پیر، 11 نومبر، 2013

دعوت یا تباہی (قسط 2 آخری)

مجلہ "الواقعۃ" شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

دعوت  یا  تباہی (قسط 2 آخری)

ڈاکٹر ذاکر نائیک

تسہیل و حواشی :محمدثاقب صدیقی

ہم دعوة کیسے دیں ؟

اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتے ہیں کہ کس طرح سے دعوة پہنچانی ہے؟ اللہ تعالیٰ آسان طریقہ بتاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں سورة آلِ عمران الآیة :٦٤ میں ارشاد فرماتے ہیں:
  (قل ياهل الکتب)
"کہو اہلِ کتاب ( یہود و نصاریٰ ) سے"
(تعالوا الى کلمة سواء بيننا و بينکم )
"ہم آپس میں اس چیز کے اوپر ، جو چیز آپ میں اور ہم میں مشترک ہے ۔"
(الا نعبد الا الله)
"کہ ہم ایک اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کریں"۔
(و لا نشرک به شيا)
"اور ہم کسی اَور کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں کریں"۔
(و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله)
"ہم آپس میں کسی کو معبود نہیں بنائیں اللہ کے علاوہ"
(فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون)
"اور اگر تم اس بات کو نہیں مانتے تو کہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں"۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کبھی بھی غیر مسلموں کو دعوة دیں تو سب سے بہترین طریقہ ہے کہ: جو آپ میں اور ہم میں ایک جیسی چیز ہے کم از کم اُس پر عمل کریں ۔ تو سب سے اول اور بہترین چیز ہے کہ ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کریں اور کسی اور کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کریں۔

PDF Download link @ AlWaqiaMagzine

ہمارا تساہل اور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم

ہم مسلمان بہت ذہین ہیں، معذرت کرنے یا بہانا بنانے میں ہم اول درجے میں ہیں۔ جب میں کسی مسلمان بھائی سے کہتا ہوں کہ دعوة کیوں نہیں کرتے؟ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ابھی علم نہیں ہے انشاء اللہ جب میں شیخ بنوں گا اور علم آجائے گا تو میں دعوة کروںگا۔ وہ سوچتے ہیں کہ شیخ دیدات جیسا بنیں گے اور پھر دعوة کریں گے تو وہ وقت کبھی آئے گا ہی نہیں!!!
محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم فرماتے ہیں صحیح بخاری میں :  " بلغوا عنّی ولو آیة "اگرآپ کو اسلام کے بارے میں ایک آیت بھی پتا ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اِسے اُن لوگوں تک پہنچائیے جن کو اِس کے بارے میں نہیں معلوم ۔
اگر آپ سوچیں کہ علم حاصل کریں گے اور شیخ دیدات جیسے بنیں گے پھر دعوة کریں گے تو وہ وقت کبھی آئے گا ہی نہیں ۔یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر آپ کو اسلام کے بارے میں ایک آیت بھی معلوم ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اِسے اُن لوگوں تک پہنچاؤ جن تک نہیں پہنچی۔

دعوة کی تیاری

کم از کم ہر مسلمان یہ شہادت تو دیتا ہے  لا الٰہ اللہ  محمد رسول اللّٰہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہئے۔ تو کم از کم یہی پیغام تو دو،اپنے غیر مسلمان دوستوں سے کم از کم یہ تو کہو کہ اللہ ایک ہے۔اگر وہ آپ سے پوچھے گا کہ" آپ کے پاس کیا ثبوت ہے ؟" اگر آپ کو نہیں پتہ تو آپ گھر میں آکر HOME WORKکریں گے ۔ آپ جب EXAMINATION میں جاتے ہیں اور آپ کو کسی سوال کا جواب نہیں پتہ ہوتا اور فیل ہوجاتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ گھر میں آتے ہیں اور اُس سوال کو مشق کرتے ہیں۔ آج کا  AGE ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کا ۔ سارے جواب آپ کی انگلی کے نزدیک موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر، آڈیو کیسٹ ہے، وڈیو کیسٹ ہے، کتاب ہے۔ آپ کو RESEARCH کرنے کی یا تحقیقات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ الحمداللہ ثم الحمداللہ آج سارے جواب موجود ہیں ۔
میں نے چند سال پہلے تقریر کی تھی جس کا موضوع تھا IS THE QURAN GOD'S WORD? کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟ اور اِس کے اندر الحمداللہ میں نے ثابت کرکے دکھایا ہے SCIENTIFICALLYاللہ تعالیٰ موجود ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک ہے ۔ چاہے وہ عیسائی ہو یا یہود ہو یا چاہے وہ ہندو ہویا بدھسٹ ہو یا ناستک ہو اگر وہ اُس کیسٹ کو کھلے دماغ سے دیکھے گا تو اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک ہے اور صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے۔ اگر آپ یہ کیسٹ دیکھ کر اِس جواب کو یاد کریں گے تو آپ اپنے دوست کو جا کر جواب دیں گے ۔ اس طرح آپ ایک سوال کے جواب کے ماہر ہوگئے۔
 پھر اُن سے کہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو کیوں نہیں مانتے؟ وہ آ پ سے پوچھیں گے کہ "ہمیں کیوں ماننا چاہئے ؟" آپ کو جواب نہیں پتہ تو گھر پہ آیئے اور HOME WORK کیجئے۔ میں نے ایک تقریر کی تھی MUHAMMAD IN THE VARIOUS WORLD RELIGIOUS CAPTURE محمدصلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا ذکر دیگر ادیان میں ۔ دیگر مذاہب میں ہے۔ سارے MAJOR ریجن میں ہے۔ ہندو  CAPTURES میں ہے۔ بدھ مذہب میں ہے۔ عیسائی مذہب میں ہے۔ یہود مذہب میں ہے۔ پارسی مذہب میں ہے۔ سارے reference کے ساتھ۔ آپ اسے دیکھیں؟ اُس جواب کو آپ یاد کیجئے۔ اب آپ ٢ سوال کے جواب کے ماہر بن گئے۔
پھر اُن سے کہو" آپ صلوٰة کیوں نہیں پڑھتے؟ " وہ پوچھیں گے " ہمیں صلوٰة کیوں پڑھنا چاہئے؟"آپ کو نہیں پتہ جواب تو گھر میں آکے ہوم ورک کیجئے۔ میں نے ایک ٹاپک کے اوپر لیکچر دیا: نماز آپ کو اچھائی کی طرف بلاتا ہے۔ آپ اِس جواب کو یاد کیجئے اور اپنے دوست کو کہیئے۔ اب آپ تین سوالوں کے جوابات کے ماہر ہوگئے۔
 اِس طریقے سے ایک کے بعد ایک انشاء اللہ آپ ایک سے زیادہ سوال کے ماہر بنتے جائیں گے ۔ آپ سوچیں گے کہ آپ شیخ دیدات جیسے owner بن جائیں راتوں رات تو وہ وقت کبھی آئے گا ہی نہیں۔ " بلغوا عنّی ولو آیة "آپ کو ایک بھی آیت پتہ ہے تو آپ پر فرض ہے کہ دوسروں کو جاکر اُس کا پیغام پہنچائیں۔
بھلے آپ کو اُس کو  convince کرنا نہیں آتا ہے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ اللہ ایک ہے تو کم از کم وہ تو کہو۔ صلوة کے اندر امام صاحب نے آج ہی فرمایا:
(قل هو الله احد) (سورة الاخلاص:١)
کہو اللہ ایک ہے ۔
 میں پوچھتا ہوں اِس مسجد میں کوئی بھی شخص ہے جو کہتا ہے اللہ دو ہے؟ ہے کوئی شخص؟؟؟ سب کہتے ہیں نا کہ اللہ ایک ہے؟تو امام کس سے کہہ رہا تھا؟؟؟ ہم سے کہہ رہا تھا کہ باہر جاکر اُن سے کہو جولوگ کہتے ہیں کہ اللہ ایک نہیں ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہیں باہر جاکر بھول جاتے ہیں۔ نماز کا فائدہ ہی کیا؟؟؟ ہمیں صرف اپنا منہ کھولنا چاہئے ہم گھبراتے ہیں۔

ایک عذر اور اس کا جواب

بہت سے مسلمان بھائی وہ میرے فرض کام میں رکاوٹ لے کر آتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں : " ذاکر بھائی یہ آپ کرسچن کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہیں؟ یہ ہندو کو کیوں آپ چین سے نہیں رہنے دیتے؟" وہ مجھ سے  debate کرتے ہیں میرے فرض کام پر۔ تو میں کہتا ہوں کہ " دعوة کرنا فرض ہے۔" تو یہ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ " ہم مسلمان کو پہلے پکا مسلمان بنائیں گے ، اور تمام مسلمانوں کو پکا مسلمان بنانے کے بعد پھر ہم غیر مسلمانوں کو دعوة دیں گے۔" میں کہتا ہوں اِن سے کہ وہ وقت کبھی آئے گا ہی نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم خود اپنے رشتے داروں کو مسلمان نہیں بناسکے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے بہتر ہیں؟؟؟حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اپنے چچا کو خود مسلمان نہیں بناسکے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ محمدصلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے بہتر ہیں؟؟؟ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو مسلمان نہیں بناسکے اِس کے باوجود بھی اُنہوں نے خط dictate کرایا صحابہ کے ذریعے خط بھیجا غیر مسلمان راجاؤں کے پاس یمن کے راجہ ،فارس (ایران ) کے راجہ ۔ اُن سے کہا کہ اسلام قبول کرو۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں پہلے جو لوگ مسلمان ہیں اُن کو پکا مسلمان بناؤں گا اور پھر دعوة کروںگا۔ صحیح بخاری کے اندر ایک حدیث ہے کہ مدینہ منورہ میں ایسے مسلمان تھے جو فرض نماز کے لیے ، صلوٰةالجمعہ کے لیے مسجد میں نہیں آتے تھے ، محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم فرماتے ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ میں اُن کے گھروں کو آگ لگادوں۔ اِس کا مطلب ہے کہ مدینہ میں مسلمان تھے جو پکے مسلمان نہیں تھے پھر بھی محمدصلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے غیر مسلمانوں کو دعوة پہنچائی (١)۔
اگرآپ مسلمانوں سے ملتے ہیں جن کے عمل میں کچھ غلطیاں ہیں تو الحمد اللہ اُن کی اصلاح کیجئے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ اُن کی اصلاح نہیں کیجئے۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ میں پہلے مسلمان کو پکا مسلمان بناؤں گا اُس کے بعد غیر مسلمانوں کودعوة دوں گا تووہ وقت کبھی آئے گا ہی نہیں۔ دونوں ضروری ہے اگر آپ غیر مسلمان سے ملتے ہیں تو اُنہیں اسلام کی دعوة دیں ۔ اگر مسلمان سے ملتے ہیں اور آپ کو پتہ ہے کہ اُس میں تھوڑی بہت خامیاں ہیں تو اُن کی اصلاح کیجئے۔ دونوں ہی اپنی جگہ ضروری ہیں اصلاح بھی اور دعوة بھی۔ اگر آپ کہیں گے پہلے میں اصلاح مکمل کروں گا اور مسلمان کو پکا مسلمان بناؤں گا اور پھرغیر مسلمانوں کو دعوة دوں گا تو وہ وقت کبھی آئے گا ہی نہیں۔
دونوں ہی امور بہت ضروری ہیں لیکن اگر آپ کے پاس وقت کم ہے اور آپ دونوں میں سے ایک ہی کام کرسکتے ہیں تو غیر مسلم کو دعوة بہت اہم ہے۔ کیوں؟ اگر ڈاکٹر ایک ہے ایک بیمار آدمی آتا ہے جس کو زکام ہوتا ہے۔ایک دوسرا مریض آتا ہے جس کی وہ نبض جو ڈائرکٹ دل میں جاتی ہے کٹ چکی ہوتی ہے۔ تو ڈاکٹر کو پہلے کس کو دیکھنا چاہئے؟ یقینًا جس کی نبض کٹ گئی ہے اُسے ہی دیکھنا چاہئے۔ اگر ٹائم ہو تو دونوں کو ہی دیکھنا چاہئے،کیوں کہ ڈاکٹر کا کام ہے بیماری کا علاج کرنا۔ لیکن یہاں ٹائم کم ہے لہٰذا پہلے جس کی نبض کٹ گئی ہے اُس کو دیکھنا چاہئے نہیں تو وہ بیچارہ مرجائے گا۔ زُکام والے کو تھوڑی تکلیف ہوگی لیکن وہ مرے گا نہیں۔اِسی طرح ایک غیرمسلم جو شرک کررہا ہے اور ایک مسلمان بھائی جو اسلام پر پوری طرح عمل نہیں کررہا ہے ، اُس کو بھی سدھارنااچھی بات ہے اصلاح کرنا اچھی بات ہے۔ لیکن اگر وقت کم ہے اور آپ شرک نہیں روکیں گے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ دونوں ضروری ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس وقت کم ہے تو دعوة زیادہ ضروری ہے۔ کیوں کہ شرک ایک ایسا واحد گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں النساء آیت نمبر (٤٨) اور  النساء آیت نمبر (١١٦) میں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے، دوسرا کوئی بھی گناہ ہو اللہ تعالیٰ معاف فرما سکتے ہیں لیکن شرک کو کبھی بھی معاف نہیں کریں گے (٢)۔ تو شرک وہ واحد گناہ ہے جس سے آپ سو فیصد جہنم میں جائیں گے۔
ہمارا کام ہے دعوة دینا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں الغاشیہ آیت نمبر ٢١:
(فذکرقف انما انت مذکر)
"پس آپ نصیحت کر دیا کریں ( کیونکہ ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں"۔
ہدایت اللہ سبحانہ تعالیٰ دیتے ہیں ہمارا کام ہے ذکر کرنا۔ لیکن ہم مسلمان بہانہ چاہتے ہیں۔ہم کیوں کہتے ہیں کہ مسلمان کو پکا مسلمان بنائیں گے ؟ اِس لیے کہ مسلمان سے بات کرنا آسان ہے۔ بھائی صاحب داڑھی رکھو۔ اگر وہ مسلمان داڑھی نہیں رکھنا چاہتا ہے تو وہ آپ سے جھگڑا نہیں کرے گا۔ بھائی صاحب صلوٰة کے لیے آؤ۔ اگر وہ مسلمان نماز کے لیے نہیں بھی آنا چاہتا ہے تو وہ اِس پر آپ سے جھگڑا نہیں کرے گا۔لیکن جب ہم غیر مسلم سے بات کریں گے ، اُسے اسلام کی دعوة دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ری ایکشن ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بھڑک جائے۔ تو ہم چاہتے ہیں کہ آسان کام کریں۔ ہم اپنی ذمے داری سے بھاگنا چاہتے ہیں اور بہانہ بناتے ہیں کہ ہم مسلمان کو پکا مسلمان بنائیں گے۔ ہم دراصل ڈر رہے ہیں ۔ ہم ڈرتے ہیں کہ غیر مسلم سے بات کریں گے تو شاید ری ایکشن ہو۔ وہ ہمارے خلاف ہوجائے۔

MIND YOUR OWN BUSINESS

اور بہت سے مسلمان بہانہ کرتے ہیں کہ جب ہم غیرمسلموں سے بات کرتے ہیں ، دین کی بات کرتے ہیں تو وہ غیر مسلم کہتے ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھو۔MIND YOUR OWN BUSINESS ۔ تو ہم اُنہیں کیسے دعوة دیں۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ہر مسلمان کا کام ہے۔ جہاں تک دین کا معاملہ ہے ہر مسلمان کا کام ہے کہ وہ دوسرے دین میں دخل دے۔یہ اُس کا کام ہے۔ جب ہم غیر مسلم کو دین کی دعوة دیتے ہیں تو ہم اپنا کام ہی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ ایمان کا تقاضہ ہے ،ہمارا فرض ہے ،ہمارا کام ہے ۔ لہٰذا کوئی کہے کہ اپنے کام سے کام رکھو تو کہیں کہ وہی تو کر رہے ہیں ہم اپنے کام سے کام ہی تو رکھ رہے ہیں ، جہاں تک دین کا معاملہ ہے تو یہ ہمارا کام ہے کہ ہم آپ کے مذہب میں دخل دیں ۔
مثال کے طور پر آپ ایک پہاڑی کے اوپر جاتے ہیں پکنک منانے کے لیے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ۔ تو جب آپ پہاڑی پر بیٹھے اپنی اہلیہ کے ساتھ بات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا چھوٹا بچہ چار سالہ احمدآپ کی نظر سے دور ہو جاتا ہے۔ جب تک آپ کو پتہ چلتا ہے وہ بہت دور پہاڑی کے کنارے کی طرف پہنچ چکا ہوتا ہے اور مزید آگے جارہا ہے۔ آپ آواز دیتے ہیں کہ احمد سنبھلو ورنہ گرجاؤ گے۔ لیکن آپ کی آواز اُس تک نہیں پہنچ رہی۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ وہاں پہاڑی کے کنارے پر جہاں آپ کا بیٹا جارہا ہے ، ایک ضعیف انسان ہاتھ پہ ہاتھ باندھے مناظر کا لطف لے رہا ہے۔ اُسے دیکھ کر آپ اُسے آواز لگاتے ہیں کہ بھائی صاحب میرے بچے کو بچاؤ۔ لیکن آپ کی آواز وہاں تک پہنچ ہی نہیں رہی۔ وہ ضعیف انسان آپ کے بچے کو دیکھتاہے مسکراتا ہے اور نظارہ دیکھنے میں دوبارہ مشغول ہو جاتا ہے۔ کچھ لمحوں بعد آپ کا بیٹامزید ایک قدم اٹھاتا ہے اور پہاڑی سے گر جاتا ہے اور مر جاتا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ اُس ضعیف انسان کو ذمے دار ٹھہرائیں گے یا نہیں؟ یقینًا آپ اُس کو ذمے دار ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ بھائی صاحب آپ نے میرے بیٹے کو کیوں نہیں بچایا؟ تو وہ کہے گا کہ میں تو اپنے کام سے کام رکھ رہا تھا۔ تو وہ بھی صحیح کہہ رہا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھ رہا تھا ۔ اُس نے آپ کے بیٹے سے نہیں کہا تھا کہ چھلانگ لگاؤ یا اُس نے آپ کے بیٹے کو دھکا بھی نہیں لگایا تھا۔ لیکن پھر بھی آپ اُس کو ذمے دار قرار دیں گے۔ آپ کہیں گے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو حکمت دی ہے میرا بیٹا تو معصوم تھا اُسے کیا معلوم تھا کہ ایک قدم اور لے گا اور مر جائے گا۔ لیکن آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے ذہن دیا ہے اور آپ کو تو ایک قدم اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں تھی آپ صرف اپنا ہاتھ آگے کردیتے اور میرے بچے کی جان بچ جاتی۔ہر صورت میں آپ اُسے ہی ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُسے حکمت دی ہے تواُس کوچاہئے تھا کہ بچے کو بچاتا۔
اِسی طرح آخرت کے دن جب اللہ تعالیٰ اِن مشرکوں کو جہنم میں ڈالیں گے تو وہ آپ کا گریبان پکڑیں گے او ر کہیں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دی تھی تو آپ نے کیوں نہیں کہا مجھے؟ ہمیں تو نہیں پتہ تھا کہ ہم لوگ جہنم جائیں گے۔ وہ آپ کا گریبان پکڑیں گے اور آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
اگر آپ کا پڑوسی مشرک ہے اور آپ نے اپنے پڑوسی کو اسلام کی دعوة نہیں دی اور وہ مشرک ہی مر جاتا ہے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائیں گے کے تم نے کیوں اسلام قبول نہیں کیا؟ تو وہ کہے گا یا باری تعالیٰ مجھے کسی نے اسلام کی دعوة نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تمہارا فرض تھا حق جاننا ۔ لہٰذا اُس کو جہنم میں ڈالیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ اللہ آپ سے فرمائیں گے کہ تم نے دعوة دی تھی اپنے مشرک پڑوسی کو؟اگر آپ کہیں گے کہ نہیں تو آپ مشرک کے ساتھ جائیں گے۔ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دعوة دے۔

سورۂ عصر ، کامیابی کا پیمانہ

 اللہ تعالیٰ العصر میں فرماتے ہیں کہ چار چیزیں ضروری ہیں نجات پانے کے لیے جنت میں جانے کے لیے۔
(و العصر1۔ ان الانسان لفي خسر2۔ الا الذين امنوا و عملوا الصلحت و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر3 )
زمانے کی قسم ۔ بے شک ( بالیقین ) انسان سرتاسر نقصان میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور ( جنہوں نے ) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی ۔
اﷲ تعالیٰ وقت کی قسم کھاتے ہیں اور فرماتے ہیں سارے آدمی خسارے میں ہیں صرف وہ شخص خسارے میں نہیں ہے جس کے پاس ایمان ہے اور عملِ صالح کرتا ہو اورلوگوں کو حق(سچائی) کی طرف بُلائے اور لوگوں کو صبر کی طرف بلائے ۔
نجات پانے اور جنت میں جانے کے لیے سورۂ عصر کے حساب سے ہر انسان کو چار چیزوں کی ضرورت ہے: ایمان، عملِ صالح، لوگوں کو حق کی دعوة دینا، اور لوگوں کو صبر کی تلقین کرنا۔ اگر اِن چار چیزوں میں سے کسی ایک کی بھی کمی ہے تو عام طور پر آپ جنت نہیں جاسکتے۔ آپ چاہے پانچ وقت نماز پڑھیں، رمضان کے روزے رکھیں، زکٰوة دیں ، حج ادا کرلیں لیکن اگر آپ دعوة نہیں کرتے تو سورۂ عصر کے حساب سے آپ نجات نہیں پائیں گے۔لیکن اگر اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرنا چاہے تو الگ بات ہے۔ عام طور پر آپ جنت نہیں جاسکتے۔ صرف دعوة کرنا بھی کافی نہیں ۔ چاروں چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایمان، عملِ صالح، دعوةالحق اور دعوةالصبر۔ اگر آپ دعوة نہیں کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرنا چاہیں تو ایک الگ بات ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سورة النساء ( ٤) آیت نمبر (١١٦) اور  (٤٨) میں (٣)  کہ اﷲ تعالیٰ شرک کے سوا سارے گناہ معاف کرسکتے ہیں۔
دعوة کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے کم از کم PART TIMEیعنی جزوی طور پر بہت ہی تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سورۂ النحل (١٦) میں آیت نمبر (١٢٥) میں کہ کس طریقے سے دعوة کرنا چاہئے۔
(ادع الى سبيل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة و جادلهم بالتي هي احسن ط)
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے ۔
ہر مسلمان کو کم از کم جزو وقتی طور پر ہی سہی داعی بننا چاہئے۔زندگی میں کچھ تو دعوة کرنا ہی چاہئے جو اُن کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سورۂ آلِ عمران آیت نمبر (١٠٤) میں:
(و لتکن منکم امة يدعون الى الخير و يامرون بالمعروف و ينهون عن المنکر و اولىک هم المفلحون)
"تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں "۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ FULL TIME داعیوں کی بات کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں FULL TIME ڈاکٹروں کی حیثیت بہت ہے۔ ہمارے یہاں FULL TIME ایڈوکیٹ ہے۔ FULL TIME انجینئرز ہیں۔ لیکن FULL TIME داعی کتنے ہیں؟ کرسچین مشنریزکو دیکھیں کہ لاکھوں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انگلینڈ سے انڈیا میں آتے ہیں صرف انڈیا ہی میں آپ کو امریکا سے سوئٹزر لینڈ سے آسٹریلیا سے آئے ہوئے کرسچین مشنریز کے داعی ملیں گے۔ لیکن ہمارے کتنے داعی ہیں جو دنیا میں گھوم کر اللہ کا پیغام پہنچائیں؟ آپ انگلیوں پر گِن سکتے ہیں۔ دعوة کرنا کم از کم جزوی طور پر تو سب مسلمانوں پر فرض ہے اور ہماری امّہ میں سے چند لوگ ایسے ہونا چاہئے جو FULL TIME دعوة کا کام کرے اور یہ امّہ کی ذمے داری ہے کہ اِن داعیوں کو SUPPORT کرے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں کم از کم تین جگہ قرآن شریف میں سورۂ التوبہ میں آیت نمبر (٣٣)، سورۂ الصّف آیت نمبر (٩) میں:
(هو الذي ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين کله و لو کره المشرکون)
اللہ نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو بھیجا حکمت کے ساتھ اور دین الحق کے ساتھ کہ یہ دین باقی دیگر مذاہب پر غالب ہوگا ، خواہ مشرکوں پر ناگوار ہی گزرے ۔
یہ دین اسلام سارے مذاہب سارے ازم کے اوپر غالب ہوگا۔ کرسچن ازم ہو، جوڈا ئی ازم ، ہندو ازم، سیکولر ازم یا ایتھی ازم۔ اسلام اِن سب مذاہب پر غالب ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ آپ کے ساتھ یا آپ کے بِناء ، میرے ساتھ یا میرے بِنائ۔ ہم تو بیکار ہیں اللہ تعالیٰ کو آپ کی اور میری ضرورت نہیں ہے ہم تو ایک دم RUBBISH لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا دین ، اسلام باقی مذاہب پر غالب کرنے کے لیے آپ کی اور میری ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پھِر سے فرماتے ہیں تیسری بار سورۂ الفتح آیت نمبر (٢٨) میں :
(هو الذي ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين کله)
"اللہ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو بھیجا ہے حکمت کے ساتھ اور دین الحق کے ساتھ ۔کہ یہ دین باقی دیگر مذاہب پر غالب ہوگا ۔ "
چاہے کوئی بھی ازم ہو۔ کرسچن ازم، جوڈائی ازم، ہندو ازم، بدھ ازم، جین ازم، پارسی ازم، سیکولر ازم، ایتھی ازم، مارڈرن ازم۔ اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا یہ اللہ کا دعدہ ہے۔ چاہے آپ دعوة کریں یا نہ کریں چاہے میں دعوة کروں یا نہ کروں اللہ تعالیٰ کو آپ کی اور میری ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ دعوة کریں گے تو دین پھیلے گا تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو آپ کی اور میری ضرورت ہے ہی نہیں۔ ہم تو بیکار لوگ ہیں اللہ تعالیٰ اپنا دین ساری دنیا پر غالب کرنے کے لیے اکیلے ہی کافی ہیں۔ یہ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں موقع دے رہے ہیں۔کہ پیغمبروں کا کام کرو اور پیغمبروں کا انعام پاؤ۔ کیونکہ دعوة دینا پیغمبروں کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے رہے ہیں کہ پیغمبروں جیسا کام کرو اور پیغمبروں جیسا انعام پاو۔ میں تقریر کے آخر میں اِس آیت کی تلاوت کرنا چاہوں گا۔ سورۂ فصلت آیت نمبر (٣٣)
(و من احسن قولا ممن دعا الى الله و عمل صالحا و قال انني من المسلمين)
اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

حواشی

(١)       منافقینِ مدینہ کی طرف اشارہ ہے ،جن سے متعلق قرآن پاک میں وقتاً فوقتاً تہدیدی احکامات آتے رہے ہیں۔
(٢)       (ان الله لا يغفر ان يشرک به و يغفر ما دون ذلک لمن يشاء) (سورة النساء الآیة: ٤٨،١١٦) یقیناً اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے ۔
(٣) (ان الله لا يغفر ان يشرک به و يغفر ما دون ذلک لمن يشاء) (سورة النساء الآیة: ٤٨،١١٦) یقیناً اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے