جمعرات، 11 ستمبر، 2014

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ

جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ / مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25


درس آگہی (اداریہ)


إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ

        محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اسلام کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ جب پورا عالم اسلام اپنے تنزل و سقوط کی انتہا کو جا پہنچا ہے ۔ سطح ارض کا چپہ چپہ اپنا گھیرا تنگ کر رہا ہے تو دوسری طرف سمندر کی موجوں میں لہراتی دشمنانِ اسلام کے بحری بیڑوں کا رخ بھی ہماری طرف ہے  اور اس سے بڑھ کر مقام حسرت و یاس کیا ہوگا کہ جن ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بظاہر مسلم حکمران متمکنِ اقتدار ہیں وہاں بھی مسلمان ہی مجبور و مقہور ہیں ۔
افریقا میں مسلمانوں پر بد ترین مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔ جمہوریہ وسطی افریقا میں مسلمانوں کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے ۔ بقیہ مسلم افریقی ممالک بھی خط غربت سے نیچے استعمار کے ہاتھوں اپنی بربادی پر ماتم کناں ہیں ۔ مصر میں اخوان المسلمین کو ایک بار پھر اپنی تاریخ کے بد ترین تعذیب کا سامنا ہے ۔ کال کوٹھریاں اور تختہ دار ان کا انجام بن رہا ہے ۔ اخوان کے سربراہ محمد بدیع سمیت 683 اخوانیوں کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے جس پر نہ عالمی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار امریکا کو تشویش ہے اور نہ ہی مسلم دنیا ہی میں کسی ہلچل نے جنم لیا ۔ ان تمام کارروائیوں کے بعد مصر میں نہ جمہوریت ہی خطرے میں ہے اور نہ ہی انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔
برما میں مسلم کشی کی لہر دوبارہ پیدا ہوگئی ہے ، شاید یہ سلسلہ برما کے آخری مسلمان تک جاری رہے گا ۔ مشرقی تیمور کو بنانے والی عالمی طاقتیں اس پر خاموش ہیں کیونکہ برما میں جن کا لہو بہایا جا رہا ہے وہ صلیب کے پجاری نہیں توحید کے پرستار ہیں ، اور یہی وہ جرم ہے جو عالمی طاغوتی قوتوں کے لیے ناقابل معافی سزا بن گئی ہے ۔ بنگلہ دیش میں عبد القادر ملا کو پھانسی دی جا چکی ہے اور اس کے بعد بھی گاہے گاہے سلسلہ تعذیب جاری ہے ۔
پاکستان کی اپنی صورت حال بہت مخدوش ہے ۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ خطہ عالمی طاقتوں کا مرکزِ توجہ بنا ہوا ہے ۔ اداروں کو آپس میں ٹکرانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عوام الناس میں انتشارِ فکر کو جنم دیا جا رہا ہے ۔ دنیا میں ایسے ممالک بکثرت ہیں جہاں ایڈز جیسی بیماریاں عام ہیں مگر پاکستان پر پولیو فری ملک نہ ہونے کی وجہ سے سفری پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ۔
بھارت میں نریندر مودی کا آسیب پروان چڑھ رہا ہے ۔ خواہ مودی الیکشن میں شکست ہی کیوں نہ کھا جائے مگر مسلم دشمنی کا جو بیج وہ بو چکا ہے اپنے وقت پر اس کی فصل ضرور کٹے گی ۔ 25 کروڑ کی آبادی کے باوجود مسلمان خود کو وہاں غیر محفوظ سمجھتے ہیں جو بڑے شہروں میں ہیں ان کی حالت شاید کچھ بہتر ہو مگر دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بسنے والوں کی صورتحال اس سے مختلف ہے ۔ آسام میں مسلم دشمنی کا آسیب اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ اب آسام بھارت کا سب سے پر تشدد ریاست بن گیا ہے ۔ اس مسلم دشمنی کے اثرات لا محالہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بھی ضرور متاثر کریں گے ۔
مشرق وسطیٰ کی صورت حال تو مملکت اسرائیل کے وجود کے ساتھ ہی خراب ہو چکی تھی اور عرصے سے یہ خرابی برگ و بار بھی لا رہی تھی مگر اب حالات اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ یہ کسی بھی عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں ۔ شام کی یہ جنگ اب کئی ممالک کی جنگ بن چکی ہے ۔ بشار الاسد کے پہلے کیمیائی حملے کے بعد امریکا نے شام پر حملے کا عندیہ دیا تھا مگر اندرونِ خانہ شامی حکومت سی آئی اے کے طفولیت میں چلی گئی جس کے بعد شامی حکومت نے کئی بار کیمیائی حملے بھی کیے ، عورتوں کی عصمت دری بھی ہوئی اور قحط کو بھی بطور ہتھیار استعمال کی گیا اور ہنوز یہ سب کچھ کیا بھی جا رہا ہے مگر اس پر عالمی ضمیر خاموش ہے ۔
سعودی عرب کی صورت حال بھی پر از تشویش ہوتی جا رہی ہے ۔ حتیٰ کہ اب سعودی عرب بھی حالتِ جنگ میں ہے بحرین اور یمن سے ملحقہ اس کی سرحدیں اب محفوظ نہیں رہیں ۔
الغرض پورا عالم اسلام ہی اپنی تاریخ کے پر از آزمائش دور سے گزر رہا ہے یہ جو نوحہ گری کی گئی ہے اس کا دائرہ تو بہت محدود ہے  لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے ۔ مگر ہمیں حالتِ سکر میں مدہوش رکھنے کے لیے پیروکارانِ دجال کے پاس بہت کچھ ہے ۔ اسلامی دنیا کے بے ضمیر سیاست دانوں نے اپنے اپنے وعدوں کی قیمت پر ہمارے خواب تخلیق کیے ہیں ۔ جھوٹے خوابوں کی سچی مگر تلخی تعبیریں ظاہر ہو رہی ہیں ۔ ہم قوم ، نسل اور علاقے کی بنیادوں پر تقسیم ہو رہے ہیں ۔ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ جاری ہے ۔
ائمہ مضلین نے مذہب کی دکانیں سجا رکھی ہیں جہاں ایک طرف تو تضلیل و تفسیق اور اس سے بڑھ کر تکفیر کے فتوے بٹتے ہیں تو دوسری طرف نجات اخروی کے پروانے تقسیم کیے جا تے ہیں ۔ یہ علمائے دنیا پرست مسلمانوں کو فرقہ پرستی کے جہنم کدے سے کبھی باہر نکلنے نہیں دیں اور اس صراط مستقیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہیں گے جو ہر تفرقہ کا خاتمہ کرکے انسانیت کو ایک رشتہ وحدت میں پرو دیتی ہے ۔
صحافت کو عبادت کا درجہ دینے والوں نے اپنی عبادت کے لیے شیطانی مندر کا انتخاب کر لیا ہے ۔  بے دردی سے حقائق مسخ کر دیئے جاتے ہیں اور فکر کی ساری طاقت بروئے کار لا کر تخیل کو حقیقت بنا دیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ اداروں کا کام قوموں کو ان کے مقاصد سے منسلک رکھنا تھا مگر انہوں نے مقصودِ حیات سے دور کرنا ہی اپنا مقصد بنا لیا ہے ۔
ذاتی تغافل میں مبتلا قوم یونہی زمانے میں رسوا ہوا کرتی ہے ۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی ایمانی حالت پر نگاہ نہیں ڈالتے ، وہ اپنی قوت عمل کی تاثر پذیری کو فراموش کر چکے ہیں ۔ مادہ پرستی نے ان کی نگاہوں کو خیرہ کر لیا ہے کہ اب تعداد کی قلت و کثرت ، آلات حرب کی کمی و زیادتی اور وسائل گوناگوں کی بندش و فراخی ان کے نزدیک پیمانہ کامیابی و سرفرازی ہے ، اور اس سطحی نظریئے کے ساتھ وعدہ نصرت الٰہی کے تکمیل پذیر ہونے کے خواہشمند ہیں ۔ وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ کا وعدہ نصرت الٰہی تو بر حق ہے لیکن جب ہم إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ کے مخاطب ہی نہ بنے ہیں تو پھر کیا حق ہے کہ وعدہ نصرت الٰہی کے نا تکمیل پذیر ہونے کا شکوہ کریں ؟
تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو۔ (سورہ آل عمران آیت 139)

زندہ فرد از ارتباط جان و تن           زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکی رودِ حیات  مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

" فرد کی زندگی جان اور جسم کے درمیان ارتباط پر موقوف ہے ، جبکہ قوم کی زندگی اپنے ناموس کی حفاظت میں ہے ۔ فرد اپنے زندگی کے دریا کے خشک ہوتے ہی مر جاتا ہے جبکہ قوم مقصودِ حیات کو ترک کرنے کے سبب مرتی ہے ۔ "

علامہ اقبال 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے