پیر، 11 نومبر، 2013

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟

مجلہ "الواقعۃ" شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

اللہ کے دھتکارے ہوئے اور خلق کے راندھے ہوئے یہودی کا تاریخی اور نفسیاتی پس منظر.اللہ کا دھتکارا ہوا یہودی آج اللہ کے نام لیواؤں کو دھتکار رہا ہے …کیوں ؟ اسے یہ قوت کس نے دی ؟

یہودی کون ہے ؟ کیا ہے ؟ قسط 1

" حکایت " ڈائجسٹ لاہور کا شمار ملک کے مؤقر رسائل و جرائد میں ہوتا ہے ۔ ذیل کا قیمتی مضمون " حکایت " ( لاہور ) ستمبر ١٩٨٢ء میں طباعت پذیر ہوا ۔ اس کے مضمون نگار  " حکایت " کے بانی و مدیر جناب عنایت اللہ ( ١٩٢٠ء - ١٩٩٩ء ) ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا ۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے خود کو ہمہ وقت علم و ادب سے منسلک کرلیا ۔ انہوں نے اپنے قلم کی طاقت سے ایک با شعور ادب تخلیق کیا ۔ ان کے متعدد ناول طباعت پذیر ہوئے اور قارئین نے انہیں بے حد سراہا ۔ ان کے یادگار ناولوں میں " داستان ایمان فروشوں کی " ، " اور ایک بت شکن پیدا ہوا " ، " شمشیر بے نیام " ، " دمشق کے قید خانے میں " ، " اور نیل بہتا رہا " ، " حجاز کی آندھی " ، " فردوس ابلیس " ، " طاہرہ " وغیرہا شامل ہیں ۔ ذیل کا مضمون بھی ان کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کا مظہر ہے ۔ گو اس عرصے میں گردش لیل و نہار کی کتنی ہی ساعتیں گزر گئیں ۔ مگر اس مضمون کی افادیت آج بھی برقرار ہے ۔ اسی وجہ سے "حکایت " کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون قارئینِ " الواقعة " کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ تاہم قارئین دوران مطالعہ پیش نظر رکھیں کہ یہ مضمون ١٩٨٢ء کا تحریر کردہ ہے ۔ ( ادارہ  الواقعۃ)

جون ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل کی جنگ  (Arab Israel War June 1967) میں اسرائیلیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو ان کے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی لیڈروں نے کہا تھا کہ ہم (یہودی ) دو ہزار سال بعد اپنے گھر واپس آگئے ہیں ۔ اسی جنگ میں انہوں نے اسرائیل کے ارد گرد عربوں کے بیشمار علاقے پر قبضہ کرلیا تھا ۔ مسلمان ممالک کی افواج نے اتحاد کے فقدان کی وجہ سے اسرائیلیوں سے بہت بری شکست کھائی ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ  (united nations) میں تقریروں ، قراردادوں اور مذاکرات کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا جو چل تو پڑتا ہے مگر کسی انجام کو نہیں پہنچتا ۔

اسرائیلیوں نے اقوام متحدہ کی کسی ایک بھی تقریر اور ایک بھی قرارداد کی پروا نہ کی ۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں اپنی نئی بستیاں آباد کرنی شروع کردیں ۔ شام کی جنگی اہمیت کے کوہستانی علاقے گولان کی بلندیوں پر بھی اسرائیلیوں نے ١٩٦٧ء کی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا ۔ وہاں انہوں نے پختہ اور مستقل مورچہ بندی قائم کرلی ۔ اسرائیلیوں کے اس روّیے اور اقدامات سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ مقبوضہ علاقے نہیں چھوڑیں گے ۔

جنگِ رمضان ١٩٧٣ء میں مصریوں نے نہر سویز (Suez Canal) پار کرکے اسرائیلیوں کو سینائی(Sinai)  میں بے خبری میں جا لیا اور کچھ علاقہ آزاد کرالیا اور نہر سویز بھی اسرائیلیوں سے آزاد کرالی اور اسے کھول دیا ۔ پھر جنگ بند ہوگئی بلکہ ان بڑی طاقتوں سے بند کرادی جن کے ہم سب مقروض اور امداد کے محتاج ہیں ۔ مصر  (Egypt) کے اس وقت کے صدر انور السادات مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جنگ رمضان ١٩٧٣ء کے دوران امریکا  (USA) کا اس وقت کا سیکرٹری خارجہ ہنری کیسنجر (United States Secretary of State Henry Kissinger) مصر پہنچا اور سادات سے ملا ۔ اسرائیلیوں کے قدم اکھڑ گئے تھے اور وہ مسلسل پسپا ہوتے چلے جارہے تھے ۔ ہنری کیسنجر نے سادات کو دھمکی دی کہ اس نے جنگ بند نہ کی تو امریکا اپنے وہ جدید اسلحہ اور طیارے مصری فوج کے خلاف استعمال کرے گا جو ایک دو دنوں میں مصری فوج ، فضائیہ اور بحریہ کو تباہ کردے گا ۔ سادات کو اس دھمکی کے علاوہ ہنری کیسنجر نے (جس کے متعلق پتہ چلا ہے کہ یہودی ہے ) کچھ لالچ بھی دیا تھا ۔ سادات کو معلوم تھا کہ امریکا کے پاس کیسا تباہ کار اسلحہ ہے ، چنانچہ اس نے اس صورت حال میں جنگ بندی کا اعلان کردیا کہ اسرائیل پسپا ہو رہے تھے ۔

اس کے بعد جینیوا  (Geneva) میں اس جنگ کے متعلق ایک کانفرنس ہوئی ۔ اس میں سر فہرست یہ مطالبہ تھا کہ اسرائیل عربوں کے علاقے واپس کردے لیکن اسرائیل نے ایک نئی اصطلاح تخلیق کرلی ۔ یہ تھی PROTECTED FRONTIERS اور مقبوضہ علاقے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے یہ دلیل دی کہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے اسے اپنے ارد گرد ان مقبوضہ علاقوں کی ضرورت ہے جہاں وہ دفاعی مورچہ بندی کرے گا تاکہ اسرائیل پر حملہ کرنے والوں کو اسرائیل کی اصل سرحد سے دور روکا اور پسپا کیا جا سکے ۔

ہمارا موضوع عرب اسرائیل جنگ نہیں بلکہ یہودی ہے ۔ ہم اس تاریخی پسِ منظر کی جس نے یہودی کو ایک فتنے کے روپ میں جنم دیا ، کچھ جھلکیاں پیش کریں گے ۔ ایک وہ پسِ منظر ہے جس نے درندہ صفت یہودی کو جنم دیا ، دوسرا وہ پس منظر ہے جسے یہودی کی شیطانی فطرت نے جنم دیا ۔ ہم یہودی کی تاریخ اور اس کی فطرت بیان کریں گے ۔

اسرائیلیوں کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے اصل تنازعہ کی صورت ہی بدل ڈالی ہے ۔ اصل تنازعہ یہ تھا کہ اسرائیل کوئی ملک نہیں ۔ یہ استعماری طاقتوں کا ( جن میں روس بھی شامل ہے ) ایک ناجائز بچہ ہے ۔ تاریخ میں غالباً یہ واحد مثال ہے کہ چند ایک بڑی طاقتیں مل کر کسی چھوٹے سے ملک کے باشندوں کو وہاں سے دہشت زدہ کرکے نکال دیں اور وہاں کسی اور قوم کو آباد کرکے اس ملک کا نام ہی بدل ڈالیں ۔ اصل تنازعہ یہ تھا کہ اسرائیل دراصل فلسطین ہے جس پر اسرائیلیوں نے استعماری اور اسلام دشمن قوموں کی جنگی مدد سے قبضہ کیا تھا ۔ آگے چل کر اسرائیلیوں نے عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور انہیں چھوڑنے سے انکار کردیا اور اصل تنازعہ کی صورت یہ بنادی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقے چھوڑ دے ۔ اس کے بعدتنازعہ کی صورت یہ بنی کہ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں ۔

یہ صحیح ہے کہ اسرائیل کے قیام ، استحکام اور اس کی توسیع امریکا ، برطانیہ ، فرانس اور روس کی متحدہ کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن یہ کارنامہ یہودیوں کا ہے کہ انہوں نے ان بڑی طاقتوں کو اپنی مخصوص استادی سے اپنے زیر اثر لیا اور ان سے اپنا وجود ایک ملک کی صورت میں قائم کرالیا ____اور اب اسرائیل کے موجودہ وزیر دفاع شیرون  (Defense Minister Sharon) نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جنگ لبنان تک محدود نہیں ، ہماری (یہودیوں کی ) جنگ عالمِ اسلام  (Islamic World) سے ہے ۔

ادھر امریکا کے صدر ریگن (President Reagan)  نے (جو اگر یہودی نہیں تو یہودیوں کا پالنہار ضرور ہے ) اسرائیل کے وزیرِ اعظم بیگن (Prime Minister Begin)  سے کہا ہے کہ امریکا کو عربوں کے ساتھ کسی حد تک دوستانہ تعلقات قائم رکھنے ہیں ۔ ریگن نے بیگن سے کہا : " آپ کو سمجھنا چاہیئے کہ ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں ایک سے زیادہ دوستوں کی ضرورت ہے ۔ ہم ایک سے زیادہ مصر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ زیادہ مصر اسرائیل کے لیے مفید ثابت ہوں گے ۔ "
قارئینِ کرام کو معلوم ہوگا کہ انور السادات مصر کو اسلامی برادری سے الگ کرکے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کر چکا ہے اور یہ معاہدہ امریکا کے پہلے صدر جمی کارٹر  (President Jimmy Carter) نے اپنے ہاں کرایا تھا جو کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے  (Camp David agreement) کے نام سے مشہور ہے ۔ اب صدر ریگن بھی وہی نسخہ دیگر عرب ممالک کو دوستی کا جھانسہ دے کر ان پر آزمانا چاہتا ہے ۔

یہ پیشِ نظر رکھیے کہ امریکا کی وہ پالیسیاں جن کا تعلق اسرائیل اوراسلامی ممالک کے ساتھ ہے وہ دراصل یہودیوں کی بنائی ہوئی ہوتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اسرائیل کے وجود کو نہ صرف مستحکم کرتی ہیں بلکہ اس کی توسیع کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں ۔

اسرائیل کا قیام اور اس کی توسیع یہودیوں کا بہت پرانا خواب ہے جسے انہوں نے " وسیع تر اسرائیل " GREATER ISRAEL کانام دے رکھا ہے ۔ انہوں نے پہلے اسرائیل بنایا پھر اسے وسیع کیا اور اب اسے وسیع تر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ لبنان (Lubnan)  پر ان کا حملہ اسی توسیع پسندی کی ایک کڑی ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ لبنان سے فلسطینی گوریلا فورس کو نکالنے کے لیے اسرائیل نے حملہ کیا ہے اس آپریشن میں اسرائیل نے بیروت کی شہری آبادی ، فلسطینیوں کے کیمپوں اور ان کی بستیوں پر طیاروں سے جس بے دردی سے بمباری ، برّی اور بحری توپوں سے گولہ باری کی ہے یہ ان قارئین کے لیے حیران کن نہیں جو یہودیوں کی تاریخ سے واقف ہیں ۔ یہودیوں کے ہاں غیر یہودیوں خصوصاً مسلمانوں کی قتل و غارت مذہبی فریضے کا حکم رکھتی ہے ۔ یہودیوں کے مذہب میں غیر یہودی کا قتل ایک مذہبی رسم بھی ہے جسے کہتے ہیں :  RITUAL MURDER

لبنان میں لاکھوں مردوں ، عورتوں اورت بچوں کے جسموں کے ٹکڑے اڑ رہے ہیں اور شہر ملبے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے ۔ قتل و غارت ، تباہی اور بربادی کی جو تفصیلات لکھتے قلم کانپتا ہے وہ تفصیلات ہر یہودی کے لیے روحانی تسکین اور سرور کا باعث بنتی ہیں ۔ لبنان میں انسانوں کی ہلاکت کے صحیح اعداد و شمار باہر کی دنیا تک نہیں پہنچ رہے ۔ امریکی  ہفت روزہ " نیوز ویک "  (news week) کے ٥ جولائی ١٩٨٢ء کے شمارے میں اس کے وقائع نگار ایگنس ڈیمنگ نے لکھا ہے کہ امریکا کی تینوں ٹیلیوژن کمپنیوں نے اپنے کیمرہ مین اور نامہ نگار لبنان میں بھیج رکھے ہیں لیکن اسرائیل کے حکام ان کی ہر فلم کو سنسر کرتے اور تباہی کی صحیح عکاسی کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ یہودی کی تاریخ درندگی ، انسان کُشی ، مکاری ، عیاری ، فریب کاری اور بے حیائی کی بڑی لمبی داستان ہے ۔ یہودی فلسطین کو دو ہزار سال سے اپنا گھر کہہ رہے تھے ۔ اس " گھر " میں وہ آگئے تو انہوں نے وہاں سے فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی نکال باہر پھینکا ۔ پھر جون ١٩٦٧ء میں انہوں نے بیت المقدس ( یروشلم ) پر قبضہ کرکے ١٩٦٩ء میں مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی اور خود ہی بجھادی ۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام کی عظمت کے ایک تاریخی نشان مسجدِ ابراہیم کو یہودیوں کی عبادت گاہ بنا کر اس کی مسجد کی حیثیت ختم کردی ۔ لبنان پر حملے سے پہلے یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھودنی شروع کردی تھیں ۔ یہ بھی ان کا پرانا عہد ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کرکے وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کریں گے ۔

اسرائیلیوں کا تاریخی پس منظر بڑی ہی طویل داستان ہے ۔ ہم اسے اختصار سے بیان کرتے ہیں ۔ اسرائیل کے معنی ہیں مردِ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ ان کی نسل بنی اسرائیل کہلائی ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودہ تھا ۔ فلسطین کے علاقے یہودہ میں اس چوتھے بیٹے اور بن یامین کے قبائل کی حکمرانی تھی ۔ یہ قبائل یہودی کہلانے لگے اور باقی قبائل بنی اسرائیل ۔ حضرت یعقوب کنعان کے باشندے تھے ۔

حضرت یوسف نے اپنے والد بزرگوار اور تمام تر قبیلے کو مصر بلالیا جہاں انہیں عزت و احترام سے رکھا گیا ۔ یہ قبائل چار سو سال تک مصر میں رہے ۔ اس طویل مدت میں وہ قبائل سے ایک طاقتور قوم بن گئے جس سے فرعونِ مصر خطرہ محسوس کرنے لگا ۔ اس قوم کو ختم کرنے کے لیے فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتلِ عام کا حکم دے دیا ۔

حضرت موسیٰ اس دور میں پیدا ہوئے ۔ خدانے انہیں بچا لیا اور پیغمبری عطا کی ۔ طور کی وادیوں سے واپس آکر حضرت موسیٰ نے فرعونِ مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلیوں کو مصر سے نکل جانے کی اجازت دیدے ۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل نے جو شواکی زیرِ کمان ( مصر سے آکر ) فلسطین کو فتح کیا اور وہاں کے باشندوں کو قتل اور بعض کو جلاوطن کر دیا ۔ بیشتر مورخین یہودیوں کی اس روایت سے اتفاق نہیں کرتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل فلسطین کے باشندوں کو کلی طور پر تہہ تیغ نہیں کر سکے تھے ۔ ایچ-جی -ویلز نے اپنی کتاب The outline of History میں لکھا ہے کہ عبرانی یعنی بنی اسرائیل موعودہ سر زمین Promised land کو کسی بھی وقت مکمل طور پر فتح نہ کر سکے تھے ۔ دیگر کئی دستاویزات اور انجیل سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی جنوب کے زر خیز علاقوں پر قابض رہے اور شمال میں کنعانی اور فونیشینن قبائل نے اسرائیلیوں کے پاؤں نہ جمنے دیئے ۔

بہر حال یہ ثبوت بڑا صاف ملتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جو علاقے فتح کر لیے وہاں کے باشندوں پر انہوں نے رحم کرنا گناہ سمجھا ۔ ان باشندوں کو قتل کرنا اور ان کی کھیتیوں پر قبضہ کر لینے کو بنی اسرائیل خدائے یہودہ کی خوشنودی سمجھتے تھے ۔ دوسروں کی زمین پر ٹانگیں پسارنا ، وہاں کے باشندوں کو املاک سے محروم کرکے انہیں بھکاری بنا دینا ، وہاں کی صنعت و تجارت اور انتظامیہ پراپنا آسیب طاری کرکے وہاں کے باشندوں کو مویشی بنا دینا یہودی کی فطرت میں شامل ہے ۔

حضرت داود اور حضرت سلیمان آل اسرائیل کے بادشاہ اور پیغمبر بنے ۔ اسرائیل کے پرچم پر جو ستارہ ہے اسے وہ داود کا ستارہ  Star of David کہتے ہیں ۔ گیارہویں صدی قبل مسیح میں حضرت داود نے پہلی بار یروشلم کا دار ا لحکومت بنایا ۔ دسویں صدر قبل مسیح میں حضرت سلیمان نے بیت المقدس میں پہلا ہیکل Temple  تعمیر کیا ۔ یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا ۔ پھر زوال کی داستان بڑی ہی طویل اور عبرت ناک ہے ۔ ان کے اپنے اعمال اور خصائلِ بد ان کی تباہی کا باعث بنے ۔ اس کے متعلق قرآن میں واضح فرمان ملتا ہے :

" اور دیکھو ، ہم نے کتاب ( تورات ) میں بنی اسرائیل کو اس فیصلے کی خبر دے دی تھی کہ تم ملک میں ضرور دو بار خرابی پھیلاؤ گے اور بہت ہی سخت درجے کی سر کشی کرو گے ۔ " ( القرآن : ١٤ /١٧)

تورات میں ان تباہیو ں کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے ۔ یہ تباہیاں ٧٢١ قبل مسیح میں اشوریوں اور بابل کے شاہ بخت نصر کے ہاتھوں بپاہوئی تھیں ۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور بنی اسرائیل کی نہ صرف حکمرانی کے پر خچے اڑے بلکہ وہ بحیثیت قوم فرد فرد ہوکے بکھر گئے اور ان کی قومیت ریزہ ریزہ ہوکر جیسے آندھی میں اڑ گئی ۔

تقریباً ساٹھ سال بعد شاہِ فارس نے دریائے فرات اور بحیرئہ روم کا درمیانی علاقہ فتح کرلیا اور بکھرے ہوئے اسرائیلیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین واپس چلے جائیں ۔ یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ یروشلم کو از سر نو آباد کرکے ہیکل تعمیر کر لیں ۔

اسرائیلی ایک بار پھر یکجا اور آباد ہوگئے ۔ لیکن امن پسند نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ بسنے والی قوموں اور قبائل کو پریشان کرنے لگے ۔ اسرائیلی اپنے برے خصائل اور فتنہ پرور فطرت کے ہاتھوں مجبور تھے ۔ چنانچہ دوسروں کے لیے مصیبت بننے کی کوشش میں خود تباہ ہوگئے ۔

٣٣٢ قبل مسیح میں سکندر نے فلسطین پر قبضہ کیا ۔

٣٢٠ قبل مسیح میں بطلیموس نے مصر کے راستے حملہ کرکے یروشلم کو تہہ تیغ کیا ۔

پھر روم کا پامپی دندناتا آیا اور یروشلمپر ہاتھ صاف کر گیا ۔ ہیکل سلیمانی تیسری بار تعمیر ہوکر ملبے کا ڈھیر بنا ۔

خدائے ذو الجلال نے اسرائیلیوں کو گناہوں سے توبہ کا ایک اور موقعہ دیا اور انہیں حضرت عیسیٰ جیسا پیغمبر عطا کیا مگر اسرائیلیوں نے حضرت عیسیٰ کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ زمین و آسمان کانپ اٹھے ۔ انہوں نے رومیوں کے ہاتھوں حضرت عیسیٰ کو گرفتاراور ذلیل و رسوا کرایا اور انہیں صلیب پر مصلوب کرایا ۔

The Nazaraene کے چوتھے باب میں لکھا ہے :" یہودی مردوں سے بڑھ کر روم کے بادشاہوں اور ان کے اعلیٰ حکام پر یہودی عورتوں کا اثر و رسوخ تھا ۔ یہودیوں کی خوبصورت اور جوان عورتیں روم کے اعلیٰ حکام اور امراء کی سوسائٹی میں بڑے دلفریب طریقوں سے داخل ہوجا تی تھیں ۔ وہ روم کی امراء کی سوسائٹی کی عورتوں کو اپنی پسند کے مردوں کے دل جیتنے کے لیے تعویذ اور ٹونے ٹوٹکے دیتیں اور مردوں کے حیوانی جذبات بھڑکانے کے لیے جڑی بوٹیاں اور بڑے قیمتی تیل مہیا کرتی تھیں ۔ اس طرح وہ بیگمات اور امراء پر چھا کر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کراتی تھیں ۔ "

جب روم کے بادشاہ نیرو کے دورِ حکومت کے دسویں سال روم کو آگ کے شعلوں نے جلے ہوئے کھنڈروں کا ڈراؤنا شہر بنا دیا تو صرف یہودی ایسی قوم تھی جس پر ہر کسی نے آتش زنی کا شک کیا جو بالکل صحیح تھا مگر یہودیوں نے اپنے اثر و رسوخ سے عیسائیوں کو روم کو جلا کر راکھ کرنے کا مجرم ثابت کردیا۔ مشہور تاریخ داں گبن نے اپنی کتاب " سلطنت روما کے زوال اور خاتمے کی تاریخ " میں لکھا ہے کہ روم کے دربار میں یہودیوں کو معصوم ثابت کرنے والے لوگ موجود تھے ۔ روم کے بادشاہ نیرو ، اس کی ملکہ اور اس کی حسین و جمیل داشتہ پوپیّا پر بھی یہودیوں کا اثر و رسوخ تھا ۔

آخر رومیوں کا ماننا پڑا کہ ان کے ملک میں یہودی فتنہ اور تباہی پھیلا رہے ہیں اور شاہی محل میں ان کی عورتوں کے حسن اور عیاری کا جادو چل رہا ہے تو رومیوں نے ان کی قتل و غارت اس بری طرح کی جیسے ان کی نسل ہی ختم ہوگئی ہو مگر بنی اسرائیل ختم ہونے والے نہیں تھے ۔ وہ بکھرے ہوئے تھے ۔

١٣٥ء میں شاہ ہیڈرن نے یروشلم پر قبضہ کیا اور بچے کھچے یہودیوں کو فلسطین سے نکال کر کرئہ ارض پر بکھیر دیا یہودی جس ملک میں بھی گئے ان کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ۔ ان کے دلوں میں انسان کی محبت کا نام و نشان نہ تھا ۔ یہودی صرف نفرت اور فتنہ پردازی کے دلدادہ تھے ۔ وہ کسی دوسری قوم کے دل میں اپنی محبت پیدا کر ہی نہیں سکتے تھے ۔ وہ نفرت کے پیکر تھے ۔ وہ اللہ کے دھتکارے ہوئے تھے اس لیے وہ جہاں بھی گئے انہیں نفرت ملی ۔

وہ ١٣٥ء میں کرئہ ارض پر بکھر تو گئے لیکن انہوں نے اس عقیدے کو سینے سے لگائے رکھا کہ خدائے یہودہ نے فلسطین کو ہی ان کا وطن مقرر کیا ہے ۔ان کا یہ عقیدہ مستحکم ہوتا چلا گیا کہ کوئی انہیں سو بار شکست دے ، کوئی طاقت خدائے یہودہ کا لکھا نہیں مٹا سکتی اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر ان کا مقدس فریضہ ہے جو بہر حال یروشلم میں ہی ادا ہوگا ۔ یہ عقیدہ ان کے مذہب کا جزو بن گیا جس نے ایک مذہبی رسم کی صورت اختیار کرلی ۔ اس رسم کی ادائیگی کے لیے دور دراز ملکوں کے یہودی ہر سال یروشلم جمع ہوتے تھے ۔ اسے وہ صیہونیت Zionism کہتے تھے ۔ وہاں وہ یہ الفاظ دہراتے تھے …" آئندہ سال یروشلم میں ۔ "

فلسطین میں ایک پہاڑی ہے جس کانام صیہون Zionہے ۔ اسے یہودی مقدس سمجھتے ہیں ۔ اس کے نام پر انہوں نے صیہونیت کی تحریک کی ابتدا کی تھی ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے وصال سے تقریباً چارسال بعد٦٣٦ء میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت قائم کی ۔ جس روز فلسطین فتح ہوا اس روز حضرت عمر سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے ۔ محراب داود کے پاس جا کرسجدئہ داود کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا ۔ اس کے بعد عیسائیوں کے گرجوں کو دیکھنے چلے گئے ۔ شہر کا بطریقِ عظیم پادری سنورینس حضرت عمر کے ہمراہ تھا ۔ اس نے بیت المقدس کا شہر حضرت عمر کے حوالے کیا تھا ۔ دیکھنے کے دوران عصر کی اذان سنائی دی ۔ بطریق نے حضرت عمر سے کہا کہ وہ گرجے میں نماز پڑھیں ۔ حضرت عمر کے ساتھ تاریخ اسلام کے مشہور سالار خالد بن ولید ، عمرو بن العاص ، عبد الرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان تھے ۔ ان میں سے بھی بعض نے حضرت عمر سے کہا کہ گرجے میں نماز پڑھی جائے ۔

" نہیں " … حضرت عمر نے انکار کرتے ہوئے کہا : "اگر ہم نے گرجے میں نماز ادا کی تو یہ گرجا مسجد بن جائے گا ، پھر عیسائی اپنے ایک گرجے سے محروم ہوجائیں گے جو بے انصافی ہے ۔ "

انہوں نے گرجے کے باہر نماز پڑھی ۔

اس سے ایک روز پہلے یا اسی روز ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو حضرت عمر اپنے سالاروں سمیت نماز کے لیے تیار ہوئے ۔ تاریخ اسلام کے مشہور موذن اور رسول خدا کے شیدائی حضرت بلال بھی موجود تھے ، وہ حبشی تھے ۔ ان کی آواز بلند ، گونجدار اور پرسوز تھی ۔ رسول اکرم ۖ کے وصال کے بعد حضرت بلال نے اذان دینی چھوڑ دی تھی ۔ ان کی چار سال کی خاموشی کے بعد بیت المقدس میں حضرت عمر نے ان سے درخواست کی کہ فلسطین کی فتح کے پہلے روز اذان وہی دیں ۔ حضرت بلال نے اذان شروع کردی۔ جب انہوں نے کہا اشہد ان محمد رسول اللہ تو وہاں جو لوگ موجود تھے وہ دھاڑیں مارمار کر رونے لگے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے