ہفتہ، 19 جولائی، 2014

ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

ذیقعد و ذی الحجہ 1434ھ/ ستمبر اور اکتوبر 2013، شمارہ  18
AlWaqiaMagzine, Al-Waqia,  AlWaqiaMagzine.wordpress.com, Al-Waqia.blogspot.com, مجلہ الواقعۃ
سید شاہ محمد حسن بسمؔل عظیم آبادی, 18, حکایت ہستی, غزہ, عراق, شام کی جنگ, مسئلہ فلسطین

ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی اے ضعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
رَہ روِ راہِ محبت ! رہ نہ جانا راہ میں
لذت صحرا نوردی دوری منزل میں ہے
شوق سے راہِ محبت کی مصیبت جھیل لے
اک خوشی کا راز پنہاں جادہ منزل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے
مرنے والو آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے خنجر کفِ قاتل میں ہے
مانعِ اظہار تم کو ہے حیا ، ہم کو ادب
کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
میکدہ سنسان ، خم الٹے پڑے ہیں ، جام چور
سر نگوں بیٹھا ہے ساقی جو تری محفل میں ہے
وقت آنے دے دکھا دینگے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک حسرت دلِ بسملؔ میں ہے

سید شاہ محمد حسن بسمؔل عظیم آبادی

( 1900 ء ---- 1978 ء )
کے مجموعہ کلام " حکایت ہستی "سے ماخوذ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے