اتوار، 2 دسمبر، 2012

مریم جمیلہ مغرب کے لیے اسلام کی سفیر

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو محمد معتصم بااللہ

مریم جمیلہ
مغرب کے لیے اسلام کی سفیر


مریم جمیلہ ( پیدائشی نام: مارگریٹ مارکس ) مغرب کے لیے اسلام کی سفیر تھیں ۔ ان کی زندگی اور ان کے رویے نے اہلِ مغرب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام ایک واقعی غیر معمولی روحانی تاثیر کا حامل دین ہے ۔ وہ اپنی ذات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی نشانی تھیں ۔ ٢٣مئی ١٩٣٤ء کو نیو یارک کے ایک یہودی خانوادے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا خاندان جرمنی سے تعلق رکھتا تھا ۔

ان کی ابتدائی زندگی نیویارک میں گزری ۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں اسلام اور عرب تہذیب سے متعارف ہوئیں جو بعد ازاں تعارف سے بڑھ کر تاثر میں تبدیل ہوگیا ۔

لڑکپن ہی سے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن سے شائع ہونے والے مسلم ڈائجسٹ کے لیے تحاریر بھی لکھتی رہی تھیں ۔ وہ علامہ محمد اسد ( سابق یہودی لیوپولڈوس ) اور محمد مارماڈیوک پکھتال کے قبول اسلام سے خاصی متاثر تھیں ۔ اوّل الذکر کی کتاب Road to Makkah ( اردو ترجمہ '' طوفان سے ساحل تک '' ) نے ان کے ذہن و قلب پر اچھے اثرات مرتب کیے تھے تاہم انہوں نے اپنے اشکالات مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمت میں پیش کیے اس سلسلے میں ان کی مستقل خط و کتابت رہی . بالآخر انہوں نے ٢٤ مئی ١٩٦١ء کو اسلام قبول کر لیا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا مودودی کی دعوت پر وہ ١٩٦٢ء میں وہ لاہور پہنچیں جہاں انہوں نے مولانا موددوی اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ بعد ازاں انہوں نے پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور یہاں محمد یوسف خان نامی شخص --جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں --سے  شادی کی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محمد یوسف خاں پہلے سے شادی شدہ تھے اور مریم جمیلہ ان کی دوسری بیوی کی حیثیت سے ان کی زندگی میں شامل ہوئیں ۔

کہا جاتا ہے کہ ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ'' مسلم ڈائجسٹ '' میں مولانا مودودی کا چھپنے والا مضمون "حیات بعد الموت " تھا جس کے بعد انہوں نے ٥دسمبر ١٩٦٠ء کو مولانا مودودی سے بذریعہ خط پہلا رابطہ کیاتھا۔مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کے درمیان خط و کتابت کا یہ سلسلہ ١٩٦٢ء تک جاری رہا۔ ان خطوط کا موضوع اسلام اور مغرب ہوا کرتا تھا۔ دونوں کے خطوط بعد ازاں ''مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی خط و کتابت '' کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے ۔

مریم جمیلہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی تمام تر قلمی صلاحیتیں تبلیغِ اسلام کے لیے وقف کردی ۔ ان کی کتابوں میں حسبِ ذیل کتابیں شامل ہیں ::

 ISLAM VERSUS THE WEST
2. ISLAM AND MODERNISM
3. ISLAM IN THEORY AND PRACTICE
4. ISLAM VERSUS AHL AL KITAB PAST AND PRESENT
5. AHMAD KHALIL
6. ISLAM AND ORIENTALISM
7. WESTERN CIVILIZATION CONDEMNED BY ITSELF
8. CORRESPONDENCE BETWEEN MAULANA MAUDOODI AND MARYUM JAMEELAH
9. ISLAM AND WESTERN SOCIETY
10. A MANIFESTO OF THE ISLAMIC MOVEMENT
11. IS WESTERN CIVILIZATION UNIVERSAL
12 WHO IS MAUDOODI ?
13 WHY I EMBRACED ISLAM
14 ISLAM AND THE MUSLIM WOMAN TODAY
15 ISLAM AND SOCIAL HABITS
16 ISLAMIC CULTURE IN THEORY AND PRACTICE
17 THREE GREAT ISLAMIC MOVEMENTS IN THE ARAB WORLD OF THE RECENT PAST
18 SHAIKH HASAN AL BANNA AND IKHWAN AL MUSLIMUN
19 A GREAT ISLAMIC MOVEMENT IN TURKEY
20 TWO MUJAHIDIN OF THE RECENT PAST AND THEIR STRUGGLE FOR FREEDOM AGAINST FOREIGN RULE
21 THE GENERATION GAP ITS CAUSES AND CONSEQUENCES
22 WESTERNIZATION VERSUS MUSLIMS
23 WESTERNIZATION AND HUMAN WELFARE
24 MODERN TECHNOLOGY AND THE DEHUMANIZATION OF MAN
25 ISLAM AND MODERN MAN

وہ لاہور میں رہائش پذیر تھیں اور یہیں بروز بدھ ٣١ اکتوبر ٢٠١٢ء کو ان کا انتقال ہوا۔

Deborah Baker نے مریم جمیلہ کی سوانح The Convert: A Tale of Exile and Extremism کے عنوان سے لکھی ۔ یہ کتاب ٢٠١١ء میں طبع ہوئی ہے ۔

ایک افسوسناک امر

مریم جمیلہ ( غفر اللہ لہا ) نورِ ہدایت کی متلاشی ایک پاکیزہ روح تھی ۔ جس نے محض اسلام کی خاطر اپنا خاندان ، معاشرہ اور ملک چھوڑ کر اسلام کے آغوشِ رحمت میں پناہ لی۔ اپنی پوری زندگی اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں گزاری ۔ وہ قبولِ اسلام کے بعد ایک انتہائی با پردہ خاتون ثابت ہوئیں۔ بدقسمتی سے ان کی خبر وفات کے ساتھ اخبارات میں ان کی پرانی تصاویر بھی شائع کی گئیں یہ روّیہ اسلامی اخبارات و جرائد کے صفحات پر ظاہر ہوا ۔ اس کارِ مذموم کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک باپردہ اسلامی بہن کی تصویر کی اشاعت غیر مناسب و غیر اخلاقی تھا ۔ مریم جمیلہ کی تصویر کی اشاعت کرنے والوں نے اپنی ہمشیرہ دینی کی حق تلفی کا ارتکاب کیا ہے ۔ کاش ایسا نہ کیا جاتا۔مانا زرد صحافت کے اپنے تقاضے ہیں مگر غیرتِ اسلامی کی کچھ رمق تو باقی رہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے