جریدہ "الواقۃ" کراچی،
شمارہ11, ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 9
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہتسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
(3) پہلی آیتوں سے صرف اپنے وجود اور کمال، عظمت، جلال و بعثتِ انبیاء
و حشر پر استدلال منظور ہے اور ان سب باتوں میں اس کے بندے باہم مختلف ہیں اور عموماً
ان کو تسلیم نہیں کرتے، صرف وہ لوگ جن کی طبیعت میں رجوع الیٰ الحق کا مادہ ہے اِ ن
سب کو جب تامل سے دیکھتے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ اس لیے وہاں پر عبد کو منیب کے ساتھ
مقید (ذکر) کیا۔ اور دوسری آیتوں میں جو مذکور ہے وہ مانی ہوئی بات ہے، پانی کے برسنے
سے کسی کو انکار نہیں۔ زمین کی پیداوار میں آب باراں کی تاثیر سے کسی کو انکار نہیں۔
اس کے تمام مخلوقات کے لیے ذخیرہ رزق ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں، اس سے جس طرح ابرار
اور اللہ کے ماننے والے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح فجار اور کفار بھی اس لیے یہاں للعباد
میں کسی قید کی ضرورت نہیں تھی۔ منکرین اگر اب بھی انکار پر اڑے رہیں اور ایسی ایسی
صاف و صریح باتوں کو جنہیں ہر شخص اپنی مدت عمر میں بارہا دیکھتا ہے غور نہ کریں اور
رسول کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو اب طریقِ استدلال اختیار کرنا لا حاصل ہے۔ اس
لیے تہدید و تخویف (ڈر و خوف ) سنا کر راہ پر لانے کے لیے چند مثالیں گزشتہ زمانہ کے
نافرمانوں کی سنائی جاتی ہیں۔ وہ لوگ بشر (انسان) کے نبی ہونے کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے
تھے اور تمہاری ہی طرح کفر و عناد پر اصرار کرتے تھے۔ آخر اللہ نے ان کو دھر پکڑا اور
ایسی بری طرح سے دنیا سے گئے کہ خلق میں افسانہ ومثال بن گئے۔