اتوار، 12 مئی، 2013

یہ قومی سانحہ ہے (اداریہ)

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

یہ قومی سانحہ ہے (اداریہ)

از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ اب شہرِ کراچی میں لڑی جا رہی ہے۔ دم توڑتی سانسیں اور تڑپتی لاشیں اہلیان کراچی کے لیے اس فتنۂ سامانی کی سوغات ہیں۔ لسانِ رسالتﷺ نے ایام فتن میں جس  "ہرج" کی پیش گوئی فرمائی تھی وہ اب شہرِ کراچی میں روازنہ کی بنیادوں پر عملا وقوع پذیر ہو رہی ہے۔
دجالی طاقتوں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی اسلامی ملک کو خوشحال دیکھ سکیں ۔ پاکستان اپنے بے پناہ معدنی ذخائر اور رجالِ کار کی بدولت عالم اسلام میں امتیازی مقام کا حامل ہے ۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ ایک اہم خطہ ہے ۔ ممکن نہیں تھا کہ دجالی تہذیب کے نمائندے مملکتِ اسلامیہ پاکستان سے صَرفِ نظر کر جاتے۔

اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا عوام پاکستان کی سیاہ بختی ۔ ملک کا کوئی خطہ اور خطے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو اس عالمی جنگ کی سفّاکی سے متاثر نہ ہو ۔لیکن عوام الناس کی باگ دوڑ جن ہاتھوں میں ہے اور جو لوگ قوم کی رہبری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں وہ اس فتنے کے نتائج و عواقب پر بحث تو کرتے ہیں لیکن اصل فتنے کو موضوعِ بحث نہیں بناتے ۔ اسی طرح رہنمائوں کی جانب سے یہ تآثر کہ پاکستان میں کسی خاص طبقے کی نسل کشی کی جار ہی ہے ۔ اصل فتنے کی مکروہ و بھیانک شکل کو بہت معمولی کرکے دکھاتا ہے ۔ گویا جزئیات پر تو بحث ہو رہی ہے لیکن مبادیات یا تو پس انداز ہوگئی ہیں یا پھر ان سے قصدا صَرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔
جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے کہا کہ ہمارا ملک تو محفوظ ہے ۔ جب ڈرون حملوں نے خیبر پختونخواہ کے غیور مسلمان بھائیوں کو نشانہ بنایا تو ہم نے کہا کہ ہمارا صوبہ تو محفوظ ہے ۔ انفرادیت کی یہی سطحی سوچ تھی جس کے نتیجے میں جنگ کے شعلوں نے ہمارے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اس وقت مملکتِ اسلامیہ پاکستان کا ہر حصہ درد و الم کی شدتوں کو محسوس کر رہا ہے مگر مداوائے درد و الم کی بجائے اب بھی نفاق نے ہمارے دلوں کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے ۔ جس کے بعد صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل بھی اندھے ہوگئے ہیں ۔ ہم اب بھی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہے ہیں ۔
پنجابی، سرائیکی، سندھی، مہاجر، پٹھان اور بلوچی پانچ دہائیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے غم گسار اور شریک و مددگار رہے ہیں ۔ کلمۂ توحید کی بنیاد پر آپس میں مصاہرانہ تعلقات بھی قائم ہیں ۔ پھر اچانک کیا وجہ ہوگئی کہ یہ باہم دگر دست و گریباں ہوگئے ۔ اسی طرح شیعہ ہوں یا سنی، یا اہلِ سنّت و الجماعت کے تما م گروہ یہ سب ہماری علمی تاریخ و تہذیب کا حصہ رہے ہیں ۔ ایک ہی معاشرے میں رہ کر انہوں نے ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کیا ہے ۔ پھر اچانک کیا ہوگیا کہ ایک دوسرے کی موت کے طلب گار بن گئے ۔
یہ قومی سانحہ ہے اسے قومی سانحہ ہی سمجھیں۔ اس قوی سانحے سے ہم بطورِ قوم ہی نمٹ سکتے ہیں انفرادی طور پر کوئی طبقہ یا گروہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی نوشتۂ تقدیر ہے۔ جب ہم انفرادیت کو ترک کرکے اجتماعیت کو قبول کرلیں گے تو ہماری تقدیر بھی بدل جائے گی۔ اگر اس قدر لاشے اٹھانے کے باوجود اب بھی ہم اپنی انفرادی سوچ کی سطحیت سے باہر نہ نکلے تو پھر آہ و بکا کی صدائیں اور مردہ جسموں پر اذیتوں کے نشاں ہی ہمارا مقدر بنیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے