اتوار، 12 مئی، 2013

دور فتن کی چند نشانیاں

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013
نور حدیثبسلسلۂ نادر احادیث فتن

دور فتن کی چند نشانیاں

از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حدیث :  عن أبِی ہریرة ، عنِ النبِیِ ﷺ قال : یتقارب الزمان و ینقص العمل (یقبض العلم) و یلقی الشح و تظہر الفِتن و یکثر الہرج ۔ قالوا : یا رسول اللّٰہِ ﷺ أیم ہو ۔ قال : القتل القتل.
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: “زمانہ باہم قریب ہوگا ، عمل میں کمی آئے گی ، (علم اٹھالیا جائیگا)، بخل و حرص کی ملاوٹ ہوگی، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہوگی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسولﷺ ہرج کیا ہے ؟ فرمایا : قتل ۔”

اختلاف لفظی :
اوپر مذکورہ حدیث بلا قوسین صحیح بخاری سے ماخوذ ہے ۔ مسلم اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں “ینقص العمل" کی جگہ “یقبض العلم" کے الفاظ بھی مذکور ہوئے ہیں ۔ اسی طرح بعض روایتوں میں پانچ کی جگہ چار نشانیاں بیان ہوئی ہیں ۔
تخریج :
(1) صحیح البخاری ، کتاب الادب ، باب : حسنِ الخلقِ و السخاِ و ما یکرہ مِن البخلِ ۔ کتاب الفتن ، باب : ظہور الفتن (2) صحیح مسلم ، کتاب العلم ، باب : رفعِ العِلمِ و قبضِہِ و ظہورِ الجہلِ و الفِتنِ فیِ آخِرِ الزمانِ (3) سنن أبی داود ، کتاب الفتن ، باب : ذِکرِ الفِتنِ و دلائِلِہا  (4) سنن أبن ماجة ، کتاب الفتن ، باب : ذہابِ القرآنِ و العِلمِ (5) مسند أحمد ،  مسند المکثرین من الصحابة ، مسند أبی ہریرة (6) صحیح ابن حبان ، کتاب التاریخ ، باب : أخبارہ ﷺ عما یکون فی أمتہ من الفتن و الحوادث (7) مسند البزار (8) المعجم الاوسط للطبرانی (9) الاحکام الشرعیة للاشبیلی ، کتاب العلم ، باب : رفع العلم (10) مصنف عبد الرزاق ، کتاب الجامع للامام معمر بن راشد الازدی ، باب : الفتن
حکم فی الحدیث :
یہ حدیث صحیحین کی ہے ۔ اس حدیث کے صحیح ہونے میں کچھ شبہ نہیں ۔
تشریح :
( یتقارب الزمان ) "زمانہ باہم قریب ہوگا" اس سے مراد ہے کہ وقت اپنی برکت کھودے گا اور لوگ اپنے روز و شب کے جلد گزر جانے کا شکوہ کریں گے ۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
“لا تقوم الساعة حتی یتقارب الزمان فتکون السنة کالشہر و الشہر کالجمعة و تکون الجمعة کالیوم و یکون الیوم کالساعة و تکون الساعة کالضرمة بالنار۔" (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب: ما جاء فی تقارب الزمان و قصر الأمل)
“قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ زمانہ باہم قریب ہوجائے گا تو سال مہینے کی طرح اور مہینہ ہفتے کی طرح اور ہفتہ دن کی طرح اور دن گھنٹے کی طرح اور گھنٹہ آگ کے اٹھتے شعلوں کی طرح ہوگا ۔ "
وقت کی یہ بے برکتی ان لوگوں کو زیادہ محسوس ہوگی جو دنیا کی زندگی میں لہو و لعب اور غفلت و سرکشی میں مصروف عمل رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس جو لوگ دین کی خدمت کا فریضہ صدقِ دل اور اخلاص کے ساتھ انجام دیتے ہیں اللہ ان کے اوقاتِ خیر میں برکت عطا فرماتا ہے۔
ایک چیز وقت کی لمبائی ہے اور ایک چیز وقت کی گہرائی ۔ مثلاً ایک گھنٹہ 60 منٹ اور ایک منٹ 60 سیکنڈ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن کسی کے لیے یہ 60 سیکنڈ بہت جلد گزرتا ہے اور کسی کے لیے قدرے آرام سے ۔ یہی وقت کی گہرائی ہے ۔ زماں کا یہی راز ہے اگر اس کا عملی مشاہدہ کرنا چاہو تو غزالی، رازی، ابن تیمیہ، ابن قیم، ذہبی اور سخاوی کی کتابوں کو اٹھا کر دیکھو کہ ان اللہ کے نیک بندوں نے کیسے اپنی مختصر سی زندگی میں بحرِ علم کی اٹھتی موجوں کو کاغذ کے سفینوں پر منتقل کردیا ۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے جو وقت درکار ہے، اس کے لیے بھی آج زندگی کم ہے، کیونکہ انہیں وقت کی گہرائی نصیب تھی جس سے آج ہم اپنی سیاہ بختی کی وجہ سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔
اور اگر آج اپنی زندگیوں میں اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو اس امر سے کرو کہ چار رکعت کی نماز خواہ جتنے اطمینان سے پڑھ لو وقت کم لگے گا کیونکہ اللہ اپنے اور اپنے بندے کے تعلقِ خصوصی میں زماں کی گہرائی عطا کرتا ہے جبکہ ٹیلی وژن کے سامنے گھنٹوں بڑی آسانی سے منٹوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔
یہی خیر و شر اور نور و ظلمت کی پہچان ہے ۔
( ینقص العمل ) "عمل میں کمی آجائے گی" اس کی حسبِ حال تشریح یہ ہے کے لوگ اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کریں گے ۔ لوگوں میں علم تو ہوگا مگر توفیقِ عمل ان سے رخصت ہوجائے گی ۔
( یقبض العلم ) "علم اٹھالیا جائے گا" اس سے مراد یہ ہے کہ علمائے اکابر کی وفات ہو جائے گی اور اس درجے کے علماء باقی نہ رہیں گے ۔
( یلقی الشح ) "بخل و حرص کی ملاوٹ ہوگی" لغت میں “الشح" کے معنی بخل و حرص کے ہیں ۔ بخل و حرص فطرت انسانی کا حصہ ہیں تاہم عہدِ آخر میں طبائع انسانی پر اس کے جو اثرات مرتب ہوں گے اس کی شرح علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے بڑی عمدہ کی ہے۔ فرماتے ہیں:
"فِی قلوب اہلہ ای علی اِختِلاف احوالہم حتی یبخل العالِم بِعِلمِہِ ، و الصانِع بِصنعتِہِ،  و الغنِی بِمالِہِ، و لیس المراد وجود اصل الشح لاِنہ موجود فِی جِبِلة الاِنسان اِالا من حفِظہ اللّٰہ، و لِذا قال تعالی : ( و من یوق شح نفسِہِ فاولئِک ہم المفلِحون ) (عون المعبود :  1938ء ، طبع دار ابن حزم بیروت)
“لوگوں کے قلوب پر اس کا اثر ہوگا، یعنی ان کے احوال بدل جائیں گے یہاں تک کہ عالم اپنے علم میں بخل و حرص سے کام لے گا، صانع اپنی صنعت سے اور غنی اپنی دولت سے۔ اس سے مراد بخل و حرص کا وجود اصلی نہیں کیونکہ یہ جبلت انسانی کا حصہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اور جو لوگ بخل و حرصِ نفس سے محفوظ رہے تو وہی فلاح پانے والے ہیں ۔" (الحشر : 9 )
( تظہر الفتن ) "فتنے ظاہر ہوں گے" قربِ قیامت سے متعلقہ متعدد احادیث میں مختلف فتنوں کا ذکر ہے یہاں وہی مراد ہیں ۔ یہ فتنے ہر سطح زندگی پر اثر انداز ہوں گے ۔ انسان کے فکرو نظر کی دنیا بھی اس سے متاثر ہوگی اور اس کے فطرت و طبائع پر بھی اس کا دخل ہوگا ۔ معیشت بھی خلل انداز ہوگی اور معاشرت بھی اثر لیے بغیر نہ رہ سکے گی ۔ اخلاقی گراوٹ بھی عام ہوگی اور عملِ خیر کی کوتاہی بھی بڑھ جائے گی ۔
( یکثر الھرج ) "ہرج کی کثرت ہوگی" ہرج نبوی اصطلاح ہے اس لیے اس کے لغوی معنی نہیں بلکہ اصطلاحی معنی اہمیت رکھتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی اس اصطلاح سے نا آشنا تھے اسی لیے فوراً دریافت کیا تو لسانِ رسالتﷺ سے یہ جواب مرحمت فرمایا : ( القتل القتل ) "قتل" ۔ گویا ہرج کے معنی قتل کے ہیں ۔ قربِ قیامت کی اہم ترین نشانی یہ ہے کہ قتل و غارت گری کی انتہائی کثرت ہوجائے گی ۔ یہ ایک ایسی نشانی ہے جس کے مظاہر آج بہت عام ہوچکے ہیں ۔
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:
“عن أبیِ ہریرة قال : قال رسول اللّٰہِﷺ : و الذِی نفسِ بِیدِہِ لا تذہب الدنیا حتی یأتِی علی الناسِ یوم لا یدرِی القاتِل فِیم قتل و لا المقتول فِیم قتِل ۔ فقِیل کیف یکون ذٰلکِ ۔ قال : الہرج ، القاتِل و المقتول فِی النارِ ۔ “(صحیح مسلم ،  کتاب الفتن و أشراط الساعة ، باب لا تقوم الساعة حتی یمر الرجل بِقبرِ الرجلِ فیتمنی ان یکون مکان المیِتِ مِن البلاِء )
“سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی یہاں تک لوگوں پر ایسا دور بھی آئے گا کہ قاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ کس وجہ سے اس نے قتل کیا اور نہ ہی مقتول جانے گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا ۔ دریافت کیا گیا کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ فرمایا : ہرج کی وجہ سے ، قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنم میں ہوں گے ۔ "
آج اگر اس امر پر قسم بھی کھالیا جائے تو کوئی کفارہ واجب نہیں ہوگا کہ یہ نشانی حرف بحرف پوری ہوچکی ہے ۔ اسلامی دنیا کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ سے بہتر اور کیا مثال دی جا سکتی ہے ۔ تاہم یہ واضح کرنا ضروری ہے ۔ وہ مقتول جو محض فتنے کی وجہ سے مارا جائے اور خود کسی کو مارنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو وہ جہنم کی اس وعید سے مستثنیٰ ہے ۔ قاتل اور مقتول کے جہنمی ہونے کی جو وعید ہے اس کا صحیح اطلاق مختلف گینگ وارز پر ہوتا ہے جو شیطانی کاررائیوں کا شکار ہوکر ایک دوسرے کو بلاوجہ مار رہے ہیں ۔
فوائد و نکات :
اس حدیث سے حسب ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:
1۔ زمانہ باہم قریب ہوجائے گا اور وقت تیزی سے گزرے گا بالفاظِ دیگر وقت کی برکت ختم ہو جائے گی ۔
2۔ لوگ عملِ خیر کی طرف کم متوجہ ہوں گے اور عمل کی کوتاہی بہت بڑھ جائے گی ۔
3۔ علم اٹھا لیا جائے گا ۔ صحیح الفکر علماء کی کمی ہوگی ۔ علماء کتاب و سنت کی بجائے اپنے خیالات کو دین بنا کر پیش کیا کریں گے ۔
4۔ لوگوں میں بخل و حرص کی ملاوٹ ہوگی اور اس کا مشاہدہ عام سی بات ہوگی ۔
5۔ بکثرت فتنوں کا ظہور ہوگا ۔
6۔ ہر ج کی کثرت ہوگی ۔ یعنی قتل و غارت گری عام ہو جائے گی ۔ حتیٰ کہ لوگ اس کے عادی ہوجائیں گے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے