی سے پہلے بھی ہے اور شادی کے بعد اپنے زوج یا زوجہ کے علاوہ کسی اور سے اختلاط بھی اس میں شامل ہے ۔ شادی سے قبل کے ملاپ کو انگریزی میں Fornication کہتے ہیں جبکہ شادی کے بعد کے عمل کو Adultery یا زنا کہا جاتا ہے ۔ دراصل یہ تخصیص کتابی ہے ۔ ہر ایسا شخص جو اس عمل میں ملوث ہو جائے وہ ایک ایسی گندگی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ گویا معاشرہ کے لیے وہ ایک کینسر بن گیا ہے اور اس کی موجودگی کو معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا اس لیے اس کو سزا ملنی چاہئے اور اس کے وجود کو مٹا دینا بڑا ضروری ہے ۔ آپ اس کا موازنہ قتل کے جرم سے کر کے دیکھیں ۔ اگر قتل ہو جائے تو وارث خون کے بدلے خون کا مطالبہ کر سکتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے ، یا پھر وہ خون کی بجائے ہرجانہ کے طور پر پیسہ بھی لے سکتے ہیں اور چاہیں تو قاتل کو معاف کر دیں ۔ یہ تینوں شکلیں شریعت کی رو سے جائز ہیں اور اس کا حق وارثوں کو ہے مگر زانی کے لیے اسّی یا سَو کوڑے یا سزائے موت کے علاوہ کوئی اور دوسری صورت شریعت نے روا نہیں رکھی ہے خواہ متاثرہ خاندان درگزر بھی کر دے پھر بھی اسلام اس معافی کو قبول نہیں کرتا۔
اگر اس دنیا میں ہی مجرم کو سزا مل جائے تو وہ آخرت میں سزا سے بری ہو جاتا ہے اور اگر یہاں سزا نہ ملے تو جہنم کی سزا سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ دنیاوی سزا اُخروی سزا کے مقابلہ میں بہت ہلکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے ایک صحابی سے جب یہ گناہ سرزد ہوا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے پاس آئے اور سزا کا مطالبہ کیا ۔ زنا جن حالات میں انجام پاتا ہے وہ معاملات مختلف نوعیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ حقیقت حال کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے جو علیم و خبیر ہےمگر وہ لوگ جو مسلمان ہیں وہ جانتے ہیں کہ زنا کے قریب بھی جانا بڑا گناہ ہے ۔ ہر ایک ذی عقل جانتا ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو زنا کے ارتکاب پر ابھارتے ہیں اور اس کے قریب لے جانے والے ہیں ۔ اس کا پہلا قدم نظارے بازی سے شروع ہوتا ہے اور بے تکلف میل جول سے لے کر بے تکلف دوستی کے لفظی ہیر پھیر سے ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے جذبات کا احترام اور دل توڑنے سے اجتناب اور بالآخر تنہائی کی ملاقاتیں پھر اس جرم کا ارتکاب ، سب اس کے قدم بہ قدم مراحل ہیں جو ایک کڑی کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان تمام مراحل سے بخوبی واقف ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے ایک قدم سے دوسرے قدم میں کیا فاصلہ ہے ۔ اسی لیے وہ پاک ذات چاہتی ہے کہ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔ برائی کو پنپنے ہی نہ دیا جائے اور اسی لیے اس نے اس پورے عمل کے پہلے قدم کی روک تھام کے  لیے مردوں اور عورتوں کو یکساں حکم دیا کہ اپنی نظریں نیچے رکھو ۔
اگر آپ کسی وقت اپنی کسی سہیلی کے ساتھ کہیں بیٹھی ہوں اور وہ سہیلی اپنے دوست لڑکے کے ساتھ آپ کی موجودگی میں نا زیبا حرکات سر انجام دے تو آپ فوری طور پر ان سے دور ہو جائیں ۔ ان کے ملنے کے مقررہ جگہوں پر مت جائیں اس  لیے کہ یہ گناہ کا  کام ہو گا ۔ اگر آپ یہ سوچیں کہ جسمانی طور پر اس گندگی سے دور ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہ تو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تاہم ذہنی طور پر اس سے دور رہا جا سکتا ہے ۔ تو یہ میرے خیال میں درست نہیں۔ جسمانی طور پر اس سے دور رہنا آسان ہے تاہم ذہنی طور پر اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے ۔ آپ کو چاہئے کہ ایسی تمام جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں جہاں یہ گندگی موجود ہو اور لڑکے لڑکیاں بے تکلف اور بے محابہ مل رہے ہوں یہی سب کچھ احتیاط تو اللہ چاہتا ہے اور اسی کا حکم دے رہا ہے اور پھر مسلم معاشرت کی بنیاد بھی یہی ہے ۔ ذہنی کشمکش سے پیچھا چھڑانا ذرا مشکل ہے اس  لیے کہ تمام معاملات کا تعلق دماغ سے ہے اور یہ ذہنی الجھاوا انسانی طبیعت کے زیر اثر ہے ۔ اسی کشمکش اور الجھاوے سے جنگ ہی تو پاکیزگی کی اصل ہے ۔ کچھ لوگ اپنے دماغ پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکتے ، دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اس خطرناک راستے پر چل نکلتے ہیں ۔ ایک بار قدم اٹھ جائے تو نہ معاشرہ روک سکتا ہے اور نہ ہی مذہبی ہدایات ۔ انسان گناہ کے سمندر میں جا ڈوبتا ہے جو صریح گھاٹے کا سودا ہے۔
جنسی ملاپ سے اللہ تعالیٰ نہیں روکتا ہے ۔ بلکہ اس ذات باری نے اس کے  لیے راستہ بھی رکھا ہے ، اس کے  لیے جگہ اور وقت کا تعین بھی کر دیا ہے ، اس میں ایک مقصدیت بھی رکھ دی ہے اور اس پورے عمل کو اللہ نے پاکیزگی ، شرافت اور حیا کا خوبصورت جامہ بھی پہنا دیا ہے ۔ مغرب نے اس پورے عمل کو غیر مہذب ، نا شائستہ ، فحش اور گالی میں تبدیل کر کے اس عمل کو سطح حیوانیت سے قریب کر دیا ہے جو تہذیب اور شائستگی سے کوسوں دور ہے ۔ جنسی معاملہ میاں بیوی کے درمیان ایک با پردہ پاکیزہ رشتہ ہے جس کی سر عام نمائش ہو ہی نہیں سکتی ۔ تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ ہی علیم و خبیر ہے۔
سوال نمبر 3
یہاں تک تو آپ کی بات درست ہے ۔  میں یقیناً اپنی نظروں کی حفاظت بھی کروں گی اور اپنے خیالات پر بھی قابو رکھوں گی ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اللہ نے مجھے ایک ایسے معاشرے میں لا ڈالا ہے جہاں میرے نفس اور برداشت کا بڑا ہی زبردست امتحان ہے ۔اب ایک اور مشکل سوال سامنے آتا ہے کہ کسی جگہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر کوئی لڑکا کسی لڑکی کے جسم سے چھو جائے تو Sorry  کہہ کر اپنی راہ لے لیتا ہے ۔ تو کیا بات ختم ہو گئی ؟  کچھ کہیں گے کہ ہاں بات ختم ہو گئی اور کچھ لوگ اختلاف کریں گے ۔ اس  لیے کہ جب صنف مخالف سے جسم مس ہو تو یقیناً بُرے خیالات ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔ کیا یہ بھی زنا میں شامل ہو گا ؟ میں گو کہ حجاب نہیں لیتی مگر میرا لباس یہاں کے فیشن کے مطابق عریاں نہیں بلکہ شائستہ ہوتا ہے ۔ تو کیا میں بھی اس پہلے قدم کی طرف جا رہی ہوں جس کی آپ نے نشاندہی کی ہے ؟
جواب
مجھے خوشی ہے کہ آپ اپنے ذہنی الجھاوے کو دور کرنا چاہتی ہیں ۔ آپ کی عمر کے اکثر لوگ اپنی عمر کے اس حصہ کو کھیل کود ، بے جا تفریح اور بے ہودہ حرکتوں میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ جو اپنے آپ کو روک نہیں سکتے وہ بعد میں پچھتاتے ہیں اور دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ خوش آئند بات ہے کہ آپ جاننا چاہتی ہیں ، مطالعہ میں وقت لگاتی ہیں اور چیزوں کو سمجھنے اور سیکھنے میں وقت صرف کرتی ہیں۔
آپ کے ذہن میں ابھی تک زنا کے بارے میں شبہات کیوں ہیں ؟ غیر قانونی جنسی عمل ہی زنا ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے ۔ وہ ہزاروں عوامل ، خیالات اور معاملات جو آپ کو زنا کے قریب گھسیٹ کر لاتے ہیں بذات خود زنا کے زمرے میں شامل نہیں ہیں ۔ مگر شریعت نے ان تمام عوامل سے روکا ہے اس  لیے کہ یہ ایک بڑے حادثہ کی طرف لے جاتے ہیں ۔ مسلم معاشرے کی بناوٹ اسی  لیے ممتاز ہے کہ وہ ان تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی روکتا ہے جو ایک بڑے گناہ کے ارتکاب کی دعوت دے ۔ ان تمام چیزوں کو آپ چھوٹے چھوٹے گناہ سمجھیں جن کی اپنی جگہ پر مختلف نوعیت کی سزائیں ہیں ۔
آپ جس ماحول میں رہتی ہیں وہاں آپ اپنے آپ کو ایسے جرائم کو ہوتے ہوئے دیکھنے سے روک نہیں سکتی ہیں ۔ ایک با عفت مسلمان لڑکی ہونے کے ناتے سے آپ کو ان تمام چیزوں کی طرف توجہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اپنے ذہن سے تمام بے ہودہ خیالات کو جھٹک دینا چاہئے ۔ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ اس سے دعا مانگتے رہنا چاہئے کہ وہ ان تمام گندگیوں سے آپ کو دور رکھے اور آپ کی حفاظت کرے۔
آپ نے جو لڑکے لڑکیوں کے جسم کو مس ہونے کا پوچھا ہے تو یقیناً یہ جنسی کشش کی کشمکش سے مبرا نہیں ہے ۔ جب کبھی لڑکا لڑکی ملتے ہیں تو لڑکے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ لڑکی کے جسم کے مختلف حصوں کو چھوئے ۔ اگر اس نے ایسا کیا تو اپنے دوستوں کی نظروں میں بہادر کہلائے گا اور سرخرو ہو گا وگرنہ دوسری صورت میں بکری ہونے کا خطاب اس کو ملے گا ۔ بسا اوقات لڑکیاں بھی ایسے کسی لمس کی منتظر ہوتی ہیں ۔ گو کہ ایسی بات کا کرنا گناہ کے ارتکاب میں نہیں آتا مگر اس کو روکا نہ گیا تو یقیناً یہ گناہ کی طرف کھینچ کر لے جائے گا ۔ ایسے موقع پر لڑکی کو چاہئے کہ وہ خاموشی سے الگ ہو جائے اور کسی لڑکے کو لفٹ نہ کرائے تاکہ ایک پیغام سب کو مل جائے ۔ تاہم اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ ایسی لڑکی کو کچھ سر پھرے اپنا ٹارگٹ بنا لیں ۔ ایسے میں طاقت ، ہمت اور اللہ کی استعانت ہی بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
اگر آپ حجاب نہیں لیتی ہیں تویہ الگ بات ہے ۔ مگر آپ کا لباس ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہیجان برپا کرے ۔ اپنا خیال خود کریں اور اپنی نسوانی خوبصورتی کا اشتہار نہ پھیلائیں ۔ اپنی حفاظت کے ذرائع استعمال کریں  ۔ اپنے کردار میں پختگی پیدا کریں تاکہ کسی کو آپ کے ساتھ زیادتی کرنے کا خیال بھی نہ آ سکے ۔ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے اعمال درست رکھے جائیں وگرنہ دوسری صورت میں بچنا محال ہے ۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین
محمد عالمگیر ( سڈنی ، آسٹریلیا )
                                                                       

2۔ والدین کی پسند یا  اپنی پسند کی شادی

میرا اس بات پر یقین ہے کہ میرے والدین میرے لیے وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جو میرے حق میں بہتر ہے ۔مگر میرا خیال ہے چند معاملات میں والدین اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ  پابندیوں میں  باندھ دیتے ہیں ۔ میرا آج کا سوال شادی سے متعلق ہے ۔ شادی کے بارے میں لوگ عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں جو میرے حلق سے نیچے نہیں اترتی ہیں ۔ آپ میری رہنمائی کریں کہ کیا ضروری ہے کہ والدین ہی اپنے بچوں کا رشتہ پسند کریں ؟ اگر بچوں کو یہ رشتہ پسند نہ ہو تو بھی وہ یہیں شادی کریں ۔ میری ایک آنٹی نے بتایا کہ محبت تو بعد میں ہوتی ہے مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جس سے محبت نہ ہو اس سے شادی کیوں کی جائے ؟ براہِ مہربانی میری الجھن دور کریں ۔
جواب
اس میں شک نہیں کہ ہمارے گرد بہت سی اچھی چیزیں بکھری ہوئی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں بھانت بھانت قسم  کی برائیاں بھی موجود ہیں ۔ اگر ہم صرف برائی پر ہی نظر رکھیں اور انہیں ڈھونڈھتے رہیں تو وہ ہمیں ہر ایک شخص میں ہر ایک چیز میں ملیں گی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے اپنے اندر بھی اتنی خرابیاں ہیں کہ اگر ہم ان کو ہی تلاش کر کے انہیں دفع کرنے کی کوشش کریں تو ہماری زندگیاں نا کافی ہونگی ۔ بعض اوقات یہ برائیاں یا خرابیاں بڑی واضح ہوتی ہیں مثلاً جلد کی بیماری جو سامنے نظر آتی ہے ، بعض اوقات یہ بیکٹیریا یا جرثومہ کی طرح ہوتی ہیں جو نظر ہی نہیں آتی ہیں مگر تکلیف دہ ہوتی ہیں ، بعض اوقات یہ وائرس کی طرح ہوتی ہیں جن کا پتہ چلانا بڑا مشکل ہوتا ہے اور پھر کبھی کبھی ان کی حالت کینسر کی طرح ہوتی ہے جن کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ان کا علاج بھی نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ ان تمام برائیوں سے نبرد آزما ہونے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے قران مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ ،  کہ ان کے ساتھ جڑے رہنے میں ہی ان کا علاج ہے ۔ ان ہی دونوں سے ہمیں اچھی اور بری چیزوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اگر ہم اپنی زندگی اس کوشش میں صرف کریں کہ اچھی چیزیں جو ملیں انہیں اپناتے چلے جائیں اور برائی کو صاف کرتے جائیں تو جلد ہی ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور ہمارا اپنا آپ چمک اٹھے گا۔
والدین کا اپنے بچوں کے گرد حفاظت کا حصار ، ان  بچوں کے اپنے حق میں ہے ۔ بچوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کی حفاظت  اور نگہبانی کر سکتے ہیں جبکہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم حاصل نہیں ہے ۔ کیا آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ بچوں کو منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے ، نا زیبا جسمانی لمس کی لذتوں میں ، گندی فلموں میں اور ویڈیو میں اور عریاں اشتہارات میں گھسیٹا جا رہا ہے ۔ آج کی دنیا میں بچوں کو بڑوں کی طرح رہنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کو انہی کے گھروں میں ان کے اساتذہ غلط کاموں کا رحجان دلا رہے ہیں ۔ ان حالات میں بچوں کے والدین کیسے کسی پر بھروسہ کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ کے حلقہ احباب اور دوستوں کا علم آپ کے والدین کو بھی رہے تو یہ آپ کے اپنے ہی حق میں بہتر ہوگا ۔ آپ کے والدین اس بات کا بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کے دوستوں ، احباب ، اساتذہ یا رشتہ داروں میں کون آپ کے حق میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔ میں یہ ساری باتیں کسی اندازے کے مطابق نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ میں آپ کو آج کے معاشرہ سے زندہ مثالیں دے سکتا ہوں۔
آئے اب محبت اور شادی کی طرف ۔ ایک تو ہے مثالی محبت جس کے ذریعہ سے ایک خاندان کی بنیاد ڈالی جاتی ہے اور یوں باہمی محبت کے ساتھ نئی نسل کو اخلاقی اور تہذیبی اقدار کی منتقلی ، اور آنے والے وقتوں کی ذمہ داریوں کو ان کے حوالہ کرنے کا ضروری عمل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے ارتقا اور ترقی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایک وہ محبت ہے جو نفس پرستی اور حیوانی و سفلی جذبوں کی تسلی کا نام ہے۔ اس کے علاوہ محبت کی تیسری شکل وہ ہے جو محبت کی شکل میں صرف دھوکہ ہے ۔ اس محبت کا ہدف ہوتا ہے انسان ۔ چونکہ عام طور سے کسی انسان پر براہ راست حملہ مناسب نہیں ہوتا اس لیے محبت کا لبادہ اوڑھ لیا جاتا ہے تاکہ دھوکہ دہی کا عمل آسان ہو جائے ۔ وہ تمام کام جو ویسے جائز نہیں ہیں اس دھوکہ دہی کے جادو کے زیر اثر جائز نظر آنے لگتے ہیں ۔ یوں معاشرہ کو بے وقوف بنایا جاتا ہے مگر دراصل یہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایسے لوگ دن میں تین مرتبہ اپنی محبت تبدیل کرتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ مغربی معاشرہ میں طلاق اس قدر عام ہے ؟ اس کا جواب بالکل آسان ہے ۔ دو لوگ اپنی حیوانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے  مختلف حیلے کر کے ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو دونوں کو ایک دوسرے میں ہزاروں کیڑے نظر آتے ہیں اور نفرتیں بڑھنے لگتی ہیں جو تفریق کا باعث ہوتی ہیں۔
جب کوئی لڑکا اور لڑکی آپس میں محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔ دونوں کے درمیان ایک طبعی رجحان  پہلے سے موجود ہوتا ہے ۔  دونوں ایک دوسرے کو مختلف قسم کے سگنل دے رہے ہوتے ہیں جن میں خوبصورت نظر آنا ، چلنے اور اٹھنے بیٹھنے کا دل لبھانے والا انداز ، باتوں میں دل موہ لینے کا انداز ، آواز میں نغمگی اور اتار چڑھاؤ ، ہاتھوں آنکھوں اور ابرؤں کے ذریعہ اشارے اور پھر  Body language  کے ذریعہ سے ایک دوسرے پر وار کرنے اور ایک دوسرے کو رجھانے کا انداز شامل ہوتا ہے ۔ جب ان تمام اداؤں اور سگنل کو دوسرا فریق  قبول کرے اور پسند کرنے لگے اور عندیہ مل جائے تو دونوں محبت ہو جانے کا اعلان کر دیتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد کہیں اور سے اس سے بھی زیادہ طاقتور سگنل آنے لگے تو بغیر کسی حیل و حجت کے محبت کا قبلہ تبدیل ہو جاتا ہے۔
میں اس سلسلہ میں بہت زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں کیا بتانا چاہ رہا ہوں اور میرا اشارہ کس طرف ہے ۔ موجودہ دور میں عورت اور مرد کے تعلقات کی اصل بنیاد کو اس طرح بھلا دیا گیا ہے کہ مثالی محبت کو حاصل کرنا ہی کار دراز ہو گیا ہے ۔ آپ کو وہ مثالی مرد کہاں ملے گا ۔ آپ اس کو اپنی نظریاتی سانچہ کی حدود میں رکھ کر کیسے جانچیں گی ، وہ کیا معیار ہوگا جس کے تحت آپ اس پر بھروسہ کر سکیں گی ۔ آپ یہ کیسے یقین کریں گی کہ وہ آپ سے وفادار رہے گا  اور آپ کو بیچ منجھدار میں نہیں چھوڑ دیگا ؟ ان سوالات کا جواب جتنا مشکل آپ کے لیے ہے اتنا ہی مشکل آپ کے والدین کے لیے بھی ہے ۔ وہ شائد اس کے خاندان کے متعلق جان کر اس کی شخصیت کا اندازہ قائم کریں گے ۔ لڑکے یا لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اس کا ایک ڈھانچہ بنا کر دیکھیں گے ۔ پھر ان کی تہذیبی اور خاندانی روایات کو مد نظر رکھ کر ایک مناسب رشتہ ڈھونڈھیں گے۔ یہ کارروائی انتہائی کامیاب بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس قدر چھان پھٹک کے بعد والدین ایک اچھے خاندان کا ایک گھٹیا انسان پسند کر لیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی دوسرے بہت سے عوامل ہیں جو فیصلہ کے اوپر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔  سب کچھ ہونے کے بعد بھی غلطی کا امکان یقیناً ہوتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگوں نے ایک ملے جلے انداز کے ذریعہ بھی فیصلہ کیا ہے ۔ یعنی اگر پوری چھان پھٹک اور معلومات حاصل کرنے کے بعد رشتہ مناسب محسوس ہو تو لڑکے اور لڑکی کو آپس میں ملوا دیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھیں اور بات چیت کر کے ایک دوسرے کی شخصیتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنی رائے قائم کریں ۔ اس طرح کی ملاقات میں یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے میں اپنی مطابقت  دیکھ لیں کہ ان کو لگے کہ وہ ایک ساتھ زندگی گزار سکیں گے اور یہ فیصلہ ایک مضبوط رفاقت اور زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے عہد میں تبدیل ہو جائے ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ہوگا ایک مثالی محبت کا آغاز۔
اس موقعہ پر مجھے آپ کی آنٹی کا جملہ کہ محبت تو بعد میں ہوتی ہے اور آپ کا وہ شک یاد آ جاتا ہے جب آپ نے کہا کہ جس سے محبت نہ ہو اس سے شادی کیسے کی جائے ۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ کی آنٹی بالکل درست کہتی ہیں ۔ کیونکہ محبت تو ایک بہتا ہوا دریا ہے لا محدود ہے کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے کہ ایک برتن بھر گیا تو بس اب کافی ہوگیا مزید کی ضرورت نہیں رہ گئی ۔ آپ کسی کی شخصیت میں اس کی ظاہری اور اوپری شکل صورت دیکھ کر متاثر ہو سکتی ہیں اور اس کے سحر میں گرفتار ہو سکتی ہیں مگر اس شخص کے دیگر معاملات تو بعد میں سامنے آئیں گے اور اگر یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ ثابت ہوا تو تو پھر آپ کا نباہ کر لینا دقت طلب تو ہوگا مگر یہ  آپ کی شخصیت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔ دراصل نباہ کا یہی جذبہ دونوں فریقوں کو شادی کے بندھن میں باندھے رکھتا ہے ۔ وہ لوگ جو اس بندھن میں بندھنے سے قبل ہی ایک دوسرے کو اچھی طرح ٹھوک بجا کر دیکھنا چاہتے ہیں وہ صرف خود غرضی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اللہ تبارک و تعالیٰ کے قائم کردہ حدود و قیود کی پابندی اور احترام کوئی معنی نہیں رکھتے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ شادی صرف والدین کے انتخاب کے تحت  ہوگی اور لڑکے یا لڑکی کو کچھ بولنے کی اجازت نہیں ہے یا یہ کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو شادی سے پہلے نہیں دیکھ سکتے ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ لڑکے لڑکی کو آزادانہ  ملنے نہ  دیا جائے ۔ اس لیے کہ بچے اگر کوئی گناہ کر بیٹھیں تو اس کا وبال والدین کے کندھوں پر ہوگا ۔ اسی لیے  ہمارے آقا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جیسے ہی بچے شادی کی عمر کو پہنچیں ان کی شادی کرادو ۔ میں نے پہلے کہا ہے کہ والدین بچوں کا جوڑ ملانے سے پہلے بہت سی باتوں کا اور بہت سے معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ جبکہ لڑکا اور لڑکی صرف ظاہری صورت شکل اور مال و دولت پر ریجھ جائیں گے ۔ خوبصورتی اور بٹوہ یقیناً ایک ضروری چیز ہے مگر کردار خاندان اور سیرت وغیرہ کہیں زیادہ اہم معاملات ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں یہ بات والدین کے لیے کم سوہان روح نہیں ہے کہ ان کی بیٹی ان کے ساتھ تو صرف بیس بائس برس رہی  مگر اپنی عمر کا بقیہ پچاس ساٹھ برس وہ ایک غیر کے ساتھ گزارے گی جو والدین کے ساتھ گزارے ہوئے عرصہ سے تین گنا زیادہ ہے ۔ اس لیے بھی والدین بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرتے ہیں تاکہ ان کی بچی ایسے آدمی کے ساتھ رہے جو اس کے ذہن ، مزاج عقل و خرد اور روحانی بالیدگی کے مطابق ہو۔
 ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ باوجود ان تمام احتیاط اور رد و قدح کے ، ایک عورت خواہ اس کی عمر کچھ بھی ہو ، کسی  بھی عمر کے مرد کے دام الفت میں گرفتار ہو سکتی ہے اور وہ مرد ایک لمحہ کے اندر اپنی ساری اچھائیاں اٹھا کر کھڑکی کے باہر پھینک دے گا اور حیوانی جبلت کی آسودگی کے لیے درندگی پر اتر آئے گا ۔ لڑکیاں عموماً احتیاط کرتی ہیں مگر اب مانع حمل ادویات کی موجودگی کی وجہ سے یہ معاملہ بھی دگرگوں ہوتا جا رہا ہے۔
میں نے اوپر جو کچھ بھی لکھا ہے وہ بہت کھول کر انتہائی تفصیل سے لکھ دیا ہے اس کے باوجود بھی شائد آپ کے ذہن میں کچھ معاملات دھندلے رہ گئے ہوں ۔ آپ میری باتوں سے اتفاق بھی کر سکتی ہیں اور انکار بھی مگر میں امید رکھتا ہوں آپ اس معاملہ میں اپنے والدین اور دوسرے بزرگوں کے خیالات کو بھی ضرور قابل غور سمجھیں ۔ اس کے علاوہ اسلام کے تصور حیا کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کریں اور کوئی بھی سوال آپ کے ذہن میں ہو تو خدارا اس کو اپنے تک محدود نہ رکھیں بلکہ لکھ بھیجیں ۔ میں آپ کے لیے دعاگو ہوں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔  آمین
سوال نمبر 2
میں نے قران مجید کو بھی پڑھا ہے اور گھر میں موجود دیگر اسلامی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے مگر آج مجھے صحیح اندازہ ہوا ہے کہ شادی کس طرح ہونی چاہئے اور یہ بھی کہ والدین کی عزت کیوں کرنی چاہئے ۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میرا خلجان دور کر دیا اور مجھے راستہ دکھا دیا ۔ آپ کی باتوں سے جو میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچے یا  بچی کے لیے ایک رشتہ ڈھونڈھتے ہیں ۔ بچوں کو اپنے بڑوں کی موجودگی میں ہونے والے رشتہ کے امیدوار سے ملنے کی اجازت ہے تاکہ وہ اپنے والدین کی پسند کو اپنی سوچ اور خیالات کے مطابق جانچ سکیں اور اس کی روشنی میں ہاں یا نہیں کہہ سکیں  اور یہ بھی کہ حتمی فیصلہ بچوں کا ہوگا ۔ اگر میں غلط سمجھی ہوں تو مجھے درست کر دیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے یا لڑکی سے بہت گہری دوستی رکھے اور یہ بھی کہ وہ مخالف جنس سے ہو مگر اس دوستی میں جنسی غرض شامل نہ ہو تو یہ دوستی کس حد تک جائز ہے ؟  مجھے امید ہے کہ میرا یہ سوال بہت بے ہودہ نہیں ہے۔
جواب
آج کے دور کا یہ المیہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی باتیں سنیں اور ایک دوسرے کے معاملات پر غور و خوض کر کے ایک دوسرے کی رہنمائی کر سکیں ۔ اسی لیے میں کتابیں پڑھنے پر زور دیتا ہوں کہ اس سے بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ اس راہ پر گام زن ہیں۔
شادی کے بارے میں جو آپ نے سمجھا ہے وہ درست ہے ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ لڑکے لڑکی کی ملاقات بزرگوں کی موجودگی میں کرائی جائے ۔ بلکہ مناسب ہوگا کہ دونوں کو گھر کے کسی مناسب پر سکون گوشہ میں اکیلا چھوڑ دیا جائے جہاں وہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کر سکیں ۔ دوسرا کوئی مخل نہ ہو ۔ بے شک آخری فیصلہ بچوں کا ہی ہوگا تاہم والدین اس فیصلہ تک پہنچنے میں اپنے بچوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ اس طریقہ کار کی خوبی یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے بزرگوں کی عقل سمجھ اور تجربہ سے مکمل استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ چھپ چھپ کر کی گئی محبت ایک ذاتی فعل ہے مگر شادی کی تقریب ایک اجتماعی اور معاشرتی تقریب ہے اور اس میں نہ صرف نو بیاہتا جوڑے کی بلکہ دونوں خاندان کی خوشیاں شامل ہوتی ہیں۔
آپ کا غیر مسلم مخالف جنس سے دوستی سے سوال جو ہے اس کا سیدھا اور بالکل واضح جواب ہے ………….نہیں …………اس پر تفصیلی بحث ہو سکتی ہے ۔ مگر فی الوقت خلاصہ یہ ہے کہ کسی مسلمان لڑکے یا لڑکی کو غیر مسلم لڑکے یا لڑکی سے دوستی کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر مقصد حیوانی جذبوں کی تسکین نہ ہو تو بھی اس کی کوئی حاجت ہے نہ اجازت ۔  آپ دیکھیں کہ فطر ت کا تقاضہ کیا ہے ؟ مقناطیس کے مخالف پول ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں اور یہ کھنچاؤ ہی آگے کے بندھنوں کے لیے راستے ہموار کرتا ہے ۔ چاہے آپ کا جذبہ کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو ، آپ جتنا ایک دوسرے کے قریب ہونگے یہ کشش بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ ایک لمحہ آئے گا جب آپ کا اخلاقی معیار گہنا جائے گا اور بند ٹوٹ جائے گا ۔ شیطان اسی طرح اپنا وار کرتا ہے ۔ اگر ہمارے اخلاقی اقدار مضبوط ہوں تو وہ ہمیں فورا ہی حیا باختہ نہیں کرتا ہے ۔ وہ دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے اور منطق کو درمیان میں لے آتا ہے ۔ ہمیں بآور کراتا ہے کہ ہم تو بڑے مضبوط اخلاق والے لوگ ہیں اور ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں نہ کریں گے اور یوں ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور دوسروں پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بڑے آزاد خیال ہیں ۔ ہماری سوچ میں وہ اس طرح کیمیائی تبدیلی کرتا ہے کہ ہم اس کے زیر اثر اپنے گھمنڈ میں رہتے ہیں اور پھر ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں ۔ بلا تخصیص مذہب ، رنگ و نسل ، پوری دنیا کے نوجوانوں میں ایک دوسرے کے قرب میں بڑی کشش ہوتی ہے ۔ اسی لیے تو  رسول  پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ایک مرد اور ایک عورت تنہا ہوتے ہیں تو ان کے درمیان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا پوری دنیا کا کوئی بھی ماہر نفسیات اس سے بہتر عقلمندی کی بات کر سکتا ہے ؟
میں اس سلسلہ میں زیادہ بحث میں نہیں پڑوں گا اور آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ آپ پردہ کے موضوع پر مولانا مودودی کی کتاب " پردہ " ضرور پڑھیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سیدھا راستہ دکھائے اور اس پر قائم رکھے ۔  آمین ثم آمین

(3) مردوں کی برتری سے متعلق سوال

سوال نمبر 1
ایک مسئلہ ہے جس نے مجھے بڑی شدت سے پریشان کر رکھا ہے ۔ میں نے ایسی اسلامی کتابیں پڑھیں ہیں جو مردوں کی بھی تصنیف شدہ ہیں اور عورتوں کی بھی ۔ لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ مرد لکھنے والوں نے اپنی کتابوں میں جب عورتوں اور مردوں سے متعلق  بحث کی ہے تو اس میں مردوں کی برتری جتانے کی کوشش کی ہے ۔ میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید میں جو کچھ بھی درج ہے وہ حق ہے اور انتہائی منطقی بھی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے ساتھ منصف ہے ، وہ ہم مردوں اور عورتوں سے بہترین کارکردگی چاہتا ہے اور وہ یقیناً مردوں عورتوں کو برابری کی بنیاد پر رکھتا اور پرکھتا ہے ۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ کچھ کتابوں میں لوگ لکھتے ہیں کہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے ؟ میری مدد کریں۔
جواب
 بطور مسلمان ہونے کے ہمارا ایمان ہے کہ جو کچھ قران مجید میں نازل ہوا اور جو احادیث مبارکہ میں درج ہے حق ہے سچ ہے ۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان تمام چیزوں کو پڑھتے ہی فورا سمجھ بھی جائیں ۔ جب آپ یہ کہتی ہیں کہ آپ جانتی ہیں کہ اللہ انصاف کرتا ہے ، قرآن میں جو کچھ درج ہے وہ حق ہے اور ان احکامات میں ایک منطق ہے اور اللہ ہم سے بہترین عمل اور کاکردگی چاہتا ہے تو آپ کا یہ یقین اور ایمان کی یہ حقیقت بڑی قابل اطمینان ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید اور حدیث کے معانی اور مطالب کو ہمارے جیسے فانی انسانوں نے اپنی محدود علمی صلاحیتوں کے ساتھ جس طرح بیان کیا ہے اس میں آپ کو اختلاف ہو اور شک پیدا ہو جائے ۔ ہم لوگ تو بہت چھوٹے اور کم علم لوگ ہیں حقیقت یہ ہے کہ بڑے بڑے علم والے اور محدث آپس میں ایک دوسرے سے کئی معاملات میں متفق نہیں ہیں ۔ ( اس کی وجہ اپنی اپنی سوچ اور سمجھ ہے مگر اس سے قرآن اور احادیث کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا  ،  یہ محض اختلاف فہم ہے ۔ مترجم)
اب میں آپ سے جو کہہ رہا ہوں اس پر توجہ مرکوز کیجئے اور غور کیجئے ۔ پھر آپ کے جو خیالات ہوں وہ مجھے بتائیں ۔ آپ مجھ سے مکمل اختلاف بھی کر سکتی ہیں اور حمایت بھی یا پھر کوئی درمیانی سی کیفیت ہو جائے ۔ مگر میری درخواست ہے کہ آپ جو سمجھیں وہ مجھے ضرور بتائیں ۔ آپ مجھے نہیں بتائیں گی تو میں کیسے سمجھوں گا کہ آپ نے میری بات سمجھ لی ہے ۔ آپ کے رد عمل سے مجھے حوصلہ ہوگا اور میں بہتر طریقہ سے بات کو سمجھا سکوں گا۔
جب آپ یہ کہتی ہیں کہ مرد لکھنے والوں نے مردوں کی برتری کی بڑھا چڑھا کر حمایت کی ہے ۔  شاید آپ مردوں کی برتری کے معاملے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہیں ۔ آئیے  اس لفظ کے معانی کو ذرا غور کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ مردوں کے اندر کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو عورتوں کو نا پسند ہوتی ہیں ۔ اسی طرح عورتوں کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جو مردوں کو ناگوار ہوتی ہیں ۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب مرد عورتوں کی کمزوریوں کی ہنسی اڑاتے ہیں اور تمسخر سے کام لے رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنی مردانگی ظاہر کرتے ہیں ۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ جب عورتیں مردوں کی کمزوریوں کا مذاق اڑائیں تو مرد یہ کہیں کہ عورتیں اپنی صنفی برتری کا پرچار کر رہی ہیں ۔ دراصل اس معاملہ کی اصل میں کسی صنف کی کمزوری یا کسی کی برتری کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ بلکہ دیکھنا یوں چاہئے کہ مرد یا عورت کی جن کمزوریوں کا تذکرہ ہو رہا ہے اس کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ کیا یہ بات سچ اور درست ہے ؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ جو بات ہو رہی ہے وہ صحیح ہے تو خواہ مرد ہوں یا عورتیں ، انہیں اس حقیقت کو مان لینا چاہئے اور حق بھی تو یہی ہے۔
موجودہ دور میں مردوں کے سروں پر بھی اور عورتوں کے سروں پربھی مردوں کی صنفی برتری کا آسیب سوار ہوگیا ہے ۔ اگر کوئی مردکسی عورت کی موجودگی پر اس کی طرف کوئی توجہ نہ دے تو اس پر یہ بات چسپاں کر دی جاتی ہے کہ وہ اپنی جنس کو برتر سمجھتا ہے اس لیے عورت کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ اب اگر اس کے بر خلاف مرد عورت کی موجودگی کا احساس کرے اور اس کو ظاہر بھی کرے تو اس پر یہ لیبل لگتا ہے کہ وہ اپنی جنسی برتری کو ظاہر کر رہا ہے ۔ عورتوں اور مردوں کی برابری کے بارے میں دونوں فریقوں کی طرف سے ایک معاندانہ انداز برقرار رکھا جاتا ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں مختلف ہیں اور ایک جیسے ہو ہی نہیں سکتے ۔ مرد مرد ہے اور عورت عورت ۔ دونوں کو ان کی اپنی جگہوں پر رکھنا چاہئے اور اسی طرح کا برتاؤ بھی ہونا چاہئے اور اس برتاؤ کی اصل حقیقت اس سچ پر مبنی ہے جو دونوں پر برابر لاگو ہوتی ہے اور اسی کو ہم عورت اور مردوں کا ہم پلہ ہونا کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں کو ان کی خصوصیات اور معیار کے برابر حصہ ملنا چاہئے ۔ اگر کسی کو اس کا حصہ نہ دیا جائے تو پھر نا انصافی ہوگی اور برابر کا سلوک نہیں ہوگا۔
جہاں تک مردوں اور عورتوں کے اپنے الگ الگ حقوق ، فر ائض ، ذمہ داریاں  ، رتبہ  اور حیثیت کا تعلق ہے ، یہ سب قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں صاف صاف درج ہیں ۔ وہ جو ان احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اللہ کے احکامات کو توڑ رہا ہے ۔ مردوں کے کرنے کے جو کام ہیں وہ اسی کو کرنے ہیں اور یہ اس کا فرض ہے ۔ اسی طرح جو عورتوں کے کام ہیں وہ ان کے فرائض ہیں ۔ دونوں کو اپنے حقوق اور فرائض تک پہنچ اور اس کی ادائیگی میں برابری کے حقوق حاصل ہیں۔
آئیے ہم اس بات کو ستر پوشی  کی ہدایات کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ ستر لباس کی ان قیود کو کہتے ہیں جن سے جسم کی بناوٹ اور زینت وغیرہ کو چھپانے کا حکم ہے ۔ مردوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کو  کمر سے گھٹنوں تک چھپائیں کہ یہ ہی ان کا ستر ہے ۔ اگر اس کو ایسا کرنے سے روک دیا جائے تو اس کی حق تلفی ہو رہی ہے ۔ عورتوں کا ستر اللہ کے حکم کے مطابق ان کا پورا جسم ہے اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کو مستور رکھیں کیونکہ یہ حق انہیں اللہ نے دیا ہے ۔ اگر ان کو ایسا کرنے سے روک دیا جائے تو یہ ان کی انتہائی حق تلفی ہوگی جس کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے ۔ کوئی بھی یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ چونکہ عورت اور مرد برابر ہیں اس لیے عورت کا ستر مردوں جتنا ہونا چاہئے یا یہ کہ مردوں کا ستر عورتوں جتنا ہو ۔  برابری کا یہ حساب یقیناً غلط ہے۔
یہی وہ منطق ہے جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے ۔ سورة البقرة کی آیت نمبر 228  پڑھیے جہاں اللہ نے فرمایا کہ '' مردوں کو عورتوں کے اوپر ایک درجہ حاصل ہے ۔'' اس کے ساتھ ہی عبد اللہ یوسف علی صاحب کا نوٹ نمبر 255 بھی دیکھ لیجئے ۔ پھر سورة النساء کی آیت نمبر 34 بھی پڑھ کر دیکھیں جہاں درج ہے کہ  ''  مرد عورتوں کے نگہبان  اور محافظ ہیں ۔'' ان آیات کو پڑھنے کے بعد غور کریں اور مجھے بتائیں کہ آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا ؟ خدارا یہ نہ سمجھئے گا کہ مردوں کی برتری کے حق میں ہوں۔  واللہ میں ایسی کسی نا زیبا بات کے رد میں سب سے آگے ہوں۔
سوال نمبر 2
میں ستر سے متعلق سب باتیں جانتی بھی ہوں اور ان کی پاسداری بھی کرتی ہوں ۔ میں جب سڑکوں پر ان لوگوں کو دیکھتی ہوں جو اپنے جسموں کی کھلے عام نمائش کر رہی ہوتی ہیں تو مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان لوگوں کے اندر نہ تو شرم و حیا ہے اور نہ ہی اپنی عزت کا پاس ہے نہ خودداری کا کوئی شائبہ بھی ان  کے اندر موجود ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ مردوں اور عورتوں کے جسموں کی بناوٹ میں فرق ہے اس لیے ہمیں اپنے جسموں کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ چھپانا چاہئے ۔ جب میں نے مردوں کی برتری کی بات کی تو میرا یہ مقصد نہیں تھا بلکہ میں جاننا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہے کہ مردوں کو تو ہر جگہ جانے آنے کی آزادی ہے ، وہ جو پیشہ چاہے اختیار کرلے جب کہ عورت کے لیے یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ گھر میں قید رہے اور مرد کے لیے کھانا بنائے ؟ مجھے یہ بتائیے کہ ہم عورتوں کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے ۔ میں نے سورة النساء  ،  سورة نور اور سورة البقرة پڑھی ہے اور مجھے ان میں ایسی کوئی بات نہیں ملی ۔ میں جانتی ہوں کہ عورتوں کو نائٹ کلبوں میں  نہیں جانا چاہئے یا کسی سنسان اندھیری جگہوں پر بھی اکیلے نہیں گذرنا چاہئے اس لیے کہ ان تمام باتوں میں ایک منطق ہے اور یہ باتیں قابل قبول ہیں ۔ میں شاید اپنی بات صحیح طریقہ سے آپ تک پہنچا نہیں سکی ۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ عورتوں پر ان کاموں کے کرنے پر کیوں پابندی ہے  جو مرد آزادانہ کر  سکتے ہیں جبکہ ہم دونوں نہ صرف یہ کہ برابر ہیں بلکہ ہمارے حقوق بھی ایک جیسے ہیں اور ہم دونوں کو اپنا اچھا برا سمجھنے کی عقل بھی ہے اور تمیز بھی ؟
جواب
شاید آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو کہ میں مردوں کی صنفی برتری کے بارے میں باتیں کرتا ہوا کہیں بہت دور چلا گیا ہوں ۔ مگر ایک مرتبہ پھر غور کریں کہ میں دراصل برابری کے تصور کی اصل روح کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ جہاں میں نے یہ کہا کہ مردوں کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض تو اسی طرح عورتوں کے حقوق اور فرائض بھی متعین ہیں ۔ مگر ان دونوں کے حقوق اور فرائض ایک جیسے نہیں ہیں اور ایک کے بالمقابل ایک نہیں ہے ۔ مگر دونوں فریق اپنے اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی اور ان کی پابندی کرنے کے مکلف ہیں اور اس میں وہ برابر ہیں ۔ اب یہاں تک آنے کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ایک عورت کو ایک مرد میں اور ایک مرد کو ایک عورت میں کیا خوبیاں درکار ہوتی ہیں ۔ مرد کے نزدیک عورت کی ذہانت اس کی خوبصورتی میں ہے جبکہ عورتوں کے سامنے مردوں کی خوبصورتی ان کی ذہانت ہے ۔ خوبصورتی اور ذہانت دونوں بڑے اعلیٰ قسم کے ظرف ہیں مگر مرد عورت کی ذہانت کو اس کی قابل قبول خوبصورتی اور اس کے معزز  و مضبوط کردارکی روشنی میں دیکھتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف صنفی برتری کا مدعا یہ ہے کہ جو حقوق ایک فریق کے بنتے ہیں وہ اسے دئیے جائیں۔ اس طرح برتری کی یہ کشاکش عورت کی طرف سے بھی چل رہی ہوتی ہے تو مردوں کی طرف سے بھی جاری رہتی ہے ۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کہ آج کل خواتین کی جنسی برتری کا چرچا ہر طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہماری مسلم سوسائٹی اس سے مبرا نہیں ہے۔
جب میں نے  آپ کی توجہ ان دو آیات کی طرف مبذول کرائی تھی کہ '' مردوں کو عورتوں کے اوپر فضیلت ہے ''  اور یہ کہ  '' مرد عورتوں کے نگہبان ہیں '' تو میں ان دونوں احکامات کی اصل روح کی طرف اشارہ کر رہا  تھا جس کی رو سے مردوں اور عورتوں کے راستے مدون کیے گئے ہیں ۔ اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ عورتیں عقل و سمجھ میں مردوں سے کم تر ہیں ۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو بار بار یہ کہہ  رہا ہے کہ اپنی عقلیں استعمال کرو اور علم حاصل کرو تاکہ اپنے فرائض تن دہی اور درستگی سے ادا کر سکو ۔ اگر عورت کے ذمہ بچے کی پیدائش اور اس کی نگہداشت کی ذمہ داری ڈالی گئی تو اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کام کی حیثیت مردوں کے  ذمہ جو کام ہیں ان سے کم تر ہے ۔ مرد  روٹی کما کر لانے ،  گھر کی حفاظت کرنے اور اس کی ذمہ داری اٹھانے کا مکلف ہے ۔ فطری طور پر مردوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکتے ہیں اس لیے باہر جاتے ہیں ، کھیل کود اور شکار کی تفریح میں حصہ لیتے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ بچوں کی پرورش اور گھر کے انتظام و انصرام کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عورتیں بے چاری یکہ و تنہا چھوڑ دی گئی ہیں تو غلط ہوگا  بلکہ یوں ہے کہ جب عورتیں بچوں کی پرورش کے ساتھ گھر کی دیکھ بھال اس کی صفائی ستھرائی ، کھانے پکانے کی ذمہ داری اٹھا لیتی ہیں تو وہ مردوں کو اس بار سے سبکدوش کر دیتی ہیں تاکہ مرد معاشرے کی بہتری ، اور اپنے گھر والوں کے لیے رزق ، آرام و آسائش کی سہولیات کے مہیا کرنے کے لیے زیادہ تن دہی  سے مشغول ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہے ۔ اس نے ہر طرح کے قوانین بنائے ہوئے ہیں ۔ رب کائنات کے تخلیق کیے ہوئے لوگوں کے لیے قوانین بھی رب کائنات کے بنائے ہوئے ہی چلیں گے ۔ اس کے قوانین میں ردو بدل اس کی کائنات کے کل نظام کو تہہ و بالا کر دیں گے ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ مردوں کو عورتوں پر کوئی برتری نہیں ہے تو ہم قانون فطرت کے خلاف جائیں گے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ عورتوں کو مردوں کی حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ اپنا خیال خود رکھ سکتی ہیں تو یقیناً مصیبت کو آواز دی جا رہی ہے ۔ آج کل خواتین اکیلی گھروں سے نکل رہی ہیں ، اکیلے ہی سفر بھی کر رہی ہیں ، نائٹ کلبوں اور تفریح گاہوں میں بھی جا رہی ہیں ، اکیلے اکیلے ہی رات گئے گھروں کو واپس آ رہی ہیں ۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی ان تمام باتوں کی قیمت بھی ادا کر رہی ہیں۔ وہ بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں اور ان کے بل پر اچھی نوکریاں اور اعلی عہدوں پر بھی فائض ہو رہی ہیں مگر اس کے بدلے میں پر سکون اور رفاقت بھری محبت اور لطافت سے بھی ہاتھ دھو رہی ہیں ۔ میں بذات خود ایسی بہت سی خواتین کو جانتا ہوں جو کارپوریٹ کمپنیوں میں بہت اچھا کام کر رہی ہیں ۔ خود بھی قابل ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان سے اوپر کوئی نہ ہو وہ خود ہی اپنی باس ہوں ۔ نتیجہ کے طور پر وہ بالکل یکہ و تنہا ہو کر رہ گئی ہیں ۔ وہ تنہا ہی رہتی ہیں اور نتیجہ کے طور پر گھریلو زندگی سے انہیں نفرت اور الجھن ہوتی ہے ۔ مردوں کے ساتھ افیرز میں مبتلا ہیں اور یہی ان کی زندگی کا محور ہے ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا اس طرح کی زندگی اختیار کر کے انہوں نے اس طرز زندگی کا لبادہ تار تار نہیں کر دیا جس کا تانا بانا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھوں بنایا تھا ۔ میں ترقی یافتہ معاشرہ کے اس گھناؤنے طرز زندگی کے بارے میں مزید کچھ نہیں بولنا چاہتا ۔
مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اختیار اور درجہ مردوں کو عطا کیا تھا انہوں نے ان اختیارات کو غلط استعمال کرتے ہوئے گزشتہ صدیوں میں عورتوں کے بہت سے حقوق پامال کیے ہیں اور انہیں حسرت و یاس کا نمونہ بنا دیا ہے ۔ عورتوں کا حق ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور انہیں مزید جلا بخشے ، معاشرے کی بھلائی کے لیے کام کرے ۔ ڈاکٹر بنے ، استانی بنے ، سیاست میں حصہ لے مگر ان سب کاموں کو کرتے ہوئے ماں ہونے کے عظیم کام کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے رکھے۔ بلکہ اس ذمہ داری سے پہلے سبکدوش ہو جائے ۔ مگر یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے اسے یہ روا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود و قیود کو پھلانگ جائے ، حجاب کی پابندی نہ کرے ، یا اپنے آپ کو  Sex Symbol  بنا کر پیش کرے اور اپنے آپ کو اس عظیم مقام سے نیچے گرا دے جہاں اللہ نے اسے بٹھایا ہے ۔ اگر پچھلی اقوام کی تباہی و بربادی کے عوامل کو بغور دیکھیں تو اس قسم کے کاموں کے کافی شواہد آپ کو ان کی تاریخ میں نظر آئیں گے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین نے  انہی ربانی اصولوں کی پابندی کی ۔ حجاب  کو اپنایا اور اپنی ستر پوشی کی ، مردوں کے اندر موجود حیوانیت  کو قابو میں کیا اور ان سے خوب خوب عزت کمائی ۔ انہوں نے قومی سطح پر بھی خدمات سر انجام دیں ، تعلیم صحت اور معاشرے کی بہتری کے دیگر معاملات میں سرگرم حصہ لیا  اور معاشرے میں اپنی برتری ثابت کی مگر اس صنفی اور جنسی برتری کے بل بوتے پر نہیں جس کا آج کل چہار دانگ عالم میں چرچا ہے ۔ انہوں نے مردوں کے دل بہلانے کا کام نہیں کیا بلکہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر ابتلا اور مصیبتوں کا مقابلہ کیا اور برابری کی بنیاد پر اپنے تمام فرائض سر انجام دئیے۔

(4) مغربی معاشرے میں مسلم والدین کا روّیہ

سوال نمبر 1
یہاں مغربی معاشرہ میں رہتے ہوئے مجھے اپنے بڑوں اور بزرگوں کی طرز زندگی بڑی عجیب لگتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اسلامی اقدار کے ساتھ منافقانہ برتاؤ کرتے ہیں۔ کیا مجھے ان کا یہ انداز اپنانا چاہئے ؟
جواب
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے وہ بچے جو مغربی معاشرہ میں پرورش پا رہے ہیں ، انہیں اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کا گنوار پن شدید نا پسند ہوتا ہے ۔ میں ان کی اس نا پسندیدگی کو قبول کرتا ہوں مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا معاشرہ ایک زوال پذیر معاشرہ ہے جہاں جھوٹی آن بان اور شان کے سہارے ہم وقت گزار رہے ہیں ۔ ہم نے خود تو کچھ حاصل کیا نہیں ہے مگر چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری خواہ مخواہ کی تعریف کرتے رہیں ۔ ہمارے دلوں میں جو روگ لگا ہوا ہے یہ  اس کی وجہ سے ہے ۔ ہم جب کسی سے ملتے ہیں تو ہم سب سے پہلے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری عزت کرنی شروع کر دے یہ ہماری بیماری ہے ۔ اس بیماری کے پس منظر میں اگر ہمارے بچے ہمیں چھوڑ کر الگ ہونا چاہیں گے تو ہم نہ تو ان کو روک سکیں گے اور نہ ہی پھر ہمارا کوئی علاج  کرنے والا ہوگا ۔ وہ چلے گئے تو ہماری اس الٹی سوچ اور الٹی منطق کے روگ کو کون ٹھیک کرے گا ؟ کیا ہمیں چھوڑ دینے کے بعد ہمارے بچے اس خونی اور جذباتی رشتہ سے پیچھا چھڑا لیں گے جو ہمارے درمیان ہے ۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے بچے  ہمارے ساتھ رہتے ہوئے خود بھی ان بیماریوں کے جراثیم سے محفوظ  نہیں رہے ہیں بلکہ اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور قبول کیا ہے ۔ تو کوئی ان سے پوچھے کہ ان جراثیم کی موجودگی میں بھلا انہیں  ان کے والدین کے علاوہ اور کون قبول کرے گا ؟ کون ان سے محبت کرے گا اور کون ان کے لیے قربانی دینے کو تیار ہوگا ؟
اپنی غلطیوں کا ادراک کرنا اور ان پر تنقید کرنا ایک اچھی بات ہے مگر ان غلطیوں کے علم میں آ جانے کے بعد ان کو ٹھیک کرنے کی بجائے اپنا رخ موڑ کر دوسری سمت میں چل پڑنا دانشمندی تو نہیں ہوگی ۔ بلکہ یہ تو وقت کا ضیاع ہے ۔ آخر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جب آپ نے زندگی کا رخ بدل لیا تو اب آپ کی تمام عادات اور معاشرتی آداب درست سمت میں گامزن ہو جائیں گی ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے رویوں میں بڑا تناقض ہے ۔ ہم کسی سڑک پر سے گذرنے والے آدمی کی بجائے  اپنے ہی بھائیوں اور عزیزوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں ، ان کے ساتھ گالم گلوچ کر رہے ہوتے ہیں ، ان کو دھوکہ بھی دیتے ہیں اور بسا اوقات ان کی جان بھی لے لیتے ہیں ۔ مگر ان سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری مشکل میں  سڑک پر سے گذرنے والا کوئی شخص ہمارے کام نہیں آتا بلکہ وہ ہمارے ہی عزیز و رشتہ دار ہیں جو غم خواری کرتے ہیں اور ہمارا سہارا بنتے ہیں ۔
آج کا مسلم معاشرہ بہت بگڑ گیا ہے مگر یاد رکھیں کہ یہ جیسا بھی ہے آپ کا اپنا معاشرہ ہے ۔ دنیا کا کوئی دوسرا معاشرہ آپ کو بطور مسلمان کے قبول نہیں کرے گا ۔ اگر ہم اس سے دور بھی بھاگیں گے تو لا محالہ ہمیں واپس اسی میں آنا پڑے گا ۔ اس لیے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مسلمان پلیٹ فارم پر ہی ڈٹے رہیں اور اس کی بہتری کے لیے سنجیدگی سے غور کریں اور اپنے تن من دھن سے اس کی درستگی کی کوشش کریں ۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس معاشرہ کا حصہ بنایا ہے تو یقیناً اس میں کوئی مصلحت ہوگی اور اسی میں ہماری بہتری ہوگی ۔ اس سے فرار ہوکر ہم کہیں نہیں جا سکتے ۔ اگر ہم بھاگیں گے تو اپنی پہچان بھی کھو بیٹھیں گے اور پھر وہ ہوگا جو کسی نے کہا ہے کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔
سوال نمبر 2
میرا ایک مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اپنے مسلمان لوگوں کی حرکتوں پر بہت غصہ آتا ہے ۔ خصوصی طور پر مسلمان خواتین کی بے جا گپ شپ اور افواہوں بھرے معاملات میں زور و شور سے حصہ لینا مجھے نا پسند ہے اور میں کوشش کرتی ہوں کہ ان سے دور رہوں ۔ یہ سب عجیب و غریب رسوم مجھ سے ہضم نہیں ہوتی ہیں تو میں کیا کروں ؟
جواب
حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے یہ صرف ہماری مسلمان خواتین سے ہی منسوب نہیں ہے بلکہ بغور دیکھیں تو اس کے تانے آپ کو ملکہ برطانیہ کے محل سے لے کر سڑک پر بھیک مانگتی ہوئی ایک عام بھکارن تک میں ملیں گے اور پھر عورتیں کیا  ، مرد بھی اس بیماری میں اتنی ہی شدت سے مبتلا ہیں ۔ اس میں فرق درجے کا ہو سکتا ہے ، قسم کا نہیں ۔ میں نے آج تک کوئی مغربی عورت نہیں دیکھی جو دوسروں کی شکایت نہ کرتی ہو یا دوسری خواتین کی چغلی نہ کھاتی ہو یا ان کی بدگوئی نہ کرتی ہو ۔ بس فرق یہ ہے کہ مغربی لوگ چونکہ زیادہ مہذب ہیں اس لیے ان باتوں کا رنگ ڈھنگ ذرا مہذبانہ ہوتا ہے ۔ مغرب میں بھی ہر وقت ہر شخص دوسرے کے پھٹے میں ٹانگ گھسیڑنے کو تیار بیٹھا ہوا ہے ۔ ان مہذب خواتین اور دوسری خواتین میں فرق صرف یہ ہے کہ مغربی خواتین کو اپنی برتری کا کچھ ضرورت سے زیادہ احساس ہے ۔ اللہ نے ان کو جو آسائشیں دے رکھی ہیں وہ ان پر اپنی اجارہ داری سمجھتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے معاشرہ سے محبت نہیں نفرت کرنا سیکھا ہے ۔ اس کو چھیننے جھپٹنے اور لوٹنے کے فن میں مہارت حاصل ہے ۔ بغیر ذاتی مفاد کے قربانی ، انکساری اور شائستگی و ہمدردی کے جذبات اس کے پاس بہت کم ہیں ۔  
سوال نمبر 3
ایک اور معاملہ ہے جس پر مجھے آپ کی مدد اور رہنمائی چاہئے اور وہ مسئلہ ہے عزت  کرنے کا ۔  میں نے کئی گھروں میں دیکھا ہے کہ ان کے مرد اپنی بیویوں اور بچوں کو ذرا سا بھی عزت دینے کو تیار نہیں ہیں مگر اپنے لیے بے انتہا عزت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔
مجھے معلوم ہے کہ بطور ایک مسلمان ہونے کے ہمیں اپنے والدین کی عزت کرنی چاہئے ۔ مگر اکثر اوقات وہ ہمیں حکم پہ حکم دئیے چلے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ابرو کے اشاروں پر چلیں مگر وہ ہمیں ذرا سی بھی اہمیت نہ دیں اور ہماری خواہشات کا احترام نہ کریں ۔ ہم بچوں کو ان سے کوئی لمبی چوڑی فرمائش نہیں ہوتی بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے لیے اگر کچھ کریں تو وہ کم از کم شکریہ کا لفظ ہی کہہ دیں یا ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کو قبول کرلیں ۔ مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا اور خصوصی طور پر والد صاحب کی طرف سے ایسا بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ میں یہ چاہتی ہوں کہ ہمارے والدین ہمارے مشکور رہیں ۔ مگر یہ ضرور چاہتی ہوں کہ جب ہم ان کا کوئی کام کریں ، ان کے لیے چائے کافی بنا کر لائیں یا ان کے جوتے پالش کر دیں تو وہ ہماری اس خدمت کو  محسوس کریں اور ایسے ہماری ہمت بندھائیں کہ ہم ان کے کام کرنے اور خدمت کرنے میں خوشی اور فخر محسوس کریں اور یہ سلسلہ چلتا رہے ۔ کیا میں غلط سوچ رہی ہوں ؟
جواب
ناز برداری کرنا اور ہنسی مذاق ایک اچھی چیز ہے کیونکہ اس سے انسانی ذہن کے ارتقا میں مدد ملتی ہے اور اس سلسلہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی ہیں ۔ ایک غیر مسلم تصویریں بنانے والا جب تصویر بناتا ہے تو جو کچھ اس نے دیکھا ہوتا ہے اس کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ایک مسلمان آرٹسٹ وہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو اصل میں نظر آنا چاہئے یعنی سچ اور حقیقت ۔ اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک غیر مسلم اپنی بساط بھر کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو دوسروں کی نظروں میں جاذب بنائے اور اس کا فلسفہ اور نظریہ مان لیا جائے ۔ مگر ایک مسلمان اپنی ساری زندگی اس بات کے لیے صرف کر دیتا ہے کہ اس کی زندگی میں سچ اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ روشن ہو جائے ۔ یہ سمجھ لیں کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سچ کو پا لیا ہے اور اس پر حاوی ہو چکے ہیں وہ بڑی خام خیالی میں مبتلا ہیں ۔ ان کی زندگیاں ٹھہرے ہوئے پانی کے جوہڑ کی طرح ہو جائیں گی اور وہ کھائے ہوئے بھوسے میں تبدیل ہو جائیں گے۔

اتفاق یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کا بھی یہی حال ہے ۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کرو اور یہ کرو تو وہ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے مگر وہ خود یہ بھول بیٹھے ہیں کہ کام کیسے کرنا چاہئے ۔ ان کی زندگیوں میں توازن کا فقدان پیدا ہو گیا ہے ۔  وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ وہ بھی بچے تھے اور اتنا ہی بغاوت سے بھر پور تھے اور اپنے بڑوں اور والدین کو اس وقت انہوں نے بڑی اذیتیں دی تھیں اور ان کو بڑا دکھ پہنچایا تھا ۔ وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ آج کے نوجوان کو ان کی جوانی کے دنوں سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے ۔ اس لیے والدین کی جانب سے اس بات کے احساس کا عندیہ اور بچوں کے لیے شفقت اور پیار بھری عزت کا رویہ اس وقت کی بڑی ضرورت ہے جو بچوں کی شخصیت کے بنانے اور ان میں بڑوں کی محبت پیدا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے