جمعہ، 7 فروری، 2014

و لا تقربوا الزنا

رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16
(و لا تقربوا الزنا)
And Do Dot Come Near Adultery

محمد عالمگیر ( سڈنی ، آسٹریلیا )
ترجمہ : ابو عمار سلیم

آزادیٔ نسواں کی جو عالمگیر تحریک آج ہمیں بڑی شد ومد سے ساری دنیا پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے، وہ صرف صدیوں پر محیط مردوں کی برتری کے رد عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دنیا کے تقریباًتمام معاشروں میں ہزاروں برسوں سے جاری و ساری ناروا ظلم اور زیادتیوں کے احتجاج کا ایک عملی مظاہرہ بھی ہے جو ہر دور کے تہذیبی ادوار میں مختلف اقسام کی نا انصافیوں سے مزین رہا ہے ۔ حقوق آزادیٔ نسواں کی تحاریک جو آج عرف عام میں عورتوں کی آزادی کے نعرے میں تبدیل ہوچکی ہے بڑی حد تک اسی ظلم و ناانصافی کی ہی پیدا وار ہے جسے آج آواز مل گئی ہے اور اسی رویہ کی ایک منطقی توجیہ ہے جو آج کے معاشرہ  کے زندگی گزارنے کے آداب کے اصولوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

جمعرات، 6 فروری، 2014

اسرار ( ا ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ )

رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

 اسرار ( ا ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ )

امام حافظ ابن قیم الجوزیة رحمہ اللہ
ترجمہ : مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ

خلق و ا مر ، کتب و قوانین ، ثواب و عتاب کا سر چشمہ دو کلمے ہیں (ایاک نعبد و ایاک نستعین ) انہی پر عبودیت  (بندگی) اور تو حید کا دار و مدار ہے ۔ اسی بنا پر کسی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں اتاری ہیں ۔ جن کا خلاصہ تورات، انجیل اور قرآن میں ہے اوران تینوں کے معنیٰ قرآن میں یکجا جمع ہیں اور پھر پورے قرآن کا مضمون مفصل (حجرات تا والناس) موجود ہے ۔ان تمام کے معانی سورہ فاتحہ میں ہیں اور سورہ فاتحہ کالب لباب (ایاک نعبد و ایاک نستعین ) میں آ گیا ہے ۔ یہ دو نوں کلمے رب اور بندے کے در میان منقسم (بٹے ہو ئے ) ہیں ( ایاک نعبد ) رب کے لیے ہے اور ( ایاک نستعین ) بندے کے لیے ۔

منگل، 4 فروری، 2014

عالم اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج۔ اداریہ Present day challenge and the Muslim World


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

عالم اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج (اداریہ)
Present day challenge and the Muslim World

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اس وقت عالم اسلام بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما ہے :
(١) پہلے محاذ کا تعلق میدانِ جنگ و حرب سے ہے اور
(٢)دوسرے محاذ کا تعلق میدانِ علم و فکر سے

عالم اسلام پر مسلط جنگ
عالم اسلام کی زمینی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ چارو ناچار اسے حالتِ جنگ کا سامنا ہے ۔ شاید ہی کوئی اسلامی ملک ایسا ہو جسے اندرونی یا بیرونی طور پر اغیار کی سازشوں کا سامنا نہ ہو ۔ یہ جنگ باقاعدہ طور پر میدانِ حرب میں بھی لڑی جا رہی ہے اور بساطِ سیاست پر بھی ۔ اب چونکہ جنگوں کے طریقے بدل چکے ہیں ۔ جنگیں کئی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں ۔ میدان حرب میں اسلحہ و بارود کی گھن گرج کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہے اور معاشیات کے میدان میں طلبِ زر کی کمی و زیادتی سے بھی یہ بازی جیتی جاتی ہے ۔ بساطِ سیاست پر کیا محض ایک فیصلہ بھی قوموں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ الغرض عالم اسلام کی سیاسی ابتری اس امر کی شاہد ہے کہ عالم اسلام حالتِ جنگ میں ہے۔ مگر بیک وقت قریباً ٦٠ ممالک کی یہ سیاسی ابتری بھی ان میں احساسِ یکجائیت پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس کی واحد وجہ وہ استعمار کے آلۂ کار سیاسی زعماء ہیں جو امت کے جسدِ واحد کو منتشر و متفرق کرنے میں ہَمہ وقت مصروفِ عمل و حرکت ہیں ۔ حتیٰ کہ امت مسلمہ کا حقیقی وجود اب سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوچکا ہے ۔ اب سعودی عرب کا مسئلہ سعودی عرب کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا مسئلہ صرف پاکستان کا ۔ اب فلسطین کے مظلومین اپنی جدوجہد صرف اپنے بل بوتے پر کریں اور کشمیر کے حریت پسند اپنی جنگ خود لڑیں ۔مسلم دنیا کے حکمران ان کی اخلاقی تائید سے بھی اب قاصر ہیں ۔ "امت مسلمہ" کا تصور عوام الناس میں تو کسی درجے موجود ہے مگر اس کا حقیقی سیاسی وجود سر دست مفقود ہے ۔