جمعرات، 6 فروری، 2014

اسرار ( ا ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ )

رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

 اسرار ( ا ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ )

امام حافظ ابن قیم الجوزیة رحمہ اللہ
ترجمہ : مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ

خلق و ا مر ، کتب و قوانین ، ثواب و عتاب کا سر چشمہ دو کلمے ہیں (ایاک نعبد و ایاک نستعین ) انہی پر عبودیت  (بندگی) اور تو حید کا دار و مدار ہے ۔ اسی بنا پر کسی نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں اتاری ہیں ۔ جن کا خلاصہ تورات، انجیل اور قرآن میں ہے اوران تینوں کے معنیٰ قرآن میں یکجا جمع ہیں اور پھر پورے قرآن کا مضمون مفصل (حجرات تا والناس) موجود ہے ۔ان تمام کے معانی سورہ فاتحہ میں ہیں اور سورہ فاتحہ کالب لباب (ایاک نعبد و ایاک نستعین ) میں آ گیا ہے ۔ یہ دو نوں کلمے رب اور بندے کے در میان منقسم (بٹے ہو ئے ) ہیں ( ایاک نعبد ) رب کے لیے ہے اور ( ایاک نستعین ) بندے کے لیے ۔
PDF downlad link @ AlWaqiaMagzine (Asrar)

عبادت

عبادت کا مفہوم دو بنیادوں پر قائم ہے :

(١) انتہائی عاجزی اور غایت درجہ کی محبت ، اہل عرب کا قول ہے : " طریق معبد ای مذلل "  یعنی ذلیل پامال راستہ۔عبادت میں خضوع (جھکاؤ) کا ہو نا لازمی ہے ۔ اگر آپ نے کسی سے رشتہ محبت بغیر خضوع کے قائم کیا تو اُسے عبادت نہ کہیں گے ۔ اس طرح خضوع بلا محبت عبادت نہیں ہو سکتا ۔

(٢) مشرکین عرب توحید ربوبیت کے قائل تھے لیکن پھر بھی ان کی توحید اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی ۔ کیونکہ جب اس کی محبت ہی کا انکار کر دیا ، توپھر اس کی الوہیت کا بھی انکار ہو گیا ۔اب رب ماننا اور نہ ماننا یکساں ہے ۔

استعانت

  استعانت اپنے اندر دو اصولوں کو سمیٹے ہوئے ہے :

(١) اللہ کی ذات پر بھروسہ اور اطمینان (٢) اللہ پر اعتماد ۔
کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ کسی انسان کسی شخص سے مطمئن تو ہوتا ہے لیکن اپنے معاملات میں اس پر اعتماد کرنے کا اسے موقعہ ہی پیش نہیں آتا ۔بعض اوقات مجبوری کی وجہ سے اسے ایسے شخص پر اعتماد کر نا پڑتا ہے جو بھروسہ کے لائق نہیں ہے ۔ توکل میں ثقہ ( بھروسہ ، اطمینان )اور اعتماد دو نوں داخل ہیں ۔یہی اس آیت کی حقیقت ہے ۔

عبادت اور توکل

یہ دو نوں اصل قرآن میں یکجا کئی جگہ مذکور ہیں :

(١)ایک تو یہی آیت: ( ایاک نعبد وایاک نستعین )

(٢) قول شعیب علیہ السلام : ( وَ مَا تَوْفِیْقِیْ ِلاَّ بِاللّہِ عَلَیْْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ِلَیْْہِ أُنِیْبُ ) (ھود : ٨٨)
" میری تو فیق اللہ ہی کے سہارے ہے اس پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں لو ٹوں گا ۔"

(٣) ( وَ لِلّہِ غَیْْبُ السَّمَاوَاتِ وَ الأَرْضِ وَ ِلَیْْہِ یُرْجَعُ الأَمْرُ کُلُّہُ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْْہِ ) (ھود : ١٢٣)
" اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمان اور زمین کا غیب اور تمام کام اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسہ رکھو ۔"

(٤) ( رَّبَّنَا عَلَیْْکَ تَوَکَّلْنَا وَ ِلَیْْکَ أَنَبْنَا وَ ِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ ) (الممتحنة : ٤)
" اے میرے پروردگار تجھ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لو ٹنا ہے ۔"

(٥) ( وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ ِلَیْْہِ تَبْتِیْلاً ۔ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَا ِلَہَ ِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلاً ) (المزمل : ٨-٩)
" تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور تمام خلائق سے کٹ کے اس کی طرف متوجہ ہو جا ۔مشرق اور مغرب کا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو اسی کو اپنا کارساز بنالے ۔"

(٦) ( قُلْ ہُوَ رَبِّیْ لا ِلَہَ ِلاَّ ہُوَ عَلَیْْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ِلَیْْہِ مَتَابِ ) (الرعد : ٣٠)
" آپ کہہ دیجئے کہ میرا پالنے والا تو وہی ہے اس کے سوا در حقیقت کوئی بھی لائق عبادت نہیں ، اسی کے اوپر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب میرا رجوع ہے ۔"

استعانت پر عبادت کی تقدیم کا راز

سورة الفاتحہ میں عبادت استعانت پر چند وجوہ کی بنا پر مقدم ہے :

(١) عبادت اصل غرض و غایت ہے ، انسان کی پیدائش ہی اسی مقصد کے لیے ہوئی ہے اور استعانت عبادت کے لیے ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ یہاں غایت کو وسیلہ پر مقدم رکھا گیا ہے ۔

(٢) "ایاک نعبد" کا تعلق صفت الوہیت سے ہے اور اس کا نام اللہ ہے اور " وایاک نستعین " کا تعلق صفت ربوبیت سے ہے اور اس کا نام رب ہے ۔ کیو نکہ ابتدائے سورت میں اللہ ، رب پر مقدم ہے اس لیے عبادت کو استعانت پر مقدم کیا گیا ۔

(٣) " ایاک نعبد " یہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے ۔ اس لیے اس کا شمار و اتصال سورة فاتحہ کے نصف اول (حمد و ثناء) کے ساتھ ہی مناسب ہے اور " ایاک نستعین " یہ بندے کا حصہ ہے اس بنا پر اس کا ذکر " اھدنا الصراط " کے ساتھ موزوں ہے ۔

(٤) عبادت مطلقہ (کاملہ ) کا مفہوم اپنے اندر استعانت کو بھی لیے ہو ئے ہے ۔لیکن استعانت کا مفہوم اس قدر وسیع اور عام نہیں ہے کہ ہر عابد ، مستعین (طالب مدد) ہے لیکن ہر مستعین عابد نہیں ہے ۔ کیو نکہ بہت سے شہوت پرست اغراض کے بندے اللہ سے مدد تو طلب کرتے ہیں لیکن عبادت سے ان کی زندگی خالی ہو تی ہے ۔ اس اعتبار سے عبادت کامل حیثیت تو رکھتی ہے اور اس وجہ سے اس کو اللہ کا حصہ قرار دیا گیا ہے ۔

(٥)استعانت عبادت کا ایک جزو ہے اور عبادت کا در جہ کل کے برابر ہے ۔

(٦) استعانت کے معنی ہیں ، اللہ سے مدد طلب کرنا اور عبادت یہ اللہ کی طرف سے مطالبہ ہے ۔

(٧) عبادت کاملہ کا وقوع صرف مخلص ہی سے ہو سکتا ہے ۔ باقی رہی استعانت تو اس میں اخلاص ضروری نہیں اس کا صدور مخلص ، غیر مخلص دو نوں سے ہو سکتا ہے ۔

(٨) عبادت اس کا حق ہے جو اس نے اپنے بندوں پر لازم ٹھہرایا ہے اور استعانت کے معنی ہیں ، عبادت پر مدد طلب کر نا ۔اس کی حیثیت صدقہ و خیرات کی سی ہے ۔ظاہر بات ہے کہ صدقہ کی طلب سے زیادہ فرض کی ادائیگی ضروری ہے ۔

(٩) عبادت اس کی نعمت پر شکر کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ پسند کر تا ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور اعانت تمہارے اوپر اس کی مہربانی پر توفیق کا نام ہے ۔ جب تم اس کی عبودیت (بندگی) کے پابند اور اس کی غلامی قبول کر لو گے تو پھر وہ عبادت پر تمہاری اعانت کر ے گا ۔ گویا اس کی عبادت و غلامی اعانت کے حصول کا سبب ہے ۔اب جس قدر بھی بندہ بندگی میں مشغول ہو گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی اعانت اس کے شاملِ حال ہو گی ۔

اس سے معلوم ہوا کہ عبادت دواعانتوں کے درمیان گھری ہوئی ہے ۔ ایک اعانت ، عبادت کی ادائیگی اور پابندی پر اور دوسری اعانت ، آیندہ کی عبادت پر ۔ اسی طرح عبادت و اعانت کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ پیغام اجل آ پہنچتا ہے ۔

عبادت کا تعلق اس کی رضا اور محبت سے ہے اور استعانت کا معاملہ اس کی مشیت کے ساتھ ہے ۔ یہ سارا جہاں اس کی مشیت کے ماتحت ہے ۔ فر شتے ، شیاطین ، مومن ، کافر اور ان کی اطاعت و معصیت سب کا تعلق اسی مشیت سے ہے۔لیکن مومنین کے ایمان اور اطاعت کے ساتھ مشیت کے علاوہ اللہ کی محبت و رضا بھی وابستہ ہے اس بنا پر کفار اہل مشیت اور مو منین اہل محبت ہو ئے ۔
مذکورہ بالا لطائف و نکات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ " ایاک نعبد "  کی تقدیم " ایاک نستعین "پر اپنے اندر کس قدر خوبی اور جمال لیے ہو ئے ہے ۔

ایاک کی تقدیم فعل پر

" ایاک " (معبود) کو فعل " نعبد " اور" نستعین "  پر مقدم کر نے کے چند اسباب ہیں :

(١) باری تعالیٰ کا ادب ملحوظ ہے ۔

(٢) اس کی طرف انتہائی تو جہ اور تعلق کا اظہار ہے ۔

(٣) کلام میں تخصیص اور حصر پیدا کر نا مقصود ہے ۔
" ایاک نعبد " کے معنی ہیں " لا نعبد الا ایاک " اسی طرح " ایاک نستعین " یعنی " لا نستعین الا بک " ہم نہیں عبادت کرتے مگر تیری اور ہم نہیں مدد چاہتے مگر تجھ سے ۔

اس قسم کے محاورات سمجھنے کے لیے ذوقِ عربیت کی ضرورت ہے اگر کسی نے دس غلام آزاد کیے ہو ں تو وہ صرف ایک کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ" ایاک اعتقت " ( صرف تجھی کو میں نے آزاد کیا ہے ۔) اسی قاعدہ کی روشنی میں " ایای فاتقون " اور " ایای فارھبون " میں غور کیجئے ان کے معنی ہیں کہ مجھ ہی سے ڈور اور میرا ہی تقویٰ اختیار کرو ۔ میرے سوا کسی دوسرے کا ڈر اور تقویٰ نہ رکھو ۔

(٤) " ایاک " سے اصل ذات اور حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ " ایاک احببت " کے معنی ہیں " کہ میں نے تیری ذات کو ہی چا ہا ۔" یہ بات " احببتک " سے نہیں پیدا ہو سکتی ۔بس یہی فر ق " ایاک نعبد " اور   " نعبدک " میں سمجھ لیجئے ۔ دو بارہ " ایاک " لانے سے کلام میں قوت اور زور پیدا ہو گیا ہے ۔ مثلاً آپ نے کسی بادشاہ سے کہا :
" ایاک احب و ایاک اخاف "
" میں تجھ ہی کو چاہتا ہوں اور تجھ ہی سے ڈرتا ہوں ۔"

اس انداز ِ بیان میں خوف و محبت کا باد شاہ کے ساتھ مخصوص ہو نے کا جو زور اور اہتمام پا یا جاتا ہے ۔ وہ آپ کو " احبک و اخافک " میں نہیں مل سکتا ۔

خلاصہ فصل

عبادت و استعانت کے لحاظ سے تمام انسان چار قسموں میں بٹے ہو ئے ہیں :

(١) عبادت اور استعانت دو نوں کو اختیار کرتے ہیں ، خوب عبادت کر تے ہیں اور پھر اس پر مدد بھی چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ سب سے افضل و اعلیٰ ہیں ۔ عبادت پر استعانت ، اعلیٰ و اشراف دعا ہے ۔ اسی بنا پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  نے حضرت معاذ  کو فر مایا تھا کہ ہر فرض نماز کے بعد اس دعا کو ضرور پڑھا کرو :

" اللّٰھم اعنی علیٰ ذکرک و شکرک و حسن عبادتک ۔ " (سنن ابی داود ، کتاب الصلاة ، باب الاستغفار)
" اے اللہ میری مدد کر اپنے ذکر ، شکر اور اچھی عبادت پر ۔"

یہی چیز" ایاک نعبد " اور " و ایاک نستعین " میں موجود ہے ۔

(٢) عبادت اور استعانت دو نوں سے کو رے ، اگر کبھی اللہ سے مدد چاہتے بھی ہیں تو محض حیوانی جذبات کی تسکین اور خواہش کی پیروی کے لیے ، رضائے الٰہی  ان کے سامنے بالکل نہیں ہو تی ۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی محروم نہیں رکھتا ۔ اس سے نیک و بد سب ہی مانگتے ہیں ۔وہ سب کو دیتا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ معصیت کا طالب قبولیت دعا کی بنا پر اللہ کی رحمت سے اور دور ہو جاتا ہے ۔

تنبیہ

قبولیت دعا کسی کرامت اور عزت کی علامت نہیں ہے ۔ کبھی بندہ اپنی نادانی سے ایسی چیز طلب کر تا ہے جس میں سراسر اس کی ہلاکت ہو تی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کر لیتا ہے ، یہ قبولیت دعا اس بات کی نشانی ہے کہ داعی اللہ کی نگاہ میں کو ئی وقعت نہیں رکھتا ۔اس کے برعکس اگرکوئی صالح بندہ اس قسم کی دعا مانگتا ہے تو اسے قبول نہیں فرماتا۔اس سے مقصود داعی کی حفاظت و حمایت ہو تی ہے ۔

کبھی اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی دعا بظاہر قبول نہیں کرتا ۔ جس کو وہ بلند عزت دینا چاہتا ہے اور اس پر اپنی رحمت کی بارش بر سانا چا ہتا ہے ۔ وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اللہ نے میری دعا قبول نہیں کی،میری اس کے ہاں کو ئی وقعت نہیں ہے ۔اس پر وہ بد گمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا دعا کی قبولیت اور عدم قبولیت، مال و دولت کی فروانی اور قلت اللہ تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے ذریعہ آزماتا ہے ۔ فر مایا :

فَأَمَّا الِْنسَانُ ِذَا مَا ابْتَلَاہُ رَبُّہُ فَأَکْرَمَہُ وَ نَعَّمَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَکْرَمَنِ ۔ وَ أَمَّا ِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَہَانَنِ ۔ کَلَّا ) (الفجر : ١٥ - ١٧)
" انسان ( کا حال یہ ہے کہ ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا اور جب وہ اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی ، ایسا ہر گز نہیں ۔"

یعنی میں کسی کو نعمت و خوشحالی سے سر فراز کرتا ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اللہ کا مقرب بن گیا ہے ۔ بلکہ یہ تو میری طرف سے ایک آزمائش ہے کہ آیا وہ اس نعمت پر شکر ادا کر کے مزید نعمت کا مستحق بننا چاہتا ہے یا نا شکری کی بنا پر رحمت سے محروم ہو نے کا خواہش مند ہے ۔ اسی طرح تنگی و ناداری بندے پر اس وجہ سے نہیں آتی کہ وہ اللہ کے ہاں ذلیل و حقیر ہے بلکہ یہاں بھی آزمائش مقصود ہے ۔ اس حالت پر صبر کیا جائے تو اللہ کی طرف سے وسعت و کشادگی کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔اگر بے صبری اور غصہ سے کام لیا جائے تو پھر اس کے حصہ میں اللہ کا غصہ ہی آتا ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہو ا کہ تقرب الی اللہ کا معیار قبولیت دعا ہے اور نہ رزق کی فروانی ۔ بلکہ معرفت و محبت ، اطاعت الٰہی اصل کسوٹی ہے ۔

(٣) عبادت بلا استعانت :
اس گروہ کی دو قسمیں ہیں :

(١) قدریہ ، جن کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن و کافر دونوں کوپیدا کیا اور ان کے لیے اسبابِ ذرائع مہیا کر دیے۔ اب اس کے بعد مزید توفیق و اعانت کا سلسلہ اللہ کی طرف سے بند ہے ۔ان لو گوں کی عبادت، استعانت کی لذت سے خالی ہے ۔

(٢) یہ وہ لوگ ہیں جو نوافل درود اور وظائف میں مشغول ہیں ۔ استعانت و توکل کا سر مایہ ان کے پاس بہت ہی کم ہو تا ہے ۔ ان کو اپنے سر مایہ کے مطابق توفیق وا عانت کا حصہ ملتاہے ۔

توکل اور استعانت کے معنی

توکل اس کیفیت کا نام ہے جو بندے میں اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت سے حاصل ہو تی ۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ پیدا کر نا ، نفع و نقصان پہنچانا ، تدبیر و انتظام کر نا ان سب امور کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اس عقیدہ سے ایک عجیب اعتماد و اطمینان کی حالت دل میں ابھرتی ہے ۔جس سے اللہ کا قرب اور تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے ، اسی کو فر مایا :

( وَ مَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ ) (الطلاق : ٣)
 " جو اللہ پر بھروسہ کر تا ہے تو اللہ اسے کافی ہے ۔"

(٤) جو یہ تو جانتا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اسے یہ خبر نہیں کہ وہ کن کاموں سے ناراض اور کن کاموں سے خوش ہو تا ہے ۔ اس لیے وہ اپنی ہر قسم کی خواہشات کی تکمیل اسی سے چا ہتا ہے ۔اللہ کی طرف سے اس کے مطالبات پورے بھی کر دیے جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اللہ کا مقرب بن گیا ہے اور اس کے ہاں اس کی کوئی عزت و منزلت ہے ۔

خلاصہ فصل

" ایاک نعبد " پر عمل اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ اخلاص اور متابعت رسول  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  سے اس کا دامن بھرپور ہو ۔ اس اعتبار سے بھی سب لوگ چار حصوں میں بٹے ہوئے ہیں :

(١) اخلاص اور اتباع شریعت دو نوں سے اپنے عقائد و اعمال کو آراستہ رکھتے ہیں ۔ریا کاری اور مخالفت سنت سے اُن کا دامن بالکل پاک ہو تا ہے ۔ ان کا ہر عمل محض اللہ کے لیے ہو تا ہے ۔بندوں سے اپنے عمل پر نہ کوئی صلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۔اسی لیے فر مایا :

( فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہِ أَحَداً ) (الکہف:١١٠)
" پس جو اپنے رب سے ملاقات کی امید کر تا ہے وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ۔"

دوسری آیت میں ہے :
( وَ مَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ للہ وَ ہُوَ مُحْسِن ) (النساء : ١٢٥)
" اس سے بڑھ کر دین میں کو ن اچھا ہو سکتا ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے جھکا دیا بحالیکہ وہ نیکو کار ہے۔"

(٢) ایسا گروہ جو خلوص و اتباع شریعت دونوں سے تہی دامن ہے ۔ یہ اللہ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہے ۔ ان پر یہ آیت صادق آتی ہے :

( لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَواْ وَّیُحِبُّونَ أَن یُحْمَدُواْ بِمَا لَمْ یَفْعَلُواْ فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَہُمْ عَذَاب أَلِیْم ) (آل عمران : ١٨٨)
" وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں خیال نہ کریں ۔ ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے ۔"

(٣) اخلاص تو موجود ہے لیکن اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  ندارد، اس گروہ میں وہ جاہل مشائخ صوفیہ اور عابدین شامل ہیں جنہوں نے مختلف قسم کی خلافِ شریعت عبادات اوراوراد و و ظائف ایجاد کیے ہوئے ہیں ۔

(٤) اتباع شریعت بلا اخلاص ، اس قسم میں ریا کاروں کا گروہ داخل ہے ۔     
( ماخوذ : تفسیری نکات و افادات )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے