اتوار، 12 مئی، 2013

ایک خط، شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا ایک پُر از معارف مکتوب بنام شاہ محمد سلیمان پھلواروی رحمة اللہ علیہ

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

ایک خط۔ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہکا ایک پُر از معارف مکتوب بنام شاہ محمد سلیمان پھلواروی رحمۃ اللہ

 تاریخ و ادب میں خطوط کی بڑی اہمیت ہے ، پھر اگر کوئی خط ایسا ہو جس کا لکھنے والا اور جس کو لکھا گیا ہو، دونوں تاریخ کی اہم شخصیتیں رہی ہوں تو وہ اور زیادہ گراں قیمت ہو جاتا ہے ۔ یہ خط برعظیم کے مشہور و معروف بزرگ حضرت میاں صاحب مولانا سیّد نذیر حسین محدث کا ہے ۔ 1857ء کی تباہی کے بعد جو چند نادر الوجود عظیم المرتبت شخصیتیں مرکزِ علوم و فنون کی حیثیت سے باقی رہ گئی تھیں ان میں ایک میاں صاحب بھی تھے ۔ 1857ء کا ہنگامہ ختم ہونے کے بعد انگریزوں نے بچے کھچے علماء و زعماء پر کئی مقدمات بغاوت چلائے تھے، پھر ان کو پھانسیاں دیں یا عبور دریائے شور کی سزا دی، تو میاں صاحب بھی ماخوذ ہوئے اور ان پر مقدمہ چلا کوئی جرم تو ثابت نہ ہو سکا لیکن سال بھر تک راولپنڈی جیل خانے میں انہوں نے بھی سزائے قید کاٹی اور رہائی کے بعد ساری عمر اجڑی ہوئی دلی میں اپنی مسندِ علم بچھائے بیٹھے رہے اور ایک عالم کو فیض پہنچاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ برعظیم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں کچھ شاگرد میاں صاحب کے موجود نہ رہے ہوں۔ اصل وطن ان کا چوارہ ضلع مونگیر ( بہار ) تھا لیکن ایک مدت سے دلی میں رہ پڑے تھے آخر تک وہیں رہے اور وہیں پیوندِ خاک ہوئے۔ یہ خط حضرت مولانا شاہ سلیمان پھلواروی کے نام ہے۔ شاہ صاحب ان کے شاگرد تھے اور اپنے عہد کے مشہور و معروف عالم و خطیب، اسلامی ہند کے مقتدر رہنما اور مصلح۔
برائے خصوصی نوٹ: شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ ( 1220ھ - 1320ھ ) اپنے عہد کے جلیل القدر و رفیع المرتبت عالم و بزرگ تھے ۔ ان کے فیض علمی نے ایک جہاں کو مستفید کیا ۔ اپنے تلمیذِ رشید شاہ محمد سلیمان پھلواروی ( 1276ھ - 1354ھ ) کے نام ان کا یہ مکتوب گرامی معارف و حقائق سے پُر ہے ۔ اس مکتوب کی کئی بار طباعت ہوچکی ہے ۔  ہفت روزہ '' اہلِ حدیث '' ( امرتسر ) ، '' مکاتیب نذیریہ ''، نقوش ( لاہور ) '' مکاتیب نمبر '' اور ماہنامہ '' مہر نیمروز '' ( کراچی ) میں یہ پُر از معارف مکتوب شائع ہوچکا ہے ۔ تاہم مولانا حسن مثنی ندوی ( 1331ھ -  1418ھ ) نے اپنے ماہنامہ '' مہر نیمروز '' کی فروری 1956ء کی اشاعت میں ایک مختصر نوٹ اور ترجمے کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ چنانچہ ذیل میں یہ مکتوب '' مہر نیمروز '' ہی سے شائع کیا جا رہا ہے ۔ '' مہر نیمروز '' میں آیات کے تراجم حاشیے میں تھے تاہم یہاں اسے متن میں بین القوسین کردیا گیا ہے ۔ ( ادارہ الواقعۃ)
                                   یہ خط ایک استاد کا ہے اپنے عزیز شاگرد کے نام ، ایک شیخ وقت اور مرشدِ کامل کا ہے ، ایک محدث کا ، مجاہد کا ، امام کا ۔ بیش بہا معارف و نکات سے معمور۔ اس خط میں کوئی اشارہ اس عہد کے حوادث و واقعات کی طرف تو نہیں ہے لیکن عموم کلام اس عہد کے بزرگوں کی فکر و نظر کی آئینہ داری کا فی کرتا ہے۔ خط کوئی نوّے پنچانوے سال پہلے کا ہے اور فارسی زبان میں ہے اور اپنے معارف و نکات کی لطافت و نزاکت کے علاوہ اسلوب نگارش کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔
ھو المولیٰ الھادی الیٰ الصراط المستقیم
                                   اے عزیز! از محاسبہ (وَ اِن تُبْدُواْ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُم بِھِ اللّٰھ)اندیشۂ کن، و ہمچو (اءُوْلَئِکَ کَالأَنْعَامِ) بحظوظ نفسانی مباش، و سرور مراقبۂ (فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ) فروبر، و دیدئہ و دل در مشاہدئہ ( وُجُوہ یَوْمَئِذٍ نَّاضِرَة ، اِلَی رَبِّھا نَاظِرَة ) بکشائے و نظارہ کن، و سکۂ طلب استقامت خود در بوتۂ (فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ) (وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِیْنَا) بنہہ، و بآتش (وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰھ نَفْسَھ) بگداز و خالص کن، تا شایان مہر (لَنھْدِیَنَّھمْ سُبُلَنَا) گردد، و در  بازار(اِنَّ اللّٰھ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَھمْ وَأَمْوَالَھم بِأَنَّ لَھمُ الجَنَّةَ) او را ارز شے باشد، دبداں سرمایہ توانی کہ بضاعت دین خالص  (أَلَا لِلَّھ الدِّیْنُ الْخَالِصُ) حاصل کنی، شاید رمزے از اسرار "و المخلصون علیٰ خطر عظیم" بر تو بکشایند، و از لوامع انوار (فَمَن شَرَحَ اللَّھ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ فَھوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّھ) شعاع بر تو تا بد، تا از حضیض (قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْل) پائے ہمت بیروں تہی، و بر اوج (وَ الْآخِرَةُ خَیْر وَ أَبْقَی) عبور کنی و مبشر اقبال (ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰھ یُؤْتِیْھ مَن یَشَاء) جنیں و ارساندلَّا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَو رضوان جنات نعیم رضی اللہ عنہم ندارد دہند (کُلُوا وَاشْرَبُوا ھنِیْئاً بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ) زیادہ و السلام خیر الختام
                  راقم عاجز محمد نذیر حسین

                                   اے عزیز ! محاسبہ (وَ اِن تُبْدُواْ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُم بِھِ اللّٰھ) (البقرة : 284) (چاہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ جو تمہارے دلوں میں ہے اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا) کی فکر کرو، اور (اءُوْلَئِکَ کَالأَنْعَامِ) (الاعراف : 179)  (وہ چوپایوں کی مانند ہیں) کی مانند لذائذ نفسانی میں نہ پڑو، (فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ) (البقرة: 152)  (مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا) کے مراقبے کا سرور حاصل کرو، اور ( وُجُوہ یَوْمَئِذٍ نَّاضِرَة ، اِلَی رَبِّھا نَاظِرَة ) (القیامۃ: 22۔23)  (اس دن بعض چہرے ترو تازہ اور شگفتہ ہوں گے اور ان کی نگاہیں اپنے پروردگار کی طرف جمی ہوں گی) کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے دید دل کو کھولو اور نظارہ کرو، (فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ) (ھود: 112) (ثابت قدمی و استقامت اختیار کرو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے) (وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِیْنَا) (العنکبوت :69) (اور جیسے مری راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں) کی منزل میں اپنی طلبِ استقامت کا سکہ بٹھاؤ، (وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰھ نَفْسَھ) (آل عمران :28) (اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈرائے دیتا ہے) کی آگ سے اپنے آپ کو گداز کرو اور نکھارو، تاکہ (لَنھْدِیَنَّھمْ سُبُلَنَا)  (العنکبوت : 69) (ہم انہیں اپنی سبیلیں ضرور بتائیں گے) کی مہر و عنایات کی اہلیت پیدا ہو، اور (اِنَّ اللّٰھ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَھمْ وَأَمْوَالَھم بِأَنَّ لَھمُ الجَنَّةَ) (التوبة :111)  (اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں، انہیں جنت ملے گی) کے بازار میں تمہارا نرخ بالا ہو، اور تم اس سرمائے سے (أَلَا لِلَّھ الدِّیْنُ الْخَالِصُ) (الزمر:3) (آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ ہی کا ہے) کی بضاعتِ دینی حاصل کرلو، تو شاید "و المخلصون علیٰ خطر عظیم" (مخلصین بڑے خطرات میں ہوتے ہیں)کے اسرار و رموز کا کوئی نکتہ تم پر کھل جائے اور (فَمَن شَرَحَ اللَّھ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ فَھوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّھ) (الزمر :22) (بس جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی اور نور میں ہے) کے انوار کی کوئی شعاع تم پر چمک پڑے، تو پھر تم (قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْل) (النساء:77) (کہہ دو کہ متاع دنیا تو حقیر و کمترین شے ہے) کی پستی سے اپنے پائے ہمت کو باہر نکالو اور (وَ الْآخِرَةُ خَیْر وَ أَبْقَی)  (الاعلیٰ:17) (اور آخرت ہی خیر ہے اور باقی رہنے والی ہے) کی بلند چوٹیوں کو عبور کرلو ۔ جہاں (ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰھ یُؤْتِیْھ مَن یَشَاء) (المائدة:54) (یہ فضل ہے اللہ کا ، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے) کا مبشر اقبال مندی (الَّا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ) (فصلت:30) (نہ ڈرو نہ غم کرو بلکہ تمہیں مبارک ہو وہ جنت جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا) کا مژدہ جانفزا سنائے اور رضوان جنات نعیم ندا دے اور کہے (کُلُوا وَاشْرَبُوا ھنِیْئاً بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ) (المرسلات:43) (اپنے عملِ خیر کے صلے میں خوب کھاؤ پیو اور خوش رہو)۔ زیادہ و السلام خیر الختام
                  راقم عاجز محمد نذیر حسین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے