ہفتہ، 5 جولائی، 2014

پاکستانی نفاق۔۔۔ ایک لمحہ فکریہ

شوال 1434ھ/ اگست 2013، شمارہ  17
پاکستانی نفاق۔۔۔ ایک لمحہ فکریہ

پاکستانی نفاق۔۔۔ ایک لمحہ فکریہ

ابو عمار محمد سلیم

شکر ہے کہ رمضان المبارک اپنا وقت پورا کرکے چلا گیا اور امت مسلمہ نے شوال میں داخل ہوکر پورے جوش و خروش سے عیدمنالی۔رمضان المبارک کا مہینہ کچھ لوگوں کے لئے خیر و برکت کا خزانہ ، معافی اور درجات کی بلندی کا موقع لے کر آیا تو کچھ لوگوں کے لئے بے جا مشقت اور خواہ مخواہ کی بندشیں بھی لے آیا۔ معاشرہ کے ایک طبقہ کے لئے کاروباری مواقع کی سازگاری بھی لایا تھا۔ان لوگوں نے خوب خوب فائدہ اٹھا یا ، لوگوں کا خون بھی چوسا اور اپنی تجوریوں کی صحت میں بھر پور اضافہ بھی کیا۔ مگر اسی معاشرہ کے ایک طبقہ نے صرف اللہ کی رضا کے لئے غریبوں اور نادار وں و مسکینوں کی خوب خبر گیری کی اور اپنے لئے اللہ کی خوشنودی حاصل کرلی۔ کئی جگہوں پر لوگوں نے اپنے روزوں کو بہلانے کے لئے دن میں فلموں اور ناچ گانوںکا اہتمام کیا تو کچھ لوگوں نے افطار کے بعد کے اوقات کو دن کی گہما گہمی میں تبدیل کرلیا۔ بازاوروں میں میلے ٹھیلے لگے رہے جو سحری تک چلے اور ان کے برابر کچھ لوگ شب بیداری میں لگے رہے، روتے رہے، گناہوں کی معافی مانگتے رہے۔ کہیں ایک سے ایک نئے فیشن کے کپڑے بھی بنے تو دوسری طرف غریبوں اور مسکینوں کا تن بھی ڈھانپا گیا۔کہیں اپنے کام و دہن کی لذتوں کا اہتمام رہا تو کہیں بھوکوں اور ترسے ہوئے غرباء کے پیٹ بھی بھرے گئے۔ ٹی وی چینلوں نے اپنی پسند کا اسلام بھی نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس کے شانہ بشانہ ناچ گانے اور عریانیت کا بھی خوپ راگ الاپا گیا۔وہ جو پورا سال خوب مٹک مٹک کر اور لہک لہک کر شیطانی ایجنڈے کو پروان چڑھاتے رہے تھے رمضان کے آتے ہی عالموں اور خدا رسیدہ بندے اور بندیوں کے روپ میں نظر آئے۔ ایسے ایسے فلسفے سننے میں آئے کہ دل لرز لرز اٹھا اور عاقبت اپنے برے انجام کے خوف سے کانپ اٹھی۔ خدا ترسی کے مظاہرے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبوں کا بھی بھرپور اظہار ہوا تو انسانی جانوں کی ارزانی اور معصوموں کے خون کو بھی دھماکوں اور گولیوں کی زد میں بہایاگیا۔اور پھر ان انتیس دنوں کے اختتام پر چاند دیکھنے اور عید پڑھنے کی تیاریوں کی خوشی کو عید گاہ میں انسانی لاشوں سے پاٹ کر عید کا تحفہ قوم کو دیا گیا۔ ایک طرف قدرتی آفات نے نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ہیہات ، ہیہات ، افسوس ، افسوس۔
آج عید کے دوسرے دن بیٹھ کر میں اس پورے ماہ رمضان کے اوپر نظر دوڑا رہا ہوں تو مجھے خود اپنے آپ سے گھن آرہی ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے فخر اور انبساط کے جذبات ہیں تو پاکستانی ہونے کے ناطے افسوس ، شرمندگی اور ندامت سے نظریں جھکی ہوئی ہیں۔ امت مسلمہ کا حال دگر جو پوری دنیا میں اغیار کے ہاتھوں ہورہا اس کا تو خیر ذکر ہی کیا ، قومیت کے جس جذبے کا پرچار ہمارے یہاں کیا جا رہا تھااس کی قبا بھی فرقہ پرستی نے چاک چاک کر رکھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ من حیث القوم پاکستانیوں کا پورا مزاج اور کیرکٹر نفاق اور دوغلے پن سے مزین ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی لوگ منافقت کرتے ہونگے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے خمیر میں ملعون عبداللہ بن سبا منافق کے منحوس مٹی کی آمیزش ہے۔
کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور اسی کی خاطر ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو بنایاتھا ، مگر خدا صرف ہمارے ملک کے نام کے ساتھ رہ گیا ہے۔ ہم نہ اللہ سے ڈرتے ہیں ، نہ اس کا حکم مانتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی کوئی پرواہ ہے۔بیشتر لوگ جو پورے ماہ رمضان میں نیکی اور بھلائی کمانے کی کوشش کرتے رہے ، وہ بھی ، اور وہ تمام لوگ بھی جو پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو دکھاتے رہے وہ بھی ، رمضان کے بعد اپنی پرانی روش پر آجائیں گے۔ وہی بے ایمانی ، دھوکہ دہی ، رشوت ، حرام خوری ، غیبت ، زنا اور قتل انسانی جیسے گھنائونے کاموں میں پوری تندہی اور زور و شور سے منہمک ہو جائیں گے۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کی روح کی بالیدگی کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس میں مسلمان اپنی پچھلی زندگی کی برائیوں اور غلطیوں کا جائزہ لیتا ہے اور اللہ سے اپنی غلطیاں معاف کرواتا ہے، گناہ بخشواتاہے اور آئندہ کے لئے نیکی اور بھلائی کا راستہ اختیار کرنے کا عزم کرتا ہے۔ اللہ سے مدد اور استعانت کا طلب گار ہوتا ہے۔ پورے ماہ کی پر خلوص تیاری کے بعد آخر ایسا کیا ہوتا ہے کہ عید کے چاند کے ساتھ یہ ساری کی ساری تربیت کہاں ہوا ہوجاتی ہے ؟۔ کیسے غائب ہوجاتی ہے ؟۔ 
اگر کوئی یہ کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے اور بڑا اندھیرا ہے تو عین ممکن ہے کہ سورج ہی نہ نکلا ہو یا پھر اس طرح گہنا گیا ہو کہ ا س کی روشنی دنیا تک نہیں پہنچ سکی ہو۔ اسی تناظر میں ہم اسلام کو اور اپنے اعمال کو دیکھیں تو ایسا ہی محسوس ہوگا کہ اسلام کی روشنی ہم تک پہنچی ہی نہیں جب ہی تو ہم ایسے گھپ اندھیرے میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ وگرنہ اسلام کی تعلیم اور بے راہ روی ، اسلامی معاشرہ اور گناہ کا اڈہ ، اللہ کا خوف اور شیطان کی پیروی ، شریعت کی پابندی اور حرام کاری ، اسلامی جذبہ اخوت و ہمدردی اور انسانی جانوں کی ایسی ارزانی ، یہ سب کیسے ممکن ہے ؟ یہ سب چیزیں کیسے ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں ؟ کچھ نہ کچھ کہیں نہ کہیں غلط تو ہے۔ مفتی منیب الرحمان صاحب ٢٩ کے چاند کا اعلان کردیں تو بڑے پائے کے عالم اور درست قوت فیصلہ والے قرار پاتے ہیں اور اگر چاند نظر نہ آنے کا اعلان کردیں تو وہی مفتی صاحب بے چارے لعن طعن کا شکار ہو جاتے ہیں۔آخر ایسا کیوں ہے ؟
ہم میں سے اکثر لوگ اس پورے ماہ میں ایک روح پرور ماحول کو برقرار رکھتے ہیں ۔ اس کو روزے ، تلاوت کلام پاک اور نمازوں سے سجائے رکھتے ہیں مگر عید کی نماز کے ساتھ ہی اس دن کی دیگر نمازوں کے اوقات بھول جاتے ہیں۔ روزوں کے دوران حلال لقمہ اور پاک پانی کو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں مگر عید کے بعد مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے اور انسانی خون کی چسکیاں لینے سے دریغ نہیں کرتے۔ کیوں ؟ ذرا سوچئے کہ آخر خرابی کہاں ہے ؟۔ کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم لوگ صرف دکھاوا کر رہے ہیں۔ ہمیں نہ اللہ کی رضا سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی آخرت کا کوئی خوف۔ میرے ذاتی خیال میں شائد یہ وجہ ہی سب سے واضح اور سامنے کی ہے کہ ہم لوگ آخرت کو بھول بیٹھے ہیں۔ وہ دن جو ہر ایک پر آنے والا ہے جس کی پہلی سیڑھی موت ہے جسے ہم سب جانتے ہیں اپنی آنکھوں سے ہر روز دیکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آج تک کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والا ہو۔ اسلام نہیں کسی بھی مذہب والے کے نزدیک موت لازمی اور ہر ایک پر آنے والی حقیقت ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرنے کے بعد سب کچھ ہم یہاں ہی چھوڑ جائیں گے ۔ اور پھر مسلمان ہونے کے ناطے قیامت کے قائم ہونے پر ہمارا ایمان بھی ہے ۔شائد ہی کوئی بد بخت مسلمان ایسا ہو جو قیامت اور حساب کتاب کا انکار کرنے والا ہو ۔ مگر اس کے باوجود اس حساب کتاب سے ہم لوگ اس قدر بے گانہ کیوں ہیں ؟۔ اگر اس حساب کتاب سے ہمیں خوف ہوتا تو ہم اپنی زندگیوں میں بوریاں بھر بھر کر گناہ نہ کما رہے ہوتے۔ کچھ بد بخت تو وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی مسلمان ہے ہی نہیں اور وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ کافروں کے خلاف کررہے ہیں اس لئے ان کا قتل بھی جائز ہے اور ان کا لوٹنا بھی ۔ مگر اکثریت ان مسلمانوں کی ہے جنہیں اللہ کے غفور الرحیم اور معاف کردینے والی صفت کاملہ پر بہت بھروسہ ہے۔ان کے نزدیک ان کا ایمان یہ ہے کہ جب ہم نے کلمہ پڑھ لیا تو پھر ہمیں اس اسلامی کلب سے کوئی نہیں نکال سکتا اور اللہ بھی نعوذ باللہ مجبور ہوگا کہ ہمیں معاف کردے اس لئے کہ ہم کلمہ گو مسلمان ہیں اور اللہ کے حبیب ۖ کی امت سے ہیں ۔ اے نادانو ! جان لو کہ تم بڑی غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔ اس نے قرآن میں کہا ہے کہ کہ وہ صرف شرک کے گناہ کو کبھی معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا چھوڑ دے گا بخش دے گا۔ اب ذرا غور کرو کہ تم جس طرح کی زندگی گذار رہے ہو اس میں تم کس وقت اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی طرف راغب ہوجاتے ہو۔ کس موقع پر تم اللہ سے منہ پھیر کر طاغوت کی طرف متوجہ ہوتے ہو۔ اللہ کے احکام کی نافرمانی اور بات ہے مگر اللہ کو چھوڑ کر شیطان اور اپنے نفس کی پوجا ہی تو شرک ہے۔ ایمان اور شرک میں بڑا ہی باریک سا فرق ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اس فرق کی تفریق نہیں کرسکتے ہیں اور یہ ہی ہماری بدبختی اور سیاہ کارناموں کی دلیل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتنی ہی جگہ پر یہ تنبیہ کی ہے کہ مسلمانو ! اپنے قدم جانچ کر رکھو ، اپنے اعمال پر نظر رکھو اور احتیاط سے کام لو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں پتہ بھی نہ چلے اور تمہارے سارے اچھے کام اکارت ہو جائیں اور تم جہنم میں جا پڑو۔
ہمارا اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان اور اس کے احکام کی پابندی حضور پرنور سیدالمرسلین خاتم النبین حبیب خدا حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰۖ کی محبت اور تابعداری کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ حضور اقدس صادق الوعد نے فرمایا ہے کہ دنیا تو صرف تھوڑی دیر رکنے اور سستانے کی جگہ ہے یہاں پکا رہنے کو کوئی نہیں آیا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس کو اپنا آخری گھر بنانے کے لئے استعمال کرو۔ دنیا سے ایسے گذر جائو جیسے کوئی مسافر درخت کے نیچے ذرا دیر رک کر سستاتا ہے اور آگے چل پڑتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا میں زندگی کو برتنے کا یہ بہترین فارمولا ہے۔ ہم حضور علیہ السلام کے نام لیوا ہیں اور ان کے لئے اپنی جان بھی قربان کرنے کے دعویدار ہیں۔ مگر ہم ان کی ذات اقدس پر جان تو خیر کیا نچھاور کریں گے ہم ان کی صرف اس حدیث مبارک پر ایمان لا کر اپنے اعمال کو سیدھا کرلیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔ آخرت کی تیاری کا یہی وقت ہے یہ نکل گیا تو پھر دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔
میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی ہدایت عطا کرے اور ہم اپنا سارا زور اور اپنی طاقت اپنے آخرت کے گھر کو بہتر کرنے کے لئے استعمال کریں۔ دنیا کی بہتری اور بھلائی ضروری ہے مگر صرف اسی حد تک کہ یہاں کی زندگی آرام سے گذر جائے ۔ سرکشی اور طاغوت کی پیروی میں نہ گذرے۔ اے اللہ پاکستانی قوم کو اور امت محمدی کو اپنی اصلاح کی توفیق عطا کر ، اپنا اچھا اور برا سمجھنے کی نظر عطا کر طاغوت کی پیروی سے بچا اور اپنے پیارے نبی علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت کا سلیقہ ہمارے لئے حرزِ جاں کردے ۔ آمین یا رب العالمین ۔     

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے