ہفتہ، 27 جولائی، 2013

کوئی تو ہے۔ There is Someone

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

کوئی تو ہے ۔۔۔۔

محمد ابراہیم خاں

مائیکل بیہے (Michael J. Behe) کی کتاب "ڈارونز بلیک باکس: اے بایو کیمیکل چیلینج ٹو ایوولیوشن" (Darwin's Black Box: The Biochemical Challenge to Evolution) 1996 میں شائع ہوئی۔  بیہے نے اس کتاب میں مرکزی خیال اس نکتے کو بنایا ہے کہ زندگی کے نظام میں بعض پہلو ایسے بھی ہیں جنہیں کسی بھی سطح پر، اور کسی بھی طریقے سے معکوس حالت میں نہیں لایا جاسکتا۔ مرکزی تصور یہ ہے کہ بعض بایو کیمیکل سسٹمز کی تشریح نظریۂ ارتقا (Theory of Evolution) کی روشنی میں ممکن ہی نہیں اور یہ کہ یہ بایو کیمیکل سسٹمز اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کا خود بہ خود پنپنا قطعی طور پر خارج از امکان ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ہے جس نے انہیں تیار کیا ہوگا اور زندگی کے نظام میں داخل بھی کیا ہوگا! ذیلی نکتہ یہ ہے کہ ان بایو کیمیکلز کے تمام اجزا موجودہ حالت سے پہلے کی حالت میں لائے جائیں تو ان کا کوئی مصرف دکھائی نہیں دیتا! نظریۂ ارتقا یہ کہتا ہے کہ نامیاتی اشیا ء و اعمال ایک سلسلۂ واقعات سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچے ہیں۔ یعنی ہر حرکت پذیر چیز کے وجودی اجزا کی کوئی نہ کوئی سابق شکل ہے۔ مائیکل بیہے نے خرد بینی سطح پر کام کرنے والے دیگر بایو کیمیکل اوامر کو نظریۂ ارتقا کی حدود سے باہر قرار نہیں دیا۔
کوئی تو ہے PDF Download Link @ AlWaqiaMagzine

"ڈارونز بلیک باکس" علمی حلقوں میں خاصی متنازع فیہ رہی ہے ۔ سائنس دانوں کی برادری نے مائیکل بیہے کی تھیوری کو "سائنس نما" کہا ہے۔ ان کے نزدیک یہ نظریہ ان بنیادوں پر کھڑا ہے جن کی تکذیب ممکن نہیں۔  بیہے نے irreducible complexity کی جو تعریف پیش کی ہے وہ خاصی الجھی ہوئی ہے۔ بیہے نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اصلاً سائنسی بنیاد پر استوار نہیں، لہٰذا سائنس دانوں کی جانب سے موثر جواب دینا بھی ممکن نہیں۔ بہت سے ماہرین نے بیہے کے تصورات اور نظریات کو pseudoscience کہا ہے، یعنی ایسا علم جو فطری علوم کے مسلمہ اصولوں کے مطابق نہیں اور جس میں عقائد کو بھی دخل ہے۔ بیہے پر الزام ہے کہ اس نے بایو کیمسٹری میں اب تک کی جانے والی تحقیق کو نظر انداز کیا ہے۔ بعض سائنس دانوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ بیہے کی کتاب کا بنیادی مقصد مذہب اور نظریۂ تخلیق کو سائنسی حدود میں داخل کرنا ہے۔ دوسری طرف مائیکل بیہے کے مذہبی عقائد سے ہمدردی رکھنے والے یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ بیہے نے مروجہ فطرت پرستی کی بنیادوں پر کاری ضرب لگانے والی کتاب پیش کی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک فطری طور پر پائی جانے والی ہر چیز کو خود بہ خود معرض وجود میں آنے والی سچائی کیوں کر مان لیا جائے؟
مائیکل بیہے کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ سائنس میں کوئی بھی نظریہ حتمی نہیں ہوتا۔ طبیعیات کی دنیا میں نئے نظریات آتے رہتے ہیں اور پرانے نظریات کی بنیادیں ہلتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی کسی نظریے کی آمد تمام متعلقہ سابق نظریات کی یکسر تنسیخ کا باعث بن جاتی ہے۔ بیہے کے نظریات نے 1962 میں شائع ہونے والی Thomas Kuhn کی کتاب The Structure of Scientific Revolutions میں پیش کیے جانے والے انقلابی سائنس کے تصور کو مقبولیت سے ہم کنار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بیہے اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سائنس دانوں کی واضح اکثریت ڈارون ازم (Darwinism) پر یقین رکھتی ہے، یعنی اس بات پر کہ سب کچھ اپنے آپ تبدیل ہوتے ہوتے اس منزل تک پہنچا ہے اور یہ بھی کہ بیشتر سائنس دان ڈارون ازم پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں رکھتے بلکہ انہوں نے اس نظریے کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھا ہے، اور سلسلۂ اسناد کو تسلیم کیا ہے۔

مائیکل بیہے نے چارلس ڈارون (Charles Robert Darwin) کے بیشتر نظریات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ زندگی کے سفر میں کئی مقامات ایسے بھی آتے ہیں جن کی عمدہ توضیح پیش کرنے میں ڈارون ناکام رہا ہے۔ مثلاً ڈارون یہ بات سمجھنے میں مکمل طور پر کام یاب نہیں رہا کہ آنکھ کا ارتقا کیسے ہوا۔ ڈارون کے نزدیک آنکھ کی ابتدا روشنی کی موجودگی کو محسوس کرنے والے ایک دھبے کے معرض وجود میں آنے سے ہوئی۔ مگر اس امر کی وضاحت کرنے میں ڈارون ناکام رہا کہ دھبا کیوں کر معرض وجود میں آیا۔ بیہے کے نزدیک ڈارون کے بہت سے دوسرے نکات بھی مرحلۂ تشکیک سے گزرتے ہیں۔ بیہے کے نزدیک irreducible complexity مختلف بایو کیمیکلز کا ایسا نظام ہے جس میں سے کسی بھی ایک عنصر کو ہٹانے کی صورت میں پوری عمارت لڑکھڑا جاتی ہے۔ بیہے اپنی بات کو بہتر ڈھنگ سے سمجھانے کے لیے عام گھروں میں پائے جانے والے چوہے دان کی مثال دیتا ہے۔ چوہے دان سے کسی بھی جز کو ہٹانے کی صورت میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ جان مکڈونلڈ نے اس کے جواب میں ایسا چوہے دان پیش کیا جس کا کوئی بھی حصہ ہٹائے جانے کی صورت میں بھی اس کی کارکردگی پر منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

مائیکل بیہے نے کئی ابواب میں مختلف بایو کیمیکل میکینزمز پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ سیلیم، بیکٹیریل فلیجلیم، خون کے لوتھڑوں اور دوسری بہت سی چیزوں کی مثال دے کر نظریے کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انسان کے مدافعتی نظام میں بھی بیہے کی بیان کردہ خصوصیت بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ بیہے نے جو مثالیں بیان کی ہیں ان کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ان پر بہت کم کام ہوا ہے، اور خاص طور پر تصریحی نوعیت کا کام تو ہوا ہی نہیں۔ وہ اپنے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے "میں یہ بات کسی بھی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی بھی سابق کردار نہ رکھنے والے کسی بھی بایو کیمیکل سسٹم  کے بعد اجزا کسی اور نظام سے اس سے میں در آئے ہیں۔ جو لوگ اس نوعیت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ در اصل کسی بھی عمل کے اجزا کی تشکیل کے بہ جائے ترمیم اور اصلاح کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔"

مغرب میں نظریۂ ارتقا (Theory of Evolution) اور نظریۂ تخلیق (Creation Theory) کی بحث ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے۔ چارلس ڈارون کے نظریے کو مسترد کرنے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں۔ سائنس کے بہترین دماغوں نے اسے مسترد کیا ہے۔ اب یہ بحث نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ مائیکل بیہے نے کسی مرحلے پر یہ نہیں کہا کہ اس کے پیش کردہ نظریے کو نظریۂ تخلیق کے متوازی قبول کرلیا جائے۔ وہ خود بھی اس بات کا قائل ہے کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ خود بہ خود ہو رہا ہے، تاہم وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ کسی Intelligent Designer نے ابتدا میں ایک نظام الاوقات اور واقعاتی ترتیب متعین کی۔ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ان دونوں امور کے ماتحت ہے۔ مغربی دنیا میں کائنات کے خالق کے لیے "ذہین خالق" (Intelligent Creator) کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔ جب بھی مذہبی عناصر الحاد پرستوں کے مقابل کھڑے ہوکر دلائل کی بنیاد پر کوئی بات کہتے ہیں تو اپنے تصور کو Intelligent Design قرار دیتے ہیں۔

کٹز ملر بہ نام ڈوور ڈسٹرکٹ ایریا اسکول نامی مقدمے میں گواہی دیتے ہوئے مائیکل بیہے نے حلفیہ کہا تھا کہ اس کی کتاب کا متعلقہ وقیع جرائد میں جامع تجزیہ کیا گیا تھا۔ کتاب کے چار جائزہ نگاروں مائیکل ایچیسن (Michael Atchison)، رابرٹ شیپیرو (Robert Shapiro)، کے جانسن مورو (K. John Morrow) اور رسل ڈولٹل (Russell Doolittle) نے جو کچھ کہا وہ بیہے کے دعوے کے خلاف تھا۔ ایچیسن کا کہنا ہے کہ اس نے کتاب کا جائزہ لکھا ہی نہیں۔ اس نے ٹیلی فون پر دس منٹ کی گفتگو میں کتاب کے بنیادی نکات معلوم کیے اور ان نکات کی بنیاد پر ہی جائزہ لکھ مارا۔ شیپیرو نے کہا کہ مائیکل بیہے نے جو کچھ لکھا ہے اس کے بعض پہلوؤں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ زندگی کی بنیاد یا اصل سے متعلق بیہے کی تحقیق بہت اچھی ہے، تاہم انہوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ غلط ہیں۔ کے جان مورو نے کتاب کے مسودے کا جائزہ لے کر لکھا تھا یہ صرف حیرت انگیز ہے، بس۔ اس میں بیان کردہ امور کو حقائق کی مدد حاصل نہیں۔ اس رائے کی بنیاد پر اصل ناشر نے کتاب شائع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ رسل ڈولٹل نے خون کے لوتھڑوں سے متعلق تحقیق پر مبنی جو کتاب شائع کی تھی اسی کو بنیاد بناکر بیہے نے اپنی کتاب کی عمارت کھڑی کی، تاہم خود رسل نے بہت سے نکات کو ناقص اور غیر اطلاق پذیر قرار دیا۔

"ڈارونز بلیک باکس" کا تنقیدی جائزہ

"امریکن سائنٹسٹ" (American Scientist) میں رابرٹ ڈورٹ (Robert L. Dorit)نے لکھا تھا
"ذرا میری ناک کی طرف غور سے دیکھیے۔ کیا اس میں آپ کو کسی کی کاری گری دکھائی دیتی ہے؟ کیا ایسا لگتا ہے کہ کسی نے میری ناک کی ڈیزائننگ کی ہوگی' اس کے خد و خال درست کیے ہوں گے۔ 1860 میں چارلس ڈارون کو بھی ایسے ہی سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نظریۂ ارتقاء اسی سال منظر عام پر آیا تھا۔ ڈارون کو میڈیا اور عوام کی جانب سے زبردست ردعمل کا سامنا تھا۔ لوگ کہتے تھے اپنے چاروں طرف دیکھو، کیا کوئی چیز حادثاتی طور پر پنپتی ہوئی لگتی ہے؟ اور اگر ارتقاء کا عمل حادثاتی نہیں تو پھر کوئی نہ کوئی خالق بھی ہوگا۔
مائیکل بیہے نے بھی اپنی کتاب "ڈارونز بلیک باکس" میں مولیکیولر بایولوجی کی زبان میں ڈارون سے یہی کہا ہے کہ اگر چاروں طرف ہر چیز میں کوئی نہ کوئی ترتیب دکھائی دے رہی ہے، تو ترتیب پیدا کرنے والا بھی کہیں نہ کہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مائیکل بیہے نے اپنا کیس خاصی سنجیدگی سے پیش کیا ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سائنس کی دنیا میں تحقیق کا جو معیار مقرر ہے اس پر بیہے پورے اترتے دکھائی نہیں دیتے۔ ارتقائی عمل کے حوالے سے بھی بیہے کے ذہن میں چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بیہے کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ارتقائی عمل کے نتیجے میں ترتیب خود بہ خود ابھرتی ہے۔ اس کتاب کا دفاع کرنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں سامنے آئیں گے۔ مگر میں چوں کہ ایک ماہر حیاتیات ہوں، اس لیے کہنا پڑے گا کہ جو کچھ مائیکل بیہے نے کہا ہے وہ سب کا سب حقیقت پر مبنی نہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب تک یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ بیہے کی کتاب کا مرکزی نکتہ کیا ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ irreducibly complex چیزوں کی مدد سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی نے بہت سوچ سمجھ کر چیزیں بنائی ہیں۔ اور دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کسی ذہین خالق پر یقین نہیں رکھتے۔ علم کی دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص بیک وقت ان دونوں کشتیوں میں سفر نہیں کرسکتا۔"

مائیکل بیہے کا سوانحی خاکہ

مائیکل بیہے 18 جنوری 1952 کو پیدا ہوا۔ بایو کیمسٹری (Bio Chemistry) کو کیریئر کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ اس تصور کا پرجوش حامی ہے کہ ہم جس کائنات میں بس رہے ہیں اسے کسی انتہائی ذہین ہستی نے منظم سوچ کے ذریعے تخلیق کیا۔ وہ لیہائی یونیورسٹی (پنسلوانیا، امریکا) ( Lehigh University in Pennsylvania) میں بایو کیمسٹری کے پروفیسر اور ڈسکوری انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار سائنس اینڈ کلچر (Discovery Institute'sCenter for Science and Culture) کا فیلو ہے۔ اس نے اس تصور کو مقبولیت سے ہم کنار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے کہ بایو کیمیکل سطح پر زندگی اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ از خود ارتقا پذیر ہوئی ہوگی۔

بیہے کے تصورات پر تنقید کرنے والوں میں خود اس کی یونیورسٹی کا شعبۂ حیاتیات بھی نمایاں ہے۔ زندگی کی پشت پر کسی ذہین خالق کی موجودگی سے متعلق اس کے تصور کو بھی سائنس کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے سائنس دانوں نے انکار کیا ہے۔

بیہے نے 1974 میں ڈریکسل یونیورسٹی ( Drexel University) سے کیمسٹری میں گریجویشن کی ڈگری لی۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا ( University of Pennsylvania) میں بایو کیمسٹری کے حوالے سے تحقیق کی اور 1978 میں ڈگری حاصل کی۔ 1978 سے 1982 کے دوران ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (National Institutes of Health) میں ڈی این اے پر تحقیق کی۔1982 سے 1985 کے دوران نیو یارک سٹی کی کوئینز یونیورسٹی ( Queens College in New York City) میں کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہیں اس کی ملاقات اس خاتون سے ہوئی جو بعد میں اس کی اہلیہ بنی!

کیریئر کے دوران ایک مرحلے پر مائیکل بیہے نظریۂ ارتقا کو مکمل طور پر قبول کرچکا تھا۔ پھر اس نے مائیکل ڈینٹن ( Michael Denton) کی کتاب Evolution: A Theory in Crisis پڑھی اور نظریۂ ارتقا کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوا۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہی اس نے یہ سوچنا شروع کیا کہ بایو کیمیکل سطح پر چند ایسے سسٹمز بھی پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں سوچا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ از خود پنپ گئے ہوں گے۔ ان سسٹمز کی پیچیدگی اس امر کی غماز ہے کہ کسی نے ان کی منصوبہ بندی کی ہوگی۔

1987 میں جب امریکی سپریم کورٹ نے اسکولوں میں نظریۂ تخلیق کو سائنس کی حیثیت سے پڑھانے پر پابندی عائد کی تب نظریۂ ارتقا کے معمر ناقدین اور نئی نسل کے لوگوں نے محسوس کیا کہ اب نئی زبان اور نیا علمی لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون دان فلپ جانسن ( Phillip E. Johnson) کی کتابوں نے نظریۂ تخلیق کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں نظریۂ ارتقا پر خاصی ٹھوس تنقید کی۔ کئی اداروں نے نظریۂ تخلیق کے لیے علمی بنیاد پر کام شروع کیا۔ ڈسکوری انسٹی ٹیوٹ بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ 1996 میں مائیکل بیہے نے اس ادارے کے سینٹر فار سائنس اینڈ کلچر کی فیلوشپ حاصل کی۔ اسی زمانے میں "ڈارونز بلیک باکس" شائع ہوئی جس پر سائنس دانوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی کی گئی۔ بعض ماہرین نے لکھا کہ بیہے نے نظریۂ ارتقا پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں، بلکہ وہ انفرادی سطح پر تشکیک کا نتیجہ ہیں۔ بیہے پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اس نے تحقیق کا حق ادا نہیں کیا اور یہ کتاب محض اس خیال سے شائع کی کہ لوگ نظریۂ تخلیق کی طرف آئیں! اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مائیکل بیہے کی کتاب نے مغرب میں نظریۂ تخلیق کی مقبولیت بڑھانے اور سائنسی برادری کی جانب سے اس پر تنقید کا گراف گرانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جب بیہے نے اعلان کیا کہ وہ در حقیقت کسی ذہین خالق کے وجود کا قائل نہیں تو سائنس دانوں نے کہا کہ وہ دراصل اپنی تحقیق کو پرکھے جانے سے بچانے کے لیے یہ بات کہہ رہا ہے! بیہے کائنات اور زمین کی عمر اور زندگی کے ارتقا سے متعلق مروج سائنسی نظریات تسلیم کرتا ہے۔

مائیکل بیہے نے نظریۂ ارتقا پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کا جواب حیاتیات کے ماہر کینتھ ملر (Kenneth Miller) نے اپنی کتاب "فائنڈنگ ڈارونز گاڈ" ( Finding Darwin's God) میں دیا ہے۔

بیہے نے بوسٹن ریویو (Boston Review)، امریکن اسپیکٹیٹر (American Spectator) اور نیو یارک ٹائمز (The New York Times) میں ایڈیٹوریل فیچرز لکھے ہیں۔ ڈسکوری انسٹی ٹیوٹ کے ساتھیوں ولیم ڈیمبسکی ( William A. Dembski) اور ڈیوڈ برلینسکی ( David Berlinski) کے ساتھ مل کر این کوٹلر ( Ann Coulter) کی تربیت کی۔ این کوٹلر نے ان تینوں کی مدد سے Godless: The Church of Liberalism لکھی۔ اس کتاب میں اس نے یہ تصور پیش کیا کہ امریکا میں مذہب کو ترک کرنے کا رجحان غالب دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں مذہبی عقائد ہی کار فرما دکھائی دیتے ہیں۔ این کوٹلر نے امریکی لبرل ازم (Liberalism) کو مذہب کے مساوی ہی قرار دیا ہے۔ اس کتاب میں ایک تہائی کی حد تک تو نظریۂ ارتقا پر ایسی تنقید ہے جسے تنازعات کو بھڑکانے کی شعوری کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔

معروف سائنسی جریدے "پروٹین سائنس" (Protein Scienceز) میں مائیکل بیہے نے ڈیوڈ اسنوک ( David Snoke) کے ساتھ مل کر ایک مقالہ پیش کیا جس میں کائنات کے کسی خالق کا ذکر تھا، نہ اس تصور کا کہ چند ایک امور میں نظریۂ ارتقا غیر فعال دکھائی دیتا ہے۔ بیہے پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس کے نظریات کو تحقیق کا سہارا حاصل نہیں۔ اس نے اپنے تصورات کے حق میں دلائل تو دیے ہیں، شواہد کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔

مائیکل بیہے کی کتابیں


Darwin's Black Box
Science and Evidence For Design in the Universe

وڈیوز


Intelligent Design: From the Big Bang to Irreducible Complexity
Unlocking the Mystery of Life

Irreducible Complexity: The Biochemical Challenge to Darwinian Theory

Where Does the Evidence Lead?  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے