ہفتہ، 22 جون، 2013

سائنس اور فلسفہ کی ترقی میں قرآنِ کریم کا حصہ

جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013، شمارہ  12-13

سائنس اور فلسفہ کی ترقی میں قرآنِ کریم کا حصہ

مولانا محمد حنیف ندوی

اسلام کی اثر آفرینیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس نے جہاں توحید کے اسرار فاش کیے ہیں۔ عظمت انسانی کا پرچم لہرایا ہے، اخلاق و سیر کے گوشوں کو پاکیزگی عطا کی ہے، جہاں دلوں میں محبت الہٰی کی شمعوں کو روشن کیا ہے اور ایسے پا کیزہ اور ایسے اونچے معاشرہ کی تخلیق کی ہے کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصر ہے۔ وہاں مذاہب عالم پر اس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے فکر و تعمق کے دواعی کواکسا یا ہے، عقل و خرد کے اجالوں کو عام کیا ہے اور دنیا کے تیرہ و تاریک افق پر استدالال و استنباط کے نئے نئے آفتاب ابھارے ہیں۔
PDF Download Link @ AlWaqiaMagzine || the role of the-glorius-quraan-in-development-of-science-and-philosphy
کیا یہ بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے کہ بادیہ نشینانِ عرب تھوڑے ہی عرصے میں تہذیب و تمدن کے فراز اعلیٰ پر فائز ہوجائیں، حکمت و دانش کے افسردہ میکدوں میں پھر سے جان ڈال دیں، اور علوم و فنون کے اجڑے ہوئے دریا میں چہل پہل پیدا کردیں، اور کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ عرب کی اُمی اور نا آشنائے حرف قوم دیکھتے ہی دیکھتے فلسفہ و حکمت کے تخت داد رنگ پر تسلط جمالے اور نہ صرف یونانیوں کے بادہ فکر و اندیشہ سے تشنہ کامان ادراک کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے بلکہ اس کے جرعوں میں کیف و ذوق کی ان سرمستیوں کا بھی اضافہ کردے جو اسلام کی دعوت عرفاں کے ساتھ خاص ہیں ۔
ہماری رائے میں یہ محیر العقول انقلاب نتیجہ ہے قرآن حکیم کی ان تعلیمات کا جن سے تحقیق و تجسس کی روح بیدار ہوئی اور یہ تبدیلی اور عظیم تغیر مرہون منت ہے اس وحی کا جس کا حرف آغاز اقراء ہے ۔
قرآن حکیم نے کیوں کر مسلمانوں میں خالص علمی ذوق کی پر ورش کی اور کس طرح ان کے اسلوب فکر کو سائنس اور فلسفہ کے حسین سانچوں میں ڈھالا؟ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ان چار نکات پر غور کرنا ہو گا ۔
(1) قرآن حکیم نے اس عالم ہست و بود کی معروضیت (Objectivity) کو واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا ۔ زندگی کو احترام کی نظر سے دیکھا اور بتا یا کہ مسلمان کا نصب العین دنیا و آخرت کے حسن اور نکھار سے بہرہ ور ہونا ہے ۔
(2) اس کتاب ہدیٰ نے اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا کہ اس کائنات میں جو ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے نظام و قاعدہ کی استواریاں پائی جاتی ہیں، اور اس کی تخلیق میں متعین غرض و غایت پنہاں ہے ۔
(3) اسی صحیفہ مبارکہ نے پہلے پہل اور ہمیشہ کے لیے اس مغالطہ کو دور کردیا کہ دین اور عقل و خرد کے تقاضوں میں تضاد رونما ہے ۔
(4) اور یہ بھی اسی کتاب کا اعجاز ہے کہ اس نے فکر و استدالال کی ان راہوں کی طرف رہنمائی کی جنہیں ہم منطق کی اصطلاح میں استقرار (Induction) کہتے ہیں ۔
اس کائنات کی نوعیت کیا ہے؟ آیا یہ خوب صورت آسمان، یہ ہرے بھرے اشجار ، یہ سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے دریا ، یہ ٹھوس پتھر اور استادہ پہاڑ حقیقی وجود سے بہرہ یاب ہیں یا ان کا وجود محض باطل اور نظر و خیال کی سیمیائی ہے ؟ اس بارے میں ارباب فلسفہ و مذہب میں شدید اختلاف پایا جا تا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تہذیب و تمدن علوم و فنون کی پر ورش وارتقاء سے متعلق دو بالکل ہی متضاد نظریے دنیا میں رائج رہے ہیں ۔ اگر کائنات موجود ہے اور یہ عالم ہست و بود وجود خارجی سے متصف ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے فکر و نظر کا صحیح اسلوب اختیار کیا ہے اور علوم وفنون کی نشاط و آفرینیوں اور تہذیب و تمدن کی نقش آرائیوں کے لیے وجہ جواز ڈھونڈلینے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔

مولانا محمد حنیف ندوی (1908ء - 1987ء ) ماضیِ قریب کے فلسفی مزاج عالم و ادیب تھے ۔  "سائنس اور فلسفہ کی ترقی میں قرآنِ کریم کا حصہ" کے عنوان سے ان کا یہ مضمون ماہنامہ "المعارف" (لاہور) کی جون 1967ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا تھا ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے قارئینِ "الواقعة" کی ضیافتِ علمی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔ (ادارہ الواقعۃ)
اگر اس عالم کی حقیقتیں صرف تصور ( Idea ) یا صورت ( Form ) کا کرشمہ ہیں یا ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے زندگی کی اہمیتوں کو گھٹایا ہے اس کی غرض و غایت کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے ، اور ایسی راہبانہ اور غیر عمرانی زندگی کی حوصلہ افزائی کی ہے جس سے انسانیت کو بجز قنوط اور مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے ۔
نفی و ایجاب کے یہ دونوں راستے نہ صرف جدا جدا ہیں بلکہ دونوں مختلف منزلوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ایجاب کے معنی زندگی کی گہما گہمی اور ارتقاء کے ہیں ۔ علم و فن کے فروغ کے ہیں ۔آگے بڑھنے اور کائنات کی نا ہمواریوں پر قابوپانے اور اس کو اپنے دائرہ تسخیر میں لانے کے ہیں ،اور نفی کا مطلب محرومی ، یا س ،قنوط اور جہل و نادانی یا جمود و پسماندگی کو اپنانا ہے ۔
اس بنا پر اسلام نے اس عالم آب و گل کو اگر تسلیم کیا ہے تو اس کے معنی صرف یہاں کی ابھرتی ہو ئی اور نمایا ں ومحسوس حقیقتوں کو ما ن لینے ہی کے نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے انسانی علم و بصیرت پر پو رے پورے اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ اور فکر و نظر کا ایسا اسلوب اختیار کیا ہے جس کی یقین افروزی کسی تشکیک کی متحمل نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام نے کائنات کی معروضی حیثیت کو مان کر اس اساس اور بنیاد کی نشاندہی کی ہے کہ جس پر آگے چل کر انسانی فکر وتجربہ کے غرفے استوار ہو تے ہیں ۔
یونانی حکما کی اکثریت اس عالم رنگ و بو کو مانتی تھی ان میں استخوانِ نزاع صرف یہ دو باتیں تھیں کہ اس کی ترکیب و ساخت میں کن عناصر کو دخل ہے ۔یا یہ کہ یہ عالم، ساکن و راکد (Static) ہے یا متحرک (Changing) افلاطون ان میں پہلا شخص ہے جس نے اس مسلمہ سے انحراف اختیار کیا ، اور بحث و نزاع کے اس دھارے کو ڈھائی سو سال کے بعد اس نقطہ کی طرف مو ڑ دیا کہ جس عالم مادی کی تر کیب و ساخت کے بارہ میں اب تک میدان مناظرہ گرم رہا اس کے متعلق سوچنے کی بات در اصل یہ ہے کہ آیا یہ عالم حقیقی عالم بھی ہے یا نہیں ، افلاطون کے نزدیک یہ دنیا حقیقی دنیا کا محض عکس یا مثنی (Copy) ہے اور وہ حقیقی،مکمل اور غیر متغیر دنیا صرف تصور (Idea) یا صورت (Form) کی جلوہ گری سے تعبیر ہے ۔
افلاطون کا اشکال دراصل اس عالم کی نا ہمواریوں پر مبنی ہے۔ وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ یہاں نقص (Imperfection)   یا شر (Evil) ہی کا دور دورہ ہے، زلزلوں کی تباہ کاریا ں اور تغیر و فنا کی ہولناکیاں ہیں تو وہ ایسے عالم کوحقیقی عالم ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور پکار اٹھتا ہے کہ اس نقص یا شر کو ڈیمی ارج (Demiarge) کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ جس نے ان تصورات کاملہ اور نصب العینی صور کو مادہ میں مرتسم کر نے کی کو شش کی ہے ۔ یہ نقص مادہ کا ہے ۔ اس کی صلاحیت قبول و پذیرائی کا ہے کہ ان کامل تصورات کو پوری طرح اپنا نہیں سکا ہے ۔
افلاطون نے کائنات کی اس تعبیر سے گو تصوریت (Idealism) کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر اس عالم مادی کی مکمل نفی پر منتج ہو ئی تاہم اتنا غنیمت ہے کہ اس نے ایک صورت گر ازلی (Devine Sculptor) اور مادہ کے وجود کو بہرحال تسلیم کیا ۔
عیسائیت نے جب اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ مذہبی اذعانیات کو عقل و خرد کی روشنی میں پیش کیا جائے تو اسے افلاطون کے نظریات اور پلا ٹینیوس کی تشریح ، پذیرائی کے لیے زیادہ موزوں معلوم ہو ئی ، جن میں تصور یا روح کو قدرتاً فوقیت و امتیاز حاصل ہے اور جسم کی حیثیت ایسی برائی یا رکاوٹ کی ہے جو قلب و روح کی پرواز اورتر قیامت میں حائل ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک ایک شخص جسم کے تقاضوں سے رستگاری حاصل نہیں کر لیتا اور جسمانی خواہشوں اور ولولوں سے دامن کشاں نہیں رہتا اس وقت تک نجات کے استحقاق سے محروم رہتا ہے ظاہر ہے یہ طرز فکر سراسر زندگی کی ٹھوس اور ضروری حقیقتوں سے گریز اور فرار پر مبنی ہے اور سوچنے کے اس نہج کا منطقی نتیجہ ہے جس کو افلاطون اور اس کے شارح پلاٹینیوس کے تتبع میں عیسائیت نے اختیار کیا ۔
اگر کائنات کے مظاہر معروضیت سے متصف ہیں تو پھر جسم بھی معروضی ہے اور اس کے تقاضے بھی اپنی آغوش میں معروضیت لیے ہو ئے ہیں اور اس بنیاد پر اگر غور کیجیے تو ان تقاضوں اور خواہشوں کی پرورش اور ارتقاء کا مسئلہ بھی بجائے حسیت کے حقیقت نگری قرار پا تا ہے ۔ اس بارہ میں فیصلہ کن نکتہ در اصل یہ ہے کہ کوئی بھی عمل ، یا تگ و پو کی کوئی بھی صورت حتیٰ کہ مجاہدہ اور ریاضت بھی ان معنوں میں روحانی نہیں ہے کہ اس میں قطعاً جسم کا حصہ نہیں ہے ، خواہش و تمنا کی کار فرمائی نہیں ہے ، ہمارے نزدیک کسی عمل یا فعل میں ، جو بہر حال جسمانی ہی ہوتا ہے ۔ روحانیت کا عنصر اس وقت ابھرتا ہے جب آپ اس کو ان محرکات نفسی کی بناء پر اختیار کرتے یا انجام دیتے ہیں جو کسی عظیم نصب العین یا کسی بلند قدر سے تعلق رکھتے ہیں یعنی جب یہ فعل یا عمل ذاتی منفعت کی سطح سے اونچا ہو کر کسی آفاقی یا انسانی مطح نظر سے ہمقراں ہو تا ہے ۔ ورنہ کوئی فعل یا عمل اپنے روپ میں روحانی یا غیر روحانی نہیں ہو تا ۔ عمل و فعل کی یہ ثنویت اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ انسان جسم و روح کی دو متضاد حقیقتوں سے ترکیب پذیر ہے ۔ حالانکہ جسم و روح دو علیحدہ علیحدہ اور مخالف چیزوں کا نا م نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت انسانی کے دو پہلو ہیں ۔ دو پر تو ہیں زیادہ واضح لفظوں میں یوں کہنا چا ہیے کہ انسان کے سوچنے اور عمل کرنے کی دو سطحیں ہیں ۔ایک سطح کو ہم روحانی کہتے ہیں اور ایک جسمانی ۔
عالم و مافیہ کو غیر حقیقی قرار دینے کی دوسری واضح مثال ہمیں ہندو اصول "مایا" میں ملتی ہے جس کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ دھوکہ ہے اور ہر گز اس لائق نہیں کہ انسان یہاں رہے. یہاں کی دلچسپیوں سے دل بہلائے ۔ یا تہذیب و تمدن کی طرفہ طرازیوں کو شائستہ اعتناء سمجھے ۔
“ مایا" کے اس منفی فلسفہ نے زندگی کے کار زار میں اپج، جرات اور تخلیق و اختراع کی نشاط آفر ینیوں سے ہندوؤں کو کس در جہ محروم رکھا، یہ صرف تاریخ ہی کا مسئلہ نہیں زمانہ حال کا اشکال بھی ہے ۔ کیو نکہ اس کی تہہ میں سوال یہ پو شیدہ ہے کہ آیا عالم کے بارہ میں یہ غیر سائنسی اور غیر ہمدردانہ نقطہ نظر انسانوں میں تحقیق و تجسس کی روح بیدار کر سکتا ہے ، اور اس کا ئنات سے متعلق اس گہرے لگاؤ ، عمیق تو جہ اور مبنی بر کاوش التفات کو پیدا کر سکتا ۔ جو علم و عرفان کے لیے بمنزلہ اولیں شرط کے ہے ۔ رادھا کرشنن نے Eastern Riligions and Western Thought میں اعتراض کے اس تیکھے پن کو محسوس کیا ہے اور جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ ہم نہیں کہہ سکتے جو اب کی نوعیت سے ڈاکٹر شو یزر (Schwitzer) کی تسکین ہو تی ہے یا نہیں۔ "مایا" کی اس فلسفیانہ اور متصو فانہ تعبیر سے ہم صرف یہ بات سمجھ پائے ہیں کہ ہندو اہل فکر نے مغربی تہذیب کے زیر اثر اس خلیج کو بالآ خر محسوس کر ہی لیا ہے ، جو زندگی کے تقاضوں اور زندگی کی نفی کے مابین حائل ہے ۔لطف یہ ہے کہ اس خلیج کی نشاندہی سب سے پہلے اسلام نے کی لیکن اس وقت نہ عیسائی اقوام نے اس پر غور کیا اور نہ ہندو فلسفہ نے “ مایا “ کی اس نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت سمجھی ۔ لیکن اب جبکہ زمانہ کے ارتقاء نے دو نوں کو زندگی کی شورشوں میں دھکیل دیا ہے ۔دو نوں ہی جان گئے ہیں کہ رہبانیت اور “ ما یا “ کا فلسفہ مو جودہ زمانہ میں چلنے والا نہیں ۔
یہ جان لینے کے بعد کہ کائنات کی معروضی حیثیت تسلیم کر لینے سے کیو نکر سا ئنسی ذہن اور مزاج پیدا ہو تا ہے اور اس نقطہ نظر کو اپنا لینے سے تہذیب و تمدن کے مختلف گوشوں میں کس در جہ دور رس اور خوش گوار تبدیلیاں معرض وجود میں آتی ہیں ۔اب یہ دیکھیے کہ قرآن حکیم نے اس حقیقت کو کس کس اسلوب سے بیان کیا ہے ۔سورہ انبیاء میں ہے :
( أَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاھمَا وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَاء  کُلَّ شَیْ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ ) ((30))
“ کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دو نوں ملے جلے تھے ہم نے ان دو نوں کو جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں کیا اس پر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔”
(2) سورہ عنکبوت میں ارشاد فر ما یا :
( خَلَقَ اللَّھ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ بِالْحَقِّ انَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) ((44))
“خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا اور اس میں یقینا صاحب ایمان لو گوں کے لیے نشانی ہے۔”
سورہ غاشیہ میں آیا ہے :
( أَ فَلَا یَنظُرُونَ اِلَی الْابِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ، وَ الَی السَّمَاء کَیْفَ رُفِعَتْ ، وَ الَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ ، وَ الَی الْأَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ) ((71-20))
“کیا یہ لو گ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب روپ میں ان کو پیدا کیا گیا ہے اور آسمانوں کی طرف نظر نہیں دوڑاتے کہ کیسا بلند کیا گیا ہے ، اور پہاڑوں کے بارہ میں نہیں سوچتے کہ کس طرح استادہ کیے گئے ہیں اور زمین پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح اس کو ان کے پاؤں تلے بچھایا گیا ہے ۔ "
سورہ ملک میں ہے :
( وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء  الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ ) ((5))
“اور ہم نے قریب کے آسمانوں کو ستاروں کے چراغوں سے زینت بخشی ۔”
سورة شوریٰ میں وضاحت فر مائی :
( فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ )((الشوریٰ :11))
“آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے ۔”
سورہ نحل میں اس حقیقت کا اظہار فر مایا کہ کا ئنات کو معروضیت کے لباس سے آراستہ کر نا، اور تخلیق و اختراع کے خلعت سے نوازنا ہی تو وہ صفت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنی تمام مخلوق سے امتیاز حاصل ہے ۔
( أَ فَمَن یَخْلُقُ کَمَن لاَّ یَخْلُقُ ) ((17))
“کیا جو تخلیق و ابداع سے کام لیتا ہے وہ ایسا ہے جوکچھ بھی پیدا نہ کر سکے ۔”
تخلیق عالم کے لیے قرآن حکیم نے جو پیرا یہ بیان اور الفاظ بیان کیے ہیں ، ان سے ان تمام تصورات کی نفی ہو جاتی ہے کہ جن کوتصوریت نے جنم دیا ہے ۔
دوسرا نقطہ بھی کچھ کم اہم نہیں اگر یہ عالم ، بخت و اتفاق کا کر شمہ نہیں بلکہ اس کو حکیم و دانا خدا نے بنا یا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس میں نظم و تر تیب ہو ۔ قاعدہ اور قانون ہو اور اس کو اس نہج سے ڈھالا جا ئے کہ انسان اس سے پورا پورا استفادہ کر سکے ۔
جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے اس نے کائنات کے بارہ میں بار بار اس حقیقت کو پیش کیا ہے کہ اس کار گاہ حسن میں کہیں بھی بھونڈا پن یا نقص نہیں ۔ کہیں بھی نظم و ترتیب کی کوتا ہیاں نہیں ۔ یہاں ہر چیز کا ایک انداز ہے اور ہر شے قرینہ اور ڈھنگ کی آئینہ دار ہے ۔
قرآن حکیم اس عالم کو انسانی اغراض و مفادات کے منافی قرار نہیں دیتا ۔اس کو معاند اور غیر ہم آہنگ نہیں مانتا بلکہ اس کو اس لائق ٹھہراتا ہے کہ انسان یہاں رہ سکے ۔ اس کی نشاط آفر ینیوں میں شریک ہو سکے اور اس کے حسن اور نکھار سے ذوق و کردار کی زلف دوتا کو سنوار سکے ۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ اس کے اندر پنہاں ان جاری و ساری قوانین کو جان سکے ، اور ان کو معاشرہ کی بہتری اور بہبود کے لیے استعمال کر سکے ۔
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ سا ئنس کو فی نفسہ غر ض و غایت سے کو ئی سرو کار نہیں اس کا موضوع بحث تو صرف یہ ہے کہ یہ مادہ کے مضمرات ارتقاء کو معلوم کر سکے اور اس علم کی روشنی میں تجر بہ و آگاہی کے مزید قدم اٹھا سکے ۔ اس کا دائرہ بحث صرف “ہے" (is) تک ہے۔ "چاہے" (Ought) اس کے حدود بحث سے خارج ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خالص سا ئنسی نقطہ نظر سے یہ عالم کسی غرض و غایت کی طرف رہنمائی نہیں کر تا ۔یا یوں کہنا چاہیے اس بارہ میں اس کی روشنی قطعاً غیر جانبدارانہ ہے ۔ اس سے نہ تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ عالم با مقصد ہے، اور اس چیز کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ با مقصد نہیں ہے ۔ لیکن اگر فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ اس عالم میں بغیر غرض و مقصد کو مانے اور بنا کسی غایت و معنی کے تسلیم کیے ، مظاہر ہستی کی کوئی معقول تو جیہ ممکن ہی نہیں ۔ اس سلسلہ میں دو ٹوک سوال یہ ہے کہ یہ عالم مادی کیوں قاعدہ قانون کی افادیتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہو ئے ہے ۔ پانی کیوں پیاس بجھاتا ہے، کھانے سے کیوں سیری اور توانائی حاصل ہو تی ہے اور معدہ کی ترکیب و ساخت کیوں اس وضع کی ہے کہ وہ کھانوں کو آسانی سے جز و بدن بنا سکے ۔اسی طرح عقاقیر اور جڑی بو ٹیوں میں صحت بخشی کی صلاحیتیں کیوں مضمر ہیں ۔ زیادہ واضح لفظوں میں جواب طلب یہ سوال ہے کہ یہ عالم اور اس کے تمام مشمولات بحیثیت مجموعی کیوں ان خصوصیات کے حامل ہیں کہ ان سے بو قلموں ضرورتوں کو پو را کیا جاسکے ۔کیا صرف یہ انسان کی تلاش اور دریافت کا نتیجہ ہے کہ اس نے ان اشیاء میں افادیت کے مختلف پہلو ؤ ں کو ڈھونڈھ نکالا ۔ یا افادیت کے یہ پہلو چو نکہ پہلے سے اشیاء میں اللہ تعالیٰ کی تد بیر و حکمت نے ودیعت کر رکھے تھے اس لیے ہماری طلب و جستجو کے نتیجے میں ہمیں معلوم ہو ئے ۔
ظاہر ہے تخلیق کا یہ انداز صاف صاف غمازی کرتا ہے کہ یہ عالم ہست و بود بغیر کسی حکمت وارادہ کے یو نہی اس انداز کا نہیں بن گیا ہے کہ انسان یہاں کی ساز گاریوں سے لطف انداوز ہوسکے اور یہاں کی ایک ایک چیز کو اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کر سکے ۔ یا یہ جانا بوجھا اور سوچا سمجھا ہو ا نظام ہے جو انہی اغراض کے پیش نظر قائم کیا گیا ہے ۔
ہم دراصل غایتی (Teleological) اسلوب فکر کی نمائندگی کر کے یہ ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ قرآن حکیم نے اس عالم کے بارہ میں جس نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اس سے علم اور سائنس کے تقاضے کہیں زیادہ خوبی سے تکمیل پذیر ہو تے ہیں ۔ کیو نکہ جب قرآن حکیم باربار اس حقیقت کو بیان فر مائے گا کہ اس عالم کی ہر ہر شئے تمہارے لیے ہے حتی کہ یہ اتھاہ سمندر، وسیع و عریض زمین یہ تاباں اور فروزاں چاند اور سورج اور یہ لیل و نہار کی تبدیلیاں اور گر دشیں تمام تر تمہارے ہی فائدے کے لیے وقف ہیں تو اس اسلوب اظہار سے لا محالہ انسان کے دل میں ان سب کو جاننے کی شدید خواہش کروٹ لے گی ۔ ہم جانتے ہیں کہ غایتی طرز استدالال پر کچھ اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ان میں کا سب سے زیادہ مشکل اور تیکھا سوال یہ ہے کہ اگر کائنات کا یہ مرقع کسی باکمال ذات کا نقش حسیں ہے تو اس میں مصیبت ، ظلم ، بیماری اور اندوہ و تشویش کے داغ دھبے کیوں نظر آتے ہیں ۔یا پھر ایک فلسفی کے الفاظ میں اگر اس دبستان کا نصف حصہ فکر، ذوق، حسن اور عقل و ہنر کے پھول بو ٹوں سے آراستہ ہے تو دوسرے نصف حصے میں دشمنی، کینہ، بیماری اور حرص و آز کی عفونتوں کے ڈھیر کیوں پڑے ہیں؟
ہیوم نے اپنے مکالمات میں ایسی نوع کے اعتراضات پر تشکیک (Scepticism) کا قصر رفیع تعمیر کیا ہے کہ خیر میں آخر شر کے پیو ند کی کیا ضرورت تھی اور حسن و زیبائی کے ساتھ قبح و عیب کی نمائش کا کیا مو قع تھا؟ افلاطون نے تو یہ کہہ کر سوال کی سنگینی سے پیچھا چھڑا لیا کہ یہ عالم جس پر تم اعتراض کر رہے ہو حقیقی کب ہے؟ یہ تو حقیقت کی بھونڈی نکالی ہے ۔حقیقی عالم تصور ات یا صور کا ہے جو واقعی خوبصورت مکمل اور غیر متغیر ہے ۔ لیکن ہمارے لیے یہ مشکل ہے کہ جواب کی اس نوعیت پر اطمینان کا اظہار کرسکیں اس لیے کہ ہم تو قرآن کی رو سے اس عالم کی معروضیت کے پُر زور حامی ہیں ۔ ہمارے نزدیک اس شکال سے نکلنے کی تین معقول صورتیں ہیں :
(1) یا تو ہم کیٹس (Keats) کے اس موقف کو تسلیم کر لیں کہ یہ عالم در حقیقت ایک درس گاہ ہے ۔ جہاں عملی تر بیت دی جاتی ہے کہ ہم شر اور تضاد کی ناساز گاریوں کو خیرو توافق کے سانچوں میں ڈھالنے کا فن سیکھیں ۔ دوسرے لفظوں میں جس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں جو تضاد و نقص پا یا جاتا ہے وہ قدرت کے سہو و تغافل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ ہماری عقل و دانش میں اضافہ ہو اور ہم یہ جان سکیں کہ ان پر قابو پانے کا کیا طریقہ ہے ۔
(2) یا معتزلہ کی زبان میں یوں کہیں کہ یہ عالم اپنی موجود شکل ہی میں بہترین (Best Possible) ہے، اور شر و نقص کا احساس محض اضافی ہے ۔ یعنی جزئیات کے ادھورے سے علم کی بناء پر ہے ۔ اُس حکمت کی بناء پر نہیں جو ہمہ خیر اور خوبی ہے ۔
(3) اور یا پھر بدرجہ آخر اس نقطہ نظر کو مان لیں کہ اعتراض کی یہ نو عیت اس عالم سے متعلق ہے جو ہنوز معرض تعمیر میں ہیں ۔یعنی اگر ارتقاء کا عمل جاری ہے اور اس عالم امکان کو ابھی اور نکھر نا ہے اور تکمیل واتمام، کی مزید منزلیں طے کرنا ہے تو کیوں نہ نقص و شر کے اس عیب کو عبوری اور عارضی شئے قرار دیا جائے جس کو با لآخر انسان کی سعی اور کو شش سے مٹنا اور ختم ہو نا ہے۔
ان مطالب کی تائید میں قرآن حکیم کے ان شواہد پر غور فر مائیے :
(1) ( ذَلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ) (( یٰس : 38 ))
“ یہ انداز ہے عزیز اور صاحب علم خدا کا ۔”
(2) ( اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْأَرْضِ زِیْنَةً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ أَیُّھُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً ) (( الکہف : 7))
“بلا شبہ جو کچھ زمین پر ہے اسے ہم نے اس کے لیے سنوارا اور بنا یا تا کہ انہیں آزمائیں کہ ان میں کس کا کام بہتر ہے ۔”
(3) ( ھُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِیْ مَنَاکِبِہھا وَ کُلُوا مِن رِّزْقِھِ وَ اِلَیْھِ النُّشُورُ ) ((الملک : 15))
“وہی ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے رام کر دیا تاکہ تم اس کے گوشوں میں چلو پھرو اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف جانا اور جی اٹھنا ہے ۔”
(4) ( الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ) ((الرحمٰن : 5))
“اور سورج اور چاند کا ایک حساب متعین ہے ۔”
(5) ( قَدْ جَعَلَ اللّٰھُ لِکُلِّ شَیْ قَدْراً ) ((الطلاق:3))
“ اور اللہ تعالیٰ نے ہر ہر شئے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔”
(6) ( وَ سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَ الْنَّھارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ الْنُّجُومُ مُسَخَّرَات ) ((النحل : 12))
“اورتمہاری خد مت میں لگا دیا رات اور دن کو سورج اور چاند کو اور تمام نجوم و کواکب کو بھی مسخر کر دیا ۔”
(7) ( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّھَ سَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ الْأَرْضِ ) ((الحج : 65))
“کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے جو کچھ زمین میں ہے، اس کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ۔”
(8) ( وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاء  وَ الْأَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لَاعِبِیْنَ ) ((دخان : ٣٨ ، انبیاء : 16))
“اور ہم نے زمین اور آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔”
وہ تیسرا نقطہ جو سائنس اور فلسفہ کی ارتقائی کڑیو ں کو آگے بڑھانے کا باعث ہو سکتا ہے اور جس کی بدولت مسلمانوں نے تین چار صدیوں ہی میں علوم عقیلہ کو ثریا تک اچھال دیا، یہ تھا کہ فکر و دانش کی پر واز اور فطرت کے انکشافات میں کہیں ایسا موڑ نہیں آتا کہ جہاں دین کی استواریاں مجروح ہوں۔ قرآن حکیم نے جس نقطہ نظر کی پر ورش کی ، اس کا حاصل یہ تھا کہ عقل و دین میں کو ئی تضاد پایا نہیں جاتا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پرتو ہیں ۔ جس پر وردگار نے انسانی روح کی تابش وضو کے لیے اقدار کی تلقین کی ہے، زندگی کا نقشہ ترتیب دیا، اور انسان کی علمی رہنمائی کے لیے فقہ و قانون کے حسین سانچے بخشے ہیں، وہ بھلا یہ کیوں چاہے کا کہ اس کی عطا کردہ عقل و خرد کی صلاحیتیں ان اقدار کے خلاف پڑیں، زندگی کے اس نقشے کی تغلیظ کریں، اور ربوبیت کے اس پہلو کو جھٹلانے کا باعث قرار پائیں کہ جس سے مقصود ہی یہ ہے کہ انسان کو اس کائنات میں اس کا صحیح صحیح مقام عطا کیا جائے اور ان تمام فکری و عقلی اور عملی خوبیوں سے مکمل طور سے نواز ا جائے جو اس کو خلافت الٰہیہ کی مسند بلند پر فائز کر نے میں ممدو معاون ہو سکتی ہیں، مذہب و عقل میں دوئی کی ایک ہی صورت ممکن ہے جو یہ ہے کہ ہم کائنات میں ثنویت (DUALISM) کے قائل ہو جائیں، اور اس بات کو مان لیں کہ مذہب ودین کے تقاضوں کی تکمیل و ارتقاء تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، اور عقل و خرد کی طرفہ طرازیوں کی تخلیق کا ذمہ کسی ایسی قوت نے لے رکھا ہے جس کا تعلق خیر کے بجائے شر سے ہے، تضاد اور نفی سے ہے اور اس قوت نے عقل و خرد کی جدت طرازیوں کو پید ا ہی اس غرض سے کیا ہے تا کہ دو نوں میں ہمیشہ ٹھنی رہے، اور کبھی بھی مصالحت اوریک جہتی قائم نہ ہو سکے ۔ لیکن اگر انسان ایک ہے، اس کی فطرت ایک ہے، اور اس پو ری کائنات میں ایک ہی خدا کی فر مانروائی اور حکومت کا سکہ رواں ہے، تب یہ ناممکن ہو جا تا ہے کہ ذہن و عقل میں تصادم و تضاد رو نما ہو یا کسی درجے میں بھی دو ئی پائی جائے ۔ کیو نکہ جب دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اصل اور جڑ ایک ہے تو اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان دونوں میں نہ صرف یہ کہ تضاد و تنا فر نہ ہو بلکہ اس کے بر عکس کامل ہم آہنگی اور اتحاد پا یا جائے، اور یہی وہ طرز فکر اور اسلوب نگاہ ہے جس کو قرآن حکیم نے عقل و ذہن کے بارہ میں اختیار کیا ہے ۔
مذہب اور عقل یا دین اور سائنس کے تجربات زندگی کے دو لاینفک پہلو ہیں، جن سے کسی بھی طرح ہم دامن کشاں نہیں رہ سکتے اس لیے کہ اگر ہم علم کے اس ذریعہ پر اعتماد نہیں کرتے ہیں جو ہمیں لاکھوں انبیاء کی وساطت سے پہنچا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس عظیم تہذیبی و روحانی ورثہ سے محرومی اختیار کر لیتے ہیں جس سے کہ کردار اور اخلاق سنورتے ہیں ۔ایمان و یقین کی دولت بے پایاں کی تعمیر حاصل ہو تی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کی وجہ سے ہمیں تگ و دو، اور جدو جہد کے لیے ایک متعین اور با معنیٰ نصب العین دستیاب ہو تا ہے۔ٹھیک اسی طرح اگر ہم عقل و خرد کے تقاضوں کو بیدار نہ رکھیں تحقیق و مشاہدہ سے کام نہ لیں، نئے نئے تجر بات و انکشافات سے بہرہ مند نہ ہوں اور اس بات کا اندازہ نہ کریں کہ ہمارے تجربات اور غور و فکر کس حد تک فطرت کے راز ہائے سر بستہ کو فاش کر سکتے ہیں تو اس سے جو نقصان پہنچے گا اس کا تحمل کب آسان ہے؟ اس سے ہماری شخصیت نا مکمل رہے گی یعنی اپنے ان مضمرات عقلی کے اظہار سے قاصر رہے گی جو زمان و مکان میں نئے نئے انقلابات کی تخلیق کرتے رہتے ہیں، اور تہذیب و تمدن کے دائرے سکڑ کر خشک ہو جائیں گے، فکر ٹھس اور مردہ ہوجائے گی، اور زندگی کے پورے نظام کو وہ تازہ اور ساز گار آب و ہوا میسر نہیں آسکے گی جس میں کسی زندہ و متحرک ثقافت کا نہال پھلتا پھو لتا اور پنپتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں گو یا ہمیں اگر بھر پور زندگی بسر کر نا ہے اور فکر و نظر کے وقائق سے لے کر قلب و روح کے لطائف تک ہر ہر شئے سے استفادہ کر نا ہے تو ضروری ہے کہ ہم ایسا مدرسہ فکر تسلیم کر یں جو دین و دنیا اور عقل و مذہب دونوں کی بر کات کا یکساں حامل ہو، اور خدا کا شکر ہے کہ ہمارا مدرسہ فکر اسلام اپنے دامن میں ان دونوں کو سمیٹے ہو ئے ہے۔ قرآن حکیم اس بات کی تصریح کر تا ہے کہ کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں ہو سکتے ۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم عقائد و تصورات میں ثنویت بر قرار نہیں رکھ سکتے یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے ہم کائنات، فطرت یا اپنے گردو پیش کے حالات کے بارہ میں ایک رائے قائم کریں اور علوم و فنون سے اخذ کر دہ نتائج کی بناء پر ہم جن تصورات و عقائد کو حق بجانب سمجھیں وہ دوسری نوعیت کے حامل ہوں ۔ اگر مذہب و دین اللہ کا پیغام ہے اور اس علم ازلی کی فیض رسانیوں کا نتیجہ یہ ہے جس میں ماضی ، حال اور مستقبل کے بارہ میں کسی لغزش یا کوتاہی کا امکان نہیں تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس سے اخذ کردہ تعلیمات کسی طرح بھی روح عصر کے منافی نہ ہوں یعنی کسی بھی دور میں علم و تجربہ کا کوئی بھی انکشاف اہل حق کے حلقوں میں اچھنبا نہ پیدا کر سکے ۔ بلکہ ہو نا یہ چاہیے کہ جب بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات سے کوئی نئی حقیقت فکر و نظر کے سامنے آئے ایسا معلوم ہو کہ اس میں کوئی انوکھا پن نہیں بلکہ اصولی حد تک جانی پہچانی سی حقیقت ہے ۔ ہاں یہ بات البتہ صحیح ہے کہ کبھی کبھی ان میں تصادم و تضاد محسوس ہو تا ہے اور ایسی شدت اختیار کر لیتا ہے کہ گویا یہ دونوں باہم حریف ہیں، جن میں فیصلہ کن لڑائی چھڑ گئی ہے اور نظر بہ ظاہر اب صرف یہی امکان باقی ہے کہ دونوں میں سے ایک زندہ رہے اور دوسرا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی شکست تسلیم کرلے ۔ جن لوگوں نے مغرب میں احیائے علوم کی تحریک کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ کلیسا اور سائنس کے مابین اس طرح کے متعدد موڑ آئے ہیں جن میں دونوں حریف خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آکھڑے ہو ئے ہیں ۔
لیکن تصادم کی یہ شکل عارضی ثابت ہو ئی ہے اور بعد کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اصل میں ان دو نوں میں تضاد غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور عموماً اس وقت محسوس ہو تا ہے جب یا تو مذہب و دین کی تعبیر صحیح اصولوں پر مبنی نہ ہو اور یا پھر سائنس اور علوم سے غیر سائنسی اور غیر علمی نتائج اخذ کیے جائیں ۔ اگر مذہب کی تعبیر و تشریح میں ان سائنسٹیفک اور علمی اصولوں کو مد نظر رکھا جا ئے کہ جن کی روشنی میں کسی بلند تر حقیقت کی صحیح معنوں میں تعیین ہو تی ہے اور سائنس سے نہ صرف وہی نتائج اخذ کیے جائیں جو آخری اور اٹل ہوں تو ناممکن ہے کہ دونوں میں ذرہ بھی اختلاف رو نما ہو ۔
علاوہ ازیں یہ تصادم اور تضاد بڑی حد تک ہماری جلد بازی اور بے صبری کا رہین منت بھی ہو تا ہے ۔ ہماری عادت یہ ہے کہ سائنس کے ہر نئے انکشاف پر شور مچا دیتے ہیں کہ بس اب مذہب و دین کی خیر نہیں ۔حالانکہ وہ انکشاف کسی حیثیت میں بھی آخری اور فیصلہ کن نہیں ہوتا ۔بلکہ اگلے انکشاف کی محض تمہید ہوتا ہے اور اگلا انکشاف اگر حرف آخر بھی ہو تب بھی اس سے اصول دین کا کچھ بھی نہیں بگڑتا ۔ بلکہ اس کے بر عکس ہو تا صرف یہ ہے کہ بعض جزئی اور تشریح طلب مسائل میں مذہب و دین کی تشریح و تعبیر کا انداز و اسلوب بدل جاتا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ لطیف اور زیادہ اونچا ہو جاتا ہے ۔ یہی نہیں زیادہ یقین افروز بھی ہو جا تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے مطالعہ کائنا ت پر بہت زور دیا ہے ۔ اور بار بار فکر و ذہن کو متو جہ کیا ہے کہ وہ اپنے گردو پیش پھیلی ہو ئی وسیع تر دنیا پر غور کرے۔ آسمان کو دیکھے زمین کو دیکھے ۔ اختلاف لیل و نہار کو ہدف تعقل ٹھہرائے ۔ ہواؤں کے دوش پر سوار ہو ۔سحاب و ابر کی فیض رسانیوں کے حدود کا جائزہ لے ۔ پہاڑوں کی استواری کو زیر بحث لائے ۔ اونٹ کو دیکھے اور فطرت کے ان عجائبات کو ملاحظہ کر ے جو اس کی تخلیق میں ودیعت کر دیے گئے ہیں ۔ فکر و نظر اور غور و تفحص کی یہ دعوت چو تھا نکتہ یا پہلو ہے جس کی بناء پر مسلمانوں میں علوم عقلیہ کے لیے طلب و جستجو کے داعیے بیدا ر ہوئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان صحرانور دوں نے محض اسلام کی بدولت تہذیب و تمدن کے بلند ترین مناروں کو چھو لیا ۔ اور طب، کیمیا، جغرافیہ، فلکیات، منطق، فلسفہ اور کلام میں اتنی ترقی کی کہ برسوں یورپ ان کی تحقیقات کو جویاں رہا ۔
مطالعہ و مشاہدہ کی اس دعوت میں دو باتیں خصوصیت سے قابل غور ہیں ۔ ایک یہ کہ قرآن حکیم نے جس فکرو تعمق کی دعوت دی وہ ارسطا طالیسی استخراجی فکر نہیں ہے کہ جو نتائج کے اعتبار سے بالکل عقیم اور بے ثمر ہے اور جس سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ۔ بلکہ فکر و تعمق کا مزاج استقرائی ہے جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جزئیات کے مطالعہ و تجر بہ سے کلیات اخذ کیے جائیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ راہ ٹھیٹھ سائنس کی راہ ہے اور اس میں نت نئے انکشافات کا بہر حال خطرہ مو جود ہے ۔لیکن اس کے باوجود قرآن حکیم کا اصرار ہے کہ تم اس نہج پر غور کرو اور اسی انداز سے سوچو ۔ اور فکر و نظر کی ضیاء افروزیوں کو عام کرو ۔ اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے خوب جانتا ہے کہ اس راہ کے خطرات کیا ہیں اور اس مطالعہ و تحقیق سے علمی دنیا میں کیا کیا انقلاب آنے والے ہیں ۔ اس کے ہو تے ساتے جب رب کائنات کا حکم ہے کہ مسلمان ذہنوں کو ٹھس نہ ہونے دیں ۔علم و تحقیق کی شمعوں کو روشن رکھیں اور تحقیق و تفحص کا پر چم چار دانگ عالم میں لہراتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم جن نظام حیات کا داعی ہے اس میں اور عقل کی تیز رفتاریوں میں کہیں تصادم و تناقض کا خطرہ پنہاں نہیں ۔
یہ ہے قرآن کا فلسفہ اور سائنس کی ترویج میں فکری حصہ ۔ تفصیل اورحوالہ کے لیے در ج ذیل آیات پر غور فرمائیے :
( فَاَقِمْ  وَجھک  لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَةَ اللَّھ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ) ((روم : 30))
“سو تم یک سو ہو کر رخ اس دین کی طرف رکھو اور اطاعت اس اسلوب کی کرو جو اس فطرت پر مبنی ہے کہ جس پر تمام لو گوں کو پیدا کیا گیا ہے ۔"
( یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء ُ وَ مَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْراً کَثِیْراً ) ((البقرة : 269))
“حکمت و دانش جسے چاہتے ہیں ارزانی فر ما دیتے ہیں اور جس کو حکمت و دانش سے نوازا گیا اسے بڑی چیز مل گئی ۔”
( قَدْ جَاءکُم بَصَآئِرُ مِن رَّبِّکُمْ ) ((الانعام : 104))
“بلا شبہ تمہارے پاس تمہارے پر وردگار کی طرف سے بصائر آچکے ہیں ۔”
( وَ مِنھُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَ فِیْ الآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ) ((البقرة : 201))
“اور ان میں کچھ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجیے اور آخرت میں بھی بہتری سے بہرہ مند کیجیے اور ہم کو آگ کے عذاب سے محفوظ رکھیے ۔”
(مَّا جَعَلَ اللَّھ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِھ) ((الاحزاب : 4))
“اللہ نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے ۔”
( أَفَلَمْ یَنظُرُوا ِلَی السَّمَاء  فَوْقَھمْ کَیْفَ بَنَیْنَاھا وَ زَیَّنَّاھا وَ مَا لَھا مِن فُرُوجٍ ۔ وَ الْأَرْضَ مَدَدْنَاھا وَ أَلْقَیْنَا فِیْھا رَوَاسِیَ وَ أَنبَتْنَا فِیْھا مِن کُلِّ زَوْجٍ بَھیْجٍ ۔ تَبْصِرَةً وَ ذِکْرَی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ ) ((ق : 6-8))
“کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کیونکر بنا یا ہے ۔ اور کیو نکر آراستہ کیا اور سجایا ہے ۔ اور اس میں کوئی رخنہ تک نہیں ۔ اور ہم نے زمین کو پھیلا یا اور بچھایا ۔ اور اس میں پہاڑوں کو جمایا اور اس میں ہرطرح کی خوش منظر چیزیں اگائیں اس لیے کہ اس کی طرف رجوع ہو نے والا ہر بندہ ان پر غور کرے اور عبرت پذیر ہو ۔”
( اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَ الأَرْضِ وَ اخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَ النَّھارِ وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَ مَا أَنزَلَ اللّھ مِنَ السَّمَاء ِ مِن مَّاء  فَأَحْیَا بِھ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِھا وَ بَثَّ فِیْھا مِن کُلِّ دَآبَّةٍ وَ تَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَیْنَ السَّمَاء  وَ الأَرْضِ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ((البقرة : 164))
“بلا شبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں ۔ اور یکے بعد دیگرے دن کے آنے میں ۔ اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں ، آدمیوں کے نفع کی چیزیں اور اسباب لے کر اور بارش کے پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بر سا یا ۔ پھر اس سے زمین کو زندہ کیا جب کہ یہ خشک ہو چکی تھی ۔ اور ہر قسم کے حیوانات اس میں پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور ابر میں جو آسمان اور زمین کے مابین مسخر ہے ۔ دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔”
غرض یہ ہے کہ مسلمانوں میں جوعلم و فن کی ترقی ہوئی اور کندی، رازی، ابن ماجہ، ابن سینا، فارابی اور ابن رشد و غزالی ایسے عظیم مفکرین پیدا ہوئے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یونان و ایران کے سرمایہ تہذیب و تمدن نے ان کے قلب و ذہن میں یکایک تبدیلی پیدا کردی تھی بلکہ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ وہ داخلی انقلاب تھا جس کو قرآن حکیم کی تعلیمات نے پیدا کیا اور وہ تڑپ اور لگن تھی جو اسلامی تعلیمات کے نتیجے میں خود بخود کاوش و جستجو کا باعث ہوئی ۔ ورنہ یہ وہی عرب تھے جو کافور کو نمک سمجھتے تھے اور چاندی کو سونے سے زیادہ قیمتی جانتے تھے ۔ جو طرح طرح کے اوہام کا شکار تھے ۔
خصوصی نوٹ :مولانا محمد حنیف ندوی (1908ء - 1987ء ) ماضیِ قریب کے فلسفی مزاج عالم و ادیب تھے ۔  "سائنس اور فلسفہ کی ترقی میں قرآنِ کریم کا حصہ" کے عنوان سے ان کا یہ مضمون ماہنامہ "المعارف" (لاہور) کی جون 1967ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوا تھا ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے قارئینِ "الواقعة" کی ضیافتِ علمی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔ (ادارہ الواقعۃ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے