جمعرات، 17 اکتوبر، 2013

تاریخ پاکستان کا نیا باب

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

تاریخ پاکستان کا نیا باب (اداریہ)

    محمد تنزیل الصدیقی الحسینی 
پاکستان کی گزشتہ جمہوری حکومت کا عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔ سیاسی حلقے خوش ہیں کہ پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ۔ تاہم یہ حلقے اس بات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ اس مدت کی تکمیل کس قیمت پر ہوئی ۔ ڈرون حملے ، خود کش دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ ، ہڑتال اور مظاہرے۔ یہ ساری قیمتیں پاکستانی عوام کو چکانی پڑیں ۔
گزشتہ دنوں انتخابی عمل تکمیل پذیر ہوا اور اس خونی انتخابی عمل کے نتیجے میں بقول ایک ٹی وی چینل ١١٠ افراد جاں بحق ہوئے ۔ تکمیلِ انتخاب کے بعد پاکستان کے تمام انتخابات کی طرح اس انتخابی عمل پر بھی دھاندلی کے الزامات عائد ہوئے ۔
ہمارے ٹی وی اینکرز کو کچھ نئے مسالے اور ٹاک شوز کے لیے کچھ نئے عناوین مل گئے ۔ احتجاج اور مظاہروں کے کچھ نئے سلسلے چل پڑے ۔ حریفوں میں تبدیلی آگئی تاہم کھیل وہی پرانا ہے اور یہ سب کچھ جمہوریت کا حسن ہے ۔
PDF Download link @ AlWaqiaMAgzine/a-new-chapter-of-history-of-pakistan/
کوئی احتجاج کرتا ہے تو بھی جمہوریت کا حسن ۔ کوئی راستہ بلاک کردیتا ہے تو بھی جمہوریت کا حسن ۔ کوئی جلائو گھیرائو کرتا ہے تو بھی جمہوریت کا حسن ۔ اگر حسن یہ ہے تو قبح کیا ہوگا ؟ کیا کبھی نظام کی اصلاح پر بھی توجہ دی گئی ؟ کیا کبھی احتجاج کی اخلاقیات بھی متعین کی گئیں ؟ محض ایک دن کی ہڑتال کتنے مسکینوں کو فاقہ کشی پر مجبور کردیتی اور ملک کی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچاتی ہے ، کیا کبھی اس پر بھی توجہ منعطف فرمائی گئی ؟
جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کی خوشی کوئی اس ماں سے پوچھے جس کا لختِ جگر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگیا ۔ کوئی اس باپ سے پوچھے جو اسباب معیشت نہ ہونے کے سبب اپنے بچوں کو اناج کے دانے مہیا نہیں کرسکتا ۔ کوئی اس نوجوان سے پوچھے جس کا پورا خاندان کسی ڈرون حملے کی بے احتیاطی کی نظر ہوگیا ۔ کوئی اس سہاگن سے پوچھے جس کے ہاتھ کی مہندی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ اسے ہمیشہ کی بیوگی کا غم سہنا پڑا۔
یہ افسانہ یا انشائیہ نہیں ۔یہ سب کچھ ہوا اور گزشتہ عہدِ حکومت میں بکثرت ہوا ۔ کونسی آنکھ ہے جس نے یہ مناظر نہیں دیکھے ؟ اور کونسا بے حس دل ہوگا جس نے اس احساسِ غم کا تأثر نہ لیا ہو ۔
بہر حال اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھنے والی یہ قوم یہ سب کچھ بھی جلد بھول جائے گی ۔ یہ درست ہے کے ہمیں ماضی کا اسیر نہیں بننا چاہیئے مگر یہ بھی درست کے ماضی مستقبل کا آئینہ ہوتا ہے ہم جس جہت میں قدم اٹھاتے ہیں ہماری منزل بھی اسی طرف ہماری منتظرہوتی ہے ۔
انتخاب ختم ہوئے ، کسی کو سزا ملی اور کسی کو جزا ۔ اب انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے ہورہا ہے ۔ تیسری دفعہ منتخب ہونے والے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواز شریف حکومت کرنے کا جو تجربہ رکھتے ہیں اس میں پاکستان میں کوئی ان کا ہمسر نہیں ۔ اگر یہ تجربہ ملک و قوم کے لیے مفید ہو تو زہے نصیب وگرنہ “ اے روشنیِ طبع تو من بلا شدی “ ہوتے بھی دیر نہیں لگتی ۔
حکمرانی کی مسند وہ مسند ہے جو انسانی نفسیات پر بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہوجاتی ہے ۔ طاقت کا نشہ ایسا نشہ ہے کہ جس کی مستی میں انسان “ انا ربکم الاعلیٰ “ کی صدائے تکبر تک کو بلند کرنے سے بھی عار محسوس نہیں کرتا ۔ لیکن اگر یہی حکمران عدل و انصاف کے تقاضے پورے کریں تو اللہ کے نزدیک انہیں اولیاء و صلحا ء کی صف میں جگہ ملتی ہے ۔
اس وقت پاکستانی عوام کا دل جیتنے کے متعدد مواقع ہیں۔ گو ہر منزل انتہائی دشوار بھی ہے لیکن اگر آنے والی حکومت نے تمام منزلیں نہ سہی چند منزلیں بھی طے کرلی تو وہ عوام کا دل جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔
اچھی حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ حکمران اپنے گرد خوشامدیوں کا ٹولہ جمع کرنے کی بجائے ۔ بے غرض اور ایماندار افراد کو اپنا مشیر بنائیں ۔ درویش مسند اقتدار کے زلہ ربا نہیں ہوتے ۔ مگر حکمرانوں کے لیے سب سے بڑھ کر مخلص وہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کے سامنے کلمۂ حق کہہ دیتے ہیں ۔ اگر اس بار محترم نواز شریف کو چند درویش میسر آگئے تو یہ ان کے اقتدار کی اصل کامیابی ہوگی ۔
پاکستانی عوام کے لیے تیرہ بختی کا دور بہت طویل ہو چکا ہے اب مزید تاریکی و ظلمت نا قابلِ برداشت ہوگی ۔ ملک میں غریب کی بجائے غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔جب تک ملک میں اسباب کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی یہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔ ارباب اقتدار کی عیاشیوں پر مملکت کے خزانے لٹانے کی بجانے عوام کے لیے اسباب رزق کو فراخ کرنا پڑے گا ۔ سودی معیشت سے جان چھڑائے بغیر نہ اس ملک کو حقیقی فلاح مل سکتی ہے اورنہ ہی کبھی ہماری معیشت بہتر ہو سکتی ہے ۔
پاکستان قدرتی خزینوں سے مالا مال ملک ہے ۔ اللہ نے یہ خزینے زمین میں چھپا کر رکھنے کے لیے نہیں دیئے ۔ وہ کونسا وقت ہوگا جب ان معدنی خزینوں کو نکال کر …اقتدار کے ایوانوں کو نہیں بلکہ …غریب کی کٹیا کی تاریکی کو دور کیا جائے گا ۔ جب اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کو ان کے صلاحیتوں کے مطابق میدانِ عمل فراہم کیا جائے گا ۔
دس ہزار کا قرضہ لے کر خود کشی کرنے پر مجبور کردینے کی بجائے جب دس کڑوڑ کی رقم کی باز پرس کی جائے گی تب ہی اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ۔
 امید ہے نواز شریف پاکستانی تاریخ کا نیا باب رقم کریں گے اور اگر ان کی حکومت بھی گزشتہ حکومت کا تسلسل ثابت ہوئی تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔

مذہبی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ

بایں ہمہ ان انتخابات نے مذہبی جماعتوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ بلکہ خود ان کے وجود کے لیے سوالیہ نشان بھی قائم کردیا ہے ۔ بالخصوص جماعت اسلامی کے لیے ، جو صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک نظریاتی اساس بھی رکھتی ہے ۔ لیکن گزشتہ ٦٠ برسوں سے جماعت اسلامی کا سیاسی وزن ایک چھٹانک سے زیادہ نہیں ہوسکا ۔ دوسری جماعت ایک نشست سے ٣٠ کا سفر طے گئی مگر جماعت اسلامی تین چار سے اوپر نہ جا سکی ۔ اس کی استقامت برقرار رہی ۔ کیا جماعت اسلامی کی سیاست صرف یہی ہے کہ وہ ہر پانچ سال پر انتخابی جھمیلوں میں کڑوڑوں روپے برباد کرے اور ہارنے کے بعد انتخابی عمل کو کوسے ۔ کیا اب بھی یہ وقت نہیں آیا کہ وہ انتخابی سیاست کو چھوڑ کر معاشرے میں اصلاح و فلاح کا کام انجام دے اور صرف اس کے لیے وقف ہوجائے ۔
اخوان المسلمون کی کامیابی سے پاکستان میں مذہبی جماعتوں  کی کامیابی کے خواب دیکھنا سوائے نادانی کے کچھ نہیں ۔ اخوانیوں نے مصر میں ایک طویل عرصے انتہائی صبر آزما دور گزارا ہے اور عوام میں مسلسل اپنی دعوت کی نشر و اشاعت کے لیے جدوجہد کی ہے ۔ کیا پاکستان کی مذہبی جماعتیں …جو انتخابی عمل سے اپنی کامیابی کے خواب دیکھتی ہیں … نے کبھی اس مشکل اورصبر آزما جدو جہد کے لیے خود کو تیار کیا ؟
بیج بوئے بغیر فصل نہیں کاٹی جا سکتی ۔ مذہبی جماعتیں معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے تو کردار ادا نہیں کرتیں مگر چاہتی ہیں کہ انہیں عوام منتخب کرکے ایوانوں کی زینت بنادیں ۔
 ایں خیال است و محال است و جنوں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے