اتوار، 12 مئی، 2013

یوم الواقعہ. 21 دسمبر 2012ء کے بعد--ایک جائزہ

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

یوم الواقعہ. 21 دسمبر 2012ء کے بعد--ایک جائزہ


ابو عمار محمد سلیم PDF DOWNLOAD LINK @ AlWaqiaMagzine

21 دسمبر 2012ء کا دن آیا اور گزر گیا۔ اس دن کے حوالے سے دنیا کے خاتمے کا جو شور اور ہنگامہ تھا وہ دن گزرنے کے بعد دم توڑ گیا۔ الحمد للہ کہ عالم اسلام میں اس دن کے حوالے سے کوئی خلفشار پیدا نہیں ہوا۔ دنیا کے بیشتر سنجیدہ طبقوں نے بھی اس دن کو کائنات یا نظام شمسی کے خاتمے کے دن کے طور پرجان کر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ کچھ علاقہ کے لوگوں نے البتہ مختلف النوع حرکات کا مظاہرہ کیا۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش پر نظر رکھتے ہیں اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے ممکنہ نقصانات کے ازالے کا بندوبست کرتے ہیں انہوں نے نظام کائنات میں تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی زمینی تباہیوں کے پیش نظر اپنے آپ کو تیار کیا اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے زمین دوز پناہ گاہیں بھی تیار کیں اور کھانے پینے کی ڈھیروں چیزوں کا انبار بھی اکٹھا کر لیا۔مگر وہ لوگ جو ایمانی تذبذب کا شکار تھے انہوں نے دنیا کے خاتمے کی ان افواہوں پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ صبح سے شام تک رونے دھونے کا عمل جاری رکھا ۔ کئی دن قبل سے شہروں کو چھوڑ کر ویرانوں میں جا بیٹھے اور بعض لوگوں نے تو قیامت کی اذیت سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر خودکشی تک کر لی ۔ اس پورے ڈرامے کے دوران ایک چالاک طبقہ وہ بھی تھا جس نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور دونوں ہاتھوں سے خوب کاروبار کیا اور بڑی دولت سمیٹی۔


ہم جانتے ہیں کہ شمالی امریکہ کی اِنکا اور مایا تہذیب اپنے وقت کی بڑی ترقی یافتہ اور مہذب تہذیبیں تھیں جو آج کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔سائنسی اور فلکی علوم میں انہیں بڑی دسترس تھی۔ روز و سال اور اجرام فلکی کے حساب کتاب کو جاننے اور ان کی چالوں کے بارے میں تفصیلات کی خاطر انہوں نے ایک کیلنڈر بھی بنا رکھا تھا۔ ان میں مایا کے کیلنڈر کو لوگوں نے بڑی تحقیق اور ان کی دریافت شدہ تختیوں اور لکھائی کے پڑھنے کے بعد بڑی تفصیل سے سمجھ لیا ہے۔ان کی تحریروں کے مطابق ان کا خیال تھا کہ یہ کائنات بڑے بڑے ادوار سے گزرتی ہے۔ جب سے کائنات بنی ہے ایک دور سے گزرنے کے بعد اس دور کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ایک نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔ان کے حساب سے ہر دور ہزاروں سال پر محیط ہوتا ہے۔ ان جیسے خیالات کا اظہار دنیا کی دوسری قدیم تہذیبوں مثلاً ہندو مصری اور چینی علاقوں میں بھی پایاجاتا ہے۔ مایا کیلنڈر کے حساب سے موجودہ دور آج کے رائج کیلنڈر کے مطابق 11 اگست 3114 ق م میں شروع ہوا تھا وہ 21 دسمبر 2012ء میں ختم ہو رہا تھا۔ اس دن کے بعد کسی دوسرے دور کا کوئی تذکرہ موجود نہ ہونے کی وجہ اس خاموشی کو یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ دنیا کا یا کائنات کا اختتامی دن ہوگا۔ یہ ایک صریح غلطی اس لحاظ سے تھی کہ مایا کی دوسری تحریروں میں یہ بھی لکھا موجود ہے کہ جب ایک دور ختم ہوتا ہے تو اس کے کامیاب اختتام پر شکر گزاری اور خوشی کے جشن منائے جاتے ہیں۔ انسانیت ایک دور سے ایک اور بہتر دور کی طرف رواں دواں ہوتی ہے۔ مگر اس تحریر کو لوگوں نے کسی حساب میں نہیں رکھا اور اس دن کو قیامت کا دن تصور کر لیا اور دنیا کی تباہی کا انتظار کرنے لگے۔بیشتر سائنس دانوں اور ماہرین علوم فلکیات نے اپنا حساب لگایا اور اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ فی الوقت نظام کائنات میں ایسی تبدیلی نہیں ہوئی یا تبدیلی پیش آنے کے ذرائع بھی نظر نہیں آرہے ہیں اس لیے اس قیامت کا نہ تو کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی امکان ہے۔ بغیر کسی سبب اور محدث کے اتنا بڑا حادثہ رونما ہوجائے جو پوری کائنات کو تباہ کردے یا کم از کم کرہ ارض یا نظام شمسی کو تلپٹ کردے ، ممکن نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت سے تماشہ گروں نے بڑے شدومد سے ایک ایسے کرہ ارض  سے بھی بڑے سیارے کا پتہ دیا جس کا تعلق تو کسی اور نظام شمسی سے تھا مگر وہ بڑھ رہا ہے زمین کی طرف۔ اس کا نام انہوں نے Nibiru یا Planet-X بتایا۔ کچھ شعبدہ  بازوں نے اس کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے ویڈیو اور ڈاکومینٹری بھی بنا ڈالی اور سوشل میڈیا پر خوب خوب اس کو اچھال کر کم پڑھے لکھے اور ڈانواں ڈول ایمان والوں کو حیران و پریشان کیے رکھا۔ انہوں نے لوگوں تک یہ خبر پہنچائی کہ 21 دسمبر کو یہ سیارہ زمین سے ٹکرا جائے گا اور اس کے ٹکرے ٹکرے کردے گا۔ سراسیمگی پھیلنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ لوگوں نے ان خبروں کے ڈانڈے نہ صرف مایا کیلنڈر سے ملائے بلکہ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات اور آسمانی صحیفوں سے ملنے والی اطلاعات کو ملا کر ایک ایسی ہنڈیا پکالی کہ زمین کے خاتمے کا دن اور تاریخ بھی مقرر کر لی۔

دنیا کے تقریباً تمام مذاہب اور بالخصوص آسمانی مذاہب میں قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا تصور موجود ہے۔ اس خبر کوحضرت انسان کو دینے کا بنیادی مقصد انسان کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اپنے رب ، اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے کھڑا ہوگا اور اپنی دنیاوی زندگی کے کل اعمال کا حساب دے گا۔ قیامت کے اطلاع دینے کا یہی مقصد ہے کہ انسان اپنے آپ کو فانی سمجھے اور دنیا میں نیک اعمال کرے تاکہ آخرت کی سرخروئی حاصل ہو۔قیامت کی آمد سے قبل اس کی کچھ نشانیاں بتا دی گئی ہیں مگر اس کا اصل وقت تو صرف اللہ رب العالمین کو ہی معلوم ہے ۔ انسانوں کے لیے قیامت تو اچانک ہی واقع ہوگی۔ اس سلسلہ میں پچھلے دنوں ہم نے جو سراسیمگی دیکھی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کے ایمان میں کس قدر کمی واقع ہوگئی ہے۔اس بات کا یقین تو ہے کہ انفرادی طور پر ہر ایک کو مرنا ہے اور اس کی زندگی کا ایک دن خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ یقین اس لیے بھی ہے کہ اس کا بہ چشم خود تقریباً ہر روز مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ سینہ بہ سینہ آنے والی روایات کے تحت اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں اس پوری کائنات کے خاتمہ کا بھی ایک تصور موجود ہے اسی لیے اس کے آنے کا انتظار بھی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تباہی کا خطرہ آج سے صدیوں پہلے بلکہ قبل مسیح کے دور سے لوگوں کو پریشان کرتا رہا ہے۔ ہر کچھ عرصہ کے بعد کسی نہ کسی بہانے یہ افواہ اڑتی رہی ہے کہ فلاں دن یا فلاں تاریخ کو قیامت برپا ہوجائے گی۔ گو کہ اس قسم کی پیش گوئیوں کی فہرست بہت طویل ہے مگر اس  میں کی چیدہ چیدہ پیش گوئیوں کا جائزہ لیتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ کس نے اور کب ایسی افواہ اڑائی۔
1۔ مستند تاریخ کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ یونانیوں نے یہ عقیدہ گڑھا کہ روم شہر کے آباد ہونے کی تاریخ کے 120 برس کے بعد یعنی 634 ق م میں قیامت آجائے گی۔
2۔ جب یہ تاریخ خیریت سے گزر گئی تو بعض رومیوں نے دوبارہ تقریباً تین سو برس کے بعد یہ افواہ اڑائی کہ 389 ق م میں دنیا تباہ ہوجائے گی۔
3۔ کچھ عیسائی علماء نے یہ خبر دنیا کو دی کہ 375 سے 400 سنہ عیسوی کے دوران دجال پیدا ہو چکا ہے اور دنیا 400ء میں یقینا تباہ ہوجائے گی۔
4۔ رومی اور عیسائی مذہبی شخصیات کے گٹھ جوڑ کے بعد یہ متفقہ فیصلہ ہوا کہ 500ء دنیا کا آخری سال ہوگا۔
5۔ جب یہ قیامت نہیں آئی تو عیسائی علماء پھر مل کر بیٹھے اور انہوں نے حساب لگایا کہ انجیل کے بعض حوالوں سے قیامت 800ء میں یقینی ہے۔
6۔ پوپ سلوسٹر دوئم بشمول دیگر عیسائی علماء کے ایک گروہ نے یہ اعلان کیا کہ جب عیسائیت کا ہزار سال پورا ہوگا تو قیامت کا دن آجائے گا۔ چونکہ اس اعلان میں پوپ کی شمولیت بھی تھی اس لیے عیسائی دنیا میں بڑا ہنگامہ ہوا۔ بڑی لوٹ کھسوٹ مچی اور بڑی تعداد میں لوگوں نے یروشلم کی طرف ہجرت کی کہ وہ قیامت کے دن اس مقدس شہر میں موجود رہیں۔ مگر 1000ء کا یہ وقت بھی بخیرو خوبی گزر گیا۔
7۔ اب عیسائی علماء پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ فیصلہ کیا کہ پچھلا حساب ٹھیک نہیں تھا دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش نہیں بلکہ مصلوب ہونے کے واقعہ کے ایک ہزار سال بعد قیامت آئے گی۔ یوں اب نیا سال 1033ء مقرر ہوا۔مگر یہ بھی بلا کسی تباہی کے گزر گیا۔
8۔ عیسائی مذہبی دنیا سے ایک اور اعلان ہوا اور وقت کے پوپ اننوسینٹ سوئم نے یہ اعلان کر دیا کہ اسلام کے آنے کے 666 سال کے بعد قیامت آئے گی اور یوں قیامت کے وقوع پذیر ہونے کی نئی تاریخ 1284ء قرار پائی۔
9۔ ٹامس منظر نامی ایک شخص نے جو ایک نئے عیسائی فرقہ کا بانی تھا ، اعلان کیا کہ اس کے حساب کے مطابق 1525ء میں دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔حکومت وقت نے اس کے خلاف کارروائی کی اور اس کے پیروکاروں سمیت اس کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
10۔ 1533ء میں ایک ریاضی دان نے حساب لگایا کہ اسی سال 19 ١کتوبر کو اللہ میاں حساب کتاب کا دن قائم کردیں گے۔
11۔ لندن کے ماہرین فلکیات نے ستاروں کی چال کا حساب کتاب کرکے یہ دعویٰ کیا کہ یکم فروری 1624ء میں دنیا کی تباہی یقینی ہے۔
12۔ ہمارے آپ کے جانے پہچانے کولمبس صاحب نے نئی دنیا کی دریافت کے ساتھ 1658ء میں قیامت برپا ہونے اوردنیا کی تباہی کا شوشہ بھی چھوڑا۔
13۔ مشہور یہودی عالم سباتا ژیوی جس نے حضرت عیسیٰ ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا پہلے 1648ء کو قیامت کا سال قرار دیا اور پھر جب یہ پیش گوئی ناکام ہوئی تو اس نے بغیر کسی شرمندگی اور ہچکچاہٹ کے اس کو تبدیل کرکے نئی تاریخ 1666ء قرار دے دی۔
14۔ 1806ء میں انگلستان میں میری بیٹمین کی مرغی نے انڈے دئیے تو اس پر لکھا ہوتا تھا کہThe Christ is coming  یعنی “ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لارہے ہیں۔ “ اس واقعہ کو بڑی شہرت ہوئی اور لوگ مرغی اور انڈے کو دیکھنے کو ٹوٹ پڑے۔ بعد میں پتہ لگا کہ میری بیٹمین نے فراڈ کیا تھا اور انڈے پر یہ عبارت لکھ کر واپس مرغی کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا تھا۔
15۔ محترمہ جین ڈکسن جنہوں نے صدر کینیڈی کے قتل کی پیش گوئی کرکے بڑی شہرت حاصل کی تھی، نے اعلان کیا کہ 4 فروری 1962 ء قیامت کا دن ہے۔
16۔ لوئی فرح خان کا نام تو ابھی ذہنوں میں موجود ہوگا۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے امریکہ میں ملین مارچ کا اہتمام کیا تھا انہوں نے 1999ء میں ہونے والی خلیجی جنگ کو ملحمة الکبریٰ قرار دے کر اس کو دنیا کے خاتمہ کی جنگ قرار دیا۔
17۔ ناسٹرو ڈامس جس کی بے تکی شاعری میں سے لوگ دنیاوی معاملات کی پیش گوئیاں ڈھونڈنکالتے ہیں،اس کی شاعری سے یہ پتہ چلا یا کہ قیامت جولائی 1999ء میں آئے گی۔
18۔ مشہور عیسائی مبلغ جیری فال ویل نے یکم جنوری 2000ء کو دنیا کا آخری سال قرار دیا۔

یہاں تک تو ہم نے آپ کو ان پیش گوئیوں کا حال بتا یا جو ماضی کے بڑے سنجیدہ طبقوں نے دنیا کے خاتمے کے سلسلے میں کیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے  بلکہ صرف چند ایک کو اٹھا کر نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ درحقیقت ہر پانچ دس سال کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور قیامت کے آمد کی تاریخ بتاتے رہے ہیں۔ ہر دفعہ کی ناکامی کے باوجود بھی نہ تو پیش گوئی کرنے والے مستقبل کے بارے میں رائے زنی سے بعض آئے اور نہ لوگوں نے کبھی ان کو غلط سمجھا۔ ہر نئی اطلاع پر لوگوں کے دل کانپ اٹھے اور لگے قیامت کا انتظار کرنے۔ یہ بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ بہت سارے لوگوں کی طرف سے مزید پیش گوئیاں موجود ہیں جو 21 دسمبر 2012ء کے بعد کی ہیں۔ آئیے ان میں سے چند ایک کا جائزہ لیں:

1۔ جین ڈکسن کی پچھلی پیش گوئی ناکام ہوئی تو انہوں نے نئے سرے سے حساب لگا یا اور بتا یا کہ 2020ء اور 2037ء کے درمیان قیامت واقع ہوگی۔
2۔ سید نورسی جو ایک مسلم عالم ہیں اور چھ ہزار صفحوں پر مشتمل قران مجید کی تفسیر بھی لکھ چکے ہیں نے احادیث کی روشنی میں حساب لگا کر بتایا ہے کہ 2129ء میں قیامت کے برپا ہونے کا امکان ہے۔
3۔ جناب راشد خلیفہ صاحب قرآن میں تحقیق کرکے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ 2280ء میں قیامت آجائے گی۔
4۔ موجودہ دور کے ماہرین فلکیات نے کائنات کے پھیلاؤ اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ہمارا سورج بڑی تیزی سے حرارت خارج کر رہا ہے اور وہ رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کا حجم بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا کہ وہ اتنا بڑا ہوجائے گا کہ پھیل کر پورے نظام شمسی پرچھا جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں نظام شمسی کا درجہ حرارت اتنا بڑھ جائے گا کہ زمین پر زندگی کا قائم رہنا ممکن نہیں ہوگا اور اس طرح زمین کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر ان کے حساب کے مطابق یہ حادثہ آج سے 5 اَرب سال کے بعد رونما ہوگا۔مگر زمین اس سے بہت پہلے اجڑ جائے گی۔

قیامت کا اسلامی نقطہ نظر
اوپر ہم نے دیکھا کہ مختلف اوقات میں لوگوں نے قیامت کے آمد کی تاریخ اپنی سوچ اور اپنے عقیدے کے مطابق لگائی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ان تمام پیش گوئی میں مسلمانوں کی طرف سے شمولیت تقریباً برائے نام ہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم مسلمانوں کو بہت واضح ہدایات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ان کے قرآن مجید میں بھی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے بیان کردہ احادیث سے بھی ملتی ہے کہ قیامت کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ اس کا علم دنیا میں کسی کو بھی نہیں ہے سوائے اللہ رب العزت کی ذات کے۔ سورة لقمان میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ (  اِنَّ اللّٰھ عِندَہ عِلمُ السّاَعَةِ ) یعنی اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور پھر یہ اعلان فرمایا کہ   ( یَسْئَلُو نَکَ عَنِ السّاَعَةِ اَیّاَنَ مُرْ سٰھاَ قُلْ اِنّمَا عِلْمُھاَ عِنْدَ رَبِّی لَا یُجَلِّیْھاَ لِوَقْتِھاَ اِلّا ھُوَ )جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے؟  کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہی ہے۔"  (سورة الاعراف) ۔ پھر مزید سورة الاحزاب میں یوں فرمایا کہ ( یَسْئَلُو نَکَ النّاَسُ عَنِ السّاَعَةِ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَاللّٰھ وَ مَا یُدْر یکَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَکُونُ قَریباً )  ترجمہ یوں ہوگا کہ "لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کب آئے گی) کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے اور تمہیں کیا معلوم کہ شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو۔”قرآن مجید فرقان حمید کے ان ارشادات کی روشنی میں کسی مسلمان کو جس کا ایمان صحیح سلامت ہو کسی قسم کے اضطر اب اور مخمسہ میں پھنسنے کا امکان نہیں۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قیامت اچانک آئے گی۔ قران مجید کی سورة یوسف میں یوں ارشاد باری ہے کہ ( بَلْ تَا تِیَھُمْ بَغْتَةً فَتَبْھَتُھُمْ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّھَا وَ لاَ ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ) جس کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا کہ "اور قیامت ان پر اچانک واقع ہوگی اور ان کے ہوش کھو دے گی۔پھر نہ تو وہ اس کو ہٹا سکیں گے اور نہ ان کو مہلت ملے گی۔" اس کے علاوہ سورة شعرا میں بھی یہی اطلاع فراہم کی گئی اور یوں فرمایا کہ ( فَیاَ تِیْھِمْ بَغْتَةً وَّ ھُمْ لاَ یَشْعَرُوْنَ )جس کا معنی یوں ہوگا کہ "وہ ان پر اچانک آ واقع ہوگی اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی" اور پھر بہت ساری احادیث ﷺ میں بھی اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ قیامت اچانک واقع ہوجائے گی۔
قیامت کے بارے میں فلاسفہ نے بھی اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں ۔ کچھ سوچنے والوں کے نزدیک قیامت موجودہ انسانی آگہی اور طرز زندگی میں بہت ہنگامہ خیز تبدیلی کا نام ہے۔ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ کوئی ایسا ناگہانی واقع رو پذیر ہوجائے جس کے بعد انسانی سوچ ، اس کی طاقت ، طرز زندگی اور قوت میں ایک ایسی تبدیلی ہوجائے Transhumanism جو ما فوق الفطرت ہو جس کا موجودہ دور میں ادراک ہی نہ ہوسکتا ہو۔ یہ حادثہ کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق کے ذریعہ سے ہو یا خود انسان اپنی کوششوں سے یہ مقام حاصل کرلے۔ اس کے لیے دنیا یا نظام کائنات کی تباہی ضروری نہیں۔ اس طرح کے خیالات دیومالائی مذاہب میں بھی ملتے ہیں جہاں ایک دور ختم ہوتا ہے توزندگی اور انسانیت ایک نئے دور میں داخل ہوجاتی ہے جس کے اپنے ہی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے کچھ گروہ اس کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ موجودہ زندگی اپنے انتہائی بلند نقطہ اور عروج پر پہنچ جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ ختم کرکے انسان کو اس سے بہتر ایک اور نئی زندگی عطا کردیں جو اس زندگی سے بدرجہا بہتر ہو اور اس کا ادراک فی الوقت انسان کی سوچ سے باہر ہو۔ بہر حال یہ سب خیالات انسان کا اپنے اللہ کے بتائے ہوئے مذہب اور راستے سے دوری کی وجہ سے ہے۔ قیامت کی حقیقت سب ہی مانتے ہیں سوائے ان دہریوں کے جن کے نزدیک نہ اللہ ہے ، نہ انسان کو کسی نے تخلیق کیا ہے اور نہ اس کا کوئی حساب کتاب ہونا ہے نہ سزا ہے نہ جزا ہے۔

ہم حضور نبی کریم صادق الامین خاتمی المرتبت ﷺ کی امت سے وابستہ ہیں۔ ہمارے ایمان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے خالق اور مالک ہونے پر ہے۔ اس نے پیدا کیا اور ہمیں واپس اسی کے حضور میں جانا ہے۔ وہ ہماری زندگی کے پل پل کا حساب رکھنے والا ہے اور ہمیں اپنے کرتوتوں کا جواب دینا ہے اور ہماری موجودہ زندگی کے کل میزان پر ہماری آئندہ زندگی کا دارومدار ہوگا۔ پھر ہم یا تو جنت کے حق دار ہونگے یا پھر ہماری بداعمالی ہمیں جہنم میں لے جا پھینکے گی۔ہم اپنی موجودہ زندگی میں قیامت کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے ، اس سے اغماز نہیں برت سکتے۔ ہماری زندگی کا مقصد اور ہمارے تمام اعمال کا محور قیامت کے دن کی سرخروئی سے منسلک ہے۔ اسی کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے کہ ہم ہدایت کے راستے پر گامزن رہیں۔ قیامت کی کامیابی کے تمام اعمال ہماری کتاب اور نبی کریم ﷺ کی پاک اور مبارک و مطہر زندگی میں درج ہیں۔ اگر ہم نے اس کی پاسداری کی تو ہم کامیاب ہیں وگر نہ ناکامی نامرادی اور ابد الاباد تک کی رسوائی اور عذاب ہمارا مقدر ہوگی۔ العیاذ باللہ۔

آج اگر ہم اپنی زندگی کا بغور جائزہ لیں تو افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری زندگیاںصحیح ڈگر پر نہیں جارہی ہیں ۔ پورے معاشرے میں ابلیسی راج قائم ہے۔ اللہ کے احکامات کی پامالی روز مرہ کا دستور ہے۔ ہر وہ چیز جس سے روکا گیا ہے ہماری زندگیوں میں در آئی ہے۔ اور اوپر سے طرہ یہ کہ ہم اس کو روکنے کی طرف نہ تو توجہ دے رہے ہیں نہ اس بات کا احساس ہے کہ اس کو روکا جا سکتا ہے۔ سود کو ہی لے لیجئے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے حضرات جو اللہ سے بھی ڈرتے ہیں اور اپنے دینی مناسک بھی پورے کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ سود یقیناً اللہ سے جنگ کے برابر ہے مگر اس سے چھٹکارا ناممکن ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کے ممکنہ نقصانات سے اچھے بھلے سنجیدہ  لوگ خوف زدہ ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ معاشرہ اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ ایک با حیا اور پاکیزہ زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق ممکن نہیں ہے اس لیے وہ اخلاقی قدروں یعنی Moral Code میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اور تمام اسلامی اقدار کو Compatible کرنا چاہتے ہیں۔ آج کے دور کی مشینی اور معاشی بہتری اور خوشحالی کی متمنی زندگی مکمل طورپر اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ اگر اس کو واپس اس راستے پر ڈالا جائے جس کا حکم ہے تو یقیناً بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ بہت نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ کاروبار و تجارت میں گھاٹا ہوگا۔ لوگ ہنسی اڑائیں گے معاشرے میں نکو بن جائیں گے اور شائد عزیز و رشتہ دار حقہ پانی بند کردیں یا سوشل بائیکاٹ کر دیں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ ایسا کچھ کرکے ہم اپنے ہی گھر میں ناپسندیدہ ہوجائیں اور ہمارے بیوی بچے ہم سے قطع تعلق کرلیں۔ اگر ہم اپنی آئندہ آنے والی دائمی زندگیوں کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قیامت کے دن کی ذلت و خواری سے بچنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کیا پتہ کب آئے۔ ممکن ہے کہ لاکھوں سال کے بعد آئے۔ پچھلے پندر ہ سو برسوں سے ڈرایا جارہا ہے مگر قیامت تو آئی نہیں خواہ مخواہ ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ اے کاش کہ ایسا سوچنے والے جان لیتے کہ چاہے قیامت لاکھوں سال کے بعد آئے مگر ان کی قیامت تو اسی وقت آجائے گی جب ان کی آنکھیں بند ہو جائیں گی۔ جب ان کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔ نہ ان کے اکاؤنٹ میں کوئی مزید ڈیبٹ ہوگا نہ کریڈٹ۔ بیلینس شیٹ اس آخری دن جو ہوگی وہی قیامت کے دن ہاتھوں میں پکڑا دی جائے گی پھر وہ ہوگا جو ہم نے کمایا ہوگا اور وہی سلوک ہوگا جس کے ہم مستحق ٹھرائے جائیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت سے نواز دیں اور ایسے برے انجام کا خوف ہمارے دلوں میں ڈالتے ہوئے ہمیں اپنی رضا کے کاموں پر لگادیں جو سرخروئی اور کامیابی کا راستہ ہے۔ آمین یا رب العالمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے