اتوار، 4 نومبر، 2012

گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز

ابو محمّد معتصم باللّٰہ

واہیات فلم Innocence of Muslims مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کا تسلسل اور ایک نئے سازشی موڑ کا نکتۂ آغاز ہے ۔ اس سازش کے ظاہری کرداروں میں سب سے نمایاں نام ٹیری جونز کا ہے ۔یہ وہی خبطی ہے جس نے گزشتہ برس قرآن پاک کے مقدس اوراق کو جلانے کی مہم شروع کی تھی تاہم عالمی دباؤ کے باعث اسے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ لیکن اس دوران اس کاتخریبی ذہن مسلسل مسلمانوں کے خلاف متحرک رہا ۔ جس کا نتیجہ گستاخانہ فلم کی صورت میں نکلا ہے ۔

خبر ہے فلم کے لیے ١٠٠امریکی یہودیوں سے پانچ ملین ڈالر بٹورے گئے۔  یہودی جو چند ٹکے دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیں انہوں نے یہ رقم بخوشی پیش کردی ۔ جائے تعجب ہے ۔ گستاخانہ فلم کا پروڈیوسر بھی اسرائیلی نکلاجو فلم کی تیاری کے بعد روپو ش ہوگیا ۔

٥٢ سالہ سام باسل نامی اس پروڈیوسر کا تعلق امریکی ریاست کیلیفورنیا سے ہے اور وہ وہیں روپوش ہے۔ سام باسل ایک اسرائیلی نژاد یہودی ہے۔

گستاخانہ فلم گزشتہ برس کے آخر میں مکمل کر لی گئی تھی اور اسے امریکا میں ہالی وڈ کے ایک تھیٹرمیں چند لوگوں کو دکھایا بھی گیا تھا۔ تاہم اسے منظر عام پر نہیںآنے دیا گیا۔ اس کی تیاری پر پانچ ملین ڈالرز کی لاگت آئی ہے اور یہ ساری رقم امریکا کے ١٠٠یہودیوں سے جمع کی گئی۔

 بعد ازاں فلم کی ١٣ منٹ کی فوٹیج ویڈیو سائٹ ''یو ٹیوب''پر نشر کی گئی ۔ یو ٹیوب کی انتظامیہ نے اس پر ردعمل آنے کے بعد انٹرنیٹ سے ہٹانے کا بھی اعلان کیا ہے۔تاہم عالمی سطح پر پُرزوراحتجاج کے باوجودابھی تک نہیں ہٹا یا ہے ۔

گستاخ رسول امریکی پادری ٹیری جونزبھی اس فلم کا ایک اہم کردار ہے۔ جس عرصے میں یہ فلم اپنی تیاری کے مراحل میں تھی۔ اس دوران یہ بد بخت ، قرآن کریم کے نسخے نذرآتش کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ پچھلے سال نائن الیون کی دسویں برسی کے موقع پراس نے قرآن کریم کے نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا اور اس سال اسی کے تعاون سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں ایک نئی گستاخی کی گئی ہے۔

فلم کو انگریزی سے عربی میں ڈب بھی کیا گیا ہے ۔ جس کے لیے مصری افراد کی خدمات لی گئی ہیں ۔جن مصری افراد نے اس گھناؤنی حرکت میں حصہ لیا ان کے خلاف مصری حکومت نے سخت تادیبی کارروائی کا حکم دیا ۔تحقیقات کے بعد  ٹیری جونز اور نو مصری نژاد قبطیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اوران کی گرفتاری کے لیے وارنٹ تیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امریکی نیٹ ورک سی این این نے بیہودہ فلم میں کام کرنے والے عملے کا بیان نشر کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ سب نہیں جانتے تھے کہ فلم پروڈیوسر سیم باسل کا کیا ارادہ ہے، وہ سب اس کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور وہ کسی کو تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے ۔ ان کو صحرائی جنگجو Desert Warrior نامی ایک فلم کے لیے اشتہار دے کر بھرتی کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ایک تاریخی فلم ہو گی ۔

سی این ان نے ایک ایکٹریس کا انٹرویو نشر کیا ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے معذرت کی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ ساری صوتحال پر بہت خوفزدہ ہے ، اور فلم بنانے والے پر شدید غصے میں ہے ۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ یہ ایک ایڈونچر فلم ہے اور اس کا کردار بہت مختصر تھا۔فلم کے کئی ڈائیلاگ بعد میں بدلے گئے جو ایک دھوکا ہے ۔ ایکٹریس نے بتایا کہ فلم بناتے وقت مکالموں میں حضرت محمد کا نام شامل نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ جارج یا سر جارج کا نام تھا جسے بعد میں تبدیل کیا گیا ۔

امریکا اور اسرائیل دونوں ہی نے اس فلم سے اپنی برأت کا اظہار کیا ہے اور بظاہر مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی بھی کی ہے ۔ لیکن مقام غور ہے کہ اب تک انہوں نے اس گھناؤنی ساش کے کرداروں پرکوئی گرفت نہیں کی ۔  نہ اس فلم پر کسی قسم کی پابندی ہی عائد کی ہے ۔

فلم کے ردّ عمل میں جو تشدد کا رجحان نظرآتا ہے اہلِ نظر بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کسی بیرونی و عالمی سازش ہی کا حصہ ہے ۔ شاید یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ کیونکہ توہین آمیز فلم کے خلاف عالم اسلام میں احتجاج کی حدت ابھی کم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ فرانس کے ایک  ہفت روزہ جریدے نے نبی اکرم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس سے فرانسیسی زبان میں چھپنے والے میگزین ''چارلی ایبڈو''کے ایڈیٹر انچیف چارب نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز کے پرچے میں ایک صفحہ خاکوں کے لیے مختص کیا ہے۔ ان خاکوں میں مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی پر کارٹون شامل ہیں۔فرانسیسی ٹی وی''آئے ٹیلی''سے بات کرتے ہوئے جریدے کے ایڈیٹر نے کہا کہ جو لوگ ہمارے میگزین سے نفرت کرتے ہیں، اسے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ لڑائی پر اتر آتے ہیں، یہ خاکے ان کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ ہم لڑائی کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح لڑ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے مذموم عزم کا اظہار کرنے والا جریدہ اسی طرح کی جسارت پچھلے سال بھی کر چکا ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر گزشتہ برس پیرس میں اس کے دفتر پر نامعلوم افراد نے پٹرول بموں سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں دفتر کا ایک حصہ نذر آتش ہو گیا تھا۔ میگزین نے اس سال پھر وہی جسارت کی ہے اور آزادی صحافت کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا ہے۔

ادھر پیرس میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ حدود سے تجاوز کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے تمام اشاعتی اور نشریاتی اداروں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اورکسی نئی اشتعال انگیزکارروائی سے گریز کریں۔ وزیر اعظم آئرویلٹ کا کہنا ہے کہ فرانس ایک سیکولر ملک ہے جہاں تمام مذاہب کو یکساں احترام حاصل ہے۔ میثاق جمہوریت کا اصل اصول یہ ہے کہ تمام ادیان کا احترام بجا لایا جائے۔ادھر فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فائیبوسنے اپنے قاہرہ کے دورے کے دوران کہاکہ وہ کسی اخبار یا جریدے کو کارٹون شائع کر کے نئی اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے آزادی اظہار رائے کا راگ الاپتے ہوئے اپنی ہی کہی بات کی نفی کر دی کہ ان کے ملک میں کچھ بھی شائع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

دوسری طرف خیال رہے کہ امریکا بہادر نے دنیا ، بالخصوص اسلامی دنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اپنے سفارت خانوں کی حفاظت کو ہر ممکن صورت یقینی بنائے گا ۔ اس کے لیے وہ اپنی فوجیں بھی مامور کرسکتا ہے ۔ چنانچہ سوڈان کے لیے امریکی فوجوں کی تعیناتی کا اعلان ہوچکا ہے ۔ اس اعلان کے ساتھ مسلم دنیا کے روشن ضمیر افراد پر اس سازش کے تمام اسرار منکشف ہوجاتے ہیں کہ اس سازش کے اصل کردا ر کون ہیں ؟ اور یہ کہ ان کے مقاصدکیا ہیں ؟
نبی کریم کی شانِ اقدس میں گزشتہ کئی برسوں سے ہونیوالی رذیلانہ حرکتوں کے خلاف مسلم امہ سراپا احتجاج ہے ۔ لیکن انہیں احتجاج پر مجبور کرنے والے بغیر کسی مقصد کے ایسا نہیں کرسکتے ۔ نیز یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح ان ذمہ دار ممالک کے ارباب اقتدار بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے ۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ گستاخانہ فلم محض ایک سازش نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف بپا عالمی سازش کا ایک اہم ترین موڑ ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے