جمعہ، 8 فروری، 2013

خروج دجال کا مقام

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ8 ، 9  محرم، صفر 1433ھ/  نومبر ، دسمبر 2012



نور حدیث    بسلسلۂ نادر احادیث فتن

خروج دجال کا مقام

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی


حدیث :
عن ابی بکر الصدیق قال :
" حدثنا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال : '' الدجال یخرج من ارض بالمشرق یقال لہا خراسان یتبعہ اقوام کأنّ وجہوہم المجان المطرقة ۔''

ترجمہ :
 سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ
 ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان فرمایا کہ : '' دجال ارضِ مشرق سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے ۔قومیں اس کی پیروی کریں گی جن کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح ہونگے ۔''


تخریج :

(١) سنن ترمذی ، کتاب الفتن ، باب : ما جاء من این یخرج الدجال (٢) سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب : فِتنِ الدجالِ ، و خروجِ عِیسیٰ ابنِ مریم ، و خروجِ یاجوج و ماجوج (٣) مسند احمد ، مسند ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (٤)  مسند ابی یعلی ، مسند ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (٥) المستدرک علی الصحیحین ، کتاب الفتن و الملاحم (٦) مسند عبد بن حمید ،  مسند ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (٧) مسند البزار ۔

حکم فی الحدیث :

امام ترمذی اس حدیث کو '' حسن غریب '' قرار دیتے ہیں ۔علامہ حافظ عبد المغنی المقدسی کے مطابق یہ حدیث '' صحیح غریب '' ہے ۔ جبکہ امام حاکم ، امام ذہبی ، علامہ البانی ، مولانا محمد علی جانباز ، شعیب الارنائوط وغیرہم کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث '' صحیح ''ہے۔ الغرض ائمہ فن کی تصریحات کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے استدلال بالکل درست۔

تشریح :

( الدجال یخرج )'' دجال نکلے گا '' یہاں دجال کے نکلنے سے متعلق کچھ اشکالات پائے جاتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ کیا پہلے پہل اس کا اعلانیہ خروج مراد ہے یا اس کا اپنی کارروائیوں کو انجام دیتے ہوئے خراسان میں ظاہر ہونا مراد ہے ، کیونکہ ایک دوسری حدیث میں ہے :

''اِنہ خارِج خلة بین الشامِ والعِراق ''] مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعة ، باب ذِکرِ الدجالِ وصِفتِہِ وما معہ - سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب فتنة الدجال و خروج عیسیٰ بن مریم و خروج یاجوج و ماجوج -  مسند احمد ، مسند الشامیین ، حدیث نواس بن سمعان الکلابی[

'' بے شک دجال شام اور عراق کے درمیانی راستے سے نکلنے گا ۔ ''

تاہم ان باہم بظاہر متعارض روایت کا جواب بھی ہمیں صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث سے ملتا ہے :

''یأتِی المسِیح مِن قِبلِ المشرِقِ ہِمتہ المدِینة حتی ینزِل دبر احد ثم تصرِف الملائِکة وجہہ قِبل الشامِ وہنالِک یہلِک ۔'' ]صحیح مسلم ، کتاب الحج ، باب  صِیانِة المدِینِة مِن دخولِ الطاعونِ والدجالِ ِالیہا[

''مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اس کا ارادہ مدینہ منورہ میں آنے کا ہوگا یہاں تک کہ وہ کوہِ احد کے پیچھے اترے گا پھر فرشتے اس کا منہ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہاں وہ ہلاک ہوگا ۔ ''
اس حدیث سے دجال کے خروج کی تفصیل اور اس کی ترتیب واضح ہوجاتی ہے ۔

ہماری زیر تشریح حدیث میں '' الدجال یخرج '' سے مراد دجال کا انسانی دنیا میں پہلے پہل اعلانیہ نکلنا مراد ہے ۔ بعض افراد اس حدیث کو مسلم میں روایت کردہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کی اس مشہور حدیث سے متعارض سمجھتے ہیں جس میں ہے کہ دجال مشرق کی جانب کسی جزیرے میں قید ہے ۔ چنانچہ حافظ عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی اپنی کتاب ''ا خبار الدجال'' میں لکھتے ہیں :

 ''ہذا حدیث صحیح غریب و ہو مخالف لحدیث تمیم الداری'']ص : ١٧، دار الصحابة للتراث بطنطا١٤١٣ھ /١٩٩٣ئ[
 دو بظاہر صحیح الاسناد متعارض احادیث میں سے کسی ایک کو رد کرنے کی بجائے ہمیں چاہیئے کہ ہم ان متعارض روایات میں وجہ تطبیق تلاش کریں ۔ اس طرح اختلافات کا خاتمہ ہوتا ہے اور استدلال کے نئے گوشے نمایاں ہوتے ہیں ۔حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی بالکل درست ہے جس میں مذکور ہے کہ دجال ایک جزیرے میں قید ہے اور سیدنا ابو بکر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا  ہے کہ دجال مشرق کی طرف خراسان سے نکلے گا ۔ ان دونوں احادیث کی روشنی میں یہ حقیقت نکھر کر واضح ہوتی ہے کہ دجال کو قید سے رہائی پہلے ملے گی اور انسانی دنیا میں اعلانیہ خروج کا اقدام وہ کچھ عرصہ بعد کرے گا ۔ کیونکہ خراسان کو کسی بھی طرح جزیرہ نہیں کہا جا سکتا ۔ فطری طور پر رہائی کے بعد وہ پہلے پہل اپنے لیے پیروکاروں کا ایک جتھا تیار کرے گا جو اس کی پیروی کریں ۔ اس کا اشارہ بھی ہمیں صحیح مسلم ہی کی ایک روایت سے ملتا ہے :

'' یتبع الدجال مِن یہودِ اصبہان سبعون الفا علیہِم الطیالِسة ۔'' ]مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعة ، باب فِ بقِی مِن حادِیثِ الدجالِ[
'' اصبہان کے ستر ہزار یہودی جنہوں نے کالی چادریں اوڑھیں ہونگیں ، دجال کی پیروی کریں گے ۔ ''

( من ارض بالمشرق یقال لہا خراسان ) '' مشرق کی زمین سے ، جسے خراسان کہا جاتا ہے ۔''بعض روایات میں صرف ارضِ مشرق کا ذکر ہے تاہم اس روایت میں مزید وضاحت فرمادی گئی کہ دجال مشرقی خطے خراسان سے خروج کرے گا ۔ ارضِ مشرق کا اطلاق لغوی اعتبار سے سب سے زیادہ خراسان ہی پر ہوتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق '' خراسان '' فارسی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے '' خور '' ( یعنی سورج ) اور''آسان ''( یعنی نکلنا ، نکلنے کی جگہ )۔ اصطلاحاً کہا جائے گا کہ وہ مقام جہاں سے سورج نکلتا ہے ۔ فارسی زبان کی مشہور لغت '' لغت نامہ دھخدا '' میں ہے :

''خراسان در زبان قدیم فارسی بمعنی خاور زمین است۔''
اور '' خاور زمین'' کا مطلب ہے '' ارض بالمشرق '' مشرق کی زمین۔

( یتبعہ اقوام )''قومیں اس کی پیروی کریں گی۔''دجال کا اعلانیہ خروج تنہا نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ مختلف اقوام کے لوگ ہونگے جو اس کے چشم ابرو کی ہر ہر جنبش کی تعمیل کریں گے ۔

( کأنّ وجہوہم المجان المطرقة )  ''جن کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح ہونگے۔''دجال کی پیروی مختلف اقوام کے لوگ کریں گے ان میں سے بعض کی صفت یہ ہوگی کہ ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح یعنی پُر گوشت اور چوڑے ہونگے ۔

علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں :

'' ہذا الوصف اِنما یوجد فِی طائِفِ الترک و الازبِک ما ورا النہرِ ۔'' ]تحفة الاحوذی:٦/٢٢[
'' یہ وصف ترک ، ازبک اور ماوراء النہر کے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔''
فوئد و نکات :

اس حدیث سے حسب ذیل نکات واضح ہوتے ہیں :

١-      انسانی دنیا میں دجال کا اعلانیہ خروج خراسان کے مقام سے ہوگا ۔
٢-      دجال کو قید سے رہائی پہلے ملے گی اور انسانی دنیا میں اعلانیہ خروج کا اقدام وہ کچھ عرصہ بعد کرے گا ۔٣-      رہائی کے بعد وہ پہلے پہل اپنے لیے پیروکاروں کا ایک جتھا تیار کرے گا جو اس کی پیروی کریں گے۔٤-      دجال کا اعلانیہ خروج تنہا نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ مختلف اقوام کے لوگ ہونگے ۔
٥-      دجال کی پیروی کرنے والے مختلف اقوام کے لوگوں میں سے بعض کی صفت یہ ہوگی کہ ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں کی طرح یعنی پُر گوشت اور چوڑے ہونگے ۔

خراسان،ایران کاایک اہم اور قدیم صوبہ۔

جغرافیہ:اس میں پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور ، مرو ، ہرات اور بلخ اس کے دارالحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حددو میں شامل ہے۔

تاریخ:86ھ ہجری میں اسلام کے مشہور جرنیل قتیبہ بن مسلم نے خراسان کو اسلامی حکومت میں داخل کیا ۔ بعد کی اسلامی تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ساتویں صدی میں ابومسلم خراسانی نے یہیں سے بنو امیہ کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔

ذرائع:اس کے شمال میں پہاڑ ہیں۔ کوہ البرز کی وادیوں میں اناج ، تمباکو ، اور جڑی بوٹیاں بوئی جاتی ہیں۔ سونے اور چاندی کی کانیں بھی ہیں۔( بشکریہ :  wikipedia)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے