پیر، 14 جنوری، 2013

قرآن اور پانی

تبصرہ کتب 8،9

قرآن اور پانی

مؤلف : محمد شعیب قادری
اشاعت : جولائی ٢٠١١ء
ناشر : بزم حجاز، جامعہ وقاریہ ٹرسٹ، کوثر نیازی کالونی، نارتھ ناظم آباد، کراچی

مبصر :  ابو عمار سلیم


مصنف کتاب جناب محمد شعیب قادری صاحب نے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بہت ہی اہم اور حساس موضوع پر ایک قابل قدر مضمون ترتیب دیا ہے۔ پانی ہمیشہ سے انسانی زندگی کے لیے ایک انتہائی اہم اور حیات کے برقرار رکھنے اور اس کی نشو نما کے لیے جزو لا ینفک عنصر کی طرح ضروری رہا ہے۔  جب قرآن مجید نے یہ اعلان کردیا کہ ہر زندہ چیز جو تم دیکھتے ہو اللہ نے پانی سے ہی تخلیق کی ہے تو پھر پانی کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ پانی انسان کے لیے اتنا اہم رہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ تہذیب انسانی ہمیشہ پانی کے ذخائر کے قریب ہی رہ کر پھلی پھولی ہے۔ دریائے دجلہ و فرات، نیل و آمو ، امیزن اور ڈینوب یا پھر ہمارا دریائے سندھ سب نے انسانی تاریخ اور تہذیب و تمدن پرگہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ تہذیبیں وہیں پروان چڑھیں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود رہا۔
چھوٹی چھوٹی بستیاں جو کسی آبی ذخیرہ کے قریب آباد ہوئیں وہ پانی کے ختم ہوتے ہی اجڑ گئیں۔ اسلام نے پانی کو اتنی اہمیت دی کہ اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی کہ پانی کے استعمال میں احتیاط برتو کیونکہ آخرت میں اس کا حساب دینا پڑے گا۔ وضو میں تین مرتبہ چہرہ دھونا ضروری ہے تو بلا ضرورت چوتھی مرتبہ منہ دھونے پر گرفت ہو سکتی ہے۔ یہاں پرپانی کی اہمیت اور ضرورت پر کسی قسم کی تفصیلی بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ مصنف نے انسان کو عمومی اور مسلمانوں کو خصوصی طور پر پانی کے ضیاع سے روکنے اور اس کی قدروقیمت کو سمجھنے کے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ آنے والے وقتوں کے لیے ماہرین جدید کی یہ رائے ہے کہ پانی کی قلت اس قدر تیزی سے واقع ہو رہی ہے کہ آئندہ جنگیں پٹرول نہیں پانی کے حصول کے لیے ہوا کریں گی۔ حق تو یہ ہے کہ پانی اور ہوا دونوں چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لیے مفت فراہم کر دیں ہیں اور ہر ایک انسان اور جانور پر اس کا حق ہے۔ ان دونوں کی پیداوار اور اس کے حصول کے جو جو طریقے اللہ پاک نے ترتیب دیئے ہیں اس کی تباہی کسی انسان کے بس سے باہر ہے۔ موجودہ دور فتن میں جبکہ دجال کی آمد آمد ہے، اس کے گرگوں نے البتہ بنی نوع انسان کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں باندھنے کے لیے مختلف ہتھیار استعمال کرنے شروع کردیے ہیں۔ آج ہمیں یہ بآور کرادیا گیا ہے کہ جو پانی ہم دریاؤں اورکنوؤں اور چشموں سے حاصل کرتے ہیں ناقابل استعمال ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ہرشخص پینے کے لیے پانی خرید رہا ہے اور شیطان لوگوں کی دولت سمیٹ رہا ہے۔ آج پانی خرید کر پی رہے ہیں کل کو ہوا سانس لینے کے لیے خریدنی پڑے گی۔ انسانیت پچھلے ہزاروں سال سے کنوے، چشمے اور دریاؤں کا پانی استعمال کرتی آئی ہے اور ہمیشہ پھلی پھولی ہے۔ آج اس کو ان پانیوں سے کیوں خطرہ ہے؟

مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے قرآن مجید اور مختلف علماء کی تفاسیر کے علاوہ احادیث مبارک اور دینی مآخذ سے پانی کی اہمیت اور اس کے استعمال اور حصول کے ذرائع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کی اہمیت اور جدید دور میں ڈیم اور جھیلیں بنانے کے بارے میں اہم اور قابل عمل مشورے دیئے ہیں۔وطن عزیز پاکستان میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اچھے مشورے دیئے گئے ہیں۔ کشمیر اور وادی مہران کے بارے میں بھی اہم معلومات پیش کی ہیں۔پاکستان کی ترقی کے ضمن میں مصنف نے ان حالات میں پانی جیسی نعمت کی طرف مسلمانوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں متوجہ کیا ہے کہ پانی ساری ترقی کا راز اور بنیاد ہے۔ پاکستان اس وقت کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہے، دور دور تک کوئی مرد میدان بحرانوں سے نکالنے والانظر نہیں آرہا ہے۔ پاکستان اپنے اطراف کے حالات کی وجہ سے اس وقت بارش کے پانی پر زیادہ انحصار کر سکتا ہے۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ان کی دی گئی تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔دیہات شہروں اور پھر ملکی سطح پر اصلاحات کا نفاذ انتہائی ضروری ہے جو وقت  ضائع کیے بغیر انجام پانا چاہئے۔ مصنف کے نزدیک پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کے انتظام و انصرام میں جو کچھ بھی کیا جائے گا صدقہ جاریہ میں شمار ہوگا اور اللہ کے یہاں اس کا اجر ملے گا۔ ان شاء اللہ۔
 
( ابو عمار سلیم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے