جمعہ، 25 جولائی، 2014

سعید بن عامر رضی اللہ عنہ


ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ جنوری اور فروری2014، شمارہ 22 اور 23 



اسوہ صحابہ                                                             

سعید بن عامر رضی اللہ عنہ

عبد الرحمٰن رافت پاشا
ترجمہ : محمود احمد غضنفر

حضرت سعید بن عامر ان ہزاروں میں ایک نوجوان رعنا تھے ، جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ معظمہ کی بالائی جانب مقام تنعیم کی طرف محض اس لیے چل کھڑے ہوئے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت خبیب بن عدی  کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ، جنہیں قریش نے دھوکے سے پکڑ لیا تھا ۔
اس کے شباب فراواں اور ابھرتی ہوئی جوانی نے اسے اس قابل بنا دیا تھا کہ وہ لوگوں کے کندھے پھلانگتا ہوا ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ ایسے سرداران قریش کے برابر کھڑا ہو سکے ۔ وہاں ان دونوں کے سوا اور بھی شہ سواران عرب موجود تھے جو اگلے صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
اسے اس طرح یہ موقع ملا کہ قریش کے اس اسیر کو بچشم خود پا بجولاں دیکھ سکے ۔ اس نے اس منظر کا مشاہدہ کیا کہ عورتیں ، بچے اور جوان سب اسے موت کی وادی کی طرف بے دریغ دھکیل رہے ہیں ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لیں اور یوں بدر کے مقتولین کی رسوائی کا بدلہ چکا ئیں ۔ جب یہ ہجوم اپنے اس قیدی کو لے کر اس مقام پر پہنچا جو پہلے سے اس کی شہادت کے لیے متعین تھا ، تو اس مرحلہ پر طویل القامت نوجوان سعید بن عامر  نے حضرت خبیب کی طرف نظر دوڑائی ۔ سرداران قریش اسے کشاں کشاں تختہ دار کی طرف لے جا رہے تھے ۔ اس نے عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار اور شور میں ایک پُر وقار اور پر سکون آواز سنی ۔ حضرت خبیب  فرما رہے تھے :
اگر تمہارے لیے ممکن ہوتو مجھے مرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دو !
پھر سعید بن عامر نے دیکھا کہ حضرت خبیب کعبہ کے رخ کھڑے ہوکر دو رکعت نماز پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دو رکعتیں کیسی تھیں ، اتنی حسین ، اتنی مکمل کہ کیا کہنے ! اس کے بعد اس نے دیکھا کہ قوم کے سرداروں کی طرف منہ کر کے حضرت خبیب  یہ کہہ رہے ہیں ۔
بخدا ! اگر مجھے اس بد گمانی کا اندیشہ نہ ہوتا کہ تم کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ میں نے نماز کو موت کے ڈر سے طوالت دی ہے تو میں نماز میں اور زیادہ وقت صرف کرتا ۔ پھر اس نے صنادید قریش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ حضرت خبیب کا زندہ حالت میں مثلہ کر رہے ہیں ، یعنی یہ لوگ ان کے جسم کا ایک ایک عضو یکے بعد دیگرے کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور تم اس تکلیف سے بچ جاؤ ؟


ان کا اس حالت میں کہ خون کے دھارے پھوٹ رہے تھے جواب یہ تھا کہ :
خدا کی قسم ! مجھے یہ قطعاً پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں امن اور چین سے رہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کانٹا بھی چبھے ۔ پھر جناب سعید بن عامر نے دیکھا کہ لوگ فضاء میں ہاتھ ہلا ہلا کر اور بآواز بلند کہہ رہے ہیں۔
اسے مار ڈالو ۔ اسے مار ڈالو ، اس کے بعد انہوں نے حضرت خبیب کو دیکھا کہ وہ تختہ دار پر اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کر رہے ہیں ۔
الٰہی ! ان سب ظالموں کو شمار کر لے اور انہیں تباہی کا مزہ چکھا اور ان میں سے کسی کو معاف نہ کر ۔ یہ کہہ کر انہوں نے زندگی کی آخری سانس لی ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ان کا جسم تلوار اور نیزوں کی ضربات سے چور تھا اور اتنے زخم کھا چکا تھا کہ جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا ۔
        قریش بالآ خر مکہ واپس لوٹ آئے اور اس کے بعد پیش آنے والے بڑے بڑے سنگین معرکوں کے نرغے میں حضرت خبیب اور ان کے واقعہ شہادت کو یکسر بھلا بیٹھے ، لیکن اس نوجوان سعید بن عامر کے پردہ دل سے ایک لحظہ کے لیے بھی حضرت خبیب کی شہادت کا منظر محو نہ ہوا ۔ چنانچہ جب بھی وہ سوتے خواب میں یہ منظر برابر دکھائی دیتا اور بیدار ہوتے تو چشم خیال میں یوں محسوس ہوتا جیسے کہ تختہ دار کے آگے حضرت خبیب پورے اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان کی پُر درد آواز جیسے ان کے کانوں میں گونج رہی ہے اور وہ قریش کے خلاف بد دعا میں مصروف ہیں اور اس خیال سے ان کا کلیجہ دہل جاتا ہے کہ کہیں آسمان کا کڑکا ان کو آ نہ لے یا آسمان سے پتھر گر کر ان کو تباہ نہ کر دیں ۔
        حضرت خبیب نے جام شہادت نوش کر کے جناب سعید بن عامر کو وہ کچھ سکھا دیا جس کا انہیں پہلے قطعی علم نہ تھا ۔ انہیں سکھایا کہ حقیقی زندگی عقیدہ اور عقیدے کی راہ میں تا دم آخر مسلسل جہاد کرنے کا نام ہے ۔ دوسری بات جو اس واقعہ سے انہوں نے سیکھی ، وہ یہ تھی کہ پختہ و محکم ایمان ایسے عجیب و غریب کردار کو جنم دے سکتا ہے جو عام حالات میں ظہور پذیر نہیں ہوتے ۔ علاوہ ازیں انہیں اس حقیقت کا بھی احساس ہوا کہ وہ شخص جس سے اس کے رفقاء اس درجہ محبت رکھتے ہیں کہ اس پر جان نچھاور کر دیں ، بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سعید بن عامر کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ، چنا نچہ بر سر مجمع یہ اعلان کر دیا کہ میں سر تسلیم خم کرتا ہو ں ۔ میں آج سے مسلمان ہوں ۔
حضرت سعید بن عامر نے مکہ کی سکونت ترک کر کے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور صحبت میں رہنے لگے خیبر اور اس کے بعد ہونے والے غزوات کی شرکت کا شرف حاصل کیا ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے جوار رحمت کی طرف کوچ کیا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعید بن عامر کی خدمات کی وجہ سے خوش تھے ۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ہاتھوں میں حضرت سعید بن عامر برہنہ شمشیر بن کر رہے اور ایسی زندگی بسر کی جو مسلمانوں کے لیے کردار کا نادر نمونہ ثابت ہوئی ، جنہوں نے دنیا کو بیچ کر آخرت کا سودا کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں راجح اور مقدم جانا ۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں خلفاء حضرت سعید بن عامر کی صداقت اور مسند خلافت پر فرو کش ہوئے ہی تھے ۔
آپ نے فرمایا ۔ اے عمر ! میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں سے کبھی نہ ڈرنا اور یہ کہ تمہارے قول و فعل میں تضاد کبھی نہ ہونا چاہیے ، اس لیے کہ انسان کی بہترین گفتار وہی ہوتی ہے جس کی تصدیق اس کا کردار کرے ۔
اے عمر !
        اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جن مسلمانوں کا تمہیں نگران بنایا ہے ، ان کے معاملات کی طرف خصوصی دھیان دیتے رہنا ، ان کے لیے وہی پسند کرنا جو خود تمہیں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے پسند ہو اور ان کے لیے ہر اس چیز کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا جو خود تمہیں اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لیے نا پسندیدہ ہو ۔ شدائد کا سامنا کرنے سے نہ گھبرانا اور راہ حق پر مضبوطی سے جمے رہنا اور حق کی راہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہ لانا ۔
حضرت عمر نے نے فرمایا :
        سعید ! بھلا کس میں یہ ہمت ہے کہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکے ۔
سعید نے فرمایا :
آپ اس کے اہل ہیں ۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی کا فریضہ سونپا ہے ۔ آپ ایسے شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ سے زیادہ اور اس کا مستحق نہیں اس مرحلہ پر حضرت عمر نے جناب سعید کو اپنی نصرت و تائید کے لیے دعوت دی اور فرمایا :
اے سعید ! ہم تمہیں علاقہ حمص کا گورنر مقرر کرتے ہیں ۔
انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا :
'' اے عمر ! اللہ کے واسطہ ہے ، مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیے ۔''
حضرت عمر  نے اس پر خفاء ہو کر فرمایا :
'' بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خلافت کا بار تنہا میری گردن پر ڈال دیا اور خود اس سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کر رہے ہو خدا کی قسم میں چھوڑنے والا نہیں ۔''
        اس کے بعد آپ نے ان کو صوبہ حمص کا گورنر مقرر کر دیا اور ارشاد فر مایا :
کیا تمہارے لیے ہم کچھ معاوضہ مقرر نہ کر دیں ؟
اس پر حضرت سعید نے کہا :
امیر المومنین ! میں معاوضہ لے کر کیا کروں گا ۔ بیت المال سے جو کچھ ملتا ہے وہ بھی میری ضرورت سے زیادہ ہے ۔ یہ کہا اور حمص کی طرف چل دیے ۔ کچھ عرصہ بعد اہالیان حمص میں سے قابلِ اعتماد افراد مشتمل ایک وفد امیر المومنین حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا ۔
آپ نے وفد کو حکم دیا ۔
تم لوگ مجھے ان افراد کے نام لکھ کر دو جو تم میں مفلس و نادار ہیں تاکہ میں ان کی مالی مدد کر سکوں ۔ وفد نے آپ کی خدمت میں ایک دستاویز پیش کی ۔ آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس فہرست میں حضرت سعید بن عامر کا نام بھی درج ہے ۔ آپ نے دریافت فرمایا :
کون سعید بن عامر ؟
انہوں نے بتایا : ہمارا گورنر ۔
فرمایا : آپ کا گورنر مفلس ہے ؟
انہوں نے کہا : جی ہاں ، خدا کی قسم ! کئی کئی دن ان کے چولہے میں آگ نہیں جلتی ۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عمر بے اختیار رو پڑے اور اتنے روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ آپ اٹھے اور ہزار دینار لیے اور ان کو ایک تھیلی میں بھر کر فرمایا :
اس سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ امیر المومنین نے یہ تھیلی تمہارے لیے بھیجی ہے تاکہ اس سے تم اپنی ضروریات کو پورا کر سکو ۔
یہ وفد حضرت سعید بن عامر کے ہاں تھیلی لے کر آیا ۔ آپ نے دیکھا کہ اس میں تو دینار ہیں تھیلی کو اپنے سے دور ہٹا کر بس یہ کہنے لگے : انّا للہ و انّا الیہ راجعون
گویا کوئی بپتا نازل ہو گئی یا کوئی ناگوار واقعہ پیش آ گیا ۔ یہ کیفیت دیکھ کر آپ کی بیوی گھبرائی ہوئی اٹھی اور کہنے لگی :
میرے سر کے تاج ! کیا سانحہ رونما ہو گیا !
کیا امیر المومنین وفات پا گئے ؟
آپ نے فرمایا نہیں : بلکہ ، یہ بات کہیں زیادہ اہم ہے ۔ اس نے پوچھا : کیا کسی معرکہ جہاد میں مسلمانوں کو کوئی صدمہ پہنچا ؟ آپ نے فرمایا : اس سے بھی بڑی بات ہے ۔ اس نے عرض کی : بھلا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے ؟
فرمایا :
میرے ہاں دینار آئی تاکہ میری آخرت بگاڑ دے ۔ میرے گھر فتنہ ابھر آیا اس نے عرض کی :
کیوں نہ آپ اس فتنہ سے گلو خلاصی کر لیں ۔ اسے دیناروں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا ۔
انہوں نے فر مایا :
کیا اس سلسلہ میں میری مدد کرو گی ؟ عرض کی : جی ہاں ، کیوں نہیں ۔
آپ نے دینار متعدد تھیلیوں میں بند کیے اور غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیے ۔
اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عمر دیار شام تشریف لائے ۔ مقصد یہ تھا کہ اس علاقہ کے حالات معلوم کر سکیں ۔
ان دنوں حمص کا نام کویفہ پڑ گیا تھا جو لفظ کوفہ کی تصغیر ہے ۔ یہ اس نام سے اس لیے مشہور ہوا کہ یہاں کے لوگ عمال حکومت کے خلاف شکوہ شکایت کرنے میں اہل کوفہ سے بہت حد تک مشابہت رکھتے تھے ۔ جب حضرت عمر کی تشریف آوری حمص میں ہوئی تو یہاں کے لوگ آپ کو سلام عرض کرنے کی خاطر حاضر ہوئے ۔
آپ نے دریافت فرمایا :
تم نے اپنے امیر کو کیسا پایا ؟ انہوں نے اس کی شکایت میں زبان کھولی اور ان کے طرز عمل کے بارے میں چار باتیں کہیں ، جو ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر تھیں ۔
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے گورنر اور شکایت کرنے والوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت سعید کے بارے وہ میرے گمان کو جھوٹا نہ ہو نے دے ۔
مجھے اس پر بہت اعتماد تھا ۔ جب یہ لوگ اور ان کا گورنر بوقت صبح میرے پاس آئے تو میں نے دریافت کیا تمہیں اپنے گورنر سے کیا گلہ ہے ؟
انہوں نے بتایا :
کہ یہ دن چڑھے تک گھر سے باہر نہیں نکلتے ۔
اس پر میں نے پوچھا سعید ! تم اس سلسلہ میں کیا کہنا چاہتے ہو؟
سعید چند لمحے خاموش رہے ، پھر کہا :
بخدا میں اس سلسلہ میں کچھ کہنا نا پسند کرتا تھا ، لیکن اب اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ میں حقیقت حال صاف صاف بیان کر دوں ۔
صورت حال یہ ہے کہ گھر میں میرے پاس کوئی خادم نہیں ۔ میں صبح سویرے اٹھتا ہوں اور اہل خانہ کے لیے آٹا گوندھتا ہوں ۔ پھر تھوڑی دیر انتظار کرتا ہوں تاکہ آٹے میں خمیر پیدا ہو جائے بعد ازاں ان کے لیے روٹی پکاتا ہوں ۔ پھر وضو کر کے لوگوں کی خدمت کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہوں ۔
حضرت عمر فرماتے ہیں :
کہ میں نے ان سے پوچھا : کہ تمہیں ان کے خلاف اور کیا شکایات ہیں ؟
انہوں نے کہا کہ یہ رات کے وقت کسی کی نہیں سنتے ۔
میں نے کہا : سعید اس اعتراض کا تمہارے پاس کیا جواب ہے ؟
فرمایا : بخدا ، میں اس امر کا اظہار بھی نا پسند کرتا ہوں ۔ مختصراً یہ عرض ہے کہ میں نے دن ان کے لیے وقف کر رکھا ہے اور رات اللہ عز و جل کی عبادت کے لیے ۔
میں نے پوچھا :
آپ کو ان کے خلاف اور کیا شکایت ہے ۔
وہ بولے : مہینہ میں ایک دن غفلت سے کام لیتے ہیں ؟
میں نے دریافت کیا : سعید ! یہ کیوں ؟
سعید نے کہا : امیر المومنین ! میرے پاس نہ تو کوئی خادم ہے نہ ان کپڑوں کے سوا میرے پاس کپڑوں کا کوئی جوڑا ہے ۔ اس وقت جو کپڑے میں نے پہن رکھے ہیں ، مہینے میں ایک مرتبہ دھوتا ہوں ۔ پھر منتظر رہتا ہوں کہ یہ خشک ہو جائیں ۔ جب یہ خشک ہو جاتے ہیں تو میں انہیں پہن کر دن کے آخری حصے میں ان کا سامنا کرتا ہوں ۔
پھر میں نے دریافت کیا : کوئی اور شکایت ؟
انہوں نے کہا :
مجلس میں بیٹھے بیٹھے کبھی کبھی ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اہل مجلس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔
میں نے پوچھا سعید ! یہ کیا بات ہے ؟
سعید نے کہا : میں نے حضرت خبیب بن عدی  کی شہادت کا منظر بچشم خود دیکھا ہے ۔ میں اس وقت مشرک تھا ۔ میں نے دیکھا کہ قریش اس کی بوٹیاں کاٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں  ۔
        کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ؟
حضرت خبیب  جواب میں کہتے ہیں :
اللہ کی قسم ! میں یہ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں اپنے اہل و عیال میں اطمینان سے رہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں ایک کانٹا بھی چبھنے پائے جب بھی وہ مجھے یاد آتا ہے ، سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں نے اس دن ان کی کیوں مدد نہ کی ۔ ڈرتا ہوں کہ شائد اللہ تعالیٰ میرا یہ جرم معاف نہ کرے ۔ اس کے بعد مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے ۔
یہ سنا تو حضرت عمر  نے ارشاد فر مایا :
اللہ کا شکر ہے کہ جس نے سعید کے بارے میں میرے حسن ظن کو غلط ثابت نہیں کیا :
اس کے بعد آپ نے ایک ہزار دینار بھیجے تاکہ ان سے اپنی ضروریات پوری کر لیں ۔ جب یہ دینار حضرت سعید بن عامر کی بیوی نے دیکھے تو کہہ اٹھی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں آپ کی خدمات سے بے نیازی بخشی ۔ ہمارے لیے ضروریات کی اشیاء خرید لیجئے اور گھر کے کام کاج کے لیے ایک خادم رکھ لیجئے ۔ اس پر آپ نے اپنی بیوی سے فر مایا :
میں تجھے وہ چیز نہ دوں جو اس سے بھی بہتر ہو ۔
بیوی نے کہا بھلا وہ کیا ؟
فر مایا :
        یہ دینار ہم اسی کو لوٹا دیں جو ہمارے پاس لایا ہے ۔ ہم ان دیناروں سے کہیں زیادہ اس کے محتاج ہیں ۔
بیوی نے کہا : وہ کون ؟ فر مایا ! کیوں نہ ہم اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے دیں ۔
بیوی نے عرض کی :
        آپ نے بجا ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فر مائے ۔ آپ نے اسی مجلس میں دیناروں کو مختلف تھیلیوں میں رکھا اور اپنے اہل خانہ میں ایک شخص کو حکم دیا کہ جاؤ ، فلاں کی بیوی ، فلاں کے یتیم بچوں اور فلاں خاندان کے مساکین اور فلاں قبیلہ کے محروموں میں تقسیم کر آؤ ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سعید بن عامر  کو سند رضا سے نوازا ۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کو اپنی ذات پر تر جیح دیتے ہیں ، چاہے خود گھاٹے میں رہیں ۔
حضرت سعید بن عامر کے مفصل حالات زندگی معلوم کر نے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجئے ۔
1         تہذیب التہذیب : 154
2         ابن عساکر : 6 / 145 – 147
3         صفۃ الصفوة : 1 / 273
4         حلیۃ الاولیاء : 1 / 244
5         تاریخ اسلام : 352
6         الاصابہ : 3 / 326
7         نسب قریش : 399
ربّ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نماز
" غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پوری ''نماز''آقا اور مولیٰ کی حمدو ثناء تسبیح و تحلیل اور دعاؤں سے عبارت ہے۔ ''نماز''کی ہیئت بتارہی ہے کہ وہ اپنے معبودِ حقیقی کو دیکھ رہا ہے۔نہیں تو اتنا ضرور یقین رکھتا ہے کہ اس کا مالک اسے دیکھ رہا ہے۔''نماز''مومن کے باطن کا آئینہ ہے ۔''نماز'' میں اس کے دل کا خوف جھلکتا ہے ۔اس کی کمر ہی نہیں دل بھی جھک جاتا ہے ۔ پیشانی ہی نہیں روح بھی سجدہ ریز ہوتی ہے۔غرض تزکیہ نفس کا سب سے کامیاب ذریعہ ''نماز''ہی ہے۔ اسی سے قلبِ مومن میں تقویٰ ، بندگی اورعبودیّت کا جوہرنمایاں ہوتا ہے۔ اسی لیے نماز معراج المؤمنین ہے۔ ''نماز''ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں بندہ ہمہ وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے۔ ساری دنیا سے کٹ کر وہ صرف اپنے معبودِ برحق سے مل جاتا ہے۔ وہ اس طرح کھڑا ہوتا ہے کہ سامنے اس کا معبود ہے ۔ تو پیچھے اس کی موت،دائیں طرف جنت ہے تو بائیں طرف جہنّم ۔ '' نماز '' میں وہ اپنی زندگی ، اپنی موت ، اپنی متاع سب کچھ اپنے آقا کے لیے مختص کردیتا ہے ۔  وہ زمین اور آسمان کی بادشاہت میں کسی کو اس کا شریک نہیں مانتا ۔ وہ کسی کو اس کے سوا الہٰ کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں صرف اسی ذات الہٰ پر بھروسہ کرتا ہے ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ (سورة آلِ عمران: 159 ) ''بے شک اللہ انہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس پر بھروسہ کرنے والے ہیں۔''
محمد احسن اللہ ڈیانوی عظیم آبادی کی کتاب " روحِ نماز " سے ماخوذ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے