جمعرات، 22 مئی، 2014

یہودی کون ہے ؟ کیا ہے ؟

شعبان المعظم، رمضان المبارک 1434ھ/ جون، جولائ، اگست 2013، شمارہ  15، 16اور 17
یہودی کون ہے ؟ کیا ہے ؟
جناب عنایت اللہ


مقام محمدی ﷺ

شوال 1434ھ/  اگست ، ستمبر2013، شمارہ  17

مقام محمدی

پروفیسر یوسف سلیم چشتی




بشریٰ

Contents in uni-code are included at the bottom of the article. To download PDF, pls click the link at the bottom.

بشریٰ

علامہ سید سلیمان ندوی


علامہ سید سلیمان ندوی کے اثر خامہ سے “بشری “کے زیر عنوان یہ مضمون پہلے پہل جولائی ١٩٢٣ء میں ماہنامہ ''معارف “اعظم گڑھ میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کی اہمیت کے پیش نظر فاضل مضمون نگار کی نظرثانی و تصحیح کے بعد یہ مستقل کتابی صورت میں مطبع محمدی علی گڑھ سے ١٩٢٤ء میں شائع ہوا۔ قارئینِ الواقعة کی ضیافتِ علمی کے لیے اس مضمون کی طباعتِ نو کی جا رہی ہے ۔ ( ادارہ)

پیغام امن

اسلام دنیا میں خدا کا آخری پیغام ہے ، وہ دنیا میں مذہب کی تکمیل ہے، وہ اپنے پیغمبر کے الفاظ میں دین الٰہی کی عمارت کا آخری پتھر ہے، وہ فطرت ہے ، اور فطرت کے مطابق ہے ، وہ دنیا میں اس وقت صلح و امن کا جھنڈا اڑاتا آیا ، جب دنیا خاک و خون میں لتھڑی ہو ئی تھی ، وہ اس خدا کا منادی ہے ، جورحم مجسم ، نیکی محض ، خیر کل اور امن وامان ہے ، وہ ظلم و ستم ، بے اطمینانی و اضطراب ، شک و شبہ کے طوفانوں سے بھاگ کر مامن و ماویٰ کے طلبگاروں کو ایک ہی پناہ کی جگہ بناتا ہے ۔
فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰھ ) ( ٥١: ٥٠)
“ہر طرف سے بھاگ کر اللہ کی طرف جاؤ ۔''

مخالفین کی نکتہ چینی

اس حقیقت کے با وجود یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ مسیحی مبلغین اور یو رپین مستشرقین نہا یت فخرو غرور اور طعن و طنز کے ساتھ اسلا م پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے خدا کا جو تخیل اپنے پیروؤں کے سامنے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک جبار ، قہار ، پر غضب ، صاحب جلال شاہنشاہ ہے جس سے ہمیشہ بندو ں کو ڈرتے اور کانپتے رہنا چاہیے اور اسی تخیل کا اثر اسلام کے تمام احکام میں نمایاں ہیں ، بر خلاف اس کے عیسائی مذہب اس کو محبت ، پیار ، رحمت اور شفقت کے پیکر میں جلوہ گر کر تا ہے ، اور اسی لیے اس کو ''باپ “کے نام سے پکارتا ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کی نصیحتوں میں نر می ، اور رحم وکرم کا جذبہ غالب ہے۔



مستشرقین اسی اعتراض کو اسی صورت میں پیش کرتے ہیں کہ چو نکہ اسلام ایک جنگجو مذہب ہے اس لیے اس کے تخیل میں خدا کی جباری و قہاری اور غیظ و غضب کا تصور سب سے زیادہ ہے ، اور اسلام کی یہی کمی تھی جس کو تصوف نے آکر پو را کیا ، اور بجائے اس کے کہ فقہا کی طرح خدا کی اطاعت کا مبنیٰ خشیتہ اور خوف الہیٰ کو قرار دیا جائے ، انہوں نے خدا کے عشق و محبت کو قرار دیا ۔

دعوت عمل

نا آشنایان اسلام کو ، اسلام کے متعلق بحث و کاوش کرتے ہو ئے یہ نکتہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وہ محض تخیلی اور خیال آرا مذہب نہیں ہے بلکہ وہ اس عملی دنیا کا عملی مذہب ہے ، دنیا میں کروڑوں انسان ہیں ، ہر انسان کے پیچھے ہزاروں کام ہیں ، اور انسان کے ہر کا م کا تعلق دوسرے انسان سے ہے ، ان دو نوں انسانوں میں کو ئی باہمی تعلق ایسا ہو نا چا ہیے جو ایک کو دوسرے سے پیوستہ کر دے ، ایک کو دوسرے کی طرف جھکا دے ، اور ایک کا رشتہ دوسرے کے ساتھ جوڑ دے ، اس تعلق، اس پیوستگی اور اس رشتہ کو جو چیز پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے ، وہ محبت اور خوف کا جذبہ ہے ، اسی کی تعبیر دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ نفع کی طرف رغبت اور ضرر سے نفرت کا جذبہ ہے ۔

امید و بیم

غرض انسان کی تمام تحریکات کا سر بنیاد ، محبت و خوف ، رغبت نفع ، اور نفرت ضرر ہے ، خدا اور اس کے صفات کے متعلق انسان کے جو خیالات اور تصورات ہیں وہ بھی اسی اصول کے ماتحت ہیں ، وحشی اقوام کے مذہبی خیالات پر غور کرو تو معلوم ہو گا کہ وہ فطرت کے مناظر اور موجودات کی پرستش اسی اصول کے مطابق کرتے ہیں ، بعض چیزوں سے وہ ڈرتے ہیں ، تو وہ ان کی پو جا کرتے ہیں ، کہ ان کے ضرر سے محفوظ رہیں ، بعض دوسری اشیاء کے لطف و کرم کے متوقع ہو تے ہیں کہ وہ ان کے منافع سے بہر ہ اندوز ہو سکیں ۔اب عام انسانی معاملات ، اور کاروبار پر غور کرو کہ انسان کی موجودہ فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ دنیا کا یہ نظام، صرف محبت اور رغبت کے جذبات سے چل سکے ؟ اگر ایک دن بھی ، دنیا کے بازاروں ، سلطنتوں کے دفاتر اور قوموں اور جماعتوں کی مجلسوں اور سوسائیٹیوں میں تنہا اس پر عمل ہو ، تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے ، اور اطاعت و فر مانبرداری جس پر تنظیم اور ضابطہ داری (ڈسپلن) کا دارومدار ہے ، خاتمہ ہو جائے ، اسی طرح اگر صرف نفرت و عداوت اور خوف و خشیتہ تمام تر عالم کے کا روبار میں دخیل ہو جائے تو یہ دنیا جہنم کا طبقہ بن جائے ، اور دلوں کی شگفتگی اور انبساط جو ہماری سرگرمیوں اور دلوں کا مایۂ حیات ہے دفعتہ فنا ہو جائے ، اس لیے دنیا کے نظام ان دو گونہ جذبات کے بغیر کبھی قائم نہیں رہ سکتے ، اور انسان اپنے ہر عمل میں ان دو نوں کے سہارے کا محتاج ہے ۔

ملل قدیمہ

اسلام سے پہلے جو آسمانی مذاہب قائم تھے ان میں افراط و تفریط پیدا ہو گئی تھی ، اور صراط مسقیم سے وہ تمام تر ہٹ گئے تھے ، یہودی مذہب کی بنا سر تا پا خوف ، خشیت اور سخت گیری پر تھی ، اس کا خدا “فو جوں کا سپہ سالار “اور باپ کا بدلہ پشتہا پشت تک بیٹوں سے لینے والا تھا ، یہودیت کی صحیفوں میں خدا کے رحم و کرم اور محبت و شفقت کا ذکر شاذ و نادر کہیں نظر آئے گا ، اس کے بر عکس عیسائیت تمام تر خدا کے رحم و کرم اور محبت و شفقت کے تذکروں سے معمور ہے ، اس کے “اکلوتے بیٹے کا باپ “تمام انسانوں کا باپ ہے ، وہ اپنے ''فر زندوں “کے جرم و خطا سے غضب نا ک نہیں ، بلکہ پشیمان اور متاسف ہو تا ہے ۔

حقیقت اسلام

اس افراط اور تفریط کا نتیجہ یہ ہے کہ یہودیت ایک خشک اور بے لذت مذہب بن گیا ، اور عیسائیت اس قدر تر ہے کہ تر دامنی اس کے نزدیک عیب نہیں ، ایک گنہگار عورت کو یہودیت سنگسار کر نے کا حکم دیتی ہے لیکن عیسائیت صرف اسی قدر کہتی ہے کہ “جو گنہگار نہ ہو وہ اس عورت کو پتھر مارے ، اور اے عورت ! جا ، پھر ایسا نہ کر نا “اسلام تفصیل کرتا ہے ، مجبور و مجنون و مد ہوش وغیرہ مستثنیٰ ہیں ، بے شوہر عورت اور بن بیوی کے مرد کو کوڑے ما رے جائیں ، شوہر والی عورت اور بیوی والا مرد سنگسار ہو گا ، یہودی مذہب کسی باز پرس کے بغیر ہر حال میں مرد کو طلاق کی اجازت دیتا ہے ۔ ملت عیسوی ، کسی حال میں طلاق کا فتویٰ جاری نہیں کرتی ، اسلام اس کے متعلق تفصیلی احکام رکھتا ہے غرض یہی حال اسلام کا تمام دیگر مسائل میں ہے کہ وہ عیسائیت اور یہودیت کے در میان ہمیشہ بیچ کی راہ اختیار کر تا ہے ،اور یہی اسلام کی بڑی فضیلت ہے ۔ قرآن کہتا ہے:
( وَ کَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ  ) (٢: ١٤٣)
“اس طرح اے مسلمانو ! ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا یا کہ لو گوں پر گواہ رہو ۔''
یہی حال اعتقادیات کا ہے ، وہ نہ تو خدا کو محض جبار ، قہار ، رب الافواج اور صرف بنی اسرائیل یا نبی اسمعٰیل کا خدا مانتا ہے ، اور نہ اس کو مجسم انسان ، انسا نوں کا باپ ، یا محمد کا باپ سمجھتا ہے ، اور تنہا رحم و کرم اور محبت و شفقت کے صفات سے متصف کر تا ہے ، وہ خدا کی نسبت یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر قاہر بھی ہے ، اور رحمن و کریم بھی ہے ، وہ منتقم اور شدید العقاب بھی ہے، اور غفور و حیم بھی ہے، وہ اپنے بندوں کو سزا بھی دیتا ہے ، اور پیار بھی کر تا ہے ، بگاڑتا بھی ہے ، اور نوازتا بھی ہے ، نفع اور نقصان دونوں اسی کے ہاتھ میں ہے ، اس سے ڈرنا بھی چاہیے اور اس سے محبت بھی کر نی چاہیے ۔
( ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَ خُفْیَةً ِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَ لاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ ِصْلاَحِہَا وَ ادْعُوہُ خَوْفاً وَ طَمَعاً ِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْب مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ) (٧: ٥٥- ٥٦)
“لوگو ! اپنے پروردگار کو گڑ گڑا کر چپکے چپکے پکارا کرو ، وہ حد سے بڑھ جانے والوں کو پیار نہیں کرتا اور زمین میں اس کی درستی کے بعد فساد نہ پھیلاؤ اور اس کو (اس کے عذاب سے ڈرتے ہو ئے اور اس کے فضل و کرم کی ) لو لگاتے ہو ئے پکارا کرو ۔''
اس سے زیادہ لطف یہ ہے کہ اسلام خدا سے لوگوں کو ڈراتا ہے ، مگر اس کو جبار اور قہار کہہ کر نہیں ، بلکہ مہربان اور رحیم کہہ کر ، خدا کے سعید بندوں کی صفت یہ ہے کہ :
( وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ) ( یٰس)
''اور رحم کر نے والے سے بن دیکھے ڈرا۔''
( مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ) ( ق)
''جو رحم کر نے والے سے بن دیکھے ڈرا ۔''
نہ صرف انسان بلکہ کائنات کی تمام زبانیں اس کے سامنے گنگ ہیں :
( وَ خَشِعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ ) ( طہ)
“اور رحم کر نے والے کے ادب سے تمام آوازیں پست ہو گئیں۔''
انچہ خوباں ہمہ دار ند تو تنہا داری
کسی حسین اور محبوب چیز کی نسبت ، اگر اس کے عاشقوں اور محبت کرنے والوں سے پو چھا جائے کہ اس کی کو ن سی ادا تم کو پسند آئی ، اس کے کس حصہ میں تم کو حسن و جمال کا مظہر نظر آتا ہے۔ اس کے کس حسن و خوبی نے تم کو فر یفتہ کیا ہے؟ تو یقینا پو ری جماعت کا ایک ہی جواب نہ ہو گا ، کو ئی کسی حصہ کا نام لے گا ، کو ئی کسی ادا کی تعریف کرے گا ، کوئی کسی خوبی کا اپنے کو شیدا بنائے گا ، اسی طرح دنیا میں جو پیغمبر آئے وہ کئی قسم کے تھے ،ایک وہ جن کی آنکھوں کے سامنے خدا کے صرف جلال و کبریائی کا جلوہ تھا ، اور اس لیے وہ صرف خدا کے خوف و خشیت کی تعلیم دیتے تھے ، مثلاً حضرت نوح  اور حضرت موسیٰ ، دوسرے وہ جو محبت الٰہی میں سر شار تھے اور وہ لوگوں کو اسی خمخانہ عشق کی طرف بلاتے تھے ، مثلاً حضرت یحییٰ  اور حضرت عیسیٰ  ۔
لیکن پیغمبروں میں ایک ہستی آئی جو برزخ کبریٰ ، منبع جلال و جمال اور جامع ہستی تھی ، یعنی محمد رسول اللہ ۔ ایک طرف آپ کی آنکھیں خوف الٰہی سے اشک آلود رہتی تھیں ، دوسری طرف آپ کا دل خدا کی محبت اور رحم و کرم سے مسرور تھا ، کبھی ایسا ہو تا کہ ایک ہی وقت میں یہ دو نوں منظر لو گوں کو نظر آجاتے ، چنا نچہ جب راتوں کو آپ شوق و ولولہ کے عالم میں نماز کے لیے کھڑے ہو تے ، قرآن مجید کی لمبی لمبی سورتیں زبان مبارک پر ہو تیں ، ہر قسم اور ہر معنیٰ کی آیتیں گزرتی جاتیں جب کو ئی خوف و خشیت کی آیت آتی ، پناہ مانگتے ، اور جب کو ئی مہرو محبت اور رحم و بشارت کی آیت آتی تو اس کے حصول کی دعا مانگتے (١)۔

راہِ اعتدال

الغرض اسلام کا نصب العین یہ ہے کہ خوف و خشیت اور رحم و محبت کے بیچ کی شاہراہ میں انسا نوں کو کھڑا کرے ، اسی لیے کہا گیا ہے کہ “الایمان بین الخوف و الرجاء “ایمان کامل خوف اور اُمید کے درمیان ہے “کہ تنہا خوف ، خدا کے رحم و کرم سے نا امید اور محض رحم و کرم پر بھروسہ لو گوں کو خود سر اور گستاخ بنا دیتا ہے ، جیسا کہ اس عملی دنیا کے روزانہ کے کارو بار میں ہم کو تم کو اور سب کونظر آتا ہے ، اور مذہبی حیثیت سے عملاً اس کے نتائج کا مشاہدہ یہودیوں اور عیسائیوں میں کیا جا سکتا ہے کہ ایک ناامید محض ، اور دوسرا سر تا پا امید ہے ۔
عیسائیوں نے خدا سے اپنا رشتہ جو ڑا ، اور اپنے کو ''فرزند الٰہی “کا لقب دیا ، بعض یہودی فر قوں نے بنی اسرائیل کو خدا کا خانوادہ اور محبوب ٹھہرایا، اور حضرت عیسیٰ کے جوڑ پر ، حضرت عزیر “کو فر زند الٰہی “کا رتبہ دیا ، لیکن اسلام یہ شرف کسی مخصوص خاندان یا خاص قوم کو عطا نہیں کرتا ، بلکہ وہ تمام انسانوں کو بندگی اور اطاعت کی ایک سطح پر لا کھڑا کرتا ہے ، مسلمانوں کے مقابلہ میں یہودیوں اور عیسائیوں ، دو نوں کو دعویٰ تھا ۔
( نَحْنُ اَبْنَائُ اللّٰہِ وَ اَحِبَّاؤُہ ) (مائدہ)
“ہم خدا کے بیٹے اور چہیتے ہیں ۔''
قرآن مجید نے اس کے جواب میں کہا :
( فَلِمَ یُعَذِّبْکُمْ بِذُنُوبِکُمْ ط بَلْ اَنْتُمْ بَشَر مِّمَّنْ خَلَقَ ط ) (مائدہ)
“اگر ایسا ہے تو خدا کو تمہارے گناہوں کے بدلہ تم کو عذاب کیوں دیتا ہے ، اس لیے تمہارا دعویٰ صحیح نہیں بلکہ تم بھی انہیں انسانوں میں سے ہو جن کو اس نے پیدا کیا ۔''
دوسری جگہ قرآن نے تنہا یہو دیوں کے جواب میں کہا :
( یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ ہَادُوا اِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاء  لِلَّہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ ) (الجمعة : ٦)
“اے وہ جو یہودی ہو ، اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو کہ تمام انسانوں کو چھوڑ کر تم ہی خدا کے خاص چہیتے ہو تو موت ( یعنی خدا کی ملاقات ) کی تمنا کیوں نہیں کرتے ۔''
اسلام رحمت الٰہی کے تنگ دائرہ کو کسی خاندان اور قوم تک محدود نہیں رکھتا ، بلکہ وہ اس کی وسعت میں انسانوں کی ہر برادری کو داخل کر تا ہے ، ایک شخص نے مسجد نبوی میں آکر دعا کی کہ “خدایا ! مجھ کو اور محمد کو مغفرت عطا کر “آپ نے فر مایا “خدا کی وسیع رحمت کو تم نے تنگ کر دیا (٢)”ایک اور اعرابی نے مسجد میں دعا مانگی کہ “خدا یا ! مجھ پر اور محمد پر رحمت بھیج ، اور ہماری رحمت میں کسی کو شریک نہ کر “آپ نے صحابہ کی طرف خطاب کر کے فر مایا “یہ زیادہ گمراہ ہے ، یا اس کا اونٹ (٣) ۔”

عیسائیوں کی غلط فہمی کا سبب

اسلام کے متعلق عیسائیوں نے جو یہ غلط فہمی پھیلا رکھی ہے ، کہ اس کا خدا رحم و کرم ، اور محبت اور پیار کے اوصاف سے معرا ہے ، اس غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ اسلام ، عیسائیت کی اس اصطلاح اور طرزادا کو سخت ناپسند کر تا ہے ، جس کے ذریعہ سے وہ خدا کے ان اوصاف کو نمایاں کرتی ہے ، یعنی باپ اور بیٹے کا لفظ ، کہ ؟ اس سے گمراہی کچھ عیسائیوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اور دوسرے فر قے بھی اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔
اصل یہ ہے کہ خدا اور بندہ کے باہمی مہرو محبت کے جذبات کو یہ فر قے اپنی بو لی میں نمایاںکرنا چاہتے ہیں ، یہ جذبات انسانوں کے اند باہمی رشتوں کے ذریعہ سے نمایاں ہو تے ہیں ، اس بناء پر بعض نادان فرقوں نے اس طریقہ ادا کو خالق اور مخلوق کے در میان باپ بیٹے کا تعلق پیدا کیا جیسا کہ عیسائیوں میں ہے ، دوسرے نے ماں کی محبت کا بڑا در جہ سمجھا ، اس لیے اس تعلق کو ، ماں اور بیٹے کی اصطلاح سے واضح کیا ، اور دیبیاں انسانوں کی ماتائیں بنیں ، جیسا کہ ہندؤوں کا عام مذہبی تخیل ہے ، خاص ہندوستان کی خاک میں زن و شو کی باہمی محبت کا امتیازی خاصہ ہے ، جس کی نظیر دوسرے ملکوں میں نہیں مل سکتی ہے ، اس کی نگاہ میں محبت کا اس سے زیادہ پُر اثر منظر اور ناقابلِ شکست پیمان کو ئی دوسرا نہیں ، اس لیے یہاں کے بعض فر قوں میں خالق و مخلوق کی باہمی محبت کے تعلق کو زن و شو کی اصطلاح سے ادا کیا جا تا ہے ۔ سد ا سہاگی فقراء اس تخیل کی مضحکہ انگیز تصویر ہیں ۔

انتہائی ضلالت

دیکھو ! یہ تمام فر قے جنہوں نے خدا اور بندہ کے تعلق کو جسمانی اور مادی رشتوں کے ذریعہ ادا کر نا چاہا ، وہ کس قدر اہ سے بھٹک گئے ، اور لفظ کے ظاہری استعمال نے نہ صرف ان کے عوام کو ، بلکہ خواص تک کو گمراہ کر دیا ، اور لفظ کی اصلی روح کو چھوڑ کر جسمانیت کے ظاہری مغالطوں میں گرفتار ہو گئے ، عیسائیوں نے واقعی حضرت عیسیٰ کو بیٹا سمجھ لیا ، ہندوستان کے بیٹوں نے ماتاؤں کی پوجا شروع کر دی ، سدا سہاگ فقیر وں نے چوڑیا اور ساڑھیاں پہن لیں ، اور خدائے قادر سے شو خیاں کرنے لگے ۔ اسی لیے اسلام نے جو توحید خالص کا مبلغ تھا ، ان جسمانی اصطلاحات کی سخت مخالفت کی ، اور خدا کے لیے ان الفاظ کا استعمال اس نے ضلالت اور گمراہی قرار دیا ، لیکن ان الفاظ کے اصلی معنیٰ اور منشاء کو ، اور اس مجاز کے پر دہ میں جو حقیقت مستور ہے اس کا انکار نہیں کر تا ، بلکہ وہ ان جسمانی معنوں کو خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے کے ربط و تعلق کے اظہار کے لیے نا کافی، اور غیر مکمل سمجھتا ہے ، اور ان سے بھی زیادہ وسیع معنیٰ کا طالب ہے۔
( فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اَبَائَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْراً ) (البقرة)
“تم خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو ، بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو ۔''
دیکھو ! کہ باپ کی طرح کی محبت کو وہ اپنے پروردگار کی محبت کے لیے نا کافی قرار دیتا ہے اور عبد و معبود کے در میان محبت کے رشتہ کو اس سے اور زیادہ مضبوط کر نا چاہتا ہے ۔

اسلام میں خدا کا تصور

الغرض رحم و محبت کے اس جسمانی طریقہ تعبیر کی مخالفت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسلام سرے سے خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے در میان محبت اور پیار کے جذبات سے خالی ہے ، اتنا کون نہیں سمجھتا کہ مذہب کی تعلیمات انسانوں کی بولی میں اتری ہیں ، ان کے تمام خیالات اور تصورات اسی مادی اور جسمانی ماحول کا عکس ہیں ، اس لیے ان کے ذہن میں کوئی غیر مادی اور غیر جسمانی تصور کی وساطت کے بغیر براہ راست پیدا نہیں ہو سکتا، اور نہ اس کے لیے ان کے لغت کا کوئی ایسا لفظ مل سکتا ہے ، جو غیر مادی اور غیر جسمانی مفہوم کو اس قدر منزہ اور بلند طریقہ سے بیان کرے جس میں مادیت اور جسمانیت کا مطلق شائبہ نہ ہو ، انسان اَن دیکھی چیزوں کا تصور ، صرف دیکھی ہو ئی چیزوں کی تشبیہ سے پیدا کرتا ہے ، اور اس طرح اُن اَن دیکھی چیزوں کا ایک دھند لا سا عکس ذہن کے آئینہ میں اتر جاتا ہے ۔
اُس ''اَن دیکھی ہستی “کی ذات و صفات کے متعلق ، جس کو تم خدا کہتے ہو ، ہر مذہب میں ایک تخیل ہے ، غور سے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ یہ تخیل بھی اس مذہب کے پیرو وں کے گرد و پیش کی اشیاء سے ماخوذ ہے ، لیکن ایک بلند تر اور کامل تر مذہب کا کام یہ ہے کہ وہ اس تخیل کو مادیت، جسمانیت اور انسانیت کی آلایشوں سے اس حد تک پاک و منزہ کر دے ، جہاں تک بنی نوع انسان کے لیے ممکن ہے ، خدا کے متعلق باپ ، ماں اور شوہر کا تخیل اس درجہ مادی ، جسمانی اور انسانی ہے کہ اس تخیل کے متعقد نا ممکن ہے کہ خالص توحید کے صراط مستقیم پر قائم رہ سکیں ، جیسا کہ تم علانیہ دیکھ رہے ہو ، اس لیے اسلام نے یہ کیا کہ ان مادی تعلقات اور جسمانی رشتوں کے الفاظ کو ، خالق و مخلوق کے اظہار ربط و تعلق کے باب میں یک قلم ترک کر دیا ، بلکہ ان کا استعمال بھی شرک و کفر قرار دیا ، تاہم چو نکہ حقائق رو حانی کا اظہار بھی انسانوں ہی کی مادی بو لی میں کر نا ہے اس لیے اس نے جسمانی و مادی رشتہ کے ان جذبات ، احساسات اور عواطف کو خالق و مخلوق کے تعلقاتِ مابین کے اظہار کے لیے مستعار لے لیا ، جن کا اظہار دو سرے مذاہب نے ، ان رشتوں کے ذریعہ کر نا چاہا تھا، اور اس طرح خالق و مخلوق کے درمیان کو ئی جسمانی رشتہ قائم کیے بغیر ربط تعلق کا اظہار اس نے کیا ، اور انسانوں کو استعمال کی لفظی غلطی سے جو گمراہیاں پہلے پیش آچکی تھیں ، ان سے ان کو محفوظ رکھا ۔
ہر زبان میں اس خالق ہستی کی ذات کی تعبیر کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ ہیں ، جن کو کسی خاص تخیل اور نصب العین کی بناء پر مختلف قوموں نے اختیار کیا ہے ، اور گوان کی حیثیت اب علم اور نام کی ہے ،تاہم وہ در حقیقت پہلے پہل کسی نہ کسی وصف کو پیشِ نظر رکھ کر استعمال کیے گئے ہیں، ہر قوم نے اس عَلَم اور نام کے لیے اسی وصف کو پسند کیا ہے جو اس کے نزدیک اس خالق ہستی کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صفت ہو سکتی تھی ۔

من موہن

اسلام نے خالق کے لیے جو نام اور علم اختیار کیا ہے وہ لفظ اللہ ہے اللہ کا لفظ اصل میں کس لفظ سے نکلا ہے ، اس میں اہل لغت کا یقینا اختلاف ہے ، مگر ایک گروہ کثیر کا یہ خیال ہے کہ یہ وِلَاہُ سے نکلا ہے ، وِلَاہُ اور  وَلٰہ کے اصل معنیٰ عربی میں اس ''غم “، “محبت ''اور ''تعلق خاطر “کے ہیں جو ماںکو اپنی اولاد کے ساتھ ہو تا ہے ، اسی سے بعد کو مطلق ''عشق و محبت “کے معنیٰ پیدا ہو گئے اور اسی لیے ہماری زبان میں لفظ والہ (شیدا) مستعمل ہے ، اس لیے اللہ کے معنیٰ ،”محبوب اور پیارے “کے ہیں ، جس کے عشق و محبت میں نہ صرف انسان بلکہ کائنات کے دل سر گرداں ، متحیر اور پریشان ہیں ، حضرت مو لانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی قرآن مجید کی آیتوں کے تر جمے اکثر ہندی میں فر ما یا کرتے تھے ، اللہ کا تر جمہ وہ ہندی میں ''من موہن “یعنی “دلوں کا محبوب “کیا کرتے تھے ۔

رحمان و رحیم

قرآن مجید کھولنے کے ساتھ ہی خدا کی جن صفتوں پر سب سے پہلے نگاہ پڑتی ہے ، وہ ''رحمان “اور ''رحیم “ہے ، ان دو نوں لفظوں کے تقریباً ایک ہی معنیٰ ہیں ، یعنی ''رحم والا ''“مہر بان ““لطف و کرم والا”اور پھر یہی اوصاف بسم اللہ الرحمن الرحیم (محبوب ، مہر بان ، رحم والا ) قرآن مجید کے ہر سورہ کے آغاز میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ، ہر نماز میں کئی کئی دفعہ ان کی تکرار ہو تی ہے ، کیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے متعلق اسلام کے تخیل کو واضح کرنے کے لیے کو ئی دلیل مطلوب ہے ۔
لفظ اللہ کے بعد اسلام کی زبان میں خدا کا دوسر علَم یہی لفظ ''رحمان“ہے ، جو رحم و کرم اور لطف و مہر کے معنیٰ میں صفت مبالغہ کا لفظ ہے ۔
( قُلُ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِا دْعُوا الرَّحْمٰن اَیَّامَا تَدْعُوا فَلَہ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی )
“اُس کو محبوب کہو یا مہر بان کہو ، جو کہہ کر اس کو پُکارو ، اس کے سب ہی نام اچھے ہیں ۔''
قرآن مجید نے لفظ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی صد ہا بار تکرار کو چھوڑ کر ٥٣ مو قعوں پر خدا کو اس نام سے پکارا ہے ۔

اسمائے الہیٰہ

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے بیسوں اوصافی نام ہیں ، احادیث میں اس کے ننانوے نام گنائے گئے ہیں ، ان ناموں میں اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے جلالی و جمالی اوصاف آگئے ہیں ، لیکن استقصا کرو تو معلوم ہو گا کہ ان میں بڑی تعداد انہیں ناموں کی ہے ، جن میں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور مہر و محبت کا اظہار ہے ، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام یا ایک وصف الودود (سورہ ذات البروج میں ) آیا ہے ، جس کے معنیٰ “محبوب “اور پیارے کے ہیں ، کہ وہ سر تا پا مہرو محبت ، اور عشق اور پیار ہے ، اس کے سوا خدا کا ایک اور نام الولی ہے ، جس کے لفظی معنیٰ “یار “اور “دوست“کے ہیں ، خدا کا ایک اور نام قرآن مجید میں باربار استعمال ہو ا ہے ، الر ؤف ہے “رؤف “کا لفظ “رافت “سے نکلا ہے ،”رافت ''کے معنیٰ اس محبت اور تعلق خاطر کے ہیں جو باپ کو اپنی اولاد سے ہوتا ہے ، اسی طرح خدا کے لیے قرآن مجید میں ایک اور نام ''حنان ''آیا ہے جو “حن“سے مشتق ہے ، “حن “اور “حنین “اس سوز دل اور محبت کو کہتے ہیں جو ماں کو اپنی اولاد سے ہو تی ہے ، یہ الفاظ اُن مجاز ی اور مستعار معانی کو ظاہر کرتے ہیں ، جو اسلام نے خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے ربط و تعلق کے اظہار کے لیے اختیار کیے  ہیں ، دیکھو کہ وہ ان رشتوں کا نام نہیں لیتا ہے ، لیکن ان رشتوں کے در میان محبت اور پیار کے جو خاص جذبات ہیں ان کو خدا کے لیے بے تکلف استعمال کر تا ہے ، اس طرح مادیت اور جسمانیت کا تخیل آئے بغیر وہ ان روحانی معانی کی تلقین کر رہا ہے ۔
ان کے علاوہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء اور صفات مذکور ہیں ، اُن کو بھی اس موقع پر پیش نظر رکھنا چاہیے اُس کا نام غفار (بخشش کرنے والا ) ، غفور (بخشنے والا ) ، سلام (امن و سلامتی ) ہے کہ وہ سر تا پا اپنے بے پناہ بندوں کے لیے امن اور سلامتی ہے ، پھر وہ مومن (امن دینے والا) ہے ، وہ العدل یعنی سر تا پا انصاف ہے ، العفو (معاف کر نے والا ) ہے الوھاب (عطا کر نے والا )، الحلیم (بر د بار )، الصبور (بندوں کی گستاخیوں پر صبر کر نے والا )، التواب (بندوں کے حال پر رجوع ہو نے والا )، البر (نیک اور مجسم خیر ) اور المقسط (منصف اور عادل ) ہے ، ان میں ہر لفظ پر ٹھہرو ذرا غور کرو ، کہ اسلام کا تخیل کس قدر بلند اور بر تر ہے ۔

کتب سابقہ میں خدا 

توراة کے اسفار اور انجیل کے صحیفوں میں ایک ایک ورق ڈھونڈو ۔ کیا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ پر محبت ، یہ سراپا مہر و کرم اسماء و صفات کی یہ کثرت تم کو وہاں ملے گی ؟ اسلام اللہ تعالیٰ کے لیے ماں اور باپ کا لفظ یہو د و نصاریٰ اور ہنود کی طرح استعمال کر نا جائز نہیں سمجھتا ، مگر اس لطف و احساس اور مہرو کرم کے جذبات و عواطف سے وہ بے بہر ہ نہیں ، جن کو یہ فرقے اپنا مخصو ص سر ما یۂ روحانی سمجھتے ہیں ، مگر با ت یہ ہے کہ ان روحانی جذبات اور معنوی احساسات کے ساتھ وہ شرک و کفر کی اُس ضلالت اور گمراہی سے بھی انسان کو بچانا چا ہتا ہے ، جو ذرا سی لفظی غلط فہمی سے مجاز کو حقیقت اور استعارہ کو اصلیت سمجھ کر پاک اور سر تا پا روحانی معانی کو مادی اور مجسم یقین کر لیتے ہیں ، اور اس لیے وہ اس بلند تر تو حید کی سطح سے بہت نیچے گر کر سر رشتہ حقیقت کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں ۔

خدا کا آخری پیغام

اسلام ، متکلم ازل کا آخری پیغام ہے اس لیے ضرورت تھی کہ وہ اس قسم کی لغرشوں سے پاک مبرا ہو ، حقائق رو حانی کی تعبیر کے لیے یقینا مادی اور جسمانی استعارات اور مجازات سے چارہ نہیں ، تاہم ایک دائمی مذہب کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو ان استعمالات کی غلطیوں اور غلط فہمیوں سے محفوظ رکھے ، چنانچہ اسلام نے اسی بنا پر ان استعارات اور مجازات کے استعمال میں بڑی احتیاط بر تی ہے ، اور خدا کے مہرو کرم اور عشق و محبت کے تذکروں کے ساتھ ادب و لحاظ کے قواعد کو فراموش نہیں کر دیا ہے ،قرآن مجید اور احادیث ، روحانی عشق و محبت کے ان دل آویز اور ولولہ انگیز حکایات سے معمور ہیں ، بایں ہمہ وہ انسان کو بیٹا اور خدا کو باپ نہیں کہتا کہ عبد و معبود کے تعلقات کے اظہار کے لیے اس کے نزدیک یہ کوئی بلند تر تعبیر نہیں ، وہ خدا کو اب (باپ ) کے بجائے “رب“کہہ کر پُکارتا ہے ، وہ اس کو تمام دنیا کا باپ نہیں ، بلکہ تمام دنیا کا رب کہتا ہے ۔”اب “اور “رب ''ان دو نوں لفظوں کا باہمی معنوی مقابلہ کرو تو معلوم ہو گا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا تخیل ، اسلام کے مطمح نظر سے کس درجہ پست ہے ، اب یعنی باپ کا تعلق اپنے بیٹے سے ایک خاص کیفیت اور مدت سے لے کر ایک محدود عرصہ تک رہتا ہے ، اس کے وجود میں اس کو ایک گو نہ تعلق ضرور ہو تا ہے ، مگر اس کے قیام و بقاء ، زندگی ، ضروریات زندگی ، سامان حیات ، نشو و نما اور ارتقا کسی چیز میں اس کی ضرورت نہیں ہو تی ۔ عہد طفلی تک شائد کچھ اور واسطہ ہو ، اس کے بعد تو بچہ اپنے والدین سے الگ ، مستقل اور بے نیاز زندگی بسر کر تا ہے ، مگر غور کر و کیا عبد و معبود اور خالق و مخلوق کے در میان جو ربط و تعلق ہے اس کا انقطاع کسی وقت ممکن ہے ، کیا بندہ اپنے خدا سے ایک دم اور ایک لمحہ کے لیے بھی بے نیاز اور مستغنی ہو سکتا ہے ، کیا یہ تعلق باپ اور بیٹے کے تعلق کی طرح محدود اور مخصوص الاوقات ہے ۔

رب کا مفہوم

ربوبیت (پرورش ) عبد و معبود اور خالق و مخلوق کے در میان اس تعلق کا نام ہے جو آغاز سے انجام تک قائم رہتا ہے ، جو ایک لمحہ کے لیے منقطع نہیں ہو سکتا ، جس کے بل اور سہارے پر دنیا اور دنیا کی مخلو قات کا وجود ہے ، وہ گہوراہ عدم سے لے کر فنا ئے محض کی منزل تک ہر قدم پر مو جودات کا ہاتھ تھامے رہتا ہے ، وہ ذرہ ہو یا پتھر ، قطرہ آب ہو یا قطرہ خون، مضغہ گوشت ہو یا مشت استخوان ، شکم مادر میں ہو یا اس سے باہر ، بچہ ہو یا جوان ، ادھیڑ ہو یا بوڑھا ، کوئی آن ، کو ئی لمحہ ، رب کے مہرو کرم اور لطف و محبت سے استغنا اور بے نیاز نہیں ہو سکتی ۔
علاوہ ازیں باپ اور بیٹے کے الفاظ سے مادیت ، جسمانیت ، ہم جنسی اور برابری کا جو تخیل پیدا ہو تا ہے ، اس سے لفظ رب یک قلم پاک ہے ، اور اس میں ان ضلالتوں اور گمراہیوں کا خطرہ نہیں جن میں نصرانیت اور ہندویت نے ایک عالم کو مبتلا کر رکھا ہے ۔

حقیقت ایمان

اب ہم کو ان آیتوں اور حدیثوں کو آپ کے سامنے پیش کر نا ہے ، جن سے روشن ہو کہ اسلام اس ازلی و ابدی عشق و محبت کے نور سے کس درجہ معمور ہے اور وہ خمخانہ الست کی سر شاری کی یاد بہکے ہو ئے انسانوں کو کس طرح دلا رہا ہے ، اسلام کا سب سے پہلا حکم ایمان ہے ، ایمان کی سب سے بڑی خاصیت اور علامت “حب الٰہی “ہے ، اور یہ وہ دولت ہے جو اہل ایمان کی پہلی جماعت کو عملاً نصیب ہو چکی تھی ، زبان الٰہی نے شہادت دی :
( وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ) (البقرة)
“جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں ۔''
اِ س نشہ محبت کے سامنے باپ ، ماں ، اولاد ، بھائی ، بیوی ، جان ، مال ، خاندان سب قربان اور نثار ہو جانا چاہیے ارشاد ہوا ہے۔
( اِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَ أَبْنَآؤُکُمْ وَ اخْوَانُکُمْ وَ أَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ أَمْوَال اقْتَرَفْتُمُوہَا وَ تِجَارَة تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ اِلَیْکُم مِّنَ اللّہِ وَ رَسُولِہِ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ ) (التوبة : ٢٤)
“اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ ، اور وہ دولت جو تم نے کمائی ہے اور وہ سودا گری جس کے مندا پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہے خدا اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تم کو زیادہ محبوب اور پیارا ہے تو اس وقت تک انتظار کر و کہ خدا اپنا فیصلہ لے آئے ۔''
ایمان کے بعد بھی اگر نشہ محبت کی سر شاری نہیں ملی تو وہ بھی جادہ حق سے دوری ہے چنانچہ جو لوگ کہ راہ حق سے بھٹکنا چاہتے تھے اُن کو پکار کر سنا دیا گیا :
( یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّونَہُ ) (المائدة : ٥٤)
“مسلمانو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین اسلام سے پھر جائے گا تو خدا کو اس کی کچھ پرواہ نہیں وہ ایسے لوگوں کو لاکھڑا کر ے گا جن کو وہ پیار کرے گا اور وہ اس کو پیار کر یں گے ۔''

آثار و علائم

حضرت مسیح نے کہا “درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے “ہر معنوی اور روحانی حقیقت ظاہری آثار اور جسمانی علامات سے پہچانی جاتی ہے، تم کو زید کی محبت کا دعویٰ ہے ، مگر نہ تمہارے دل میں اس کے دیدار کی تڑپ ہے نہ تمہارے سینہ میں صدمہ فراق کی جلن ، اور نہ آنکھوں میں ہجر و جدائی کے آنسو ہیں ، تو کون تمہارے دعوے کی تصدیق کر ے گا ، اسی طرح خدا کی محبت اور پیار کے دعویدار تو بہتیرے ہو سکتے ہیں مگر اس غیر محسوس کیفیت کی مادی نشانیاں اور ظاہری علامتیں اس کے احکام کی پیروی اور اس کے رسول کی اطاعت ہے خد ا کے رسول کو اس اعلان کا حکم ہے ۔
( قُلْ اِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ ) (آل عمران:٥٤)
“اگر تم کو خدا سے محبت ہے تو میری پیروی کرو کہ خدا بھی تم کو پیار کرے گا ۔''
طبقات انسانی میں متعدد ایسے گروہ ہیں جن کو خدا کی محبت اور پیار کی دولت ملی ہے :
( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) (المائدة)
''خدا نیکی کر نے والوں کو پیا ر کرتا ہے ۔''
( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ) (البقرة)
“خدا تو بہ کرنے والوں کو پیار کرتا ہے ۔''
( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (آل عمران)
“خدا توکل کرنے والوں کو پیار کرتا ہے ۔''
( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ) (المائدة)
''خدا منصف مزاجوں کو پیار کرتا ہے ۔''
( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنََ ) (التوبة)
“خدا پرہیز گاروں کو پیار کرتا ہے ۔''
( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ ) (الصف)
“خدا ان کو پیار کرتا ہے جو اس کے راستہ میں لڑتے ہیں ۔''
( وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ ) (آل عمران)
“اور خدا صبر کرنے والوں کو پیار کرتا ہے ۔''
( وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ) (التوبة)
“اور خدا پاک صاف لوگوں کو پیار کر تا ہے ۔''

دائمی مسرت

دنیا کے عیش و مسرت ، باغ و بہار ، شادی و خوشی میں اگر کوئی خیال کانٹا سا چبھتا ہے ، اور ہمیشہ انسان کے عیش و سرور کو مکدر اور منغص بنا کر بے فکری کی بہشت کو ، فکر وغم کی جہنم بنا دیتا ہے تو وہ ماضی اور حال کی نا کامیوں کی یاد اور مستقبل کی بے اطمینانی ہے ، پہلے کا نام حزن و غم ہے ، اور دوسرے کا نام خوف و دہشت ہے ، غرض غم اور خوف یہی دو کانٹے ہیں ، جو انسانیت کے پہلو میں ہمیشہ چبھتے رہے ہیں لیکن جو محبوب حقیقت کے طلبگار اور اس کے والہ و شید ا ہیں ، اُن کو بشارت ہے کہ ان کا چمنستان عیش اس خار زار سے پاک ہو گا ۔
( اَلَا اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَا خَوْف عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (یونس)
“ہاں ! خدا کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہے ، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ''
محبت کا جذبہ بڑے کو چھوٹے کے ساتھ احسان ، نیکی ، و در گزر اور عفو و بخشش پر آمادہ کرتا ہے اس کا نام ''رحم “اور ''رحمت “ہے ، اسلام کا خداتمام تر رحم ہے ، اس کی رحمت کے فیض سے عرصہ کائنات کا ذرہ ذرہ سیراب ہے ، اس کا نام رحمان و رحیم ہے ، جو کچھ یہاں ہے سب اس کی رحمت کا ظہور ہے ، وہ نہ ہو تا تو کچھ نہ ہو ، اسی لیے اس کی رحمت سے ناامید ی جرم اور مایوسی گناہ ہے ، مجرم سے مجرم اور گنہگار سے گنہگار کو وہ نوازنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہے ، گنہگار وں اور مجرموں کو وہ “میرے بندے ''کہہ کر تسلی کا یہ پیغام بھیجتا ہے ۔
( قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ اِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ ) (الزمر : ٥٣)
“اے پیغمبر ! میرے ان بندوں کو پیام پہنچا دے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ، اللہ یقینا تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے کہ وہی بخشش کرنے والا اور رحم کھانے والا ہے ۔''
فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بشارت سناتے ہیں تو کہتے ہیں :
( وَ لَا تَکُنْ مِنَ الْقَانِطِیْنَ )
“ناامیدوں میں نہ ہو ۔''
خلیل اللہ اس رمز سے ناآشنا نہ تھے ، کہ مرتبہ خلت محبت سے مافوق ہے ، جواب دیا :
( وَ مَن یَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّہِ اِلاَّ الضَّآلُّونَ ) (حجر: ٥٦)
“اپنے پروردگار کی رحمت سے گمراہ لوگوں کے سوا اور کوئی مایوس نہیں ہو تا ۔''
خدا کے بندوں کی جانب سے کوئی پابندی عائد نہیں ، مگر اس نے خود اپنی رحمت کے اقتضاء سے اپنے اوپر کچھ چیزیں فرض کر لی ہیں ، منجملہ ان کے ایک رحمت ہے ، خدا مجرموں کو سزا دے سکتا ہے وہ گنہگاروں پر عذاب بھیج سکتا ہے ، وہ سیہ کاروں کو اُن کی گستاخیوں کا مزہ چکھا سکتا ہے ، وہ غالب ہے ، وہ قاہر ہے، وہ جبار ہے ، وہ منتقم ہے ، لیکن ان سب کے ساتھ وہ غفار و غفور ہے ، رحمان و رحیم ہے ، رؤف و عفو ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت کی پابندی خود بخود عائد کر لی ہے ، اور اپنے اوپر اس کو فرض گردان لیا ہے ۔
( کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةِ ) (الانعام : ١٢)
“اللہ نے از خود اپنے اوپر مہربانی کر نے کو لازم کر لیا ہے ۔''
قاصد خاص کو حکم ہو تا ہے کہ ہمارے گنہگار بندوں کو ہماری طرف سے سلام پہنچاؤ اور تسلی کا یہ پیام دو کہ اس کا باب رحمت ہر وقت کھلا ہے:
( وَ اِذَا جَاء کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَم عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ أَنَّہُ مَن عَمِلَ مِنکُمْ سُوء اً بِجَہَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِہِ وَ أَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُور رَّحِیْم )(الانعام : ٥٤)
“اے پیغمبر ! جب تیرے پاس وہ آئیں جو میری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں تو ان کو کہہ کہ تم پر سلامتی ہو ، تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر از خود اپنے بندوں پر مہربان ہو نا لازم کر لیا ہے ، کہ جو کوئی تم میں سے براہ نادانی برائی کر بیٹھے ، پھر اس کے بعد توبہ کر ے اور نیک بنے تو بیشک وہ بخشنے والا اور رحم کر نے والا ہے ۔ ''
قرآن کی تعلیم کے مطابق اس وسیع عرصہ کائنات کا کوئی ذرہ اس سایہ رحمت سے محروم نہیں ۔
( وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیئٍ ) (الاعراف)
“اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے ۔''

عفو عام کی بشارت

بخاری و تر مذی وغیرہ صحیح حدیثوں میں ہے اللہ تعالیٰ نے جب اس عالم کو پیدا کیا تو اس نے اپنے دست خاص سے اپنے اور پر رحمت کی پابندی عائد کر لی ، جامع تر مذی میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے فر مایا کہ “اگر مومن کو یہ معلوم ہو تا کہ خدا کے پاس کتنا عقاب ہے تو وہ جنت کی طمع نہ کرتا اور اگر کافر کو یہ معلوم ہو تا کہ خدا کی رحمت کس قدر بے حساب ہے تو وہ جنت سے مایوس نہ ہو تا ۔”یہ اسلام کے تخیل کی صحیح تعبیر ہے ، بارگاہ احدیت کا آخری قاصد اپنے دربار کی جانب سے گنہگاروں کو بشارت سناتا ہے کہ “اے آدم کے بیٹو ! جب تک تم مجھے پُکارتے رہو گے اور مجھ سے آس لگائے رہو گے میں تمہیں بخشتا رہوں گا ، خواہ تم میں کتنے ہی عیب ہوں ، مجھے پرواہ نہیں ، اے آدم کے بیٹو ! اگر تمہارے گناہ آسمان کے بادلوں تک بھی پہنچ جائیں ، اور پھر تم مجھ سے معافی چاہو تومیں معاف کر دوں خواہ تم میں کچھ ہی عیب ہوں مجھے پرواہ نہیں ، اے آدم کے بیٹو ! اگر پوری سطح زمین بھی تمہارے گناہوں سے بھری ہو ، پھر تم میرے پاس آؤ ، اور میرا کسی کو شریک نہ بناتے ہو ، تو میں بھی تمہارے پاس پوری زمین بھر مغفرت لے کر تمہارے پاس آؤں “کیا انسانوں کے کانوں نے اس رحمت ، اس محبت اس عفو کی بشارت کسی اور قاصد کی زبان سے بھی سنی ہے ؟
حضرت ابو ایوب صحابی کی وفات وقت جب قریب آیا ، تو انہوں نے لو گوں سے کہا کہ آنحضرت نے فر مایا کہ “اگر تم گناہ نہ کرتے تو خدا اور مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرتی کہ وہ اس کو بخشتا “یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے رحم و کرم کے اظہار کے لیے گنہگاروں ہی کی تلاش ہے کہ نیکو کاروں کو تو سب ڈھونڈتے ہیں ، مگر گنہگاروں کو صرف وہی ڈھونڈتا ہے ۔
دنیا میں انسانوں کے در میان جو رحم و کرم اور مہر و محبت کے عناصر پائے جاتے ہیں جن کی بناء پر دوستوں ، عزیزوں ، قرابت داروں ، اولادوں میں میل ملاپ اور رسم و محبت ہے ، اور جس کی بناء پر دنیا میں عشق و محبت کے یہ مناظر نظر آتے ہیں ، تم کو معلوم ہے کہ یہ اس شاہد حقیقی کے سر مایہ محبت کا کتنا حصہ ہے ؟ حضور نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے ، ان میں سے ایک حصہ اپنی مخلوقات کو عطا کیا ، جس کے اثر سے وہ ایک دوسرے پر باہم رحم کیا کرتے ہیں ، باقی ننانوے حصے خدا کے پاس ہیں(٤) “اس لطف و کرم ، اور مہرو محبت کی بشارتیں کس مذہب نے انسانوں کو سنائی ہیں ، اور کس نے گناہگار انسانوں کے مضطرب قلوب کو اس طرح تسلی دی ہے ؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک شخص شراب خواری کے جرم میں بار بار گرفتار ہو کر آنحضرت کی خدمت میں پیش ہو ا ، صحابہ نے تنگ آکر کہا ،”خدا وند ! تو اپنی لعنت اس پر نازل کر کہ یہ کس قدر بار بار لا یا جا تا ہے “رحمة للعالمین کو صحابہ کی یہ بات ناپسند آئی ، فر مایا “اس پر لعنت نہ کرو کہ اس کو خدا اور رسول سے محبت ہے “تم نے دیکھا کہ اسلام نے گنہگاروں کے لیے بھی خدا کی محبت کا دروازہ کھول رکھا ہے ۔

رحمة للعالمین

ابن ماجہ میں ہے کہ مدینہ میں ایک غریب مسلمان نے وفات پائی ، اس کا غم کس نے کیا ہو گا ؟ ہاں اس دل نے جو دنیا کا غم خوار بن کر آیا تھا ، اُس کے فراق ظاہری سے چہرہ مبارک پراندوہ و ملال کے آثار تھے ، صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو اس مر نے والے کی موت کا غم ہے “فر مایا ، “ہاں کہ اُس کو خدا اور رسول سے محبت تھی“اس غریب میں محبت کا اثر یہ تھا کہ وہ ہمیشہ زور زور سے قرآن پڑھا کرتا تھا ، غریبوں کے دل خدا کی محبت کے خزانے ہیں ۔ صحیحین میں حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ آپ نے ایک صاحب کو کسی جماعت کا افسر بنا کر بھیجا تھا ، وہ جب نماز پڑھاتے تھے ، تو ہر نماز میں ہر سورة کے آخر میں قل ھو اللہ ضرور پڑھتے تھے ، جب سفر سے یہ جماعت لو ٹ کر آئی تو خدمت اقدس میں حاضر ہو کر ، اس نے یہ واقعہ عرض کیا ، فر مایا “ان سے پوچھو کہ اب وہ ایسا کیوں کرتے ہیں “لو گوں نے پو چھا تو انہوں نے جواب دیا ، یہ یہ میں اس لیے کرتا ہوں کہ اس سورہ میں رحم والے خدا کی صفت بیان ہے ، تو مجھ کو اس کے پڑھنے سے محبت ہے “فر مایا ان کو بشارت دو کہ وہ رحم والا خدا بھی ان سے محبت کرتا ہے “یہ بشارت اسلام کے سوا کسی اور نے بھی سنائی ہے ؟

المرء مع من احب

صحیح بخاری اور مسلم میں متعدد طریقوں سے حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے  خدمت والا میں حاضر ہو کر در یافت کیا کہ “یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی “فر مایا “تم نے اس کے لیے کیا سامان کر رکھا ہے “نادم ہو کر شستکہ دلی سے عرض کی “کہ یا رسول اللہ ! میرے پاس نہ تو نمازوں کا ، اور نہ صدقات و خیرات کا بڑا ذخیرہ ہے ، جو کچھ سر مایہ ہے وہ خدا اور رسول کی محبت کا ہے اور بس ! “فر مایا “تو انسان جس سے محبت کرے گا ، وہ اسی کے ساتھ رہے گا “صحابہ نے اس بشارت کو سن کر اس دن بڑی خوشی منائی ، کہ صرف خدا اور رسول کی محبت تمام نیکیوں کا بدلہ اور معاوضہ ہے ۔
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ آپ نے فر مایا “جب خدا کسی بندہ کو چاہتا ہے تو فرشتہ خاص جبریل بھی اس کو پیار کرتے ہیں ، اور آسمان میں پکار دیتے ہیں ، کہ خدا اس بندہ کوپیار کر تا ہے ، تم بھی پیار کرو ، تو آسمان والے بھی اس کو پیار کرتے ہیں ، اور پھر زمین میں اس کو ہر دلعزیز ی اور حسن قبول حاصل ہو تا ہے “دیکھو کہ اسلام کا خدا اپنے بندوں سے کس اعلان اور اشتہار کے ساتھ محبت کر تا ہے ۔

عطائے عمومی

تر مذی میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ  رسول اللہ سے راوی ہیں کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ “میرا بندہ اپنی طاعتوں سے میری قربت کو اس قدر ڈھونڈتا ہے کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ہو ں ، یہاں تک کہ میں اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے “یہ دولت ، یہ نعمت ، یہ سعادت ، اسلام کے دروازہ کے سو اکہیں اور سے بھی بٹتی ہے ؟
امام بزار نے مسند میں حضرت ابو سعید سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت نے فر مایا “میں ان لو گوں کو پہچانتا ہوں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید ہیں ، لیکن قیامت میں ان کے مرتبہ کی بلندی پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا سے محبت ہے ، اور جن کو خدا پیار کرتا ہے ، وہ اچھی باتیں بتاتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں “الخ
یہ قابلِ رشک رتبہ اسلام کے سوا اور کون عطا کرتا ہے ؟
تر مذی میں حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ آپ نے فر مایا لوگو! “خدا سے محبت کرو کہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں عطا کر تا ہے ، اور خدا کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب میرے اہل بیت سے محبت کرو “یہ عشق و محبت کی دعوت محبوب ازل کے سوا اور کو ن دے سکتا ہے ؟

محبت الہٰی کی طلب

جو کچھ اسلام کی تعلیم تھی ، وہ پیغمبر اسلام کی عملی زندگی تھی ۔
عام مسلمانوں میں پیغمبر اسلام کا لقب “حبیب خدا “ہے ، دیکھو کہ حبیب و محبوب میں ، خلت اور محبت کے کیا کیا ناز و نیاز ہیں ، آپ خشوع و خضوع کی دعاؤں میں ، اور خلوت کی ملاقاتوں میں کیا ڈھونڈتے اور کیا مانگتے تھے ، کیا چاہتے اور کیا سوال کرتے تھے ؟ امام احمد اور بزار نے مسندوں میں ، تر مذی نے جامع میں ، حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے معجم میں متعدد صحابیوں سے نقل کیا ہے آنحضرت اپنی دعاؤں میں محبت الٰہی کی دولت مانگا کرتے تھے ، انسان کو اس دنیا میں سب سے زیادہ محبوب اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال کی جان ہے ، لیکن محبوب خدا کی نگاہ میں یہ چیزیں ہیچ تھیں ، دعا فرماتے تھے ِ خدا وند ا!
اسئل حبک و حب من یحبک و حب عمل یقرب الٰی حبک ۔”(احمد، ترمذی ، حاکم )
“میں تیری محبت مانگتا ہوں ، اور جو تجھ سے محبت کرتا ہے اس کی محبت اور اس کام کی محبت جو تیری محبت سے قریب کر دے ۔''
اللّٰہم اجعل حبک احب الی من نفسی و اھلی و من الماء البارد۔” (ترمذی ، حاکم )
''الٰہی تو اپنی محبت کو جان سے اہل و عیال سے ، اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب بنا ۔''
عرب میں ٹھنڈا پانی ، دنیا کی تمام دولتوں اور نعمتوں سے زیادہ گراں اور قیمتی ہے ، لیکن حضور کی پیاس اس مادی پانی کی خنکی سے نہیں سیر ہوتی تھی ، وہ صرف محبت الہٰی ہی کا زلال خالص تھا جو اس تشنگی کو تسکین دے سکتا تھا ، عام انسان ، روٹی سے جیتے ہیں ، مگر ایک عاشق الہٰی (مسیح ) کا قول ہے کہ “انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا “پھر وہ کون روٹی ہے جس کو کھا کر انسان پھر کبھی بھوکا نہیں ہو تا ، حضور دعا فر ماتے ہیں :
“اللّٰہم ارزقنی حبک و حب من ینفعنی فی حبک ۔”( ترمذی )
“خدا وند ! تو مجھے اپنی محبت اور اس کی محبت جو تیری محبت کی راہ میں نافع ہے مجھے روزی کر ۔''
عام ایمان ، خدا اور رسول پر یقین کر نا ہے ، مگر جانتے ہو کہ اس راہ کی آخری منزل کیا ہے َصحیحین میں ہے :
“من کان اللّٰہ و رسول احب الیہ مما سواہ ۔''
“یہ کہ خدا اور رسول کی محبت کے آگے تمام ماسو ا محبتیں ہیچ ہو جائیں۔''
بعض مذاہب کو اپنی اس تعلیم پر ناز ہے کہ وہ انسانوں کویہ سکھاتے ہیں، کہ وہ اپنے خدا کو ماں ، باپ سمجھیں اور اس سے اسی طرح محبت کریں ، جس طرح کہ وہ اپنے والدین سے کرتے ہیں ، اور چونکہ اسلام نے اس طریقہ تعبیر کو اس بناء پر کہ وہ شرک کا راستہ ہے ممنوع قرار دیا ہے، اس لیے وہ ویہ سمجھتے ہیں کہ اسلام محبت الہٰی کے مقدس جذبات سے محروم ہے ، لیکن جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ یہ نہیں ، بلکہ اسلام کی بلندی نظر اور محبت کا علوئے معیار ان مذاہب کے پیش کردہ نظرو معیار کو پست تر اور فروتر سمجھتا ہے ، قرآن مجیدکی یہ آیت پاک بھی اس دعوے کے ثبوت میں پیش کی جا چکی ہے :
( فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اَبَائَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْراً ) (البقرة)
“تم خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح اپنے باپ کو یاد کرتے ہو ، بلکہ اس سے بہت زیادہ ۔”

 خدا کی رحمت

احادیث سے ہمارا یہ دعویٰ اور بھی زیادہ واضح ہو جاتا ہے ، لڑائی کا میدان ہے ، دشمنوں میں بھاگ دوڑ مچی ہے جس کو جہاں امن کا گوشہ نظر آتا ہے ، اپنی جان بچا رہا ہے ، بھائی بھائی سے ، ماں بچہ سے ، بچہ ماں سے الگ ہے ، اسی حال میں ایک عورت آتی ہے ، اس میدان حشر میں اس کا بچہ گم ہو گیا ہے ، محبت کی دیوانگی کا یہ عالم ہے کہ جو بچہ بھی اس کے سامنے نظر آجا تا ہے ، بچہ کے جوش و محبت میں چھاتی سے لگا لیتی ہے ، اور اس کو دودھ پلا دیتی ہے ، رحمة للعالمین کی نظر پڑتی ہے ، صحابہ سے مخاطب ہو کر فر ماتے ہیں “کیا یہ ممکن ہے کہ یہ عورت خود اپنے بچے کو اپنے ہاتھ سے دہکتی آگ میں ڈال دے ؟ “لو گوں نے عرض کی ،”ہر گز نہیں “فر مایا تو جتنی محبت ماں کو اپنے بچہ سے ہے ، خدا کو اپنے بندوں سے اس سے بہت زیادہ محبت ہے ۔ (صحیح بخاری ، باب رحمة الولد )
ایک دفعہ ایک غزہ سے آپ واپس تشریف لا رہے ہیں ، ایک عورت اپنے بچے کو گود میں لے کر سامنے آتی ہے ، اور عرض کرتی ہے ،”یارسول اللہ ! ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہو تی ہے ، کیا خدا کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ نہیں ہے ؟ “فر مایا “ہاں “! بے شک اس سے زیادہ ہے “بو لی “تو کوئی ماں تو اپنی اولاد کو خود آگ میں ڈالنا گوارانہ کرے گی “یہ سن کر فرط اثر سے آپ پر گر یہ طاری ہو گیا ، پھر سر اٹھا کر فر مایا “خد ا صرف اس بندہ کو عذاب دیتا ہے ، جو سر کشی سے ایک کو دو کہتا ہے۔” (سنن نسائی ، باب مایرجیٰ من الرحمة )
آپ ایک مجلس میں تشریف فر ما ہیں ، ایک صحابی چادر میں ایک پرند کو مع اس کے بچوں کے باندھ کر لاتے ہیں ، اور واقعہ عرض کرتے ہیں ، کہ “یارسول اللہ میں نے ایک جھاڑی سے ان بچوں کو اٹھا کر کپڑے میں لپیٹ لیا ماں نے یہ دیکھا تو میرے سر پر منڈلانے لگی ، میں نے ذرا سا کپڑے کو کھول دیا تو وہ فوراً آکر میرے ہاتھ پر گر پڑی “ارشاد ہوا “کیا بچوں کے ساتھ ماں کی اس محبت پر تم کو تعجب ہے ، قسم ، اس ذات کی جس نے مجھ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ، جو محبت اس ماں کو اپنے بچوں کے ساتھ ہے ، خدا کو اپنے بچوں کے ساتھ اس سے بدرجہا زیادہ ہے۔ “(مشکوٰة بحوالہ ابوداؤد باب رحمة اللہ )

حُسن خاتمہ

ربانی خمخانہ عشق کا آخری ہو ش مند سر شار ، ریاض محبت کی بہار جاوداں کا آخری نغمہ خواں عندلیب ، نظارہ جمال حقیقت کا پہلا مشتاق ، مستور از ل کے چہرہ زیر نقاب کا پہلا بند کشا ، زندگی کے آخری گھنٹوں میں ہے مرض کی شدت ہے ، بدن بخار سے جل رہا ہے ، اُٹھ کر چل نہیں سکتا، لیکن یک بیک وہ اپنے میں ایک اعلان خاص کی طاقت پاتا ہے ، مسجد نبوی میں جانثار حاضر ہو تے ہیں ، سب کی نظریں حضور کی طرف لگی ہیں ، نبوت کے آخری پیغام سننے کی آرزو ہے ، دفعتہ لب مبارک وا ہوتے ہیں ، تو یہ آواز آتی ہے ،”لو گو ! میں خدا کے سامنے اس بات کی برات کر تا ہوں کہ انسانوں میں میرا کو ئی دوست ہے ، میرا پیا را صرف ایک ہی ہے ، وہی جس نے ابراہیم کو اپنا بنا یا “یہ تو وفات سے پہلے کا اعلان تھا ، عین حالت نزع میں زبان مبارک پر یہ کلمہ تھا “خداوند ا! بہترین رفیق ہے “(صحیح بخاری وفات )
یہ سچ ہے ، کہ اسلام رحمت الہٰی کے ساتھ غضب الہٰی کا بھی معتقد ہے مگر جانتے ہو کہ اسلام کے عقیدہ میں اس کی رحمت و غضب کا باہمی توازن کیا ہے ، خدا فر ماتا ہے :
“رحمتی سبقت غضبی۔“ ( بخاری )
“میرے غضب سے میری رحمت آگے بڑھ گئی ہے ۔''

صلائے عام

اے ربانی عشق و محبت کے طلبگارو ! اگر واقعی تمہارے دل فانی محبت سے ہٹ کر کسی باقی کی محبت کے خواہشمند ہیں، اگر در حقیقت تمہیں ازلی و ابدی محبوب کی تلاش ہے ، اگر درا صل تمہارا جسم نہیں بلکہ تمہارے روح کسی کی محبت کی سر شاری کے لیے بیتاب ہے، توآؤ کہ یہ دولت صرف اسلام کے آستانہ پر بٹتی ہے ، اور اسی کے خزانہ سے ملتی ہے !۔          
 حواشی
(١)    مسند ابن حنبل جلد ٦ صفحہ ٩٣
(٢)   صحیح بخاری ، کتاب الادب
(٣)   ابو داود ، کتاب الادب
(٤)   جامع ترمذی ابواب الدعوات و دیگر کتب احادیث صحیح
https://docs.google.com/file/d/0Bz-vdYdUV4zmbXVvVUxfN3MwbnM/edit?pli=1