اتوار، 20 اکتوبر، 2013

ہڑتال

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

ہڑتال
دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والی ایک گداز تحریر

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

"ارے سنتے ہو ! منے کی دوا کب لاؤ گے؟" اس نے ذرا تیز لہجے میں اپنے شوہر سے کہا ، جو خلاؤں کو گھور رہا تھا۔
"ہاں ہاں لے آؤں گا۔آج تو دہاڑی لگ ہی جائے گی، آج ضرور لے آؤں گا۔" اس نے پُر عزم لہجے سے کہا اور یہ کہہ کر اپنے کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہو گیا اور گھر سے نکلنے کے لیے تیار ۔
"ارے اتنی جلدی بھی نہیں ہے، ناشتہ تو کرتے جاؤ۔"
اس نے زیرِ لب تلخ لہجے میں کہا : "ناشتہ" اور چل دیا۔ وہ جانتا تھا کہ ناشتہ کیا ہوگا ایک آدھی روٹی اور پانی کا سالن۔
PDF Download link @ AlWaqiaMagzine // strike-a-fiction/
وہ بلدیہ ٹاؤن کی اس فیکٹری میں ملازم تھا جہاں پچھلے سال گیارہ ستمبر کو لگی آگ نے اس کے سارے خواب جلا دیئے تھے ۔ اس کے تین سو سے زائد ساتھی جل کر خاکستر تو ہو ہی گئے تھے مگر جو زندہ بچ گئے تھے انہیں تقدیر لمحہ بہ لمحہ جلا رہی تھی ۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچے کو انجینئر بنائے گا ۔ اس کے لیے وہ خواہ خود کو بیچ بھی دے مگر اپنے بچے کو ایک دن بڑا آدمی ضرور بنائے گا ۔ اس کا آٹھ سالہ بیٹا دوسری کلاس میں پڑھتا ہے ۔ بہت ذہین ہے ۔ تمام اساتذہ اس سے بہت خوش ہیں ۔ مگر آج کل وہ اپنی بیماری کے باعث اسکول نہیں جا پا رہا ہے اور اگر بیمار نہ بھی ہوتا تو کیسے جاتا ؟ اسکول کی تین ماہ کی فیس واجب الادا جو ہوچکی تھی ۔ فیکٹری میں لگنے والی آگ نے وہاں کے ملازمین کی صرف زندگیوں ہی کا خاتمہ نہیں کیا تھا بلکہ ان کے خوب بھی جلا کر راکھ کر دیئے تھے ۔ ان کے احساسات کو زخمی اور آرزؤں کو شکستہ کر دیا تھا ۔ یہ مزدور اپنے زورِ بازو سے کماتے تھے ۔ خوددار تھے لیکن بھوک اور بیروزگاری نے ان کی عزت نفس کو مجروح کرکے رکھ دیا تھا ۔
وہ دن بھر اِدھر اُدھر مارا پھرا بمشکل پچاس روپے کی دہاڑی لگی ۔ تھوڑا بہت آٹا اور دال خرید لیا تاکہ پیٹ کی بھڑکتی آگ پر اناج کی کچھ بارش کر سکے ۔ گھر لوٹا تو بچہ ویسے ہی بخار میں لت پت ۔ تھوڑی دیر بعد اطلاع ملی کہ کسی علاقے میں بم دھماکہ ہوا ہے ۔ اسے یہ سن کر ایسا لگا جیسے تقدیر نے یہ دھماکہ خود اس کی زندگی پر کیا ہے ۔ روزگار میّسر نہیں تھا اور حالات دن بہ دن بد سے بد تر ہوتے جا رہے تھے۔ وہ ایک آہِ سرد بھر کر رہ گیا ۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے چند قطرے اس کے بیٹے کی پیشانی کو تر کر گئے مگر اس کے بیٹے کی پیشانی کی حدت کو کم کرنے کے لیے یہ قطرے ناکافی تھے ۔
دوسری صبح وہ بہت جلد اٹھ گیا ۔ اٹھتا کیا وہ تو صحیح سے سویا ہی نہیں تھا ۔ آہ ، وہ کونسا باپ ہوگا جو بیٹے کی پریشانی دور کرنے پر قادر نہ ہونے کے باوجود بستر پر چین کی نیند سو سکے ؟ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ نہ سڑکوں پر ٹریفک ہے اور نہ ہی بازاروں میں رونقِ تجارت ۔
ہڑتال کے باعث سب بند ہے ۔ مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ آیا ۔ شام کے وقت جب کچھ چہل پہل ہوئی تو وہ اپنی قسمت آزمانے دوبارہ نکلا باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ کچھ حاصل نہ ہوسکے گا مگر ایک امید تھی جو اسے دوبارہ نکلنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ لیکن وقت گزرتا گیا اور رات کی تاریکی نے اس کی زندگی پر تاریکی پر مہر ثبت کردی ۔ وہ ابھی مایوسی کی حالت میں گھر میں داخل بھی نہ ہوا تھا کہ خبر ملی کہ ایک اور دھماکہ ہو گیا ہے ۔ اس خبر نے اس کے قدموں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے اور لڑکھڑاکر گرا جیسے عین دھماکے کے مقام پر دھماکے کی آواز سن کر گرا ہو ۔ اور کیوں نہ گرتا ؟ کہ یہ دھماکہ اس کی زندگی پر ہی تو ہوا تھا ۔ دھماکہ کہیں بھی ہو بارود کی یہ کرچیاں شہر کے ہر غریب کے تنِ مردہ سے ٹکراتی ہیں ، اس کی بے بسی کا مذاق اڑاتی ہیں ، اس کی مفلسی پر قہقہے لگاتی اور اس کے خالی پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ پر بے اندازہ ہنستی ہیں ۔
آج اس کی آنکھیں ہی نہیں دل بھی رو گیا ۔ بیٹا بخار میں تپ رہا ہے ۔ بیوی سوالیہ نظروں سے تک رہی ہے ۔ اور وہ ........ بیوی کی نگاہوں سے نظریں چرائے ، بیٹے کی حدت بھری پیشانی سے اپنے ہاتھ کا لمس لگائے ایسے بیٹھا تھا جیسے اس کے جسم کی ساری حدت خود اپنے اندر اتار لینا چاہتا ہو ۔
اگلی صبح وہ جانتا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا مگر اپنے بیٹے کی پژمردہ نگاہوں اور بیوی کی سوالیہ نظروں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے نکل پڑا ۔ واپس آیا تو پتہ چلا کہ آٹا ختم ہوچکا ہے ۔ اس کا دل چاہا کہ کوئی رحمدل بمبار اس کے گھر پر بھی دھماکہ کر دے تاکہ ہر روز کی اس اذیت سے اسے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے ۔ وہ تیزی سے باہر نکلا اور اپنے ہی طرح کے ایک مزدور ساتھی سے پچاس روپے ادھار لے کر آٹا لایا تاکہ پانی کے ساتھ اناج کے چند خوشے اپنے بیمار بیٹے ، اپنی وفا شعار بیوی اور اپنے پیٹ میں ڈال سکے ۔
اگلا دن اس کی مسلسل بیکاری کا ساتواں دن تھا اور شہر کی معطلی کا تیسرا ۔گھر میں اناج کے دانے ختم ہوگئے تھے اور جمع پونجی کا تو خیر ذکر ہی کیا ۔ مگر اس نے سوچ لیا تھا کہ آج خواہ کچھ ہی ہو وہ اپنے ہاتھ کی تمام لکیریں بیچ کر بھی اپنے بچے کی خوشیاں ضرور خریدے گا ۔ آج وہ کسی صورت بھی خالی ہاتھ لوٹنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ طلبِ معاش کے لیے وہ اپنے علاقے سے بہت دور نکل آیا تھا ۔ اس نے لوگوں کے سامان اٹھائے ۔ دکانوں کی صفائی بھی کی ۔ اپنی شکستہ انانیت کی انتہا پر جا کر وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوگیا کہ جس سے اس کے پسینے کی خوشبو والے کاغذ کے چند ٹکرے نصیب ہوسکیں اور جس پر کسبِ حلال کی مہر لگی ہو ۔ آج اس کے پاس تین سو روپے تھے ۔ مگر اسے بہت دیر ہوگئی تھی ۔ وہ تیز تیز قدموں سے گھر کی راہ جا رہا تھا کہ اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اپنی جان بچانے کی غرض سے اسے طویل راستہ اختیار کرنا پڑا ۔ اس میں مزید تاخیر ہوگئی ۔ خیر جب گلی میں داخل ہوا تو بیوی کو گھر کی چوکھٹ پر پریشاں حال کھڑا پایا ۔ قریب پہنچا تو بیوی نے گھبرائے لہجے میں کہا : " کہاں رہ گئے تھے ۔ منے کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے ۔ " وہ دوڑتا چیختا کمرے میں داخل ہوا ۔ اس کے عزیز از جاں بیٹے کی پیشانی بخار کی حدت سے دہک رہی تھی اور سینہ اکھڑتی سانسوں کا اشارہ دے رہا تھا ۔ وہ تیزی سے دوڑتا ہوا باہر نکلا ۔ مختلف گلیوں میں گھوما کہ شاید کوئی میڈیکل اسٹور کھلا ہو ۔ مگر حالات کی خرابی کے باعث ساری دکانیں بند تھیں ۔ پریشانی کے احساس نے اس کے سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت ختم کرکے رکھ دی ۔ اس کے جذبات کو کچل کر رکھ دیا ۔ ایک چیخ اس کے حلق سے نکلی مگر کسی پردہ سماعت کو نہ چیر سکی اور اس کے ہی گلے میں گھٹ کر رہ گئی ۔ بیٹے کی جدائی کا احساس اس کی زندگی کا سب سے بد ترین احساس تھا جسے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا مگر جب زندگی ظلمت و تیرگی کے اندھیروں میں گھری ہو تو احساس بھی بد نما ہو جاتے ہیں اور خوف سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے ۔
وہ شکستہ قدموں اور آزردہ دل کے ساتھ گھر میں داخل ہوا ۔ طلوعِ صبح کا وقت تھا مگر فضائے بسیط کو چیر کر طلوع ہونے والی صبح کی پہلی کرن بھی اس کی زندگی کی شبِ تاریک میں سحر پیدا کر نہ سکی ۔ وقت پر دوا نہ ملنے کے سبب اس کا بیمار بیٹا دم توڑ چکا تھا اور بیوی صدمے سے نڈھال پڑی تھی ۔ خود اس کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں اور جسم مردہ ۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کے بیٹے کی موت کا ذمہ دار کون ہے ؟ بم دھماکے کرنے والے یا ہڑتال کرانے والے ۔ مرنے والوں کے غم میں شریک ہونا تو انسانیت ہے مگر مرنے والوں کے ساتھ زندوں کو مار دینا عین بربریت ۔
ایک دن کی ہڑتال کتنے مفلسوں کو خالی پیٹ سونے پر مجبور کردیتی ہے اور کتنے بیماروں کو دواؤں سے محروم کردیتی ہے اس کا اندازہ نہ حالات خراب کرنے والے عناصر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی ہڑتال کی اپیلیں کرنے والے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے