بدھ، 12 دسمبر، 2012

فنا فی الآزاد. مولانا ابو الکلام آزاد کے ایک عقیدتمند کو خراج عقیدت

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

فنا فی الآزاد
مولانا ابو الکلام آزاد کے ایک عقیدتمند کو خراج عقیدت

جو تمام عقیدت مندوں سے بازی لے گیا

یہ ٹھیک ہے کہ حیاتِ ابو الکلام کا ایسا کوئی گوشہ نہیں جس میں ابو سلمان کا گزر ہوا ہو اور ابو سلمان کی زندگی کا ایسا کوئی پَل نہیں جس میں ابو الکلام کی شراکت ہو ۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہم ابو الکلام کی زندگی سے ابو سلمان کو خارج کر سکتے ہیں اور نہ ہی ابو سلمان کی زندگی سے ابو الکلام کو نکال سکتے ہیں ۔ ابو الکلام، ابو سلمان کے لیے اور ابو سلمان، ابو الکلام کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔

دنیا میں بڑی بڑی شخصیات پیدا ہوئی ہیں ان کے بڑے بڑے عقیدت مند پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے اپنی زندگی کی کتنی ہی ساعتیں وقف کردیں اور اپنے ممدوحین کے ہر اہم گوشے کو کھنگال ڈالا۔ لیکن ابو سلمان اپنے طرزِ خاص کے سب سے منفرد عقیدت مند ہیں ۔ وہ زندگی کی ساعتیں وقف کرنے کے قائل نہیں ، انہوں نے زندگی ہی وقف کردی ۔ انہوں نے ابو الکلام کی زندگی کے اہم گوشوں کو نہیں کھنگالا بلکہ ہر گوشے کو کھنگال ڈالا ۔ ابو سلمان علمی تاریخ کی واحد مثال ہیں جنہوں نے اپنے ممدوح ابو الکلام پر سب سے زیادہ کتابیں لکھ ڈالیں، جن کی مجموعی تعداد ٥٠ سے زائد ہے ۔
اسے جنون کہیے یا دیوانگی ١٩٨٨ء ابو الکلام کی صد سالہ پیدائش کا سال ۔ ہندوستان میں اس سال کو بڑے بڑے اداروں نے اپنے بھرپور مالی وسائل کے ساتھ شاندار طریقے سے منایا لیکن کراچی میں مالی وسائل سے محروم اور مالی مسائل سے بھرپور ابو الکلام کے اس عقیدت مند نے جس طرح منایا وہ ہماری علمی تاریخ میں "تاریخ عقیدت" کی یادگار ترین مثال ہے ۔ چنانچہ خود لکھتے ہیں :
"میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پاک و ہند کا کوئی ایک ادارہ مولانا ابو الکلام آزاد پر یا ان کی یاد میں زیادہ سے زیادہ جتنی کتابیں شائع کرے گا ۔ اس سے زیادہ کتابیں ، خواہ ایک ہی زیادہ ہو شائع کروں گا ۔"
ابو الکلام کے اس عقیدت مند نے محض نذرانۂ اشک کے ہدیے پیش کرکے اپنی عقیدت کا تقاضا ادا کرنا اپنی غیرت اور خودداری کے منافی سمجھتے ہوئے عالی حوصلگی کی مثال قائم کی ۔ ابو الکلام پر تحقیق و جستجو کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی داستانِ عقیدت رقم کرکے قرطاس کے ڈھیر لگادیئے ۔ پھر ان کاغذی گلدستوں کی منصہ شہود پر آمد بھی ایک مرحلۂ دشوار تھا ۔ یہاں اس عقیدت مند نے اپنی درماندگی کو خاطر میں لائے بغیر عزیمت و استقامت کی تاریخ رقم کی ۔

ابو سلمان عمل کی مثال ہیں ۔ وہ اپنی عقیدت میں سچے ہیں ۔ ابو الکلام کی "کلامیات" سے انہیں جو دلچسپی ہے اس نے انہیں "کلام غیر" سے بے نیاز کردیا ہے ۔ کوئی کچھ ہی کہے وہ اپنا کام کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ زبانِ قال سے نہیں بلکہ زبانِ عمل سے بتاتے ہیں کہ کام کیسے کیا جاتا ہے ۔

ابو سلمان علم و تحقیق کے آدمی ہیں ۔ ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ہمارے عہد اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اگر انہیں علم پرور معاشرہ ملتا تو ان کی قدر ہوتی ۔ لوگ ان پر تحقیقی مقالے لکھتے ۔ ان کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ۔ ان کے نام پر شاہراہ وقف کی جاتی ۔ مگر زمانے سے جو "سزائے تحسین" انہیں ملی اس پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے انہوں نے تسکینِ قلب کے مملکتِ قناعت میں پناہ گزیں ہوناپسند کیا۔
فائز چو قدسیم نہ برد مال و زر زجا
آتش نیم کہ تیز کند خار و خس مر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے