ہفتہ، 5 جولائی، 2014

شاہی جمہوریت

شاہی جمہوریت

ابو الحسن




دنیا کی بہت سی پرانی رسمیں نئے ناموں سے ادا کی جا رہی ہیں ۔ شاہی دور میں انتقال اقتدار پر تاجپوشی اور تخت نشینی کی رسم رائج تھی ۔ نئے بادشاہ کے نام کا سکہ ڈھلتا تھا ۔ خطبہ میں نام پڑھا جاتا تھا ۔ جمہوری دور میں اسے حلف برداری ( Oath taking )کہا جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان Islamic republic of Pakistanمیں ہوسکتا ہے کہ کسی کو خدا کے وجود پر یقین نہ ہو لیکن ہر شخص کو یقین تھا کہ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں ن لیگMuslim League Pakistanکی کامیابی کی صورت میں اقتدار کا تاج شریف ابن شریف حضرت والا شان نواز شریف  Mian Muhammad Nawaz Sharif کے سر اقدس کی زینت بنے گا اور پنجاب کی صوبہ داری پر حضرت اعلیٰ شہباز شریف فائز ہوں گے اور شاہی تزک و احتشام کے سارے تقاضے شایانِ شان طریقے سے انجام پائیں گے۔ الحمد للہ شریف برادران کا قانونی، شرعی، آئینی، اخلاقی، سیاسی ، معاشی ، حق بحق دار رسید۔ صدر مہمان نواز نے حلف لیا اور پُر تکلف عشائیہ دیا ۔ یوں رسم حلف برداری کا پہلا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پایا ۔
مگر یہ حلف، یہ Oath کیا چیز ہے؟ کیوں ہے؟ حلف عربی کا لفظ ہے ۔ اردو میں ایک مشتق حلیف مستعمل ہے۔ قرآن میں یہ سہ حرفی لفظ حلف استعمال نہیں ہوا۔ اس کے چار مشتقات حلفتم ، لیحلفن ، یحلفون ، حلاف استعمال ہوئے۔ ہم حلف کے فاعل حلّاف کا جائزہ لیں۔ حلّاف کے معنی کثرت سے حلف لینے، قسمیں کھانے والا ہے۔ چونکہ موجودہ محترم قائدین قوم پہلے بھی کئی بار حلف لے چکے ہیں لہٰذا ان پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔
قرآن میں یہ لفظ حلاف ایک بار ہی استعمال ہوا ہے۔ (و لا تطع) ”اور تو کسی ایسے شخص کا کہا نہ ماننا ھو (حلاف) زیادہ قسمیں کھانے والا ہو۔”اس کے بعد حلاف کے اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں ( سورہ القلم آیت ١١ تا ١٤ ) ۔
اب انگریزی لفظ Oath کی چھان بین کریں۔ ماہرینِ لسانیات نے بتلایا کہ قدیم مغربی یورپ کے وحشی قبائل کی Teutonic زبانوں کے بہت سے الفاظ پہلے لاطینی زبان میں منتقل ہوئے پھر یورپ کی مختلف زبانوں میں رائج ہوئے ۔ لفظ Outh کی یہی اصل ہے۔ مشہور انگریزی ڈکشنری “دی شارٹر آکسفورڈ انگلش ڈکشنری آن ہسٹاریکل پرنسپلز“the shorter oxford dictionary on historical principles کی رو سے انگریزی زبان میں لفظ اوتھ  Oath کے یہ معنی ہیں :
1)     A solemn appeal to God (or something sacred) in witness that a statement is true or a promise binding, am act of swearing. 
2)     A careless use of the name of God or Christ or something sacred in observation or imprecation or a formula of words involving this.
انتقالِ اقتدار پر حلف برداری کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔پاکستان میں یہ ایک مکروہ رسم ہے ، حلف میں اسلام اور آئین کا حوالہ ہے مگر پاکستان میں اصل اسلام ناپید ہے ۔ اسلام کی Fly bird varieties یہاں رائج ہیں اور مختلف مسالک کے علماء اس کے Distribution agentہیں ۔باستثنائے چند تمام قائدین نے جو جو حرام کاریاں ، حرام خوریاں کیں جن سنگین اور گھناؤنے جرائم و معاصی کا ارتکاب کیا وہ حلف لینے کے بعد ہی کیا ۔ پس نعوذ باللہ حلف حرامکاریوں میں “برکت“ کے لیے “استعانت باللہ“ کا ایک طریقہ ہے ۔
اللہ کے رسول نے فرمایا تھا میں اسے وہ عہدہ نہیں دوں گا جس کی وہ خواہش کرے ۔ ہر شخص کو عہدے اس کی اہلیت و استحقاق پر دیئے جاتے تھے ۔ ہمارے یہاں بھی عہدے میرٹ پر دیئے جاتے ہیں ۔ یہاں میرٹ کا بنیادی معیار کسی صاحبِ اقتدار سے رشتہ داری پر ہے ۔ رشتہ جتنا قریب ہو میرٹ کا درجہ بلند ہے ۔ پھر میرٹ والا دو پاؤں  والا ایسا وفادار ہو کہ چار پاؤں والا مشہور وفادار دم دبالے ۔ چاپلوسی، ریشہ دوانی، سفارش، سازش، جوڑ توڑ وغیرہ سب میرٹ میں داخل ہیں ۔ عزت نفس کا احساس اور اہلیت رکھنا میرٹ (merit) کی تعریف میں نہیں آتا ، اس سے بغاوت کا اندیشہ رہتا ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے ۔
تاریخِ اسلام میں پہلا انتقالِ اقتدار اس وقت ہوا جب وفات نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے بعد خلیفۂ رسول کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا۔ ایک ہنگامی صورتحال میں چند جلیل القدر صحابیوں نے حضرت ابو بکر Abdullah ibn Abi Quhafa Abu Bakrکے ہاتھ ان کی مرضی کے بغیر بیعت کی۔ وفات نبوی کے دوسرے دن بروز منگل ١٣ ربیع الاول ١١ ہجری مطابق ٢٨ مئی ٦٣٢ء مسجدِ نبوی میں بیعت عامہ کا انتظام کیا گیا۔ سب مسلمان جمع ہوئے پہلے حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کے متعلق چند کلمات کہے۔ پھر حضرت ابوبکر منبر پر چڑھے، مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ نے مختصر خطبہ دیا۔ فرمایا : لوگو! میں تمہارا امیر بنا دیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں پس اگر میں اچھا کروں تو تم میری مدد کرو اور اگر برا کروں تو مجھ کو سیدھا کردو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے۔ میں اس کا شکوہ دور کر دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے چنانچہ میں اس سے حق لو ں گا۔ جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس پر ذلت مسلط کر دیتا ہے۔اور جس قو م میں بری عادتیں عام ہو جاتی ہیں اللہ ان پر مصیبت کو متولی کر دیتا ہے جب میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تم میرے اطاعت کرو اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافر مانی کروں تم پر میری اطاعت فرض نہیں۔ یہی تخت نشینی تھی تاج پو شی تھی، حلف برداری تھی۔ بستر مرگ پر بی بی عائشہ سے پو چھا مجھ کو اب تک بیت المال میں سے کل وظیفہ کتنا ملا ہے۔ حساب کر کے بتلا یا گیا تو فر مایا میری فلاں زمین فرو خت کر کے یہ رقم بیت المال کو واپس کر دو۔ پھر فر مایا بیعت کے بعد میرے مال میں کتنا اضافہ ہوا پتہ چلا کہ ایک حبشی غلام جو بچوں کو کھلاتا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کی تلواروں کو صیقل کرتا ہے، ایک اونٹنی اور ایک چادر ارشاد ہوا یہ تینوں چیز یں وفات کے بعد خلیفہ کی خدمت میں بھیج دی جائیں۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ حضرت ابو بکر کا انتقال ١٣ جمادی الاول ١٣ ہجری مطابق ٢٢ اگست ٦٣٤ء بعد مغرب ہوا۔ رات ہی میں تدفین ہو ئی۔ حضرت نے اپنی زندگی میں حضرت عمر کی جانشینی کا حکم لکھ دیا تھا، دوسرے دن حضرت عمر مسجد نبوی میں گئے۔ لو گوں نے بیعت کی۔ آپ کے تعلق سے لوگوں کو ذہنی تخفطات تھے آپ ان سے واقف تھے آپ نے مختصر خطبہ دیا۔ ایسے عجز و انکسار کے ساتھ فر مایا اگر مجھے خلیفہ رسول اللہ کی عدول حکمی گوارہ ہو سکتی تو میں یہ ذمہ داری قبول نہ کر تا۔ مسجد نبوی کے منبر کی سیڑھی پر انتقال اقتدار کی رسم انجام پائی۔ حضرت عمر Umar ibn Al-Khattābکے اوصاف اور کارناموں کا ذکر مقصود نہیں۔ مختصر یہ کہ اللہ نے فاروق اعظم Farooq the Greatکو فرقان کی اس نعمت سے سر فراز کیا تھا جسے انبیاء کو بھی عطا کر نے کا ذکر قرآن میں ہے۔ ازبکستان، ایران، عراق، شام مصر اور دیگر علاقوں کا یہ باوقار بارعب حکمران بیت المال کا مقروض تھا۔اپنی زندگی میں اس کے حکم سے تدفین سے قبل بیت المال کا قرض ادا کرو ایا۔ فقیر منش، فاقہ کش، پیوند پوش اس بندہ خدا کے سامنے تاریخ کے سارے حکمراں حقیر معلوم ہو تے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ زمانہ کے اطوار بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ تبدیلیاں بھی اللہ تعالیٰ کے اٹل قوانین کے تحت ہو تی ہیں۔ معاشی تبدیلیاں، سیاسی تبدیلیوں کا باعث ہو تی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال قوانین قدرت کے تحت ہیں۔ اپنے نظریات کو اپنے رگ و پے میں جاری و ساری کرنے والی بے لوث قیادت ہی قومیتوں کی تشکیل و ترقی کرتی اور عوام کے دلوں پر حکومت کرتی ہے اور اس قیادت کا بنیادی اصول قربانی ہے۔ صحابہ نے قربانیاں دیں۔ اسلامی حکومت قائم ہوئی عروج پائی۔مو جودہ دور میں ماؤ  Mao Zedongاور چو این لائی کی سادہ زندگی اور کفایت شعارو تکلیف سے بھری زندگی نے چین کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ہمارے ریا کار منافق حکمران کہتے ہیں کہ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔ ان بد بختوں کو نہ سیاست معلوم ہے نہ عبادت ان کی زندگی خباثت اور خیانت سے عبارت ہے۔سیاست ان تاجر بچوں کے لیے صرف تجارت ہے۔ اسمبلی کے اراکین کی اتنی جائداد اور آمدنی نہیں رکھتے کہ بفراغت اپنے خاندانوں کی کفالت کریں پھر انہیں اسمبلیوں سے مراعات لینے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ ان کی عبادت کا اجر ہے۔ ملک میں دولت اور دولت مندوں کی کمی نہیں۔ شاہی جمہوریت کے یہ اراکین سب ذہنی غلام ہیں ان سے امیدِ خیر خود فریبی ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے