اتوار، 24 فروری، 2013

بیت المقدس کی تعمیر، یثرب کی خرابی

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/  جنوری، فروری 2013
نور حدیث، بسلسلۂ نادر احادیث فتن

بیت المقدس کی تعمیر، یثرب کی خرابی

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

 بیت المقدس کی تعمیر، یثرب کی خرابی PDF Download

@ http://alwaqiamagzine.wordpress.com

حدیث: عن معاذ بنِ جبل قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  "عمران بیتِ المقدِسِ خراب یثرِب و خراب یثرِب خروج الملحمةِ و خروج الملحمةِ فتح قسطنطِینِیة و فتح القسطنطِینِیةِ خروج الدجالِ ۔"

ترجمہ: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے فرمایا: "بیت المقدس کی تعمیر، یثرب کی خرابی ہوگی۔ یثرب کی خرابی جنگِ عظیم کا آغاز ثابت ہوگی۔ جنگِ عظیم کا آغاز فتح قسطنطنیہ کا باعث بنے گا اور فتح قسطنطنیہ دجال کے خروج کا سبب ہوگا۔"


تخریج:

(1) سنن أبی داود، کتاب الملاحم، باب: فی أمارات الملاحم (2) مسند احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ (3) المعجم الکبیر للطبرانی (4) المستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن و الملاحم (5) معجم الصحابة للبغوی المتوفی 317ھ (6) السنن الواردة فی الفتن و غوائلہا و الساعة و أشراطہا للدانی المتوفی 444 ھ، باب: ما جاء فی الملاحم (7) شرح مشکل الآثار للطحاوی (8) مسند ابن الجعد المتوفی 230 ھ (9) مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الفتن، باب: من کرِہ الخروج فِی الفِتنِ و تعوذ مِنہا و باب: ما ذکر فی فتنة الدجال۔


حکم فی الحدیث:

امام حاکم کے مطابق یہ حدیث "صحیح" ہے۔ امام ذہبی اسے "صحیح موقوف" قرار دیتے ہیں۔ علّامہ البانی کی تحقیق کے مطابق "حسن" ہے۔ تاہم شیخ شعیب الارناؤط نے اس حدیث کو اس کے ایک راوی عبد الرحمن بن ثوبان کے باعث ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن صاحب "عون المعبود" علّامہ شمس الحق عظیم آبادی نے حافظ منذری سے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمن بن ثوبان صالح آدمی ہے تاہم اس پر بعض نے کلام کیا ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کے جس راوی پر اعتراض کیا گیا ہے اس پر سخت قسم کی جرح نہیں ہے بلکہ اس کی تائید و توثیق بھی ملتی ہے۔ نیز ائمہ فن کی ایک بڑی تعداد اس حدیث کو درست قراردیتی ہے لہٰذا اس سے استدلال صحیح ہے۔ 


تشریح:

( عمران بیت المقدس ) "بیت المقدس کی تعمیر" سے مراد افراد اور عمارتوں کی کثرت ہے۔ علامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

"أی عِمارتہ بِکثرةِ الرِجال و العقار و المال۔"

"اس سے مراد اس کی عمارت، کثرت افراد، جائیداد اور مال ہے۔"

ممکن ہے بیت المقدس کی از سرنَو تعمیر یعنی ہیکلِ سلیمانی کے لیے یہودیوں کی مساعی کی طرف اشارہ ہو۔


( خراب یثرب ) "یثرب کی خرابی" یثرب مدینہ منورہ کا قدیم نام ہے اگر حدیث میں مدینہ کا لفظ استعمال ہوتا تو اس سے عام شہر مراد لینے کا احتمال ہو سکتا تھا لیکن یثرب کے الفاظ مدینة النبی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا حتمی تعین کردیتے ہیں۔ جب بیت المقدس پر کفار کا غلبہ ہوگا اور وہاں نت نئی تعمیرات جاری ہونگیں تو جیسے جیسے اس کی تعمیر ہوگی ویسے ویسے یثرب کی ویرانیوں میں اضافہ ہوگا۔

ایک حدیث میں آتا ہے:

"لتترکن المدینة علی أحسن ما انت حتی یدخل الکلب أو الذئب فیغذی علی بعض سواری المسجد أو علی المنبر فقالوا یا رسول اللّٰہ ( صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ) فلمن تکون الثمار ذلک الزمان قال للعوافی الطیر والسباع۔" (موطاء امام مالک، کتاب الجامع، باب ما جا فی سکنی المدینة و الخروج منہا)

"مدینہ کو اچھی حالت میں چھوڑ دیا جائے گا یہاں تک کہ نوبت یہ آ پہنچے گی کہ ایک کتا یا بھیڑ مسجد میں داخل ہوگا اور کسی ستون یا منبر پر پیشاب کرے گا۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم! یہ فرمائیے کہ اس زمانے میں مدینہ کے پھل کس کے کام آئیں گے؟ آپ  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے فرمایا پرندے اور درندے ان پھلوں کو کھائیں گے۔"

گو قیاس یہی ہے کہ مدینہ کی ایسی ویرانی قیامت سے متصل دور میں واقع ہوگی، امام نووی کی بھی یہی رائے ہے (ملاحظہ ہو: تنویر الحوالک للسیوطی: ٣/٨٤)۔ لیکن چونکہ حدیث میں مدینہ کی ویرانی کی ابتدا بیت المقدس کی تعمیر سے مشروط ہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یروشلم دنیا کے لیے سیاسی اعتبار سے مرکزِ توجہ بنا ہوا ہے ۔ وہاں یہودی اپنے گمشدہ ہیکل کی از سرنو تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مدینہ منورہ کا حال یہ ہے کہ اب لوگ وہاں رہائش اختیار کرنے سے بتدریج گریز کر رہے ہیں اور جن کے دلوں میں وہاں رہائش کی تمنا اور مستقل سکونت کی تڑپ ہے وہ تکمیلِ خواہش کے اسباب و وسائل سے محروم ہیں۔ اس وقت ایک بڑی تعداد مدینہ سے دوسرے شہروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ آبادی میں اضافے کا سلسلہ رک چکا ہے۔ چند دہائیوں قبل برصغیر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کسبِ معاش کی غرض سے سعودیہ کا رُخ کرتی تھی لیکن اب حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صلاحیتیں امریکا، کینیڈا اور یورپ کے لیے گروی رکھ دی ہیں۔ سعودی کرنسی کی قیمت امریکا، کینیڈا اور یورپ کی کرنسیوں کے مقابلے میں بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ زر کی طلب نے ان لوگوں کو معاشی اعتبار سے منفعت بخش ممالک میں سکونت کے لیے مجبور کردیا ہے۔


( خراب یثرب خروج الملحمة ) "یثرب کی خرابی جنگِ عظیم کا آغاز ثابت ہوگی" بیت المقدس کے عروج کے بعد جب مدینہ کی ویرانی شروع ہوجائے گی تو اس کے بعد اس جنگِ عظیم کی ابتدا ہوگی جس کا ذکر آثارِ قیامت سے متعلقہ متعدد احادیث میں آیا ہے۔ مسلمانوں اور کفار کے درمیان یہ جنگ مختلف محاذوں پر ہوگی جیسا کہ مختلف احادیث میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو آج ان جنگوں کی ابتدا بھی ہو چکی ہے۔ شام مستقل محاذ جنگ بنا ہوا ہے۔ عراق کی تباہی اپنے عروج پر ہے۔ فلسطین، اردن اور لبنان کے علاقے آئے دن اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں۔ افریقہ کے مسلم ممالک لیبیا، الجزائر، سوڈان، نائیجریا اور مالی بھی اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارا ملکِ عزیز پاکستان بھی حالتِ جنگ میں ہے۔ ڈرون حملوں کی یلغار، ٹارگٹ کلنگ کی آفت اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے بم دھماکے آئے دن کا معمول ہیں۔ ان فتنوں میں مرنے وا لوں کی سالانہ تعداد کو اگر پیشِ نظر رکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ تعداد کسی بھی جنگ میں ہونے والے جانی نقصان کے برابر پہنچ جاتی ہے۔


( خروج الملحمة فتح القسطنطنیة ) "جنگِ عظیم کا آغاز فتح قسطنطنیہ کا باعث بنے گا" جب جنگ کے یہ شعلے بھرپور طریقے سے بھڑک اٹھیں گے تو قسطنطنیہ کی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگی۔ آج ترکی بظاہر مسلمان ملک ہے، لیکن ناٹو NATO کا رکن۔ وہ انہی اصول و ضوابط کا پابند ہے جس کے تمام اراکینِ ناٹو پابند ہیں۔


( فتح القسطنطنیة خروج الدجال ) "فتح قسطنطنیہ دجال کے خروج کا سبب ہوگا" قسطنطنیہ کی فتح کے بعد دجال کا انسانی دنیا میں ظہور ہوگا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ دجال کسی بات پر غصہ ہوکر خروج کرے گا ممکن ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح اس کے غیض کو بھڑکا دے اور اس کے غضب کو جگا دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے اپنی حدیث میں جس ترتیب کے ساتھ ان واقعات کو بیان کیا ہے یہ واقعات اسی ترتیب سے ظہور پذیر ہونگے۔ ایک حدیث میں ان واقعات کی مدت بھی واضح ہوجاتی ہے:

"بین الملحمةِ و فتحِ المدِینةِ سِت سِنِین و یخرج المسِیح الدجال فیِ السابِعةِ۔" (سنن ابی داود، کتاب الملاحم، باب: فی تواتر الملاحم)

"جنگِ عظیم اور فتح شہر (قسطنطنیہ ) کے مابین چھ برس ہیں اور ساتویں سال مسیح دجال کا خروج ہے۔"


فوائد و نکات:

اس حدیث سے حسب ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:

1۔ بیت المقدس اپنی بربادی کے بعد دوبارہ عروج حاصل کرے گا اور اقوام و ملل کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ یہاں تعمیر و آبادی کا سلسلہ شروع ہوگا۔ جب سے بیت المقدس یہودی قبضے میں گیا ہے یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

2۔ بیت المقدس کی آبادی کے بعد مدینے کی ویرانی کا آغاز ہوگا۔ اس کی ابتدا بھی ہوچکی ہے۔ موجودہ دور کے معروف عرب عالم ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن العریفی نے بھی اپنی کتاب "نہایة العالم" میں اسی رائے کا اظہار کیا ہے (ملاحظہ ہو: جب دنیا ریزہ ریزہ ہوجائے گی ترجمہ "نہایة العالم": 325 )

3۔ مدینہ منورہ کی ویرانی کے ساتھ جنگِ عظیم کی ابتدا ہوجائے گی۔ آج ہر ذی شعور اس امر سے اتفاق کرے گا کیونکہ اس کے آثار بالکل ظاہر ہوچکے ہیں اور امت مسلمہ انگاروں پر بیٹھی ہے کسی بھی وقت یہ چنگاری سلگ کر جنگِ عظیم کے شعلوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔

4۔ جنگِ عظیم کے رونما ہونے کے بعد ایک مرحلہ ضرور آئے گا جب مسلمان قسطنطنیہ کو فتح کرلیں گے۔

5۔ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد دجال کا ظہور ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے