بدھ، 6 مارچ، 2013

المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 9

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ11, ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 9

مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہتسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

(3) پہلی آیتوں سے صرف اپنے وجود اور کمال، عظمت، جلال و بعثتِ انبیاء و حشر پر استدلال منظور ہے اور ان سب باتوں میں اس کے بندے باہم مختلف ہیں اور عموماً ان کو تسلیم نہیں کرتے، صرف وہ لوگ جن کی طبیعت میں رجوع الیٰ الحق کا مادہ ہے اِ ن سب کو جب تامل سے دیکھتے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ اس لیے وہاں پر عبد کو منیب کے ساتھ مقید (ذکر) کیا۔ اور دوسری آیتوں میں جو مذکور ہے وہ مانی ہوئی بات ہے، پانی کے برسنے سے کسی کو انکار نہیں۔ زمین کی پیداوار میں آب باراں کی تاثیر سے کسی کو انکار نہیں۔ اس کے تمام مخلوقات کے لیے ذخیرہ رزق ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں، اس سے جس طرح ابرار اور اللہ کے ماننے والے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح فجار اور کفار بھی اس لیے یہاں للعباد میں کسی قید کی ضرورت نہیں تھی۔ منکرین اگر اب بھی انکار پر اڑے رہیں اور ایسی ایسی صاف و صریح باتوں کو جنہیں ہر شخص اپنی مدت عمر میں بارہا دیکھتا ہے غور نہ کریں اور رسول کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو اب طریقِ استدلال اختیار کرنا لا حاصل ہے۔ اس لیے تہدید و تخویف (ڈر و خوف ) سنا کر راہ پر لانے کے لیے چند مثالیں گزشتہ زمانہ کے نافرمانوں کی سنائی جاتی ہیں۔ وہ لوگ بشر (انسان) کے نبی ہونے کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور تمہاری ہی طرح کفر و عناد پر اصرار کرتے تھے۔ آخر اللہ نے ان کو دھر پکڑا اور ایسی بری طرح سے دنیا سے گئے کہ خلق میں افسانہ ومثال بن گئے۔
قومِ نوح

چنانچہ ( کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ ) "ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم جھٹلا چکی ہے" نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو برس رہے

(وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا  )(العنکبوت: 14)
"بے شک میں نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار سال ٹھہرے۔"

اور برابر سمجھاتے رہے ، انہوں نے بھی یہی بعدِ مرگ کے حالات اور قیامت کی مصیبتوں سے ڈرایا تھا اور توحید کی تاکید کی تھی ۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:

(لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ) (الاعراف:59 ، المومنون: 23)
"ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے سمجھایا کہ اے بھائیو! اللہ کو پوجو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں"

اور ان کے بشر نبی ہونے کے شک کو دور کرنے کے لیے فرمایا

(اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ    63؀ فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِي الْفُلْكِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا  ۭاِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ   64؀ۧ) (الاعراف : 63-64)
"کیا تمہیں تعجب ہے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی، تمہیں میں سے ایک آدمی کی معرفت تاکہ تمہیں ڈرائے اور تم ڈرو تو پر عجب نہیں کہ رحم کیا جائے لیکن انہوں نے نہ مانا تو ہم نے بھی ان کو اور ان کے ساتھیوں کو جو کشتی میں سوار تھے بچالیا اور جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے ان کو ڈبو دیا، بے شک وہ اندھی قوم تھی۔"

اصحاب الرس

( وَ أَصْحَابُ الرَّسِّ ) (1) "اور رس والوں نے" رَس والوں سے مراد ہیں اصحاب اخدود جن کا ذکر تیسویں پارہ عم میں سورہ بروج میں ہے:

(قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ   Ć۝ۙ  النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ  Ĉ۝ۙ اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ   Č۝ۙ وَّهُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ   Ċ۝ۭ)(البروج :4-7)
"بتائو برباد کردئیے گئے گڑھے والے، گڑھا کیا تھا کہ ایندھن بھری آگ تھی جب وہ لوگ گڑھے کے قریب بیٹھے ہوئے جو ستم مسلمانوں پر کرتے تھے، خود بھی دیکھے جاتے تھے۔"

حواشی

(1) "رَس" کے معنی کنویں کے ہیں۔ "اصحاب الرس" کے تعین میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کے حالات کی تفصیل قرآنِ کریم میں نہیں ملتی۔ عرب میں "الرس" کے نام سے دو مقام معروف ہیں ایک نجد میں اور دوسرا شمالی حجاز میں۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رقمطراز ہیں: "قرآنِ مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہلِ عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں۔" (تفہیم القرآن: 5/114) ابنِ جریر طبری و اکثر مفسرین کے نزدیک "اصحاب الرس" سے مراد "اصحاب الاخدود"ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں مصنف نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (تنزیل)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے