جمعرات، 10 جولائی، 2014

رمضان المبارک اور ہمارا المیہ (اداریہ)

رجب و شعبان 1435ھ /مئی۔ جون 2014ء، شمارہ 26 اور 27
 آداریہ الواقعۃ AlWaqiaMagzine.WrodPress.Com Al-Waqia.BlogSpot.com محمد تنزیل الصدیقی الحسینی رمضان المبارک اور ہمارا المیہ

رمضان المبارک اور ہمارا المیہ (اداریہ)

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس کے ساتھ ہی مختلف لوگ بر بنائے ذوق و طبائع اپنے اپنے شغل میں مشغول ہونے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ علوم مذہبی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس بحث کا دروازہ کھل رہا ہے کہ تراویح کی رکعات 8 ہیں یا 20 [1]۔ یہ وہ بحث ہے جو وہ ہر سال کرتے ہیں اور مسئلہ جوں کا توں موجود ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں کتابیں طبع ہونا شروع ہوجائیں گی ۔ فروعی مسائل سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے احباب اس کی نشر و اشاعت میں بھرپور حصہ لیں گے کہ یہی اصل دین ہے ۔ لیکن کبھی کسی نے یہ سوچا کہ تراویح کا اصل مقصد کیا ہے ؟ ہم تراویح کیوں پڑھیں ؟ اس پر سوچنے کے لیے نہ کسی کے پاس وقت ہے اور نہ کسی کے قلم میں ایسی جرات اظہار ۔
احادیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نصف رات یا کبھی اس سے کم یا کبھی اس سے زیادہ قیام اللیل فرماتے تھے ۔ ہمارے زاہدانِ عصر کی ہمت مردانہ ایک گھنٹے کے بعد جواب دے جاتی ہے [2]۔ 8 پڑھنے والے ہوں یا 20 پڑھنے والے جواب دیں کہ اس سنت پر ان کی نگاہِ عزیمت کیوں نہیں جاتی ؟ آثارِ صحابہ میں ذکر ملتا ہے کہ رمضان المبارک میں بالخصوص مساجد شب بھر آباد رہا کرتی تھیں ۔ تقریباً ہر فرد مصروف عبادت ہوا کرتا تھا ۔ اس اثر کو عمل قبولیت کے لیے کیوں منتخب نہیں کیا جاتا ؟
اگر صحابہ اور تابعین کے ذوق عبادت کو دیکھا جائے تو صاف کہنا پڑتا ہے کہ ہم عبادت کہاں کرتے ہیں البتہ عبادت کے نام پر جھگڑے ضرور کرتے ہیں ۔
وہ بھی گوشت پوست کے انسان تھے اور تم بھی ویسا ہی اناج کھانے والے انسان ۔ پھر کیا ہوا ، تمہارے قدموں میں وہ طاقت کیوں نہ رہی ؟ ، یا پھر تمہارے جذبہ ایمان ہی سرد پڑ چکے ہیں ؟ آہ
صفیں کج ، دل پریشاں ، سجدہ بے ذوق
کہ جذب دروں باقی نہیں ہے
کیا تم نے کبھی سوچا کہ ایک ایسا سجدہ عبودیت بجا لاؤ کہ جس کے نشان تمہاری زندگیوں پر دائمی اثرات چھوڑ جائیں ؟


آہ ، وہ شخص کتنا بد نصیب ہے جسے رمضان المبارک کے لیل و نہار نصیب ہوں اور وہ پھر بھی اپنے رب سے نجات اخروی کا پروانہ حاصل نہ کر سکے ۔ کیا ہر سال اس ماہِ مقدس کی آمد محض ہماری حیات رفتہ کی شبِ تاریک کے تسلسل کا اضافہ نہیں ؟
حدیثِ صحیح میں آتا ہے :
" ینزل ربنا عز و جل کل لیلۃ الی سماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخر فیقول : من یدعونی فاستجیب لہ ، من یسالنی فاعطیہ ، من یستغفرنی فاغفر لہ ۔" [3]
" رب عز وجل ہر رات کو آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں جب آخری ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے ، پس فرماتے ہیں : ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں ، اور ہے کوئی میری مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں ۔ "
رحمتِ الٰہی ہر رات آسمانِ دنیا پر نزول اجلال فرما رہی  ہے ، اپنی نگاہِ ترحم افرادِ انسانی پر ڈال رہی  ہے کہ ہے کوئی جو اس سے فوز و فلاح اور خیر و سعادت کا دستِ سوال دراز کرے اور اس کی رحمت لپک لپک کر سوال کنندہ کو اپنی آغوش میں لے لے ۔
اب ذرا چشم تصور کو وَا کرو اور دیکھو کہ رمضان المبارک کی مقدس راتوں بالخصوص لیلۃ القدر میں جوش رحمت الٰہی کا کیا ہی عالم ہوگا ۔
رمضان المبارک کا سب سے قیمتی راز تو  " اللھم انک عفو ، تحب العفو ، فاعف عنی " میں مستمر تھا مگر ہماری نگاہیں تو قشرِ بے مغز کی پرستش کرنے کی عادی ہیں وہ اس رمز کو کہاں پا سکتی ہیں ۔



[1]   اس باب میں سب سے صحیح حدیث وہ ہے جو  سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے ۔ امام مالک ، سعید بن ابی سعید المقبری سے اور وہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف سے روایت کرتے ہیں : " انہ سال عائشۃ زوج النبی  کیف کان صلاۃ رسول اللہ فی رمضان فقالت ما کان رسول اللہ یزید فی رمضان و لا غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ ۔" ( موطا ، بخاری ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، نسائی ) ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے نماز ( یعنی صلاۃ اللیل ) کی کیفیت کیا تھی ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : رمضان اور غیر رمضان میں رسول اللہ ﷺ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ " 20 رکعات کی تعداد کسی بھی صحیح طریق سے نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ۔ مشہور حنفی عالم و محدث علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ " العرف الشذی شرح سنن الترمذی " میں فرماتے ہیں : " و اما النبیفصح عنہ ثمان رکعات ، و اما عشرون رکعۃ فھو عنہبسند ضعیف و علی ضعفہ اتفاق ۔" ( 2/208 ) " جبکہ نبی ﷺ سے صحیح طریق سے 8 رکعات ثابت ہیں ، رہا 20 رکعات تو وہ نبی ﷺ سے بسند ضعیف مروی ہے اور اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے ۔ " سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی ( ابتداءً ) 8 رکعات ہی پڑھنے کا حکم دیا تھا ( جیسا کہ موطاء امام مالک میں ہے ) چونکہ قیام اللیل کا یہ سلسلہ تقریباً نصف شب پر محتوی رہتا تھا اسی لیے جب دیکھا کہ لوگوں کے لیے 8 رکعات پر اتنا طویل قیام گراں گزر رہا ہے تو 20 رکعات کا حکم دیا ۔ بعد کے ادوار میں 36 اور 41 کا عدد بھی ملتا ہے ۔ امام محمد بن نصر المروزی نے اپنی کتاب " قیام اللیل " میں یہ روایات جمع کی ہیں ۔ قابلِ غور امر نصف شب کی عبادت ہے نہ کہ تعداد رکعات ۔
[2]   " عن عبد اللہ بن خنیس الخثعمی : ان النبی سئل ایّ الصلاۃ افضل ؟ قال طول القیام ۔" ( قیام اللیل : 51 ، طبع اول 1320ھ ) " عبد اللہ بن خنیس الخثعمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے ؟ فرمایا طویل قیام والی ۔
[3]   بخاری ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند احمد

نبی کریم ﷺ کی وصیت


قال رسول اللہ ﷺ :

" اوصیکم بتقوی اللہ و السمع و الطاعۃ و ان عبدا حبشیا فانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافاً کثیراً فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء المھدیین الراشدین تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ و ایاکم و محدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ ۔ "
( سنن ابی داود ، کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ )
" میں تمہیں اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے اور سمع و اطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ وہ ( امیر ) حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا اس وقت میرے اور میرے خلفاء راشدین مہدیین کی سنت پر عمل کرنا اور اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑ لینا ، و نیز دین کے بارے میں نئے نئے کاموں سے اجتناب کرنا کیونکہ دین کے بارے میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ "

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے