اتوار، 20 اکتوبر، 2013

شام کی جنگ اپنے بدترین مرحلے میں

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

شام کی جنگ اپنے بدترین مرحلے میں

ابو محمد معتصم باللّٰہ

شام کی جنگ جو اس وقت جاری ہے ، اگر وہی جنگ ہے جس کی اطلاع احادیث میں اخبارِ قیامت کے باب میں دی گئی ہے، تو پھر اس کا جلد اختتام پذیر ہونا ممکن نہیں بلکہ اس کا دائرہ اثر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ۔
دنیا نے دیکھ لیا کہ اس جنگ میں اسرائیل ، لبنان ، ترکی اور ایران براہِ راست ملوث ہوچکے ہیں ۔ ان کی شرکت معمولی صحیح مگر اس کے اثرات یقینا غیر معمولی ہوں گے ۔ جنگ میں عالمی دنیا کی دلچسپی سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔
شامی باغیوں اور شامی حکومت دونوں ہی کا کردار افسوسناک رہا ہے ۔ اگر صحیح تجزیہ کیا جائے تو بات واضح ہوگی کہ اب وہاں کئی عناصر بیک وقت سرگرم عمل ہیں ۔ تاہم جو کچھ بھی فتنہ پردازی ہورہی ہے اس کی قیمت وہاں کے بے گناہ عوام کو برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔
PDF Download link @ AlWaqiaMagzine
اس جنگ کا ایک افسوسناک پہلو فرقہ واریت ہے ۔ شامی عوام اور حکمران اس پہلو کے دور رس نتائج کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں اور عالمی طاقتوں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا ہے ۔ تاہم اس کی قیمت وہاں بسنے والے بالخصوص سنی عوام کو ادا کرنی پڑی ہے ۔
دنیا کی تمام جنگوں کی طرح اس جنگ میں بھی افواہ سازی ایک اہم ترین حربے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے ۔ چنانچہ اسی حربے کا استعمال کرکے اس جنگ میں فرقہ واریت کے عنصر کو مزید مہمیز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
حالیہ دنوں میں ایک افواہ بہت تیزی سے پھیلائی گئی کہ شامی باغیوں نے دمشق کے اطراف میں واقع ایک بستی  "مرج عذراء " میں صحابی رسول حضرت حجر بن عدی کی قبر کھود دی اور ان کی نعش کی بے حرمتی کی گئی ۔ شام کے حکومت باغی ویب سائٹ  "الغوطة الشرقیة "نے انٹرنیٹ پر ایک تصویر جاری کی اور یہ دعویٰ کیا کہ شامی باغیوں نے ٢ مئی ٢٠١٣ء کو صحابی رسول حضرت حجر بن عدی کی نعش مبارک کھود کر نکال لی اور اس کی بے حرمتی کی گئی ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی معتبر و موثق ویب سائٹ نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ تصویر واقعی صحابی رسول کی ہے ۔ نسیم نیوز ایجنسی کے شام میں موجود نامہ نگار نے اس تصویر کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تصویر شامی جھڑپ میں جاں بحق ہونے والے کسی شخص کی ہے ۔
یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ تاریخی دلائل و شواہد سے ثابت ہے کہ ٥١ھ میں حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے سر قلم کیے گئے تھے جبکہ تصویر میں سر جسم کے ساتھ ہی ملحق ہے ۔ اس سے بھی اس افواہ کی حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
حضرت حجر بن عدی کا شمار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحابِ خاص میں ہوتا ہے ۔ وہ جنگ جمل و صفین میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ۔ حضرت حجر بن عدی شیعوں کے نزدیک بھی قابل احترام صحابی ہیں ۔ اس لیے اس خبر کی سوشل نیٹ ورک پر تشہیر کے ساتھ ہی شیعہ علماء و زعماء نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ۔ اس واقعے سے دو دن قبل لبنان کی جماعت حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شامی باغی مقامات مقدسہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ ان کی یہ تشویش ہی تشویشناک ہے کیونکہ شام میں متعدد جلیل القدر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی قبریں موجود ہیں ۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ قبر کھودنے کی یہ مذموم کارروائی امریکی حمایت یافتہ تنظیم فری سیرین آرمی نے کی ہے ۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ یہ خبر محتاج ثبوت ہے ۔ اس خبر کو فرقہ واریت کے لیے ہرگز استعمال نہیں ہونا چاہیئے ۔
یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جوابی کارروائی کے طور پر شام میں موجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ و دیگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی قبروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ اس پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ جس ربّ العزت نے بالاکوٹ میں شدید ترین زلزلے کے باوجود سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی قبروں کی حفاظت کی اور انہیں محفوظ رکھا وہی ربّ العزت شام میں تمام اصحابِ رسول اور صلحائے امت کی قبروں کی بھی حفاظت فرمائے اور ان کے جسم اطہر کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔
تاہم ایسی کسی بھی کارروائی کا نتیجہ امت مسلمہ کے لیے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے ۔ امت مسلمہ کے لیے لازم ہے کہ وہ فرقہ واریت کے آسیب سے چھٹکارا حاصل کرے۔ اس کے بعد ہی اغیار کی سازشوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے