اتوار، 12 مئی، 2013

المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 10

جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 10

از قلم: مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہتسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اصحاب الرس
ان کا قصہ یوں ہے ۔ مسلم اوردوسرے صحاح میں حضرت صہیب ابن سنان رومی سے روایت ہے کہ ملک شام میں ایک بادشاہ جابر تھا اور اس کا ایک استاد بڑا ساحر تھا ۔ اس کے جادو کے زور سے مملکت پر رُعب رکھتا ، جب وہ ساحر بہت بوڑھا ہوا تو بادشاہ سے کہا کہ میں تو بہت آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں کوئی ہوشیار لڑکا منتخب کرکے میری شاگردی میں دیجئے کہ میرے بعد میرا جانشین ہو۔
بادشاہ نے ایک ہوشیار لڑکا چن کر ساحر کے حوالے کیا وہ روز وہاں جاتا اور سحر سیکھتا ۔ اتفاقاً ایک روز لڑکے نے دیکھا کہ ایک مکان سے بہت سے لوگ نکل رہے ہیں ۔ لڑکے نے دریافت کیا کہ یہ کس کا مکان ہے ۔ لوگوں نے کہا کہ ایک فقیر کا گھر ہے جو دنیا کو چھوڑ کر فقط یادِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے ۔ لڑکا بھی اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی باتوں کو سن کر بہت پسند کیا ۔ نورِ ہدایت اس کے دل میں روشن ہوگیا اور ہر روز وہاں جانے لگا ۔
راہب نے اسے سکھا دیا کہ اگر ساحر پوچھے کہ کہاں دیر کی تو کہنا گھر میں دیر ہوئی اور گھر والے دریافت کریں تو کہنا کہ ساحر کے یہاں دیر ہوئی ۔ ایک روز اتفاقاً راہ سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ سرِ راہ ایک موذی اور عظیم الجثہ سانپ بیٹھا ہے اور لوگ خوف سے گزر نہیں سکتے نہ مارنے کی ہی ہمت پڑتی ہے ۔ لڑکے نے ایک پتھر اٹھا کر کہا کہ یا اللہ اگر راہب کا دین و مذہب اچھا ہے تو اس اژدہے کو مار ڈال ۔ یہ کہہ کر اسے پتھر سے مارا وہ فی الفور مر گیا اور لوگ اس کے عذاب سے بچ گئے اور اس کے ساحری کی داد دینے لگے ۔ لڑکے نے راہب سے یہ قصہ بیان کیا ۔ راہب نے کہا کہ اب تو مجھ سے بھی افضل ہے مگر یاد رکھ کہ تو جانچا جائے گا (یعنی تیری آزمائش ہوگی) تو اس وقت ہر گز میرا نشان کسی کو نہ دینا ۔ لڑکا ہمیشہ انجیلِ مقدس کی تلاوت کرتا اور اللہ کی یاد میں مشغول رہتا اور بڑے بڑے حکما جس مریض کے علاج سے عاجز ہوتے اس کو وہ ہاتھ پھیر دیتا اور وہ لوگ تندرست ہوجاتے ۔ اتفاقاً بادشاہ کے خاص مصاحبوں میں سے ایک شخص اندھا ہوگیا تھا ۔ لڑکے کا شہرہ سن کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہت سے بیش قیمت تحفے سامنے رکھ دیئے اور کہا کہ مجھے صحت یاب کر دو یہ سب کچھ تمہارا ہے ۔ لڑکے نے کہا میں کون ہوں جو کسی کو چنگا کر سکوں ، اللہ اچھا کرتا ہے ۔ اگر تواللہ پر ایمان لائے تو ابھی شفا پائے ۔ مصاحب نے فی الفور بت پرستی سے توبہ کی اوردینِ عیسوی قبول کر لیا ۔ لڑکے نے دعا کی اور اس کی پوری بینائی لوٹ آئی ۔ وہ مصاحب بادشاہ کی مجلس میں آیا۔ بادشاہ نے تعجب سے شفا پانے کی کیفیت دریافت کی ۔ کہا میرے پروردگار نے مجھے شفا دی ۔ بادشاہ نے کہا میرے سوا تیرا کون دوسرا پروردگار ہے ۔ مصاحب نے کہا ہرگز نہیں میرا اور تمہارا پروردگار ایک ہی ہے ۔ بادشاہ یہ سن کر سخت برہم ہوا اور اس کے لیے سخت سزا کا حکم دیا اور پوچھا کہ تجھے یہ عقیدہ کس نے سکھایا ۔ اس نے لڑکے کا نام لیا ۔ بادشاہ نے لڑکے کو بلا کر کہا کہ میری برکت اور ساحری کی کوشش سے تو نے یہ رتبہ پایا ہے اور مجھی سے لوگوں کو بدعقیدہ کرتا ہے اور خود بھی بد عقیدہ ہوگیا ۔ لڑکے نے کہا کہ صحت یاب ہونا کسی کے اختیار میں نہیں ۔ خاص اللہ کی مہربانی سے لوگ صحت یاب ہوتے ہیں ۔
بادشاہ نے کہا کہ یہ جو ساحر کی خدمت سے غائب رہتا تھا اور دوسری جگہ آمد و رفت کرتا تھا ضرور اس نے یہ عقیدہ وہیں سے سیکھا ہے ۔ لڑکے کو سخت سزا دینے لگا اور پوچھنے لگا کہ سچ بتا تیرے اس عقیدے کا استاد کون ہے ؟ لڑکے نے جب سخت تکلیف اٹھائی تو راہب کا نام بتا دیا ۔ بیچارہ راہب گرفتار ہوکر لا یا گیا ۔
بادشاہ نے کہا کہ اس عقیدے سے باز آاور مجھے پروردگار مان ورنہ تجھے آرے سے دو ٹکڑے کر ڈالوں گا ۔ راہب نے انکار کیا اور ستم کا آرہ سر پر چل گیا ۔ زمین پر دو ٹکڑے ہو کر گرا ۔ پھر مصاحب سے بھی کہا اس نے بھی انکار کیا اور وہی سزا دی گئی ۔ پھر لڑکے سے کہا کہ تو بھی باز آ ورنہ اپنے دونوں ساتھیوں کی سزا کا مستحق ٹھہرے گا ۔ لڑکے نے صاف انکار کیا ۔ بادشاہ نے چند لوگوں کے ساتھ ایک اونچے پہاڑ پر بھیجا کہ اگر باز نہ آئے تو خیر ورنہ پہاڑ پر سے نیچے گرا دینا ۔ پہاڑ پر پہنچ کر لڑکے نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کی کہ الٰہی ان کے شر سے مجھے بچا لے ۔ فی الفور پہاڑ میں سخت جنبش ہوئی۔ سب کے سب گر کر جہنم میں پہنچ گئے اور لڑکا صحیح سلامت بادشاہ کے سامنے آ موجود ہوا ۔ بادشاہ نے کہا اور وہ لوگ جو تیرے ساتھ بھیجے گئے تھے کیا ہوئے ۔ لڑکے نے کہا جس اللہ کے دین کو میں نے قبول کیا ہے اس نے مجھے بچا لیا اور ان کو ہلاک کر مارا ۔ بادشاہ اوربرہم ہوا ۔ اور چند آدمیوں کے ساتھ اسے بھیجا کہ اسے کشتی میں بٹھائو اور بیچ دریا میں پہنچے تو کہو اب بھی اپنے عقیدے سے پھر ، اگر مانے تو فبہا ، ورنہ دریا میں ڈبو دینا ۔ لڑکے نے پھر دعا کی اور سب کے سب ڈوب گئے اور وہ صحیح سلامت بادشاہ کے سامنے آ موجود ہوا اور سارا قصہ کہہ سنایا ۔ بادشاہ سخت متحیر ہوا کہ اب کیا کروں ۔ لڑکے نے کہا اگر آپ کو میری جان لینا ہے تو میری بتائی ہوئی تدبیر پر عمل کیجئے ۔ بادشاہ نے پوچھا وہ کیا ہے ۔ کہا تمام اہلِ شہر کو جمع کیجئے اور مجھے سولی پر لٹکا کر ایک تیر کمان میں چڑھا کر بسم اللہ رب الغلام کہہ کر ماریے ۔ میں فی الفور مر جائوں گا ۔ بادشاہ نے تمام اہل شہر کو جمع کرکے یہی کیا اور لڑکا شہید تیر جفا ہوگیا ۔ اس ترکیب سے اہلِ شہر پر ایسا اثر پڑا کہ ہزاروں مرد و زن چلّا اٹھے کہ اٰمنّا بر بّ الغلام اٰمنّا بربّ الغلام ہم لوگ اس لڑکے کے پروردگار پر ایمان لائے ۔ بادشاہ کے مصاحب اور بادشاہ اس واقعہ سے نہایت پشیمان ہوئے اور یہ سوچ کر کہ تمام خلق میری مجبوری سے آگاہ ہوگئی اور سمجھ گئی کہ جب تک لڑکے کے پروردگار کا نام بیچ میں نہ آیا ، کوئی اسے نہ مار سکا ۔ نہایت حیرت زدہ ہوا اور حکم دیا کہ بڑے بڑے گڑھے کھود کر خوب آگ روشن کی جائے اور جتنے لوگ ایمان لائے ہیں وہ پکڑ پکڑ کر اسی جلتی ہوئی آگ کے خندق میں ڈالے جائیں اور یہ کارروائی خود قریب سے بادشاہ اور اس کے ہم عقیدہ لوگ بیٹھ کر دیکھنے لگے ۔انہیں ایمان والوں میں سے ایک عورت شیر خوارہ بچہ گود میں لیے ہوئے پکڑ کر آئی ۔ عقیدہ چھوڑنے کی یا آگ میں جلائے جانے کی دھمکی دی گئی ۔ عورت فی الجملہ معصوم و شیر خوار بچہ کے خیال سے رکی ۔ لڑکا بول اٹھا کہ ماں تو صبر کر اور آگ میں بے خوف و خطر کود اس لیے کہ تو ٹھیک عقیدہ پر ہے ۔ بس عورت بے تامل آگ میں کود پڑی اور ایک شعلہ آگ سے بھڑکا اور تمام اراکینِ سلطنت اور ظالم بادشاہ کو بھسم کرکے بجھا اور اللہ کا انتقام پورا ہوا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے