اتوار، 14 جولائی، 2013

دجّالیات سے ایمانیات تک. تدبر و تفکر کی آرزو

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

دجّالیات سے ایمانیات تک۔ تدبر و تفکر کی آرزو

محمد احمد

1۔ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ بہت بڑے خلجان کا شکار ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لیے کیسا لائحہ عمل ( STRATEGY ) مرتب کرے حالانکہ یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ اختتام وقت کی لڑائیاں ( End of Time Battles ) جاری رہیں گی ۔ اگر ہم ہر لحظہ قرآن مجید کی طرف متو جہ رہیں اور اپنی ایمانیات ( Motivating Force ) کی ترقی و ترویج دل و جان سے کرتے چلے جائیں تو ہمارے قدم صحیح منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے ۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے :
( اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انشَقَّ الْقَمَرُ ۔ وَ اِن یَرَوْا آیَةً یُعْرِضُوا وَ یَقُولُوا سِحْر مُّسْتَمِرّ ۔ وَ کَذَّبُوا وَ اتَّبَعُوا أھْوَاء ھُمْ وَ کُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرّ ۔ وَ لَقَدْ جَآئَ ھُم مِّنَ الْأَنبَاء  مَا فِیْھِ  مُزْدَجَر ۔ حِکْمَة بَالِغَة فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ ۔ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلَی شَیْ نُّکُرٍ ۔ خُشَّعاً أَبْصَارُھُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ کَأَنَّھُمْ جَرَاد مُّنتَشِر ۔ مُّھطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ یَقُولُ الْکَافِرُونَ ھٰذَا یَوْم عَسِر )
“ قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا ۔یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے ۔یقینا ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں ڈانٹ ڈپٹ (کی نصیحت ) ہے اور کامل عقل کی بات ہے لیکن ان ڈراؤنی باتوں نے بھی کچھ فائدہ نہ دیا پس (اے نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم) تم ان سے اعراض کرو جس دن ایک پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف پکارے گا ۔ یہ جھکی آنکھوں قبروں سے اس طرح نکل کھڑے ہوں گے کہ گو یا پھیلا ہوا ٹڈی دل ہے ۔ پکارنے والے کی طرف دوڑتے ہوں گے اور کافر کہیں گے یہ دن تو بہت سخت ہے ۔” (القمر :1 تا 8)
PDF Download link @ AlWaqiaMagzine
2۔ تواتر روایات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے ثابت ہوا ہے کہ معجزہ شق القمر آج سے چودہ سو انتالیس ھجری قبل وقوع پذیر ہوا ۔اجرام فلکی میں سے ایک کا دونصف ٹکڑوں میں ہو جانا ، طویل فاصلہ دور ہو جانا اور دفعتاً آپس میں جڑ جانا ایک ایسامحیر العقول واقعہ آسمان پر پیش آیا جس کی تنقیح و توضیح اسلامی دنیا کے سائنس دانوں اور تجربہ نگاروں پر قرض ہے ۔ “ دجالیات “ کے موضوع پر مجلہ “ الواقعة “ میں کچھ احقر کی گزارشات شائع ہوئیں مگر قیامت کی بڑی نشانیوں کا ذکر نہ آسکا۔ ہماری دنیا سے چاند و سورج کا بڑا گہرا تعلق ہے ۔ ایمان بالآ خرت کی تقویت معجزہ شق القمر پر یقین لانے سے ہو تی ہے تو اس کی تکمیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے پر منحصر ہے بشرطیکہ یہ خدائی عمل قبل از موت مشاہدہ میں آئے ۔ فلکیات کی تاریخ ١٣ صدی عیسوی سے مدون ہونی شروع ہو ئی اس لیے مغربی دنیا شق القمر سے ناواقف ہے اور جہالت کا شکار ہے ۔ عقل مندوں کے لیے آفاق میں بکھری ہوئی نشانیوں سے دلوں کے تالے کھل سکتے ہیں :
( أَ فَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُھَا )
“کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں ۔”(محمد: 24)
3۔ خلا نوردی ( Astro Nautics ) کی شروعات بیسویں صدی کی مرہون منت ہے ۔ امریکن خلانورد نیل آرم سڑونگ دنیا کا پہلا شخص ہے جس نے چاند پر قدم رکھا ، اپنی چاند گاڑی کی سیر کی اور اپنے ہمراہ لائے ہو ئے دنیا کے تمام ممالک کے جھنڈوں کے نمونے ( PLAQUES ) سطح قمر پرسجا دیے ۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بڑے طمطراق سے کلمہ طیبہ کا ورود بھی اس سیارہ پر ہوگیا جس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی انگشت شہادت کے اشارہ پر رب العالمین نے دو نیم فر مایا تھا (ہمارا اشارہ سعودی عرب کے جھنڈے کی طرف ہے ) رب العالمین کی کائنات میں شہادت الوہیت و شہادت ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ایک انسان نے تحریری چاند پر پہنچا دی ۔ الحمد للہ !
4۔ دنیا میں ٹکنالوجی پر ہر شخص فدا ہو تا نظر آتا ہے مگر مو منانہ بر تری ( Superiority ) کے بارے میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
( أَ وَ مَن کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنٰھُ وَ جَعَلْنَا لَھُ نُوراً یَمْشِیْ بِھِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُھُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ )
“ کیا وہ شخص جو پہلے مر دہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لو گوں کے در میان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو ا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو ؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ۔” (الانعام : 122)
ہمارے لیے ضروری ہے کہ سمجھیں کہ ٹکنالوجی بمقابلہ ایمان مادہ پرستی (materialism) کی طرف دلوں کو کھینچتی ہے اور نفسانی خواہشات بڑھاتی ہے ۔اس ضمن میں قرآنی نصیحت ہے :
( فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُوا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُونَ أَھْوَاء ھُمْ وَ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللَّھِ اِنَّ اللَّھَ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )
“ پھر اگر یہ تیری نہ مانیں توتو ،یقین کر لے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں ۔اور اس سے بڑھ کر بہکا ہو ا کون ہے ؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو ا ہو بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے ، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (القصص :50)
قرآن کے بتائے ہو ئے حقائق پر مومن نہ صرف ایمان لاتا ہے بلکہ اس کے ایمان و یقین و سکون اور اطمینان قلب میں تر قی ہو نے لگتی ہے ۔ اور جو لوگ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں کرتے چلے جاتے ہیں ان کا حال کیسا ہو تا ہے ؟ خود قرآنی تبصرہ پر غور و فکر فر مائیں :
( وَ اِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَة فَمِنْھُم مَّن یَقُولُ أَیُّکُمْ زَادَتْھُ ھَذِہِ اِیْمَاناً فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ فَزَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَ ھُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ۔ وَ أَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِھِم مَّرَض فَزَادَتْھُمْ رِجْساً اِلَی رِجْسِھِمْ وَ مَاتُواْ وَ ھُمْ کَافِرُونَ ۔ أَ وَ لاَ یَرَوْنَ أَنَّھُمْ یُفْتَنُونَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لاَ یَتُوبُونَ وَ لاَ ھُمْ یَذَّکَّرُونَ ۔ وَ اِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَة نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلَی بَعْضٍ ھَلْ یَرَاکُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُواْ صَرَفَ اللّھُ قُلُوبَھُم بِأَنَّھُمْ قَوْم لاَّ یَفْقَھُون )
“ جب کوئی نئی سورت نازل ہو تی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پو چھتے ہیں کہ “ کہو تم سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ؟ “ (اس کا جواب یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہو نے والی سورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دل شاد ہیں ، البتہ جن لو گوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہو ا تھا ان کی سابق نجاست پر ( ہر نئی سورت نے ) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا اور وہ مرتے دم تک کفر میں مبتلا رہے ۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟ مگر اس پر بھی نہ تو بہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں ۔اور جب کو ئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ، پھر چپکے سے نکل بھا گتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دئیے ہیں کیو نکہ یہ ناسمجھ لو گ ہیں ۔” (التوبہ: 124 تا 127)
5۔ سورج اور چاند کے جوڑ کو ، با لواسطہ (indirectly )عام فہم انداز میں روزانہ کی ضروریات (دینی اور دنیوی ) پوری کرنے ساتھ ساتھ قیامت کا حوالہ بھی دیتے ہو ئے ، جناب باری تعالیٰ کس طرح اشارات دے رہے ہیں تاکہ آسمان پر ان نشانیوں سے عبرت ہو:
( وَ جَعَلْنَا اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَ جَعَلْنَا آیَةَ النَّھَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ وَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً ۔ وَ کُلَّ اِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئِرَہُ فِیْ عُنُقِھِ وَ نُخْرِجُ لَھُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُوراً ۔ اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً )
“ ہم نے ، رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں ، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کر دیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لیے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرمادیا ہے ۔ ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا۔ لے! خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے ۔ آج تو تو آپ اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔” (بنی اسرائیل: 12 تا 14)
6۔ رات و دن کا ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنا جانا کتنی بڑی عظیم الشان نعمتیں بھی ہیں ،غور فر مائیے :
( قُلْ أَرَأَیْتُمْ  اِن جَعَلَ اللَّھُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَداً اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ اِلَھ غَیْرُ اللَّھِ یَأْتِیْکُم بِضِیَاء  أَفَلَا تَسْمَعُونَ ۔ قُلْ أَرَأَیْتُمْ اِن جَعَلَ اللَّھُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَداً اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَنْ اِلَھ غَیْرُ اللَّھِ یَأْتِیْکُم بِلَیْلٍ تَسْکُنُونَ فِیْھِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔ وَ مِن رَّحْمَتِھِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوا فِیْھِ وَ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِھِ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )
“ کہہ دیجئے ! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی لائے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ پوچھئے! کہ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے ؟ جس میں تم آرام حاصل کر و ، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو ؟ اسی نے تمہارے لیے اپنے فضل و کرم سے دن رات مقرر کر دیے ہیں کہ تم رات میں آرام کرو اور دن میں اس کی بھیجی ہو ئی روزی تلاش کرو، یہ اس لیے کہ تم شکر ادا کرو ۔” ( القصص :71 تا 73)
7۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دشمن بادشاہ نمرود غیر مسلم مغربی اقوام کا پسند یدہ ہیروؤں ( Heroes ) میں سے ایک ہے ۔ اس نے جب آگ کے بہت بڑے الاؤ میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے مانے ہوئے پیشوا (Patriarch) کو ڈالنے والا تھا ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا ۔ فرقان حمید کی بیان کردہ رپورٹنگ (reporting) اپنے احاطہ فکر میں لائیے :
( أَ لَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رِبِّھِ أَنْ آتَاہُ اللّٰھُ الْمُلْکَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیِیْ وَ أُمِیْتُ قَالَ  اِبْرَاھِیْمُ فَاِنَّ اللّٰھَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَ اللّٰھُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ )
“ کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا ، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے وہ کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ، ابراہیم (علیہ السلام ) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ ۔ اب تو وہ کافر، بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔” (البقرة: 258)
8۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے مبارک دور میں دنیا کرہ ارض کی اپنے محور کے گرد گردش وغیرہ سے ناآشنا تھی جب کتاب ہدایت کا گردش لیل و نہار کا ذکر کرتا اور اب دنیا کے چوٹی کے ماہرین فلکیات کی روز افزوں ترقی پذیر تحقیقات میں نظر آنے والا بُعد ایمانی غور و فکر سے غائب ہو جاتا ہے کیو نکہ فر مانروائے کائنات اپنے جاہ جلال کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہی تخلیق کردہ ثابت و سیارہ ، سورج و چاند کا اپنے مدار میں حرکات Rotation  کو روک دیں تو زندگی محال ہو جائے پیرا 5 اور 6 میں بیان کردہ تر جمہ آیات کا ایک مرتبہ اور مطالعہ فرما لیا جائے ۔اب اگر مسلمان طالب علم کو سائنسٹفک طریقہ تعلیم سے گردش لیل و نہار بخوبی سمجھائی جا سکتی ہے تو بطریق احسن ان چند آیات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نعمتوں کا خلوص نیت سے اسے اظہار تشکرسکھانا اس کے ایمان کو کیسی جلا (الفاظ بیان سے قاصر ہیں ) بخشے گا ۔!!
9۔ چو نکہ قیامت کی بڑی نشانیوں کا تذکرہ چل پڑا ہے اس لیے ضروری ہو گا کہ ہم مندرجہ ذیل آیات مبارکہ سے رجوع فرمائیں:
( ھَلْ یَنظُرُونَ اِلاَّ أَن تَأْتِیْھُمُ الْمَلآئِکَةُ أَوْ یَأْتِیَ رَبُّکَ أَوْ یَأْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ یَوْمَ یَأْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنفَعُ نَفْساً اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِھَا خَیْراً قُلِ انتَظِرُواْ اِنَّا مُنتَظِرُونَ )
“ کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فر شتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے ؟ جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی ، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا ۔ یا اپنے ایمان میں کو ئی نیک عمل نہ کیا ہو ۔ آپ فر ما دیجئے کہ تم منتظر رہوہم بھی منتظر ہیں ۔” (الانعام : 158)
 قیامت آنے سے قبل چندبڑی نشانیوں کا ذکر ہم علمائے کرام سے برساہائے برس سنتے چلے آئے ہیں ، مندرجہ بالا قرآن مجید کی آیت اس ضمن میں بنیاد ( Fundamental, Core ) فراہم کرتی ہے ۔ذرا تجہیز و تدفین کے واقعہ کو ذہن میں لائیے ۔خاص طور پر قبر پر تمام اشخاص تین مرتبہ مٹھی بھر مٹی ڈالتے ہیں ۔ دراصل سورة طٰہٰ کی آیت نمبر 55 (“ اسی زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ سب کو نکال کھڑا کریں گے ) کے تین حصص کرتے ہوئے ایک ایک حصہ پڑھتے ہو ئے قبر پر مٹی ڈالی جاتی ہے ۔ یعنی تین ادوار مثلاً پیدائش سے موت ، قبر میں دفن پڑے رہنا اور قیامت میں زندگی پانا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب وکتاب کے لیے پیش ہونا ۔ زیر غور الانعام کی آیت ہمیں ایمان اور عمل صالح کو صحیح طریقہ (level ) پر رکھنے کے لیے کس طرح جھنجھوڑتی ہے ۔ اس بنیادی آیت سے پہلے ارشاد ربانی ہے :
( فَقَدْ جَاء کُم بَیِّنَة مِّن رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَ رَحْمَة فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن کَذَّبَ بِآیَاتِ اللّھِ وَ صَدَفَ عَنْھَا سَنَجْزِیْ الَّذِیْنَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوء اَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُواْ یَصْدِفُون )
“ سو اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے ۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو ہماری آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے ۔ ہم جلدی ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کے اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے ۔ “ (الانعام 157)
10۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ سر زنش فر ما رہے ہیں کہ کیا تم اس انتظار میں ہو کہ ہمارے فرشتے تمہاری روح قبض کرنے کے لیے آجائیں یا تمہارا رب بنفس نفیس تمہارے پاس آئے اور تمہارا قصہ نمٹا دیا جائے ۔دونوں صورتیں وارد ہو جائیں تو اب دنیا میں واپسی اللہ کی سنت کے مطابق قطعاً نہیں ہو سکتی ۔ انسان دنیا کے ٦٠ یا ٧٠ سال گزار کر قبر کی کھربوں سالہ برزخی زمانہ بسر کرتا ہے اور جب اس کو روز جزا پو چھا جائے گا :   
( قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِیْ الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ ۔  قَالُوا لَبِثْنَا یَوْماً أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلْ الْعَادِّیْنَ ۔  قَالَ اِن لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلاً لَّوْ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ )
“ اللہ تعالیٰ دریافت فر مائے گا کہ تم زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے ؟ وہ کہیں گے ایک دن یا اس سے بھی کم ، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجئے ۔ اللہ تعالیٰ فر مائے گا فی الوقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو ۔ اے کاش تم اسے پہلے ہی جان لیتے ۔ “ (المومنون: 112 - 114)
11۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اتنے پاکباز اور عقل مند لوگ تھے جن کے بارے میں قرآن نے حتمی طور پر بتا دیا :
( رَّضِیَ اللَّھُ عَنْھُمْ وَ رَضُوا عَنْھُ ذَلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّھُ )
“ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے یہ ہے اس کے لیے جو اپنے پروردگار سے ڈرے ۔” (البینہ :8)
End of Time کے افراد کی ایمانیات کی جانچ پڑتال Authenticity کے لیے خود النبی الخاتم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم (الاحزاب: 40) مبعوث فرمائے گئے جو بذات خود قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اولین نشانی ہیں ۔صحابہ کرام نہ صرف مکمل ایمان لائے بلکہ اپنی جان ومال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم پر نچھاور کرتے ہو ئے ابدی جنت کے ایسے حق دار ہو ئے کہ مالک الملک خود کہہ اٹھا:
( وَ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّھِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَھُمْ ۔ سَیَھْدِیْھِمْ وَ یُصْلِحُ بَالَھُمْ ۔ وَ یُدْخِلُھُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَھَا لَھُمْ )
“ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہر گز ضائع نہ کرے گا ۔ انہیں راہ دکھائے گا اور ان کے حالات کی اصلاح کر دے گا اور انہیں اس جنت میں لے جائے گا جس سے انہیں شناسا کر دیا ہے۔” (سورة محمد: 4 - 6)
اس کے بر عکس اختتام وقت کے لوگ عالمی پیمانے پر دجالیت کے تابع مُہمل بننے پردل و جان سے آمادہ ہیں یٰحسرة علی العباد نام د نہاد ترقی یافتہ اقوام کی سوچ کی مماثلت بادشاہ نمرود (پیرا : 7) کی فہم سے ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نمرودی مذاکرہ میں نہ صرف کامیاب و سر فراز ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی انداز خطابت سے اسے مبہوت کر ڈالتے ہیں ۔ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ نمرود اپنی ذہنی Intellectual شکست کو تسلیم کرتے ہو ئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں نہ ڈالتا مگر اس نے پہلی ہی ٹھان لی تھی اور اس نے آپ کو آگ میں ڈال دیا ۔نمرود والا کام بذریعہ ڈرونز ( Drones ) امریکی اور یورپی (فروغ دجالیت پر مصر ) اقوام بڑے طمطراق سے انجام دے رہی ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی یاددہانی فر ماتے ہیں کہ نمرود اور اس کے سردارو ں نے کس طرح عمل کیا اور ہمارا جوابی عمل (Retaliation) کیسا تھا:
( قَالُوا حَرِّقُوہُ وَ انصُرُوا آلِھَتَکُمْ اِن کُنتُمْ فَاعِلِیْنَ ۔ قُلْنَا یَا نَارُ کُونِیْ بَرْداً وَ سَلَاماً عَلَی اِبْرَاھِیْمَ ۔ وَ أَرَادُوا بِھِ کَیْداً فَجَعَلْنَاھُمُ الْأَخْسَرِیْنَ ۔ وَ نَجَّیْنَاہُ وَ لُوطاً اِلَی الْأَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا لِلْعَالَمِیْنَ )
“ کہنے لگے کہ اسے جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تم نے کچھ کر نا ہی ہے ۔ ہم نے فر ما دیااے آگ ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی (اور آرام کی چیز ) بن جا ! گو انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام ) کا برا چاہا ، لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا ۔ اور ہم ابراہیم اور لوط ( علیہما السلام )کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہاں والے کے لیے برکت رکھی تھی۔” (الانبیاء: 68 - 71)
12۔ امت مسلمہ گو بڑے خلجان و خلفشار میں گرفتار ہے مگر اپنے آپ کو مایوسی سے بچائے رکھنا ہے ( لا تقنطو من رحمة اللّٰھ) (الزمر: 53) چونکہ رب ذوالجلال ایسی قوموں کو استکبار میں مستغرق ہونے کی بنا پر فوری نہیں پکڑتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے ۔ وہ کیوں ؟ اس لیے کہ ڈھیٹ لوگ کوشش کے باوجود بات کو سمجھنے سے انکاری ہوں اور مسلمان بھی نہ بنیں تو حق تعالیٰ ان برخود غلط لو گوں کے بارے میں اپنی حتمی پالیسی یوں بیان فرماتے ہیں :
( فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُواْ لَکُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّٰھِ وَ أَن لاَّ اِلَھَ اِلاَّ ھُوَ فَھَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ۔  مَن کَانَ یُرِیْدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ الَیْھِمْ أَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لاَ یُبْخَسُونَ ۔ أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِیْ الآخِرَةِ اِلاَّ النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِیْھَا وَ بَاطِل مَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ )
“ پھر اگر وہ تمہاری اس بات کو قبول نہ کریں تو تم یقین سے جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، پس کیا تم مسلمان ہو تے ہو ؟ جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کے کل اعمال ( کا بدلہ ) یہیں بھر پور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کو ئی کمی نہیں کی جاتی ۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہو گا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعما ل تھے سب بر باد ہو نے والے ہیں ۔” (ھود: 14 - 16)
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہو ئے آج کے دور کے پسے ہو ئے زبوں حالی کے شکار مسلمانوں کو علامہ اقبال خودی کادرس دیتے ہیں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خودی اپنا جلوہ ضروردکھاتی ہے جب شاعر مشرق کی مندجہ ذیل شرط کو پورا کرنا مقصد زندگی بنا لیا جائے
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
13۔ صحابہ کرام اللہ تعالی سے اپنی پنج وقتہ نمازوں میں خلوص نیت سے اور خدا سے ڈرتے ہو ئے مسلسل انعام یافتہ لوگ جس راہ پر گامزن رہے اس راہ پر ڈٹے رہنے کی تا اختتام زندگی دعا مانگتے رہے ۔جواباً رب کریم ان حضرات پر انعام و اکرام برساتا رہا ۔ہمارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے ؟ وجہ خدا وند تعالیٰ بتا رہے ہیں :
( ذَلِکَ بِأَنَّ اللّھَ لَمْ یَکُ مُغَیِّراً نِّعْمَةً أَنْعَمَھَا عَلَی قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنفُسِھِمْ وَ أَنَّ اللّٰھَ سَمِیْع عَلِیْم )
“ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت و انعام فر ما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو بدل نہ دیں جو کہ ان کی اپنی تھی اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔” (الانفال: 53)
اس لیے بندوں کو اپنی اصلاح کی فوری فکر کرنا پڑے گی ۔اب ہم فرقان حمید سے اپنے لیے چمکتی ہوئی روشنی کے لیے ایک خوش خبری نکالیں گے ۔ الفاظ دوسروں کے لیے بھی انہی میں سے جواب تک ان سے نہیں ملے ۔ہمارے دور کے مسلمانوں کے لیے باعث تسلی اور سہارا ہیں جمعة المبارک کے نام سے موسوم سورت میں حق تعالیٰ ارشاد فر ما رہے ہیں :
 ( یُسَبِّحُ لِلَّھِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِیْ الْأَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ۔ ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْھُمْ یَتْلُو عَلَیْھِمْ آیَاتِھِ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ اِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ۔ وَ آخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِھِمْ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ ذَلِکَ فَضْلُ اللَّھِ یُؤْتِیْھِ مَن یَشَاءُ  وَ اللَّھُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ )
“(ساری چیزیں ) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو ) بادشاہ نہایت پاک (ہے ) غالب و با حکمت ہے ۔وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنا تا ہے اور ان کو پاک کر تا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھا تا ہے ۔یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔اور دوسروں کے لیے بھی انہی میں سے جواب تک ان سے نہیں ملے اور وہی غالب باحکمت ہے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔“ (الجمعہ: 1 - 4)
14۔ ہم لوگوں کو رب العالمین نے کبھی عادل امت (البقرة : 43) کے خطاب سے نوازا ہے اور کہیں بہترین امت کے القاب سے یاد فر مایا ہے بشرطیکہ وہ نیک باتوں کا حکم کرتی رہے ۔بری باتوں سے روکتی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتی ہو ۔اس امت کو بر پا کرنے کا مقصد وحید دنیا بھر کے باشندوں کو دعوت الی اللہ دینا اوراُن کی شمولیت پر کتاب ہدایت کے ذریعہ تزکیہ و تعلیم وغیر ہ سے آشنا کرنا (ماخوذ از آل عمران :110) ہے ۔اس کام کو انجام دینا قرن اولیٰ کا ایک واضح شعار رہا تھا ۔ امتداد زمانہ سے اس کار خیر کی انجام دہی میں ضُعف آتا چلا گیا ۔ اس خطر ناک ترین ضعف کی نشان دہی مالک نے کتاب ہدایت میں کس طرح فر مائی ۔ذرا غور فرمائیے،اپنے گریبانوں میں جھانکیے، ندامت کے آنسو بہائیے اور میدان عمل میں کود جائیے (نہ بھولیے “بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق “):
( أَ لَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُھُمْ لِذِکْرِ اللَّھِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَ لَا یَکُونُوا کَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُھُمْ وَ کَثِیْر مِّنْھُمْ فَاسِقُونَ )
“ کیا اب تک ایمان والو ں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الہیٰ سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائے اور ان کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی ۔پھر جب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں ۔”(الحدید : 16)
15۔ یقینا اس ضعف سے اللہ رب العزت (جو بنفس نفیس ہمیں خبر دار کر چکا ہے ) کی مدد کے بغیر بچنا محال ہے ۔ شیطان مردود کا گمان روز اولین سے یہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کو بہکانے میں تمام حربے استعما ل کرتا رہے گا حتیٰ کہ وہ اب اپنی “تخلیق عظیم “ دجال کے خروج تک پہنچ جائے گا ۔اس کی وارننگ ( Warning ) شیطان کے بھلاوے سے ہماری یادداشت سے محو ہو سکتی ہے مگر قرآنی یاد دہانی ہمارے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ باری تعالیٰ فر ما رہے ہیں :
( وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّھُ فَاتَّبَعُوہُ اِلَّا فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَ مَا کَانَ لَھُ عَلَیْھِم مِّن سُلْطَانٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ ھُوَ مِنْھَا فِیْ شَکٍّ وَ رَبُّکَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظ ۔ قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّھِ لَا یَمْلِکُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فِیْ الْأَرْضِ وَ مَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِن شِرْکٍ وَ مَا لَھُ مِنْھُم مِّن ظَھِیْرٍ )
“ اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا یہ لوگ سب کے سب اس کے تابعدار بن گئے سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے ۔شیطان کا ان پر کوئی زور (اوردباؤ) نہ تھا مگر اس لیے کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ظاہر کردیں ان لوگوں میں سے جو اس سے شک میں ہیں ۔اور آپ کا رب ہر چیز پر نگہبان ہے ۔کہہ دیجئے ! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب کو) پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کو ئی اللہ کا مدد گار ہے ۔ “ (سورة سباء : 20 - 22)
16۔ ہمارے اوپر روحانی ، دینی اور اخلاقی پثرمردگی ایسی طاری ہے کہ کچھ برائے مداوا کرنے نہیں دیتی اور امارگی نفس نے شیطان کو ہمادی جانوں کی طرف آمادگی کا جیسے اذن ہی دے دیا ہے۔ ذرا رحمانی پکار اس فتنہ (Crisis) سے نکلنے کے لیے بھر پور توجہ سے سنئیے:
( یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّھِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَةِ اِلاَّ قَلِیْل )
“ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کو چ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو ۔سنو ! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یو نہی سی ہے ۔” (توبہ: 38)
اور اگر یہ پکار در خود اعتناء نہ ہو ئی :
( ِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَ یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ وَ لاَ تَضُرُّوہُ شَیْئاً وَ اللّھُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر )
“ اور اگر تم نے کو چ نہیں کیا تو تمہیں اللہ تعالیٰ درد ناک سزا دے گا اور تمہارے سوا اور لوگوں کو بدل لائے گا ،تم اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔” (سورة توبہ: 39 )
17۔ جب ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور وہ نہ کریں جس میں مالک کی مرضی شامل ہو تو مالک کے مندرجہ بالا ارشاد :” تم اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے “ سے یہ مستنبط ہو گا کہ ہم اس وقت جوکچھ کر (نعوذ باللہ) رہے ہیں وہ رب کریم کو گزند پہنچانے کے مترادف ہو گا ۔ ہماری سیاسی سر گرمیاں چاہے وہ دھرنے ہوں ، یا ریلیاں ہوں یا اور کچھ سب اس دنیا اور آخرت دونوں میں سعئی لاحاصل گردانی جائیں گی ۔ ہمارے دلدر یقینا دور ہو سکتے ہیں اگر ہم بالقول مسلمانی جتانے کی بجائے بالفعل مسلمان بن جانے کا عزم کر لیں ۔ مالک الملک کس طرح ہماری مدد فر مائیں گے ۔مندرجہ ذیل ارشاد کو حرزِ جاں بنا لیں :
( ِلاَّ تَنصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّھُ اِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِھِ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّھَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّھُ سَکِیْنَتَھُ عَلَیْھِ وَ أَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَةَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ السُّفْلَی وَ کَلِمَةُ اللّھِ ھِیَ الْعُلْیَا وَ اللّھُ عَزِیْز حَکِیْم )
“ اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے )  نکال دیا تھا ، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فر ماکر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں ، اُس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے ، اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔” (التوبہ: 40)
18۔ جب تو بة النصوح (ماخوذ من التحریم آیت :8) اور عزم راسخ صدق دل سے کر لی تو اللہ تعالیٰ احکامات جا ری فر ما رہے ہیں جس کو آمنا صدقنا کہتے ہو ئے چل کھڑے ہو نا فر ض العین قرار پا تا ہے :
( انْفِرُواْ خِفَافاً وَ ثِقَالاً وَ جَاھِدُواْ بِأَمْوَالِکُمْ وَ أَنفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّھِ ذَلِکُمْ خَیْر لَّکُمْ اِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ )
“ نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھرکم ہو تو بھی ، اور راہ رب میں اپنی جان و مال سے جہاد کرو ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو ۔” (التوبہ: 41)
19۔ ان گزارشات میں شروع ہی میں بتا یا گیا ہے کہ اختتام وقت کی جنگیں شروع ہو چکی ہیں ۔ یہ طول طویل جنگیں پو رے کرہ ارض پر محیط ہو تی چلی جائیں گی حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمانوں سے ہماری زمیں پر اتر جائیں ۔(واللہ اعلم بالصواب) اللہ تعالیٰ اپنی طرف متوجہ کر نے والی (ماخوذ من الذاریات آیت 50) راہ ہدایت آشکار ہ کرنے والی آخری کتاب میں قبل از قیامت واقعہ کا تذکرہ فر ما رہے ہیں :
( وَ قَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّھِ وَ مَا قَتَلُوہُ وَ مَا صَلَبُوہُ وَ لَکِن شُبِّھَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْھِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْھُ مَا لَھُم بِھِ مِنْ عِلْمٍ اِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوہُ یَقِیْناً ۔  بَل رَّفَعَھُ اللّھُ اِلَیْھِ وَ کَانَ اللّھُ عَزِیْزاً حَکِیْماً ۔ وَ اِن مِّنْ أَھْلِ الْکِتَابِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِھِ قَبْلَ مَوْتِھِ وَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً )
“ اور یوں کہنے کے باعث ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ابن مر یم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھا یا بلکہ ان کے لیے ان (عیسیٰ ) کاشبیہ (یعنی ان کی شکل والا ) بنا دیا گیا تھا ۔یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں ، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوںوالا ہے ۔اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہیں بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے ۔ “ (النساء :157 - 159)
آپ (حضرت عیسیٰ  ) کی روز قیامت اپنے رب کے حضور گواہی کیسی ہو گی ۔ تصور میں لائیے اس دن رب العالمین کتنے رعب و جلال میں حساب لے رہے ہوں گے :
( وَ اِذْ قَالَ اللّھُ یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ أَ أَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ وَ أُمِّیَ اِلَھَیْنِ مِن دُونِ اللّھِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِن کُنتُ قُلْتُھُ فَقَدْ عَلِمْتَھُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لاَ أَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ۔  مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلاَّ مَا أَمَرْتَنِیْ بِھِ أَنِ اعْبُدُواْ اللّھَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ وَ کُنتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنتَ أَنتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَ أَنتَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْد ۔ اِن تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِن تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ قَالَ اللّھُ ھَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُھُمْ لَھُمْ جَنَّات تَجْرِیْ مِن تَحْتِھَا الأَنْھَارُ خَالِدِیْنَ فِیْھَا أَبَداً رَّضِیَ اللّھُ عَنْھُمْ وَ رَضُواْ عَنْھُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ )
“ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جبکہ اللہ فر مائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم !کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو ! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں ،مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی با ت کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں ، اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا ۔تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا ۔ تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے ۔ میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فر ما یا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا ۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو توہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پو ری خبر رکھتا ہے ۔اگر تو انہیں سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے ۔ اللہ ارشاد فر مائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہو نا ان کے کام آئے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہو ں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش ہے اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ، یہ بڑی (بھاری) کامیابی ہے ۔” (المائدہ :116 - 119)
20۔ اللہ تعالیٰ کے آسمانوں سے بھیجے ہو ئے دستر خوان (المائدہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حوارین کے لیے باعث برکت و رحمت تھے اور حضور  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی بعثت سے قریباً چھ سو عیسوی سال قبل یہ اہل کتاب کے لیے عید کا سماں تھا اور اس وقت سے ایک تہوار آخری عشائیہ (Last Supper) کے نام سے اہل کتاب مناتے ہیں مجھ ناچیز کی نظر میں قرآن مجید فر قان حمید کو لوح محفوظ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے قلب میں اتار کر ہم گنہگار بندوں کے ہاتھوں میں کہیں مصحف کی شکل میں اور کہیں ای بک ( e-book ) کی صورت میں ( جو اس دنیا میں جلوہ گر ہے ، قبروں میں مو منین کی وحشت کو انسیت میں بدلنے پر ممدو معاون ہو گا ، قیامت میں ترقی در جات کا ضامن اور آخرت میں جنت کے لا فانی ایام میں مقیمین جنت کی گفتگو قرآن کی مر ہون منت ہو گی ) دے دیا گیا ہے ۔ قارئین یقینا مخطوظ ہو ئے ہوں گے کہ ہم نے قرآنی دستر خوان سے خوب خویشہ چینی کی اور اس مضمون کو آگے بڑھا یا ۔ حق تعالیٰ اپنے “ دستر خوان “ کی تعریف بیان کر رہے ہیں :
( یَا أَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَة مِّن رَّبِّکُمْ وَ شِفَاء  لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَ ھُدًی وَ رَحْمَة لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّھِ وَ بِرَحْمَتِھِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ ھُوَ خَیْر مِّمَّا یَجْمَعُونَ )
“ اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفاء ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والو کے لیے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہو نا چاہیے ۔ وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں ۔” (یونس : 57 - 58)
21۔ پچھلے پیرا گراف 8 اور 9 میں بنیادی آیت کا ذکر آیا جس کی رو سے قیامت کی فیصلہ کن نشا نیاں آنے کے سبب اس شخص کا ایمان نا فع نہ ہو گا ، جس کو ایمان کی دولت قبل از وقوع نشانی نہ ملی ہو اور وہ جس کا ایمان بالقول تو ہو لیکن عمل صالح سے تہی ہو خسارے میں ہو گا ۔ آخر ان لوگوں کا نقصان کیوں نہ ہو گا ؟ جب کہ وہ ناقص الایمان ہوں اور ساتھ عمل صالح کے فقدان کا شکار ہوں ۔ قرآن کے اشارات کو ، جو بیان ہو رہے ہیں ، اپنے غور فکر کا مر کز و محور بنا ئیے :
( یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء  مِنْ أَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُورُھُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ اِن کُنتُمْ تَعْقِلُونَ ۔ ھَاأَنتُمْ أُوْلاء  تُحِبُّونَھُمْ وَ لاَ یُحِبُّونَکُمْ وَ تُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّھِ وَ اِذَا لَقُوکُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَیْکُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اللّھَ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُورِ ۔اِن تَمْسَسْکُمْ حَسَنَة تَسُؤْھُمْ وَ اِن تُصِبْکُمْ سَیِّئَة یَفْرَحُواْ بِھَا وَ اِن تَصْبِرُواْ وَ تَتَّقُواْ لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئاً اِنَّ اللّھَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیْط )
“ اے ایمان والو ! تم اپنا ولی دوست ایمان والوں کے سوا اور کسی کو نہ بناؤ ۔(تم تو ) نہیں دیکھتے دوسرے لو گ تمہاری تباہی میں کسر اٹھا نہیں رکھتے ، وہ تو چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو، ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے ، ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کر دیں ۔ اگر عقلمند ہو (تو غور کرو ) ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے ، تم پو ری کتاب کو مانتے ہو ،(وہ نہیں مانتے پھر محبت کیسی ؟) یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصہ کے انگلیاں چباتے ہیں کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے را ز کو بخوبی جانتا ہے ۔ تمہیں اگر بھلا ئی ملے تو یہ ناخوش ہو تے ہیں ہاں اگر برائی پہنچے تو خوش ہیں ، تم اگر صبر کرو اور پر ہیز  گاری کر و تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے ۔” (آل عمران : 118 - 120)
22۔ مندرجہ بالا انداز کی زجر و توبیخ مالک الملک جن لو گوں کی فر مارہے ہیں وہ فروغ دجالیت کے ہر اول دستہ کا حصہ تو ہو سکتے ہیں ، مگر اسلام کی کاز (Cause) کے لیے صفر اور ایسے افراد کے لیے راہ راست بند کر دی گئی ہے ۔ البتہ روز “ قیامت جو لوگ سچے تھے ان کا سچ ان کے کام آئے گا “ سچائی یعنی بے لوث سچائی یوم محشر کامیابی کی ضامن ہو گی ۔اس موضوع کا مطالعہ قرب قیامت کے حوالے سے بہت ہمہ جہتی (Wide Ranging) ہو نا چاہئیے ، جو انشاء اللہ العزیز اگلے “الواقعة “ میں قارئین پائیں گے ۔ اس قسط کے اختتام پر علامہ اقبال علیہ الرحمة کے سخنِ پُر سوز کا حوالہ پیش خدمت ہے :
 ہم تو مائل بہ کرم ہیں ، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، راہ مراد منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے ، جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے