اتوار، 6 جولائی، 2014

مذہبی قائدین !......... اس خطرناک سازش کا ادراک کریں

شوال 1434ھ/ اگست 2013، شمارہ  17

مذہبی قائدین !......... اس خطر ناک سازش کا ادراک کریں افتخار جمیل

مذہبی قائدین !......... اس خطر ناک سازش کا ادراک کریں

افتخار جمیل

ٹی وی چینل پر رنگین اسلام کے حوالے سے روز نامہ اسلام کے ٢٦جو لائی ٢٠١٣ء کے حوالے سے یہ مضمون شائع ہو ا کہ نجی ٹی وی چینل علماء کی جگہ گلوکاروں ، اداکاروں اور مسخروں کے ذریعے ایسے دینی پرو گرام دکھا رہے ہیں جس کی وجہ سے خود ساختہ علماء اور دانشوروں کی ایک بڑی کھیپ مارکیٹ میں دستیاب ہے ایسے خود ساختہ اور حیاء باختہ مذہبی اسکالر ز کے ذریعے اخلاقیات ، سماجی تعلقات ، روشن خیالی کے ذریعے دین پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے ۔
بد قسمتی سے اصل دینی ذمہ دران اپنی جمہوریت کے کھیل میں اس بری طرح مگن ہیں کہ ان کو احساس ہی نہیں کہ دین کا حلیہ کس طرح بگاڑا جا رہا ہے نہ انہیں اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہے تقریباً ٢٠،٢٥ سال قبل بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد  نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل صاحب (مرحوم ) کو خط لکھا جو روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوا کہ اپنے اپنے طریقے کار میں رہتے ہو ئے ایک وسیع دینی اتحاد قائم کیا جائے اور بڑے بڑے کبیرہ گناہوں سود ، فحاشی ، شراب نو شی وغیرہ جیسے قبیح گناہوں سے امت کو بچانے کے لیے میدان میں آئیں اور اس کے خلاف زبردست جدو جہد کریں تا کہ عوام الناس کو دین کی صحیح فکر اور اخلاقیات کو عام کر نے کی کوشش کی جائے ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے ۔جس کے جواب میں جو جنگ ہی میں شائع ہوا تھا میاں طفیل (مرحوم) نے اس خیال کو مسترد کر دیا اور کہا تھا کہ آپ اپنا کام اپنے طریقے سے کرتے رہیں اور ہم اپنے طریقے سے ۔آج جب کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا اور اب ریت نظر آرہی ہے تو بھی دینی عمائدین اس پر غور کر نے کے لیے تیار نہیں ۔
 آج سے تقریباً ٥٠ سال پہلے جب ٹی وی کے لیے پالیسی بنائی جارہی تھی جس کے سر خیل ذوالفقار علی بخاری تھے اس نشست میں پرو فیسر شمیم صاحب (مرحوم) جو شعبہ اردو جامعہ کراچی کے پرو فیسر رہ چکے ہیں بھی موجود تھے جنہوں نے بعد ازاں اس ٣ گھنٹے پر محیط نشست کی روداد ١٩٧٠ء اور پھر جنوری ١٩٧٩ء میں ایک اخبار میں شائع کی ۔اس نشست میں بخاری صاحب نے ٹی وی کے دو مقاصد بیان کیے اول تو ایوب خاں کے کارناموں کی تشہیر اور سب سے بڑا مقصد :
'' آپ کا دوسرا اور اہم مقصد قوم اور متوسط طبقے کو فرسودہ مذہبی تصورات سے نجات دلائیں اور یہ کام اس خوبی سے کریں کہ لو گوں کو شعوری طور اس کا پتہ نہ چلے کہ آپ جدید نسلوں کو مذہبی اثرات سے پاک کر نے کی کوئی مہم چلا رہے ہیں ۔ اگر آپ نے یہ کام کر لیا تو ہم ہمیشہ کے لیے مذہبی جنونیوں اور ملائوں سے اپنی معاشرت اور سیاست کو پاک کرلیں گے ۔میں آپ سے ہر اس لکھنے والے کو پروگرام کے معاوضے کے علاوہ ٢٠٠ سو روپے ماہوار دوں گا جو عربی پڑھے گا ، ہم چاہتے ہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو سے ایسے افراد کو بحیثیت عالم دین مفکر کی حیثیت میں پیش کر سکیں اور ان تمام ملائوں کے اثرات دو ر کر سکیں جو مذہب کے ٹھیکدار بنے ہو ئے ہیں جنہیں ہم طو عاً وکر ھاً پیش کر نے پر مجبور ہیں ۔ آپ کو مذہب کی خرافات سے معاشرے کو نجات دلانا ہے اور اسی لیے ہم اس ادارے کے ذریعے بالکل جدید ذہنوں کو آگے لانا چاہتے ہیں ۔ آپ اس مقصد کو پو را کرنے کے لیے منافقت اور تضاد کردار کے لیے منفی ڈرامہ کرداروں کے داڑھی لگائیے ، مضحکہ خیز کرداروں کو مشرقی لباس پہنائیے ۔ یاد رکھیے کہ آپ کو اپنے تمام کردار وں اور انائونسر وں کو وہ لباس پہنانا ہے جو ہمارے ترقی یافتہ معاشرے میں ١٠٠ سال بعد رائج ہونا چاہیئے جو اب ایک فیصد اوپر کے طبقے میں رائج ہے ۔''
 گو کہ یہ ہدایات بخاری (مرحوم) کے لبوں سے جاری ہو ئیں مگر در حقیقت یہ اس بنیادی پالیسی کا حصہ تھی جس کو مغرب زدہ ، لا دینی نو کر شاہی اور صاحب اقتدار طبقے نے تشکیل دیا اور جس کے حصول کے لیے کروڑوں ڈالر قرض لے کر ٹی وی میڈیا کو وطن عزیز میں لا یا گیا ۔
اس طرح ہمارے لا دین مغرب پر ست نو کر شاہی اور پالیس ساز اداروں نے ابلاغ عامہ کے ذریعے ہمارے کم سن نو جوانوں لڑکیوں کو ٢٤ گھنٹے تفریحات میں مصروف رکھنے اور مغربی تہذیب میں رنگنے کا پو را انتظام کیا ہو ا ہے یہ سب ترقی کے نام پر ہو رہا ہے ۔ اس کا سب سے موثر کام نئی نسلوں کو ماں باپ کی تر بیت سے نکال کر وہ بنا دینا ہے جو وہ چا ہتا ہے ۔

جس طرح  wall street  پر یہودیوں کا قبضہ ہے ، معیشت ، معاشرت ، میڈیا ان کے کنٹرول میں ہے اسی طرح پاکستان میں یہی اقلیت اپنے آلہ کاروں کے توسط سے ہر اہم جگہ پر فائز ہے ۔ میڈیا ہو یا بینکس زیادہ تر انہیں کے قبضے میں ہیں ۔ ٹی وی کے ذریعے ملحدانہ نظریات کو پیش اور عام کیا جارہا ہے ۔جس طرح بے حیائی اور بے غیرتی کی تشہیر کی جا رہی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں '' فلم خدا کے لیے '' اور '' بول '' جیسی مذہبی بغاوت پر مبنی فلمیں ریلیز ہوئیں اور جن کی بھر پور اشتہاری مہم چلائی گئی ۔ وہ زیادہ پرانی بات نہیں ۔اب '' بر قع ایونجر '' کے نام سے کامیڈی کارٹون سے اسلامی ثقافت کی جو تحقیر کی جارہی ہے بد قسمتی سے اس پر بھی کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں گو یا ہم '' غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے '' کے حوالے سے دینی اور مذہبی گراوٹ کی بد ترین مثال بنے ہو ئے ہیں ۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے