جمعرات، 7 مارچ، 2013

نبوی منہج کی تلاش۔ اداریہ

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 11 ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

نبوی منہج کی تلاش (اداریہ)

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اللہ تعالیٰ نے دینِ ہدایت کو بذریعہ "کتابِ ہدایت" دنیا پر پیش کیا۔ جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب جس طرح عرب کے ایک بدو کو مطمئن کرتی ہے اسی طرح علم و فضل کے گہواروں میں پرورش پانے والے ایک فلسفی مزاج عالم کو بھی تیّقن کی دولت سے ہمکنار کرتی ہے۔ صدیاں گزر گئیں مگر اس کتاب کے اسرار و رموز اور عجائب و لطائف کی عقدہ کشائی جاری ہے۔ الہامی علم کی یہی حیرت انگیز تاثیر تھی جس نے خواص اور عوام دونوں کو یکساں طور پر متاثر کیا۔ "سلسلۂ ہدایت و رہبری" جس طرح خواص کے لیے آسان ہے اسی طرح عوام الناس کے لیے بھی۔ مگر قرآنِ کریم نے خواص ہوں یا عوام، کسبِ ہدایت کے لیے "تقویٰ" کو شرطِ لازم قرار دیا ہے۔

قرآنِ کریم کتابِ ہدایت ہے تاہم جو محض اپنے ذوقِ علم کی تسکین کے لیے پڑھے تو اسے بھی حظِ وافر ملے گا، اور جو کچھ نہ سمجھتے ہوئے محض اس کی تلاوت ہی کرے تو اسے بھی ذوقِ سماعت کی تسکین میسر آئے گی۔ جو دوسروں کے لیے کفر کی دلیلیں ڈھونڈے گا اسے بھی حجت و برہان کے کچھ نکتے ملیں گے، اور جو اپنے مزعومات کی تائید چاہے گا اسے بھی اپنے مؤقف کے مطابق نکات میسر آئیں گے۔ جو اپنے دل کی کجی کے لیے سامانِ تسکین چاہے گا اسے بھی مایوسی نہیں ہوگی مگر قرآنِ کریم اصلاً کتاب ہدایت ہے۔ اس کا بنیادی کام ہدایت دینا ہے، وہ دل چاہیئے جو کسبِ ہدایت کے لیے مچلتا ہو۔ وہ سینہ چاہیئے جو "شرحِ صدر" کی آرزو رکھتا ہو اور وہ نظرِ عبرت پذیر چاہیئے جو اپنے لیے اذنِ الٰہی کے اشاروں کو دیکھ سکے۔ اللہ ایسے کسی فرد کو گمراہ نہیں کرتا جس کے سینے میں انکار و ضلالت کی طلب نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:

(يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا    ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا    ۭ   وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ   26؀ۙ ) (البقرة: 26)
"وہ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس سے گمراہ نہیں کرتا مگر وہ جو فاسق ہیں۔"

(وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا  82؀ ) (بنی اسرائیل: 82)
"ہم قرآن میں سے جو اتارتے ہیں وہ ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے لیے یہ ان کے خسارے میں ہی اضافہ کرتی ہے۔"

آپ قرآن کو پڑھیے پھر قرآن آپ کو جو بنادے وہ بن جائیے، مگر شرطِ لازم یہی ہے کہ مقصدِ مطالعہ "کسبِ ہدایت" ہو۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صدقِ دل سے ہدایت کا آرزو مند ہو اور اللہ اسے گمراہ کردے۔

قرآنِ کریم کا صدقِ دل سے مطالعہ کرنے والے پر "نزولِ قرآن" کا مقصد بالکل واضح ہو جاتا ہے "قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ و تفلحوا"۔ قرآن اس ایک نکتے پر کبھی سمجھوتا نہیں کرسکتا کہ اللہ کی حیثیت کو کسی مقام، کسی صورت، کسی دائرے اور کسی پیمانے پر کسی دوسری ذات میں منتقل کردیا جائے۔

ہدایت کا دوسرا اہم مصدر جس کی نشاندہی خود اس کتابِ ہدایت نے کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ ان کی ذات مقدسہ کا انکار عین ربّ العزت کا انکار ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کتاب کو تو تسلیم کیا جائے مگر معلم کتاب کو قبول نہ کیا جائے؟ عقل و قلب کس طرح یہ بآور کرسکتے ہیں کہ "کتاب" کی تشریح کا حق ہمیں تو حاصل ہو مگر خود معلم کتاب کو اس کا حق نہ ہو؟ وہ لوگ جو فرموداتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے منکر ہیں دراصل جہل و ضلالت کی وادی میں بھٹک رہے ہیں۔

ہدایت کے مصدر صرف دو ہی ہیں، قرآنِ کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم۔ قرآنِ کریم اپنی محفوظ حالت میں موجود ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی زندگی دنیائے انسانیت کے ہر فرد کی سیرت سے زیادہ یقینی اور مدوّن شکل میں ہمارے سامنے۔ اس کے علاوہ دین کا تیسرا کوئی مصدر نہیں۔ اللہ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور جتنی اطاعتیں ہیں وہ اسی اطاعت کے تابع ہیں مستقل بالذات اطاعت کوئی نہیں۔

(فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا     59؀ۧ ) (النساء: 59)
"پس جب تم میں کسی امر میں کوئی تنازع ہوتو اسے اللہ اور رسول پر پیش کرو،
اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر طریقہ اور اچھا نتیجہ ہے۔"

فقہی مسالک ہماری اسلامی علمیت، تاریخ و تہذیب سے برآمد ہوئے ہیں ان کی اہمیت یقینی ہے مگر یہ مستقل دین نہیں ہیں۔ اللہ نے حق کو کتاب و سنت میں دائر کیا ہے کسی بھی فقہی مسلک میں نہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ہے:

"ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللّٰہ و سنة نبیہ۔" (موطاء امام مالک، کتاب القدر، باب النہی عن القول بالقدر)

فرمودات و ارشادات نبوی کا مقصد اس طریقۂ عبادت کی نشاندہی ہے جس کے ذریعے انسان ربّ تعالیٰ کا قربِ مزید حاصل کرسکتا ہے۔ نیز جو ہدایت اللہ وحدہ لا شریک نے پیش کی ہے اس کی عملی تعبیر ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے پیدا کردہ معاشرے ہی میں ملے گی۔ گویا کہ یہ ایک پیمانۂ ہدایت ہے جس میں ہم اپنے اعمال کی جانچ کر سکتے ہیں۔ (سلام علیٰ نبینا و اصحابہ اجمعین)۔

یہ فقہی مسالک نشانِ منزل ہیں، منزل نہیں۔ یہ چراغِ ہدایت سے پھوٹتی کرنیں ہیں خود چراغ ہدایت نہیں ہیں۔ ان ائمہ مجتہدین، محدثین عظام اور فقہائے کرام کی دینِ حق کے لیے خدمات لائق قدر و ستائش ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا اجتہادِ فقہ، امام مالک کا تعامل اصحابِ مدینہ کی تدوین، امام شافعی کا اصولِ دین کا انضباط، امام احمد بن حنبل کی جمع و تدوین حدیث کی وسیع تر مساعی اور امام بخاری و دیگر ائمہ محدثین کا صحیح و ضعیف احادیث میں امتیاز......... یہ سب ہماری دینی تہذیب کے وہ قیمتی خزینے ہیں، جن پر ہم جس قدر فخر کریں کم ہے اور جس سے ہم ایک لمحہ کے لیے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے۔ (رحمة اللہ علیہم اجمعین)۔

مگر ان میں سے کسی ایک کو قبول کرکے باقی سب کا انکار۔ انسان کی اپنی خواہش و مرضی تو ہوسکتی ہے لیکن ربّ تعالیٰ نے کسی کو اس کا مکلّف کیا ہے اور نہ ہی اس مزاجِ فکر کی تائید۔ (فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ   43؀ۙ) (النحل: 43) کے عموم کی تخصیص نہ نصِ قرآنی سے ثابت ہے اور نہ ہی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے۔

روزِ حشر نجات کے لیے ہدایت کا حصول نہایت سہل ہے۔ اسی دین کو قبول کیجئے جسے اللہ کے رسول نے پیش کیا۔ "لا ازید و الا انقص" کو اپنا دستورِ حیات بنائیے۔ قیامت کے دن اللہ کسی سے کلّی اور مسح کے مسائل نہیں پوچھے گا اور نہ ہی کسی تاریخی سانحے کے بارے میں آپ کا مؤقف دریافت کیا جائے گا۔ کون آتشِ نار کے دہکتے ہوئے انگاروں کا ایندھن بنا اور کون بہشتِ بریں کے پھولوں کا حقدار ٹھہرا، اس کی دریافت ہم سے نہیں کی جائے گی۔

جو چیز مطلوب ہے وہ ربّ تعالیٰ کی وحدانیت کا عملی و نظری اقرار ہے۔ سنّتِ رسول کا اتباع پیشِ نظررہے تو راہ کی کئی مشکلات دور ہوجائیں گی۔ اگر ہم

(1) توحید کا عملی و نظری اقرار کریں اور وہ تمام امور جو اس کے منافی ہیں اس کا عملی و نظری انکار۔

(2) امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو اپنا ہادی و رہبر تسلیم کریں اور ان کے فرامین و ارشادات کو دنیا کے ہر شخص کے قول پر ترجیح دیں۔

(3) عبادات میں جن امور کی فرضیت نصِ قطعی سے ثابت ہے اس کی بجاآوری کریں اور سنتوں کی حتی الوسع کوشش۔

(4) شریعت میں جن امور کی نہی بیان کی گئی ہے، اس سے گریز کریں۔ مثلاً سود، شراب، زنا، سرقہ، رشوت وغیرہا۔

اخلاص فی العلم و العمل کے ساتھ ہدایت کے ان عناصرِ اربعہ کو قبول کرلیں تو یقین جانیے شیاطینِ جن و انس کی کوئی طاقت ہمیں رضائے الٰہی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے