ہفتہ، 23 فروری، 2013

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی محبت کے تقاضے اور ہمارا رویہ

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/  جنوری، فروری 2013

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی محبت کے تقاضے اور ہمارا رویہ

ابو عمار محمد سلیم

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی محبت کے تقاضے اور ہمارا رویہ PDF Download @

http://alwaqiamagzine.wordpress.com

الحمد اللہ کہ ہم اور آپ مسلمان ہیں۔ اللہ کو ایک مانتے ہیں اور اس کے آخری رسول فخر موجودات سید المرسلین خاتم النبین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم فداہ امی و ابی کے امتی ہیں۔ میں اس وقت جن لوگوں سے مخاطب ہوں یہ تمام حضرات وہ ہیں جو پیدائشی مسلمان ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مہربانی اور عنایات کے تحت ہم نے ایک مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی اور بغیر کسی تردد اور تحقیق و جستجو کے مسلمان اور مومن بن گئے۔
بس جو تھوڑا بہت والدین اور معاشرے نے مسلمانی سکھائی وہ ہم نے اپنے پلے سے باندھ لی اور اسلام کے راستے پر گامزن ہوگئے۔ کچھ سنا سنایا ایمان، کچھ عقائد جن میں پتہ نہیں کتنی غلط اور لغو باتوں کی آمیزش ہے، کچھ کچی پکی عبادتیں اور مسلمانی کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ہم نے اپنے آپ کو اس گروہ میں شامل کر لیا جو اللہ کی وحدانیت اور اس کی حاکمیت کے سامنے کسی چیز کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا اور اپنے رسول کی ناموس اور عزت پر اپنی جانیں قربان کرنا جس کا سرمایہ افتخار ہے۔ ہم نے خود اپنی کوششوں اور ہمت سے اسلام کو نہ جاننے کی کوشش کی ہے نہ اس کے لیے وقت لگایا، نہ کچھ علم حاصل کیا اور نہ کسی قسم کی کوئی لائق تذکرہ تگ و دو کی ہے۔ ہماری نسبت وہ افراد جو دیگر مذاہب کے ماننے والے تھے اور جنہوں نے اسلام کو سمجھنا چاہا تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں، پڑھا اور لوگوں سے گفت و شنید کی اور جب انہوں نے اسلام کے محاسن کو جاناتو پھر اسلام سے دور نہ رہ سکے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جن کو ہم Converts کہتے ہیں، اسلام پر جس طرح وارفتہ اور شیدا ہیں ہماری اور آپ کی وارفتگی کسی درجہ میں ان سے برابری نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں تو صرف اپنی عقل اور سمجھ کو استعمال کرکے۔ انہوں نے اسلام کو پسند کیا اور اختیار کرلیا۔ یہ لوگ Practical  اسلام والے ہیں۔ اپنی اپنی علمی حدود کے اندر وہ اسلام کے بہت قریب ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے والا و شیدا بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہم جو پیدائشی مسلمان ہیں، اسلام سے نسبتاً دور ہیں مگر حضور پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے محبت کا بڑی شد و مد سے اقرار کرتے ہیں۔ وہ تمام غیر مذاہب کے لوگ جنہوں نے اسلام کی بڑی شدید نکتہ چینی کی ہے اور اسلام کو کسی طور بھی دین الٰہی ماننے کو تیار نہیں ہیں، فخر موجودات سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ذات مبارک پر آکر خاموش ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہیں اس سراج منیر میں کوئی داغ دھبہ نظر نہیں آتا اور بلا جھجھک آپ کی تعریف کرتے ہیں۔یہ اسلام کے دشمن تو ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے دشمن نہیں ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہم اسلام کے پیروکار تو ہیں اور کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ہمارا شمار ان لوگوں میں ہی ہونا چاہئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے دشمن ہیں۔
کیا آپ کو یہ بات ناگوار لگی؟ کیا آپ یہ پڑھ کر چونک اٹھے کہ دشمنان رسول میں میں اور آپ بھی شامل ہیں؟ آپ شاید اتفاق نہ کریں مگر میرا خیال ہے کہ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اس فہرست میں میں اپنے آپ کو سب سے اوپر رکھتا ہوں اس لیے کہ میں آپ سے بڑھ کر دشمن ہوں اور یہ میرے لیے سرمایہ افتخار نہیں بلکہ اس پر شدید شرمندگی ہے۔میں نے اگر ایسی بات کہی ہے تو اس کے پیچھے کچھ جواز بھی ہوگا۔ ذرا غور کیجئے کہ ہم نام لیوا اور امتی ہیں ان کے جو ہر لحاظ سے لائقِ اتباع اور قابلِ احترام ہیں۔ جن کا اسوہ ہمارے لیے راہِ ہدایت ہے، خُلُقِ عظیم ہے۔ مگر دیکھیں تو ہماری زندگیوں میں ان کے طرزِ عمل، ان کے اخلاق، ان کے کردار اور اللہ سے ان کی محبت کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ ہم بے شک ان کے نام کا کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور ان سے وفاداری کا دم بھی بھرتے ہیں مگر سوچیے کہ کیا ہم واقعی وفادار ہیں؟ کیا ہمارے اعمال میں وہ خلوص، عبادتوں میں اللہ کا خوف اور افعال میں وہ پاکیزگی ہے جس کا ہمارے دل و جان سے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم درس دے گئے ہیںاور ان تمام باتوں سے قطع نظر اللہ سبحانہ وتعا لیٰ نے قران میں حکم دیا کہ (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ  ) یعنی "پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان کی مائیں ہیں" (سورة الاحزاب 6)۔ قرآن کے اس حکم کے بعد حبّ رسول کے تقاضوں کے اوپر زیادہ کچھ کہنے سننے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ اگر ہم اس بات کو محسوس کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کا حق ہمارے اوپر کیا ہے تو ہم ایک لمحہ کے لیے ایسا کوئی کام نہ کریں جو رسول کی اپنی زندگی کے اصولوں سے بر خلاف ہو۔ نام لیوا ہیں تو جان چھڑکنے سے بھی گریز نہیں ہوسکتا تو پھر ان کے احکامات کو بلا چوں وچرا کیے مان لینا ہی اصل محبت ہوگی۔ ان کے احکامات سے اغماض برتنا انتہائی غلط اور ان کی غلامی سے نکل جانے کے برابر ہوگا۔ جب ہم ان کے لائے ہوئے دین کی بے حرمتی کریں گے، اس دین کے اوامر و نواہی سے بے رغبتی ظاہر کریں گے اور ان احکام پر عمل نہیں کریں گے تو پھر کیا ہم اسلام کے پیروکار کہلائیں گے اور کیا ہمارا حب رسول کا تقاضہ صرف دکھاوا نہ ہوگا۔ جب ہم ان احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کریں گے تو جو دیکھے گا وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ ہمارے اندر ایمانی روح ہے ہی نہیں۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے محبت کب کی؟ ہم نے تومغائرت برتی ہے۔ اب ہم لاکھ شور مچائیں اور نعرے بازی کرتے پھریں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے پیرو تو نہیں گردانے جاسکتے اور نہ ہی ان کے شیدائی کہلانے کے حق دار ہیں۔ سیدھی سادھی زبان میں یہ کہیں کہ ہمارا رویہ تو آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے دشمنی کارویہ ہے۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کیا ہماری نمازوں اور روزوں اور ایسی ہی گنتی کی چند دوسری عبادات کے آگے ہمارا کوئی عمل ہمارے رسول کے اسوہ سے اور ہمارے مذہب سے میل کھاتا ہے؟ جھوٹ و فریب، چوری دھوکا اور چالبازی، دوسروں کے حقوق کی پامالی، مال و زر کی ہوس، فحاشی و ناچ گانا، عریانی و بے حیائی، ناحق کی چھین جھپٹ، خون کی ارزانی، تجارتی ہیر پھیر، سود خوری اور چور بازاری، خود ستائی کِبر و عُجب، دوسروں کی تحقیر چغلی اور پتہ نہیں کیا کیا۔ یعنی بقول شاعر " آں کہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری " کیا ایسی ہی معاشرتی غلط کاریوں میں ہم اور آپ ملوث نہیں ہیں؟ کہیں کم کہیں زیادہ۔ اس میں مبالغہ تو نہیں ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا پورا معاشرہ گھن کھائی ہوئی لکڑی کی طرح ہے۔ بودا اور کمزور۔ نہ اس معاشرہ میں کوئی جان ہے نہ بڑھنے کی صلاحیت نہ اپنا دفاع کرنے کی قوت۔ یہ پورا معاشرہ فی الوقت گندگی کے ایک ڈھیر کی طرح ہے جس سے بدبوکے بھبھکے اٹھ رہے ہیں۔ بے غیرتی اور بے حسی کی یہ انتہا ہے کہ کہ اتحاد نام کی کوئی چیز نہ من حیث القوم ہے نہ من حیث الامت۔ پھر کسی کو اپنی عزت اور غیرت بچانے کی فکر بھی نہیں ہے۔ دنیا کی اقوام باری باری ہمارے جسموں میں اپنے پنجے گاڑتی چلی جارہی ہیں، ہماری شہ رگ سے قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہیں مگر کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہے۔ کتنے علاقے مسلمانوں کے چھین لیے گئے۔ کتنی حکومتوں کو گرادیا گیا۔ کتنی اسلامی سر زمین پر دشمنوں کی افواج دندنا تی پھر رہی ہیں۔ کتنے معدنی وسائل پر غیروں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ کتنے علاقوں پر روز بم داغے جارہے ہیں اور کتنے مسلمان ہر روز موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں مگر کیا امت کے کان پر جوں رینگی۔ بے کسی ہے، بے بسی ہے، کم ہمتی ہے، بے حیائی ہے یا اپنی جان کا خوف ہے، کیا ہے؟ اتنا کچھ امت مسلمہ کے ساتھ ہوگیا مگر نہ تو حکومتی سطح پر کوئی کارروائی ہوئی اور نہ علماء کے سطح پر کوئی جنبش ہوئی۔ ہر ایک کے اپنے مفادات ہیں۔ کون بولے گا؟ سنا تھا کہ پوری امت ایک جان کی مانند ہے۔ جسم کے ایک حصے پر چوٹ لگے تو دیگر حصے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ فلسطین میں کیا ہورہا ہے، افغانستان اور عراق میں کیا قیامتیں گزر گئیں، لیبیا میں کتنا خون بہا۔ آج شام، مراکش اور خود پاکستان میں کیا خون خرابا نہیں ہورہا ہے مگر یہ کیسا جسم ہے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ محسوس ہورہی ہے اور نہ کسی درد کا احساس ہورہا ہے۔ یعنی پورا جسم ہی فالج زدہ ہوگیا ہے۔ کیا ہمارے آقا و مولا نے ہمیں یہی تعلیم دی تھی۔ نہیں ہر گز نہیں۔ میرے منہ میں خاک، خدانخواستہ ہم خود اسلام سے بیگانہ ہیں۔ نہ ہم مسلم ہیں نہ ہمیں حضور پاک علیہ السلام سے کوئی الفت یا لگائوہے۔
انفرادی سطح پر ہم سب چاہتے ہیں کہ معاشرہ ٹھیک ہوجائے۔ چور بازاری، بے حیائی، مہنگائی، قتل و خوں ریزی اور ایسی ہی دوسری تمام برائیاں جڑ سے ختم ہو جائیں۔ ہر طرف امن و سکون ہوجائے۔ مگر ہم ذاتی طور پر کسی قسم کی کوئی کارروائی کرنے کو تیار ہیں، نہ ہی کوئی قربانی دینا چاہتے ہیں۔ اپنا معاش، اپنی بیوی بچے، اپنا گھر اور اپنا چین و سکون جو بھی ہے اور جیسا بھی ہے اس میں کوئی رخنہ نہیں پڑنا چاہئے مگر معاشرے میں جتنا بگاڑ ہے وہ سب دور ہوجانا چاہئے۔ میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا مگر آپ تو بسم اللہ کیجئے۔ میں جانتا ہوں کہ ہر ایک کو انفرادی طور پر ٹھیک ہونا ہے اس لیے آپ پہلے ٹھیک ہو جائیں۔ رشوت بری چیز ہے آپ رشوت لینی بند کردیں۔ دوسروں کا مال ناجائز طور پر ہڑپ مت کریں۔ سود ی معاملہ تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے برابر ہے اس لیے بھائی آپ سودی کاروبار سے باز آجائیں۔ دوسروں کے حقوق پر غاصب مت ہوں اور سن لیں میری طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہیں میں تو ٹھیک ہو ہی جائونگا آپ لوگ شروعات کریں۔ ہر شخص دوسرے کو مشورہ دینے کو تیار بیٹھا ہے مگر خود ایک قدم بھی نہیں اٹھائے گا۔ پھر وہی ہوگا کہ راتو ں رات شہر کی آبادی سے ہر ایک نے ایک ایک بالٹی دودھ حوض میں ڈال دیا۔ صبح کو حوض پانی سے لبا لب بھرا ہواتھا دودھ کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ معاشرے کے افراد کی یہ روش ہوگی تو معاشرہ کیسے بہتر ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ مگر یہ خود بخود تو نہیں مٹتا۔ افراد ہی اس کو مٹانے کا کام کرتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے تو قرآن میں اپنا حکم سنا دیا ہے کہ کسی قوم کی تقدیر وہ اسی وقت تبدیل کرتا ہے جب قوم اس کے لیے محنت کرتی ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے۔ اتنا واضح حکم ہونے کے باوجود بھی اور اللہ کی سنت ( جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی) کا علم ہونے کے بعد بھی ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟ کبھی غور کریں۔ جمعہ کے بعد اور عیدین کی نماز کے بعد مولانا صاحب جو دعائیں مانگتے ہیں ان کے الفاظ پر کبھی غور کیا ہے۔کس خوبصورتی اور صفائی سے وہ تمام باتوں کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ " اے اللہ! اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیجئے۔ اے اللہ ! ہمیں شر پسندوں کے شر سے بچا لیجئے۔ اے اللہ ! ہمارے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیجئے۔ اے اللہ ! ہمیں یہود و ہنود کی سازشوں سے بچا لیجئے۔ اے اللہ ! دشمنوں کے ہتھیار انہی پر چلا کر انہی ہتھیاروں سے ان کا قلع قمع کردیجئے۔" چلیے اللہ اللہ خیر سلا۔ ہمارا کام ختم۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے آگے درخواست گزاردی ہے۔ انہیں ان کے حبیب کا واسطہ بھی دے دیا ہے۔ امید ہے کہ وہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے امتیوں کی فریاد ضرور سنے گا۔ اے نادان اور احمق مسلمانو ! سن لو کہ اللہ کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم سے جتنی محبت ہے وہ ہم سب لوگوں کی اجتماعی محبت سے کروڑوں کروڑوں گنا زیادہ ہے۔ اس نے کبھی اپنے حبیب کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس طرح کی چاپلوسیوں سے یقینا ہمارا کام نہیں بنے گا۔ قرآن کا اعلان ہے کہ اللہ اپنی سنت یعنی عادت نہیں تبدیل کرتا ہے۔ جب اس نے بتا دیا ہے کہ مجھ سے کچھ چاہئے تو اپنے حصہ کی محنت کرو اور پھر نتیجہ میرے اوپر چھوڑدو۔ ان شاء اللہ اس کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی۔ ہم خود کو تبدیل نہ کریں اور یہ امید رکھیں کہ ہماری ساری چیزیں ٹھیک ہوجائیں، یہ کیسے ممکن ہے۔ بدر کے دن مسلمان نہتے تھے مگر لوہے سے اٹے ہوئے دشمن کے آگے جا کر ڈٹ گئے۔ دنیا کے کسی اصول کے تحت ان کو فتح نہیں ہو سکتی تھی۔ مگر ہو اکیا؟ دنیا آج بھی دانتوں میں انگلیاں ڈالے سوچ رہی ہے کہ یہ ہوا کیسے؟ یہ اللہ کی مدد تھی اور ان لوگوں کو ملی جنہوں نے اپنے حصے کا کام کیا اور نتیجہ اللہ پر چھوڑدیا۔
ہم نے ایک ملک اسلام کے نام پر حاصل کرلیا اور اس کا نام اسلام کا قلعہ رکھدیا اور اس قلعہ میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔ اس قلعہ کے باہر کتنی توپیں قلعہ کی طرف رخ کیے کھڑی ہیں، ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے۔ قلعہ کی دیواروں میں کتنے شگاف پڑ گئے ہیں؟ ابھی ہم نے دیکھا ہی نہیں ہے۔ قلعہ کے اندر سے کتنے لوگ دشمن کے ساتھ مل گئے ہیں اور قلعہ کا دروازہ کھولنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ابھی ہم نے اس کا جائزہ ہی نہیں لیا ہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا ہمارا حال اس سے مختلف ہے؟ کیا اس صورتحال کے ساتھ ہم اپنا، اپنی انفرادی و اجتماعی آزادی اور ناموس وطن و مذہب کی حفاظت کر سکتے ہیں؟
کیا ان حالات میں واقعی اللہ ہماری مدد کو آئے گا اور پھر ہمارا طوطی بولنے لگے گا؟ نہیں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ کبھی بھی نہیں ہوگا۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو تبدیل کرنا شروع کردیں۔ اپنے آپ کو دیکھیں اور اسلام کے بتائے ہوئے احکامات پر کار بندہو جائیں۔ قربانیاں دیں، اپنا نقصان ہو تو فکر نہ کریں۔ دوسروں کے اعمال سے ہمیں کوئی غرض نہ ہو۔ ہم سود سے اجتناب کریں، کاروبار میں ایمانداری اپنائیں، جھوٹ فریب دہی اور دھوکا چھوڑ دیں۔ خلوص اور دینداری کے ساتھ محنت کریں تو ان شاء اللہ اس کی مدد ہمارے شامل حال رہے گی اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ پھر جمعہ ا ور عیدین پر مانگی ہوئی ہماری تمام دعائیں اللہ تعالیٰ سب کی سب من و عن قبول کر لیں گے۔ ان شاء اللہ۔ 
میں اسی امید پر زندہ ہوں کہ ایسا ہوگا۔ میں نے اپنی زندگی میں تو ایسا کچھ نہیں کیا۔ شاید ہمت، غیرت اور حمیت دینی کی کمی تھی۔ مگر میرے بچوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیم دی ہے۔ ان کو دین پر کار بند کر دیا ہے۔ انہیں سود کی لعنت سے دور رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ ان کا کریڈٹ کارڈ ضد کر کے زبردستی بند کروادیا ہے۔ جھوٹ اور دھوکہ دہی، حرام خوری اور حرام کاری سے اجتناب کا مکمل درس دے دیا ہے۔ رشوت لینے اور دینے سے انہیں منع کردیا ہے۔ دنیا کی حرس اور لالچ کی تمام خباثتوں سے انہیں آگاہ کر رکھا ہے۔ اللہ کے آگے جھکنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کر رکھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے بچے دنیا کے سب سے اچھے بچے ہیں اور مجھ سے تو کروڑوں درجے بہتر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میرے بچے ہی اس ملک کو تباہی سے بچائیں گے، اسلام کو سر بلند کریں گے۔ غریبوں کی حمایت اور دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ امت مسلمہ پر برا وقت آیا تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے دین کا دفاع کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ انہیں یقینا سربلندی اور سر افرازی ملے گی۔ اسلام کا نام بلند ہوگا تو انہی کے دم سے ہوگا۔ مگر ذرا توقف کریں اور پیچھے مڑ کر دیکھیں "میرے والد صاحب مرحوم نے مجھے بھی تو ان ہی باتوں کی تعلیم دی تھی اور اسی طرح کا درس دیا تھا......... تو پھر ہوا کیا......... آج ہم ایسے کیوں ہیں؟"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے