پیر، 6 مئی، 2013

اسلام اور ہم

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

اسلام اور ہم

از قلم: مولانا حکیم عبد الخبیر جعفری صادق پوری

8 Islam aur Hum pdf @ alWaqiaMagzine
مولانا حکیم عبد الخبیر جعفری صادق پوری (1300ھ / 1833ء – 1393 ھ / 1973ء) اپنے عہد کے بالغ النظر عالم و رہنما تھے۔ ان کے خاندان نے تحریکِ آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ان کے دادا مولانا احمد اللّٰہ اور نانا مولانا عبد الرحیم کو انگریزوں نے کالے پانی کی سزا دی تھی۔ مولانا عبد الخبیر دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے اہم ترین مسلم زعما میں ہوتا ہے۔ “اسلام اور ہم“ ان کا تحریر کردہ ایک فکر انگیز کتابچہ ہے جو “مدرسہ اصلاح المسلمین“ پٹنہ سے 1355ھ میں شائع ہوا تھا۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر ”الواقعة“ میں اس کی اشاعت کی جارہی ہے۔ فاضل مولف نے بیشتر مقامات پر آیاتِ قرآنی کے ترجمے نہیں کیے تھے، بین القوسین اس کا ترجمہ کردیا گیا ہے، نیز آیات کی تخریج بھی کردی گئی ہے۔ (ادارہ الواقعۃ)
الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ صلّی اللّٰہ علیہ و اٰلہ و اصحابہ وسلم ۔ اما بعد ! بندہ ناچیز اللہ تعالیٰ سے داعی ہے کہ اپنے کلام پاک کا صحیح منشاء ہم لو گوں کو سمجھا دے اور دنیا سے آخرت تک کہ ہر معاملہ میں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)
مذہب کی ضرورت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا سے گئے ہو ئے چھ سو برس بھی نہیں گزرنے پائے تھے کہ ان کی امت میں منشاء خدا وندی کو سمجھنے والا اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والا کوئی بھی باقی نہ رہا جیسا کہ سلمان فارسی کی سوانح عمری سے معلوم ہوتا ہے اسی تاریکیِ محض کا نتیجہ تھاکہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم معبوث ہو ئے اور پھر منشاء خدا وندی کے سمجھنے کی صورت اور صراط مستقیم پر چلنے کا ذریعہ پیدا ہوا۔ یہ حقیر ناچیز جب اس واقعہ کی طرف تو جہ کرتا ہے تو دل میں نہایت خوف کا مضمون پیدا ہو تا ہے کہ ایک ہادی اور رہنما کے گزر جانے کے بعد اس امت کے عقائد و اعمال اور اخلاقی کیفیت کس قدر گر جاتی ہے، کہ اُس ہادی اور رہنما کے بتائے ہو ئے اعتقادات، اعمال اور اخلاق سے وہ کوسوں دور ہو جاتی ہے، بلکہ اُسے ان چیزوں سے کچھ واسطہ باقی نہیں رہتا۔

مذاہب اور ہم
یہی دنیا کا حال ہے اور جب دنیا کا ایسا ہی حال رہا ہے توآج جب کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو دنیا سے رخصت ہو ئے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، اہل بصیرت محسوس کر سکتے ہیں کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے اعتقادات، اعمال اور اخلاق کا حال کیا ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے لیے صرف ایک بات کا حتمی وعدہ فر مایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحَافِظُون ) (الحجر:9) (بیشک ہم نے اس ذکر (یعنی قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے۔) قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا اور اس کا اقرار دوست و دشمن سب کو ہے کہ تمام دنیا میں قرآن مجید کے نسخے یکساں ہیں اور قرآن وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے اقوال و افعال جس وضاحت کے ساتھ قلمبند کیے ہوئے دنیا میں مو جود ہیں ویسے کسی پیغمبر کے حالات منضبط نہیں ہیں۔ یہ بھی مسلمانوں کے لیے بڑی نعمت ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات کا خوف ہنوز قائم ہے، وہ یہ کہ آیا ہر مسلمان کلام اللہ کے صحیح منشاء اور سنن رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو سمجھے گا اور اس پر وہ عمل بھی کرے گا؟ چو نکہ ایسا وعدہ نہیں ہے اس لیے سخت سے سخت کوشش اور محنت کی ضرورت رہتی ہے کہ منشاء خدا وندی سمجھ میں آئے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق اللہ تعالیٰ عطا کرے۔

ہماری کمزریاں
ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ کسی چیز کی حلت یا حرمت اور کسی چیز کی بھلائی یا برائی دو شخص یا دو فریق کی طرف سے پیش ہو تی ہے تو دو نوں جانب سے قرآن مجید کی آیتیں پیش ہونا شروع ہوتی ہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ہی چیز کی حلت و حرمت دونوں ہی باتیں قرآن مجید سے نہیں نکل سکتیں، حلال حلال ہے اور حرام حرام ہے۔ یہ ممکن نہیں، کہ قرآن مجید ایک ہی چیز کو حلال بھی بتائے اور حرام بھی۔ اسی طرح سے کوئی ایک اعتقاد، کوئی ایک عمل، کو ئی ایک اخلاق قرآن مجید کی روح سے بھلا بھی ہو اور برا بھی نا ممکن محض ہے۔ صرف ایک واقعہ قابل عبرت پیش ہو تا ہے ابھی کچھ عرصہ ہوا کہ ایک صوبہ کی مجلس قا نون ساز میں کو ئی مسئلہ پیش تھا، جس میں مسلم، غیر مسلم ارکان نہیں بلکہ انتہائی بد قسمتی سے خود مسلم ارکان ہی باہم نبر آزما ہو گئے۔ ایک گروہ اس کو شرع کے مطابق کہہ رہا تھا اور دوسرا اس کو شرع کے خلاف بتا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک ہندو ممبر نے کہا کہ مہربانی کر کے آپ لو گ اپنی بات کے لیے قرآن مجید سے دلیل نہ دیں بلکہ جو کچھ عقلی دلیلیں آپ کے پاس ہوں اُن کو پیش کریں یوں تو ایسے واقعات بے شمار ہیں لیکن کیا مجلس قانون ساز کا مذکورہ بالا واقعہ مسلمانوں کی عبرت کے لیے کافی نہیں ہے؟ اس حقیر کے نزدیک صرف یہ ایک ہی مثال نہایت سخت تازیانہ عبرت ہے اور مسلمانوں کو حیا و شرم سے ڈوب مر نا چا ہیئے۔

اسلام دنیا و دین دونوں کو حاوی ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کے لیے دعا کرنے کی تعلیم یوں دی ہے کہ ہم ( رَبَّنَا اٰتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة ) (البقرة: 201) (اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی خیرعطا فرما اور آخرت میں بھی خیر عطا کر۔) کہا کریں اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے “لا رھبانیة فی الاسلام” (1) فر ما کر بتا دیا کہ دین دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی اور برائی بتاتا ہے۔ ایک کو اختیار کر نا اور ایک کو چھوڑ دینا اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت ( لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ) (الانعام: 59) (نہ کچھ تراور نہ کچھ خشک ہے مگر وہ کتاب مبین میں مندرج ہے۔) کا ایک نہایت مختصر مطلب یہ معلوم ہو تا ہے کہ انسان کے لیے خواہ دنیاوی ہو یا اُخروی کوئی نفع کی بات ہو یا نقصان کی سب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی باتیں ہیں وہ اس آیت کے مطلب کے منشاء کے مطابق نہیں ہیں، لو گوں نے جو کچھ اس کے متعلق لکھا ہے یا بولا کرتے ہیں وہ یا تو صرف موشگافیاں ہیں یا گمراہیاں ہیں۔

ایک اہم سبق
اب اس آیت کے مضمون کو مد نظر رکھا جا ئے کہ انسان کے لیے دنیا اور آخرت میں جو کچھ نفع اور نقصان کی باتیں ہیں سب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کر دیا ہے تو ایک کھلا نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کا من حیث جماعت کسی ایک چیز کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے اعتقادات اعمال اور اخلاق من حیث جماعت قرآن کے مطابق نہیں رہے اور اگر اس سے بالکلیہ اعراض نہیں تو بہت کافی حد تک انحراف ہو چکا ہے۔

قرآن کی افادی حیثیت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُم مَّوْعِظَة مِّن رَّبِّکُمْ وَ شِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَ ہُدًی وَ رَحْمَة لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) (یونس:57) (اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نصیحت، سینوں کے لیے شفا اور اہلِ ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔)اور فرماتا ہے ( نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاء وَ رَحْمَة لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ َلاَّ خَسَاراً ) (بنی اسرائیل: 82) (ہم قرآن میں سے جو اتارتے ہیں وہ ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے لیے یہ ان کے خسارے میں ہی اضافہ کرتی ہے۔) پھر ارشاد ہو تا ہے: ( قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا ہُدًی وَّ شِفَاء وَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ فِیْ آذَانِہِمْ وَقْر وَ ہُوَ عَلَیْْہِمْ عَمًیط أُوْلَئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیْدٍ ) (فصلت:44) (کہہ دیجئے ! یہ ان لوگوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے جو اس پر ایمان لائے، رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لارہے ہیں تو ان کے کانوں میں بہرا پن ہے اور ان پر حجاب ہے، یہی لوگ ہیں جنہیں دور کی جگہ سے پکارا جائے گا۔) ان آیا ت میں ہم قارئین کرام کی توجہ صرف لفظ شفاء کی طرف مبذو ل کراتے ہیں شفاء ایک ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت ہی قابلِ غور ہے اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ مو منوں کے لیے اس میں شفاء ہے یعنی یہ مرض سے نکال کر صحت کی طرف لے جا نے والی چیز ہے۔ اب قارئین کرام غور فرمائیں کہ صحت اور مرض، حیات اور موت یہ ایسی اصطلاحیں ہیں، جو قرآن مجید میں اکثر استعمال ہوئی ہیں سیاسی دنیا میں بھی ان کا استعمال عام ہے ۔یہاں تک کہ غیر مذہبی اور غیر سیاسی رنگ کی بول چال میں بھی یہ مستعمل ہیں اور طبی دنیا کی تو یہ خاص اصطلاحات ہیں پھر ہر قسم کی صحت اور مرض حیات اور موت کے متعلق شخصی اور اجتماعی دونوں شکلیں پیدا ہو سکتیں ہیں ایک شخص واحد کبھی صحیح ہے کبھی مریض کبھی زندہ ہے کبھی مردہ۔ بجنسہ اسی طرح پر قوم یا جماعت کبھی حالت صحت میں ہے، کبھی حالت مرض میں کبھی زندہ رہتی ہے کبھی مردہ ہو جاتی ہے اب آپ لوگ غور کریں کہ قرآن مجید میں شفاء کا لفظ جو استعمال ہوا ہے اس کے متعلق مفسرین کس طرف گئے ہیں۔ زیادہ طوالت کی طرف تو نہیں جا نا چا ہئیے، لیکن مفسرین کے بیانات کا خلاصہ اتنا معلوم ہو تا ہے کہ امراض قلب و امراض رو حانی یہاں تک کہ اخلاق کو بھی اس کے اندر داخل کر دیا گیا ہے۔ اب پھر خلاصہ یہی نکلا کہ اعتقادات اعمال اور اخلاق سب چیزوں کے امراض کی شفاء مفسرین قرآن مجید کے ذریعے سے سمجھتے ہیں تو کیا ہم لوگوں کو اعتقادات اعمال اور اخلاق کی طرف تو جہ کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں محسوس ہو سکے کہ امت محمدی اس وقت صحت کی حالت میں ہے، یا مرض کی حالت میں اور مدعیان اسلام حیات کی حالت میں ہیں یا موت کی حالت میں اور اگر صحیح یا زندہ ہیں تو کس جگہ کے مسلمان اور اگر بیمار یا مردہ ہیں تو کہاں کے مسلمان؟ حاصل کلام یہ ہے کہ جس حالت کو اللہ تعالیٰ صحت قرار دے وہی صحت ہے اور جس حالت کو اللہ تعالیٰ مرض بتا رہے ہیں وہی مرض ہے با قی اپنے اپنے خیالات کہ ہم صحیح اور زندہ ہیں، اس سے نہ ہم صحیح قرار پا سکتے ہیں اور نہ زندہ قرار دیے جا سکتے ہیں اپنے مُنہ میاں مٹھو بننے سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔

ایک مثال
جس طرح پر منطقی دلیل سے ایک انڈہ دونہیں قرار پا سکتا یعنی فی الحقیقت ایک انڈہ دو نہیں ہو سکتا جیسا کہ دہلی سے علم حاصل کرنے والے ایک روایتی عالم کا حال ہوا کہ منطق کے زور پر دو انڈوں کو تین تو ثابت کیا لیکن جب ان کے بوڑھے باپ نے ناراض ہو کر ایک انڈہ کھا لیا اور دوسرا اپنے ایک غیر عالم بیٹے کے ہا تھ میں دے دیا، اور اپنے عالم بیٹے سے کہا کہ تیسرے انڈے کا وجود جسے تم نے منطق سے ثابت کیا ہے وہ تم کھا جائو اس وقت ان کے منطق کا سا را نتیجہ یہ ہوا کہ ایک انڈہ تو ان کے باوا جان نے کھایا اور دوسرا ان کے دیہاتی بھا ئی نے کھایا، اور تیسرے کا وجود تو محض منطقی تھا، کچھ حقیقت تو تھی ہی نہیں اس لیے وہ عالم صاحب منہ تکتے رہ گئے۔

کیا ہماری خود فریبی کار گزار ہو سکتی ہے
اب پھر ہم لوگوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیئے کہ منطق کے زور پر ثابت کیا ہوا ایمان یا صحیح ثابت کیا ہوا اعتقاد اور اسی طرح پر منطقی زور سے صحیح ثابت کیے ہو ئے اعمال اور اخلاق ہم لوگوں کو واقعی صحیح و تندرست رکھ سکتے ہیں، صحت کے جو بہتر نتائج ہو تے ہیں، وہ ہم لوگوں کو مل سکتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر قرآن مجید کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، کہ صحت اور مرض کی کیا علامتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں، تاکہ ان علامتوں کے ذریعہ ہم اپنے حالات کو جانچیں۔

اللہ تعالیٰ فرما تا ہے ( وَ کَانَ حَقّاً عَلَیْْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (الروم:47) (اور ہم پر مومنین کی مدد لازم ہے۔) اس آیت کے تحت میں جناب والد ماجد حکیم مو لانا عبدالحکیم صاحب مرحوم مغفور (اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول کرے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرے) فرماتے ہیں “ایسے لو گوں کے متعلق کہ جن کا زمانہ ہندوستان میں ان کے معتقدوں کے نزدیک (اور ہم بھی اس میں شا مل ہیں) خیر القرون سمجھا جا تا ہے ان کا ایمان بھی ہر طرح درست نہ تھا نہیں تو اللہ تعالیٰ کا یہ فر مان جھوٹ ہو جاتا او ر نعوذ با للہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔” …….. یقینا تسلیم کر نا پڑے گا کہ یا تو ایمان ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اتنا ناقص کہ نصر المومنین کا وعدہ پورا نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ اس وقت کی حالت ہم لوگوں کی حالت سے زیادہ بہتر تھی، پھر بھی ان کی صحت کا معیار اللہ تعالیٰ کی نظر میں ویسا نہ تھا جیسا اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے استحقاق کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ پھر ( ِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ)( الرعد: ١١) (بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ لوگ خود کو نہ بدل لیں۔) کے تحت میں جناب والد مرحوم ارشاد فرما تے ہیں کہ “جس قوم کو اللہ تعالیٰ نے اقبال دے رکھا ہے تو وہ بھی کسی خوبی کے سبب سے ہے جو ان میں ہے پھر اس قوم کی طرف سے اقبال کی شان جب ہی بدلے گی کہ وہ قوم اپنی اچھی چال بدل کر بری چال کر ڈالے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس قوم کے اقبال کو چھین کر اس پر ادبار ڈال دے گا اور اسی طرح جس قوم پر اللہ تعالیٰ نے ادبار ڈالا ہے اس کی بد چالی کے سبب سے ڈالا ہے۔ پھر وہ کتنا ہی زور ماریں کہ ہماری بد اقبالی دور ہو کر ہم لو گوں میں اقبال آئے تو اللہ تعالیٰ ہر گز ان کی بد اقبالی کو دور ہو نے نہ دے گا اور ان پر اقبال کا وقت ہر گز نہ آنے دے گا جب تک کہ جس برائی کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بد اقبالی ڈالی ہے بر ائی سے دور نہ ہو لے۔“ ان دو نوں آیتوں کے تحت میں جو مضمون حضرت والد ماجد علیہ الر حمة نے ارشاد فر ما یا ہے، اس وسعت کو ذرا آپ لو گ غور کر یں اور اپنے منہ سے میاں مٹھو بننے کے خیال سے باز آجائیں اور ہم چنیں دیگرے نیست کے خیال کو دل سے نکال دیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس شعر کے مطلب کو اچھے طور پر سمجھیں۔

سنبھلو وگر نہ رہنا یہاں اس طرح پڑے گا؟
بھیل اور کونڈ جیسے گمنام و بے نشاں ہیں

افسوسناک صورت حال
حالا ت کا تغیر قوم کو مریض ثابت کررہا ہے، اور منطق والے منطق کے زور پر اس کی صحت ثابت کررہے ہیں کیا یہ علامتیں ہم لوگوں کی صحت حاصل کر نے کی ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو ان کوششوں کی طرف متوجہ کرکہ جس کا نتیجہ صحت کا حصول ہے، ہر وہ کام جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ انسان کے حق میں ہے ضرور ہی مفید ہے، اور وہ تمام چیزیں جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو روکا ہے وہ سب کی سب ہم لو گوں کے لیے مضر، ہم لوگوں کی صحت کو خراب کرنے والی اور ہم لو گوں کے اعمال اور اخلاق کو تباہ کر نے والی ہیں۔ جب ایسا ہے تو جو لوگ جس قدر اوامر و نواہی کی طرف متو جہ ہوں گے وہ اس کے نفع اور نقصان کے بھی مستحق ہوں گے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سور کے گو شت سے روکا ہے اور شراب سے اجتناب کر نے کو فرمایا ہے اور جو اشخاص یا جو قومیں سور دے بچتی اور شراب سے پر ہیز کر تی ہیں وہ اس کا فائدہ ضرور پائیں گی اور جو لوگ اس سے پر ہیز نہیں کرتے ہیں وہ اس کا نقصان ضرور اٹھائیں گی اس میں کسی قوم کی خصو صیت نہیں ہے، اسی طرح پر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے۔ اجتماعی زندگی بسر کرو تو جو قوم اجتماعی زندگی بسر کرے گی وہ اس کا فائدہ اٹھا ئے گی اور جو قوم اجتماعی زندگی بسر نہیں کر ے گی اس کو نقصان میں پڑنا ضروریات میں سے ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے۔ ( لَا تَفَرَّقُوْا ) تو جو قوم اُس پر عمل کرے گی وہ اس کا دنیاوی فائدہ کیوں نہ اٹھائے گی؟ اور کیا ہم چنیں دیگر نیست سمجھنے والے اور تفرق کی زندگی بسر کرنے والے کسی مجتمع رہنے والی قوم کو اس فائدے سے روک سکتے ہیں جو اس کے اجتماع کی وجہ سے پہنچتا ہے؟

سعادت دارین کا سر چشمہ
کلام اللہ ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ہر چیز کا نفع اور نقصان، انفرادی اور اجتماعی، دینوی اور اخروی سب چیزیں نہایت واضح طر یقے پر بیان کی گئی ہیں۔ اس میں نہایت اچھے طریقے پر کھول کھول کر بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تابعد اروں کی جماعت اخروی آرام اور چین تو حاصل کرے ہی گی، لیکن اس کے لیے دنیا میں بھی حیات طیبہ کا وعدہ ہے اور جس قوم کی دنیا حیات طیبہ کے ساتھ نہیں گزر رہی ہو اس کو نہایت غور کر نے کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تابعدار باقی ہے یا نہیں جن معاملات کو کھلے کھلے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سزا قرار دیا ہے ان کو ابتلا قرار دے کر آخرت کی بھلائی کی امیدیں لگا نا یہ محض شیطان کا دھوکا ہے۔

وراثت فی الارض کا مسئلہ
چند باتیں ایسی قرآن مجید سے پیش کی جاتی ہیں کہ جس کا تعلق محض دنیا سے ہے خصو صاً وراثت فی الارض کا معاملہ، اللہ تعالیٰ کا مقصد وراثت فی الارض سے کیا ہے؟

(1) وہ ارض الدنیا ہے یا ارض مابعد الدنیا؟ مثلاً قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے : ( وَ نُرِیْدُ أَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا فِیْ الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَہُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْنَ ) (القصص :5) (اور ہم یہ چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں کمزور رکھے گئے تھے، ان کو پیشوا بنائیں اوران کو وراثت بخشیں۔) یہاں پر اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کا ذکر کر رہا جو فرعون کے غلام تھے یعنی ان کے محکوم تھے۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ زمین میں جو قوم کمزور تھی ان کو ہم نے ائمہ بنایا یعنی صاحبِ حکومت بنایا، اور ان کو ہم نے وارث بنایا اور اس کی بعد کی آیت میں تمکین فی الارض کا وعدہ کیا یہ وراثت اور تمکین فی الارض یہ اسی ارض الدنیا کے لیے تھی، یا آخرت کے لیے؟ قابلِ غور چیز ہے۔

(2) اور اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے : ( وَ أَوْرَثَکُمْ أَرْضَہُمْ وَ دِیَارَہُمْ وَ أَمْوَالَہُمْ وَ أَرْضاً لَّمْ تَطَؤُوہَا وَ کَانَ اللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْراً ) (الاحزاب:27) (اور ان کی زمین، ان کے دیار اور ان کے اموال کا وارث تمہیں بنایا، اس کے علاوہ اور بھی زمین ہے جہاں تک تمہارے قدم ابھی نہیں پہنچے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔) اس میں اللہ تعالیٰ جنگ احزاب کے بعد مسلمانوں کا حال بیان کرتا ہے کہ ہم نے تم کو یعنی مسلمانوں کو کفار کی زمین، ان کے گھر اور ان کے مالوں کا وارث بنایا اور ایسی زمیں کا بھی کہ جہاں تم لوگ ابھی نہیں پہنچے ہو، یعنی کچھ زمین کے وارث بن چکے اور کچھ زمیں کی وراثت کا وعدہ ہوا، قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس آیت میں جس ارض، دیار اور اموال کی وراثت کا ذکر ہے وہ اسی دنیا میں ہے، یا مابعد الدنیا؟

(3) پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فر ما تا ہے : ( کَذَلِکَ وَ أَوْرَثْنَاہَا قَوْماً آخَرِیْنَ ) (الدخان : 28) (اسی طرح ہم نے ان کا وارث دوسری قوم کو بنایا۔) اوپر سے اللہ تعالیٰ نے جنت اور زورع اور مقام کریم کا ذکر کیا ہے، جو فرعون کی قوم کے ہاتھ میں تھے، اس کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ اس کا وارث دوسری قوم کو بنا یا یعنی جنت اور زروع اور مقام کریم جو فرعون کے قبضہ میں تھے اس کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا، یہ سب چیزیں اسی ارض الدنیا کی تھیں یا ارض ما بعد الدنیا کی تھیں، قابل غور بات ہے ؟

(4) ( أَوَلَمْ یَہْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُونَ الأَرْضَ مِن بَعْدِ أَہْلِہَا أَن لَّوْ نَشَاء أَصَبْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَ نَطْبَعُ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَہُمْ لاَ یَسْمَعُونَ) (الاعراف : 100) (کیا انہیں سبق نہیں ملا جو اگلے باشندوں کے بعد زمین کے وارث بنے ہیں اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں آ پکڑیں اور ان کے دلوں پر مہر لگادیں تو وہ سننے سے رہ جائیں ۔) یہاں پر اللہ تعالیٰ ارشاد فر ما تا ہے کہ ایک بد چلن قوم کو تباہ کر نے کے بعد اس بد چلن قوم کی زمین کی وراثت جس قوم کو ہم نے دی ہے تو کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتی کہ اس وقت زمین کی وراثت حاصل ہو نے کے بعد ان کی بد چلنی کی وجہ سے یہ بھی زمین کی وراثت سے محروم ہو نگے ، یہاں پر اللہ تعالیٰ جس وراثت ارض کا حاصل ہو نا اور بد چلنی کی وجہ سے چھن جانے کا ڈراوا دے رہا ہے ، کیا وہ ارض الد نیا ہے یا ارض الآخر ہ؟

(5) پھر اسی سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے :
( قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ أَن یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِیْ الأَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْْفَ تَعْمَلُونَ) (الاعراف:129) (اس نے کہا : توقع ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرے گا اور تمہیں زمین کی خلافت دے گا کہ دیکھے کہ تم کیا کرتے ہو ؟) یہاں پر موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرئیل جو اپنی مصیبتوں سے گھبرائی ہو ئی تھی ، اور فرعون کے ظلم سے پر یشان تھی اللہ تعالیٰ مو سیٰ علیہ السلام کی زبانی ان کو تسکین دے رہا ہے کہ تمہارے دشمن یعنی فرعون کی قوم تباہ ہوجا ئے گی اور زمین کی خلافت تم کو ملے گی پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ تم لوگ اس خلافت ارضی یعنی زمین کی حکومت کو کس طرح چلاتے ہو قارئین کرام تو جہ فر مائیں کہ خلافت ارضی سے مطلب یہاں پر اسی ارض الد نیا کی حکومت ہے کو ئی اور چیز اور پھر اس کے چلانے کی صلاحیت کی جانچ کا معاملہ وہ اسی دارالعمل کا معاملہ ہے یا دارالجزا کا ؟

(6) اللہ تعالیٰ ارشاد فر ما تا ہے : ( ثُمَّ جَعَلْنَاکُمْ خَلاَئِفَ فِیْ الأَرْضِ مِن بَعْدِہِم لِنَنظُرَ کَیْْفَ تَعْمَلُونَ) (یونس:14) (پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین کی خلافت دی تاکہ دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟۔) یہاں پر اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار بندوں کی جماعت کو فرماتا ہے کہ نافرمان بندوں کی زمین کا خلیفہ ہم نے تم کو بنایا ۔ اس واسطے کہ تم خلافت فی الارض کس طرح چلا سکتے ہو ۔ یہ ایک کھلی بات ہے کہ نالائق قوم کی حکومت کو مٹا کر ایک لائق قوم کے ہاتھ میں حکومت کے عطیے کا ذکر ہے اور اسی کے ساتھ اس بات کو بھی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ خلافت فی الارض کو چلانے کو بھی دیکھتا رہے گا ۔جب تک تمہارے اندر اس کی لیاقت باقی رہے گی اسی وقت تک تم خلیفة الارض یعنی حکومت کے مستحق ہو گے جس وقت یہ لیاقت ختم ہو ئی اسی وقت سے محروم کر دیے جا ئو گے ۔ پھر قارئین کرام تو جہ کریں کہ اس آیت میں جو خلافت فی الارض کا ذکر ہے یعنی حکومت کا وہ اسی ارض الدنیا کا معاملہ ہے یا کوئی اور؟

چند روشن حقیقتیں
میرے بزرگو ! دو ستو! عزیزو! ان چھ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فر ما یا ہے اس کو پھر نمبر وار آپ لوگ ذہن نشین کر لیں نمبر ایک میں امامت اور تمکین فی الارض کا جو معاملہ پیش ہو ا ہے وہ کہاں کا ہے ؟ اور نمبر دو میں ارض ، دیار اور اموال کی وراثت کا معاملہ جو پیش ہوا ہے وہ کہاں کا ہے؟ اور نمبر تین میں جس جنت اور مقام کریم کا ذکر آیا ہے وہ کو ئی حقیقت ہے یا خیالی باتیں ہیں ، اگر حقیقت ہے تو اسی دنیا کی ہے یا دنیا کے بعد کی ؟ نمبر چار میںصاف طور پر اللہ تعالیٰ فر ما رہا ہے کہ بد چلن قوم زمین کی وارث نہیں رہتی جب اس کی بد چلنی کا پیمانہ ایک خاص انداز تک پہنچتا ہے تو بد چلن قوم اس نعمت سے محروم کر دی جا تی ہے اور اس کی جگہ نیک چلن قوم لیتی ہے اور یہاں پر بد چلنی اور نیک چلنی کا کیا مطلب ہے ؟ نمبر پانچ میں فرعون اور فرعون کی قوم کی اپنی سر کشی کے باعث حکومت سے محرومی اور بنی اسرائیل کا جو اس وقت کمزور تھے اپنی نیک چلنی کی وجہ سے اس زمین میں اسی جگہ پر آنے کا تذکرہ ہے ؟ نمبر چھ میں ایک نالائق قوم کو مٹاکر ایک لائق قوم کے ہاتھ میں حکومت کے عطیے کا ذکر ہے اب ہم لو گ ذرا سو چیں کہ جتنی باتوں کا ذکر ہے اور جس ارض کا ذکر ہے اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے فر ما یا ہے وہ کیا یہی ارض الدنیا نہیں ہے اورقوم کی لیاقت یا عدم لیاقت کے لیے تھرما میٹر کا کا م نہیں دیتا ہے ؟

مذکورہ با لا سب آیتوں کے مضامین کو مد نظر رکھیے اور اس کے بعد ایک آیت کو اور ملاحظہ کیجئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ( وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ ) (الانبیاء :105) (اور بلاشبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے ۔ ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ ہم ارض کا وارث صالحون کو بنا تے ہیں ۔یہاں پر ارض سے کیا مطلب ہے اور صالحون سے منشاء خدا وندی کیا ہے ؟

ایک نکتہ لطیف
مذکورہ بالا چھ آیتوں کے مضامین کو مد نظر رکھ کر اگر مطلب لیا جا ئے کہ الارض سے مطلب ارض الدنیا ہے ، اور صالحوں سے مطلب صرف ا ن کی اتنی نیک نیک چلنی کہ جس سے دنیا کا انتظام حسن و خوبی کے ساتھ چلایا جا سکے بس صرف اتنا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ، اسی کے ساتھ ایک کھلا نتیجہ یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر ی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے ماننے والے اس کلیہ سے مستثنےٰ نہیں ۔ یہاں معاملہ صرف زمین کے انتظام کا ہے زمین کے انظام کو چلانے کی صلاحیت جس وقت امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے اندر ہو تو غیر ممکن ہے کہ ایک پڑوسی قوم کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ زمین کے انتظام کو چلانے کی باگ ڈور رہنے دے جو نہ تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو رسول مانتی ہے اور نہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا قانون مانتی ہو ! کاش قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا قانون ماننے والی قوم اس بات پر غور کر تی کہ جہاں سارا قانون اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہو زمین کی حکومت چلانے کا بھی بیان کیا ہے اور اس بات پر مسلمان غور کریں کہ جہاں تھوڑا بہت قانون خدا وندی پر عمل ہو رہا ہے وہاں زمین کی وراثت کے حصول کا قا نون اور حصول کے بعد اس کے قائم رکھنے کا قانون کہاں تک مسلمانوں میں رائج ہے ؟

غلط فہمی کا ازالہ
بہر کیف کلام کو طول کر نا منظور نہیں ۔ ایک مقولہ مشہورہے کہ حرکت میں بر کت ہے مگر میری ناقص رائے ہے کہ ہر حرکت میں بر کت نہیں ہو تی ہے بلکہ حر کت اگر صحیح ہو اور نصب العین بھی صحیح ہو ، تب بر کت ہو تی ہے اس کے متعلق قرآن مجید کی دو آیتیں پیش ہو تی ہیں پہلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے : ( یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللَّہُ مِمَّا قَالُوا ) (الاحزاب :69) (اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح مت ہوجائو جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی ، پس اللہ نے انہیں بری کیا اس بات سے جو وہ کہتے تھے ۔) کیا یہ قصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو فر ما یا ہے کہ تم ویسے نہ ہو جائو کہ جن لو گوں نے مو سیٰ علیہ السلام کو ایذا دیا تھا آیا اس وقت بھی ہمارے لیے اس آیت کے اندر کو ئی نصیحت ہے اور اصلاح اعمال کا ذریعہ ہے ؟ دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فر ما ئی ہے وہ یہ ہے کہ ( لَا یَسْخَرْ قَوم مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَ لَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَ لَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَ لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الِْیْمَانِ وَ مَن لَّمْ یَتُبْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ ۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ ِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ ِثْم وَ لَا تَجَسَّسُوا وَ لَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوہُ وَ اتَّقُوا اللَّہَ ِنَّ اللَّہَ تَوَّاب رَّحِیْم ) (الحجرات: 11- 12) (نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب کہ وہ ان سے بہتر نکلیں ۔ اور نہ اپنوں کو عیب لگائو اور نہ آپس میں برے القابات استعمال کرو ، ایمان کے بعد گناہ کا تو نام ہی برا ہے ۔ اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظالموں میں سے ہوں گے ۔ اے لوگو ! کثرت گمان سے گریز کرو ، بے شک بعض گمان گناہ ہیں ۔ اور تجسس نہ کرو اور نہ تم میں سے بعض ، بعض کی غیبت کریں ۔ کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟پس تم اس سے کراہت کروگے ۔ اور اللہ سے ڈرو ، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔) اللہ تعالیٰ نے فر ما یا اے ایمان والو کو ئی قوم کسی قوم کو ہنسے نہیں کیو نکہ بہت ممکن ہے کہ ہنسنے والی قوم سے ہنسی جانے والی زیادہ بہتر ہو ، اور اسی طرح عورتیں دوسری عورتوں پر نہ ہنسیں کیونکہ جن کی ہنسی اڑائی جاتی ہے بخوبی ممکن ہے کہ وہ ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں ۔ اپنے لو گوںکو عیب نہ لگائو ان کو برا لقب نہ دو ایمان لانے کے بعد ایسی حر کت کر نا فسق ہے اور جو شخص کہ تو بہ نہ کرے تو اس کا شمار ظالموں میں ہے اے ایمان والو بہیترے گمان سے بچا کرو کیو نکہ گمان گناہ کے در جے کی چیز ہے ، اور تجسس میں نہ لگے رہا کرو اور کسی کو پیٹھ پیچھے برا نہ کہا کرو وغیرہ وغیرہ ۔

کیا یہ اخیر دو نوں آیتوں کے مضامین ایک خوش چلن قوم ، صلاحیت رکھنے والی قوم چڑھنے والی قوم اور ہر قسم کے فوز عظیم کو حاصل کرنے والی قوم کے لیے ضروری نہیں ہیں ؟ آخر کلام یہ ہے کہ ( أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَ تَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ ) (البقرة : 85) (کیا تم کتاب کے بعض حصوں پرایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو ؟) کیا قرآن مجید کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض باتوں سے انکار کرتے ہو؟

خاتمہ سخن
یہ ایک مختصر گزارش ہے جو ہم آپ لو گوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، اس کے مضامین کو واضح کر نے کے لیے اور طوالت بھی کی جاسکتی ہے ، مگر اس وقت اسی پر بس کر تے ہیں یار زندہ صحبت باقی ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے