منگل، 22 اکتوبر، 2013

Three devils of contemporary in the light of Surat ul Kahaf (The Cave) (اداریہ) عصرِ دجالیّت کے تین طاغوت سورة الکہف کی روشنی میں

مجلہ "الواقعۃ" شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

(اداریہ)
عصرِ دجالیّت کے تین طاغوت
سورة الکہف کی روشنی میں

Three devils of contemporary  in the light of Surat ul Kahaf (The Cave)

    محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

سورة الکہف کا تعلق دجال اور دجالیت سے بہت گہرا ہے ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  نے اس سورہ مبارکہ کو اگر عصرِ دجالیت سے ایک نسبت خاص دی ہے تو وہ بلا وجہ نہیں ۔ لازم ہے کہ اس سورت کا مطالعہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے انوارِ نبوت کی روشنی میں کیا جائے ۔ دجال ایک فرد بھی ہے اور ایک نظام بھی ۔ سورة الکہف میں اس نظام کے اجزائے ترکیبی کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ وہ نظر چاہیئے جو تعلیماتِ الہامی کی گہرائیوں میں اتر سکے ۔
سورة الکہف میں ہمیں تین طرح کے شرک کا ذکر ملتا ہے ۔
PDF download link @ AlWaqiaMagzine // three-devils-of-contemporary-in-the-light-of-surat-ul-kahaf-the-cave-edit-15
اصحاب الکہف کے قصے کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖٓ اَحَدًا    26)
" اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ "
باغ والوں کے قصے میں صاحبِ ایمان کہتا ہے :
(هُوَ اللّٰهُ رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا 38)
" وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ "
باغ والوں کے قصے ہی میں نا شکر گزار حسرت و یاس کے ساتھ کہتا ہے :
(يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّيْٓ اَحَدًا 42)
" اے کاش ! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ۔ "
سورة الکہف کے اختتام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
(فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا  ١١٠ۧ)
" پس جو کوئی اپنے رب سے ملاقات کا متمنی ہو ، اسے چاہیئے کہ عملِ صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔"
یعنی :(١) شرکِ حاکمیت (٢) شرکِ ربوبیت اور (٣) شرک عبودیت ۔

شرکِ حاکمیت

اللہ ربّ العزت کا تصور حاکمیت یہ ہے کہ وہ " احکم الحاکمین " ہے ۔ کائنات کا ہر ہر ذرہ اس کے حکم کا پابند اور افلاک کی ہر ہر جہت اس کے فرمان کی محتاج ہے ۔ وہ انفس و آفاق کا یکساں مالک ہے ۔ اس کی حاکمیت دائمی ہے اور اس دائمی حاکمیت کا تقاضا یہی ہے کہ دنیا میں اس کا حکم نافذ ہو اور اس سے بر تر کسی کا  حکم نہ ہو ۔ چنانچہ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم ( الیوم اکملت لکم دینکم ) کے دین  (نظام) کو نافذ کریں گے ۔ چنانچہ دجالی عصر کا ایک بہت بڑا طاغوت نظام الٰہی سے انحراف ہے ۔ کمیونزم  (Communism)، سوشلزم (Socialism)، امپریلزم  (Imperialism)، ڈیمو کریسی  (Democracy)وغیرہا یہ سب نظام ہیں جو توحید حاکمیت سے متصادم ہیں ۔ اس وقت ایک ہی نظام ہے جسے رائج کرنے کی پُر زور کوشش کی جا رہی ہے حتیٰ کہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور افریقہ کی افلاس زدہ بستیوں میں بھی اس نظام کے قیام و ثبات کی جدو جہد جاری ہے۔ دنیا ڈیڑھ صدی قبل بھی آباد تھی اور بہت پُر سکون تھی کہ " آزادی " کی پُر فریب اصطلاح سے آراستہ ایک نظام متعارف کرایا گیا۔ خود اس کے نفاذ کے لیے اس کے " مخلص علمبرداروں " نے جبر و استبداد کے کتنے ہی مراحل طے کیے اور کتنوں کی آزادی کو سلب کر لیا ۔ انسانیت کو بھوک و افلاس ، جنگ و ہلاکت ، تشتت و افتراق کا تحفہ دینے والے اس طاغوتی نظام کا نام ہے "جمہوریت "۔

شرکِ ربوبیت

معرفتِ الٰہی کی پہلی منزل صفتِ ربوبیت کا ادراک ہے ۔ ایک مادی معاشرہ اس حِس و ادراک سے محروم ہوتا ہے ۔ سیکولر ازم (Secularism) اس کی پہلی منزل ہے اور انکارِ ربوبیت آخری ۔ سیکولر معاشرہ انسان کو ہر طرح کے ضابطوں سے آزاد کرکے جینے کا حق دیتا ہے ۔ حتیٰ کہ سیکولر معاشرے   (Secular society)میں رہنے والے فرد کو یہ آزادی بھی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اللہ کو تسلیم کرے یا نہ کرے اور چاہے تو اس کا مذاق بھی اڑا لے ۔ انسانی دنیا کی بھیڑ ابھی اس مقام پر نہیں پہنچی کہ اس کی اکثریت ربّ تعالیٰ کے وجود کا انکار کر سکے ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اپنے قول و فعل کے اعتبار سے وہ اس راہ پر گامزن ضرور ہوگئی ہے ۔ چنانچہ صفتِ ربوبیت کا انکار کرنے والی سیکولر فکر عصر دجالیت کا دوسرا بڑا طاغوت ہے ۔

شرکِ عبودیت

انسانی فکر و عمل کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو دائرہ عبودیت سے باہر ہو ۔ عبودیت انسان کے ظاہر و باطن پر یکساں محیط ہے ۔ سورئہ کہف کی اس آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ ربّ تعالیٰ سے ملاقات کی امید ( یعنی آخرت کا یقین ) اور عملِ صالح کا تقاضا عبودیت کے یقینی عناصر ہیں ۔ انسان کا ہر عملِ صالح عبودیت میں داخل ہے اور اس کی ہر صفتِ رذیلہ ربّ تعالیٰ کی عبودیت سے متصادم ۔ آخرت کا یقین ہی عملِ صالح کی بنیاد ہے ۔ انسان مذہب کی پابندیوں اور اخلاق کے ضابطوں کو قبول کرنے کے لیے کیوں آمادہ ہوجاتا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ یوم فیصل اسے میزانِ عمل کی آزمائش سے گزرنا ہے ۔ آخرت کا یقین ( یرجوا لقاء ربہ ) ہی انسان کو تقاضائے عبودیت کے تسلیم کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس پر عدم یقین ہی انسان کو ہر طرح کے ضابطوں سے آزاد کرکے نفس پرستی کے قعر مذلت میں جا گراتی ہے اور جب پرستشِ نفس کے دام اسیر میں کوئی شخص مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی رذالتوں کی کوئی حد باقی نہیں رہتی ۔

آہ ، وہ دل کہ جس پر حسرتوں کے داغ ہیں اور آہ ، وہ سینہ جو تمنائوں سے معمور ہے ۔ جب ایک بار اس کے قدم نفس پرستی کے دلدل میں جا گریں تو اس اسیری سے رہائی نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوجاتی ہے ۔ مغرب کی مادر پدر آزادی میں اسی نفس پرستی کی جلوہ گری ہے اور یہی نفس پرستی عصرِ دجالیّت کا تیسرا بڑا طاغوت ہے ۔

عصر حاضر میں اگر ہم مظاہر شرک دیکھنا چاہیں تو حاکمیت ، ربوبیت اور عبودیت کے تقاضوں سے انحراف کی شکل میں ہمیں باآسانی نظر آجا ئیں گے ۔ خواہ کوئی بھی مکروہ شکل ہو ان دوائرِ ثلاثہ ہی سے متعلق ہوگی اور ان طواغیتِ ثلاثہ سے انکار کیے بغیر توحیدِ کامل کا تصور تشنہ ہی رہے گا ۔

چند وضاحتیں

یہاں چند وضاحتیں بھی ضروری ہیں اسلامی ممالک میں جو جمہوریت نافذ العمل ہے وہ بالعموم اعتقادی سے زیادہ نظری ہے ۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو مذہبی جماعتیں اس نظام جمہوریت کا حصہ بنیں وہ دین کی تعبیر و تشریح میں فکر و نظر کی غلطی کا شکار ہوئیں ۔ یہ لوگ " بنیاد " اور " اصل " میں تو اللہ ہی کو اپنا حاکم مانتے ہیں مگر اس کی حاکمیت کے تقاضوں اور طریقِ نفاذ سے منحرف ہوگئے ہیں اور ان منحرفین میں سے بھی کچھ ایسے ہیں کہ جن کا انحراف مبنی بَر اخلاص و صداقت ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد کے اعتقادی اعتبار سے مختلف مدارج و مراتب ہیں سب کو نہ کافر قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مشرک ۔ تاہم وہ شخص جو جمہوریت کو اس کے حقیقی فلسفے کے مطابق قبول کرتا ہے ، عوام ہی کو حاکم اعلیٰ سمجھتا ہے اور اس نظام باطل کو خلافتِ راشدہ سے بہتر قرار دیتا ہے وہ شرکِ حاکمیت کا مرتکب ہے ۔

اسی طرح وہ لوگ جو سیکولر ازم کی " سین " سے بھی واقف نہیں محض الفاظ و بیان کی خوشنمائی پر فریفتہ ہیں ۔ ان پر انکارِ ربوبیت کا دعویٰ دائر نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن وہ شخص جو سیکولر ازم کو ایک مکمل فکر کے طور پر قبول کرتا ہے ، دینی احکام و ضوابط کو ایک معاشرتی رسم سمجھتا ہے ، اللہ کا وجود جس کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اور اس کی اپنی زندگی نظام قرآنی کی حدود و قیود سے بالاتر گزرتی ہے وہ شرکِ ربوبیت کا مرتکب ہے ۔

اسی طرح وہ کونسا نفس ہے جو ارتکاب گناہ نہ کرتا ہو لیکن گناہ کرنا انسانی فطرت ہے اور اس پر ڈٹ جانا شیطانی۔ ایسے شخص کو جو خواہ ہزار بار بھی گناہ کرلے مگر ہر گناہ کے بعد عرقِ ندامت کے چند قطرے گراتا ہو اسے نفس پرست نہیں کہہ سکتے ۔ مگر وہ شخص جس کے نزدیک نیک و بد ، صحیح و غلط اور گناہ و ثواب کا تصور ہی ختم ہوچکا ہو ۔ایساشخص جو جانتا ہے کہ سود خوری اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے لیکن سود ترک نہ کرے ۔ وہ عین نفس پرست ہے اس کی خواہشات ہی اس کا معبود ہیں ۔ ایسا شخص بلاشبہ شرکِ عبودیت کا مرتکب ہے ۔

مثالیں اوربھی پیش کی جا سکتی ہیں لیکن جن کے دلوں میں طلبِ حق کا داعیہ موجود ہے ان کے لیے یہ بھی کافی ہے اور جنہیں نہیں ماننا ہے ان کے لیے سب ہیچ ہے :

نکتۂ توحید سمجھ میں آ تو سکتا ہے
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے