اتوار، 25 نومبر، 2012

سیّد علی مطہر نقوی سے فکر انگیز گفتگو

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو موحد عبید الرحمن

سیّد علی مطہر نقوی سے  فکر  انگیز  گفتگو


سیّد علی مطہر نقوی موجودہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سیّد منور حسن کے خسر ہیں ۔ وہ خود بڑے متحرک و فعال شخصیت کے حامل رہے ہیں ۔ انہوں نے کئی اہم کتابیں شائع کی ہیں ۔ پاکستان میں پہلے پہل مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنؤی اور مولانا عامر عثمانی کے افکار و نظریات کی اشاعت بھی انہیں کا حصہ ہے ۔ انہیں اپنے عہد کے کبار علماء کی ہم نشینی و ہم جلیسی کا شرف حاصل رہا ہے ۔ اس اعتبار سے ان کا سینہ قیمتی معلومات کا مخزن ہے ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ادارہ '' الواقعة '' نے ان کے ساتھ ایک فکری نشست کا اہتمام کیا ۔ اس دوران ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو رہی ۔


الواقعة :اپنی ابتدائی زندگی اور خاندانی پسِ منظر سے متعلق آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی : میری پیدائش ١٩٢٣ء میں امروہہ کے نقوی سادات خاندان میں ہوئی ۔ میرے تایا سید علی متقی امروہہ کے مشہور و معروف اصحاب میں سے تھے ۔ وہ امروہہ مسلم لیگ کے تا حیات صدر رہے ۔ انہیں اپنے زمانے میں سیاسی اعتبار سے نمایاں مقام حاصل تھا ۔ مولانا شوکت علی اور دوسرے سیاسی رہنما ان سے ملنے امروہہ تشریف لایا کرتے تھے ۔

الواقعة :آپ اپنی تعلیمی زندگی میں کن اساتذہ سے متاثر ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی : میری تعلیمی زندگی تو کوئی خاص نہیں تاہم مولانا انوار الحق صاحب شفیق استاد تھے ۔

الواقعة :اپنی علمی زندگی میں آپ کن اشخاص سے متاثر ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میں پہلے نمبر پر امام اہل سنت علامہ عبد الشکور فاروقی لکھنؤی سے بے انتہا متاثر رہا ہوں اور خود کو ان کا نیاز مند سمجھتا ہوں اور دوسرے نمبر پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ الرحمة سے متاثر ہوں ۔

الواقعة:مولانا عبد الشکور لکھنؤی سے اپنے اس خاص ارتباطِ قلبی اور نیاز مندانہ تعلقات کی تفصیل بیان فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: علامہ لکھنؤی تو اپنے دور کے ممتاز علماء میں سر فہرست ہیں اور یقینا وہ صحیح معنوں میں امام اہل سنّت تھے بلکہ علامہ یوسف بنوری بھی انہیں '' امام اہل سنت '' کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے ۔ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب انہیں '' جامع معقول ومنقول '' بتلاتے تھے ۔علی میاں انہیں نہ صرف '' عمیق النظر فقیہ ''لکھتے ہیں بلکہ اپنے دور کا '' مجدد'' بھی قرار دیتے تھے ۔ مجھے اور میرے بڑے بھائی یعنی قاری علی تجمل نقوی امروہوی کو علامہ لکھنؤی سے خاص قلبی انس تھا ۔ خود علامہ لکھنؤی بھی ہم سے محبت رکھتے تھے بلکہ آپ کی جب پاکستان آمد ہوئی دو بار ، تو دونوں بار تمہیدی گفتگو کے فوراً بعد اپنے مخصوص لہجہ میں بھائی کے متعلق دریافت فرماتے کہ تجمل کا کیا حال ہے ۔

الواقعة :مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی سے کب اور کس طرح متعارف ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: فکرِمودودی سے میری پہلی آشنائی بذریعہ ترجمان القرآن ہوئی ۔ یہ ١٩٣٢ء کی بات ہے جب میں نے '' اشارات '' کا مطالعہ کیا اور پورے یقین کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص ( یعنی سید مودودی ) صحیح اسلامی فکر کا حامل ہے اور اس کی دلیل نہ صرف سید صاحب کی کتابیں ہیں بلکہ ان کی کتاب زندگی بھی اسی پر شاہد ہے ۔ ان کی کتابیں اور کتاب زندگی میں آپ عین مطابقت پائیں گے ، یہی معاملہ ان کی صورت و سیرت کا ہے کہ وہاں بھی اس ناچیز نے فطرت کی جھلک کو واضح طور پر محسوس کیا ۔ میری سید صاحب سے خود ان کے گھر پر ملاقاتیں رہتی تھیں ، میرا قلبی تاثر ان کے متعلق یہی کچھ تھا جو میں نے آپ سے بلا تکلف بیان کیا ۔

الواقعة :آپ نے امّت مسلمہ کے دو بڑے اصحاب علم و فضل یعنی مولانا لکھنؤی و مولانا مودودی کا ذکر خیر کیا ۔ آپ کی اس قلبی محبت نے کیا ان دونوں شخصیتوں کے مابین کوئی نکتۂ اشتراک بھی دریافت کیا؟
سیّد علی مطہر نقوی:  جی ! بڑا عمدہ سوال ہے ، یقینا ہم ان دونوں اکابرین کے مابین نکتۂ اشتراک پاتے ہیں اور یہ نکتۂ اشتراک دونوں اکابرین کے مابین محبت و قدر دانی کا ہے ۔ دونوں ہی اکابرین ایک دوسرے کی جلالت علمیہ کے معترف تھے ۔ چنانچہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سیّد صاحب کے انتقال پر جب جانا ہوا تو جہاز میں میری ساتھ والی نشست پر محترم مولانا ملک غلام علی مرحوم ( مؤ لف '' خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ '' ) بھی تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے اس موقع پر سیّد صاحب کے یہ الفاظ علامہ لکھنؤی کے بارے میں روایت کیے کہ'' میں علامہ عبد الشکور لکھنؤی کے علم و فضل و تدین کا تہہ دل سے معترف ہوں ۔'' اور ادھر خود مولانا عبد الشکور صاحب بھی سید صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ جس دور میں سید صاحب کے خلاف فتوے بازی کی مہم جاری تھی کچھ مخالفین آپ کے پاس فتویٰ لینے آئے ، آپ نے اس وقت فتویٰ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک خود اصل مآخذ کا مشاہدہ نہ کرلوں ، فتویٰ نہ دوں گا ۔چنانچہ آپ کوسید صاحب کی اصل کتب بھجوائی گئیں ۔ جب آپ نے ان کا مطالعہ کیا تو واضح الفاظ میں یہ خلاصۂ تحقیق بیان فرمایا کہ '' لوگ جو باتیں کرتے ہیں مجھے تو ان کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا ، زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتاہے تو وہ عدم احتیاط ہے ۔'' آپ دیکھیے کہ کس قدر معتدل و محتاط لوگ ہیں اور مولانا لکھنؤی کے یہاں احتیاط کا عالم یہی تھا کہ اصل مآخذ پڑھے بغیر تبصرہ نہ فرماتے تھے ۔ ایک بار میں آپ سے ملنے بنوری ٹائون گیا تو آپ کی میز پر '' خلافت معاویہ و یزید '' رکھی تھی فرمانے لگے محمود عباسی صاحب آئے تھے ، تقریظ لکھوانا چاہ رہے تھے میں نے کہہ دیا ہے کہ بغیر پڑھے تقریظ نہ کروں گا ، گو تقریظ تو آپ نے بعد میں بھی نہ لکھی اور بھلا آپ کیسے کسی ناصبی کی تائید کرسکتے تھے لیکن اصل مآخذ پڑھے بغیر آپ کوئی تبصرہ نہیں کرتے تھے ۔

الواقعة :آپ نے فتنہ ناصبیت کی بات کی اور اس سلسلہ میں آپ نے اس فتنہ کا علمی محاسبہ بھی اپنی تالیف '' محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کی آئینے میں '' کیا ہے ،اس حوالے سے تحریک کیونکر بیدار ہوئی ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میں دراصل خود بھی اس قسم کے علمی موضوعات سے شغف رکھتا ہوں ۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ ایک منظم تحریک جو شیعیت کے مقابلہ میں میدان میں آئی ہے وہ حدود سے تجاوز کر رہی ہے اور اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہونے کی بجائے خانوادئہ اہل بیت پر تبرا کر رہی ہے اور یوں ناصبیت کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ ان کی اصلاح کی جاتی تاکہ اہل سنت کی توانائیاں غلط سمت میں استعمال نہ ہو پائیں ۔ باقی سیاسیات کے باب میں بھی یہ فطری سوال جنم لے رہا تھا کہ اگر عمر فاروق بھی خلیفہ راشد ہیں اور یزید بھی خلیفہ راشد ہے تو پھر مسلمانوں کا تصور خلافت آخر ہے کیا اور رہ کیا جاتا ہے ؟؟

الواقعة :آپ کے بڑے بھائی محترم قاری علی تجمل نقوی امروہوی ایک مشہور ادبی شخصیت رہے ہیں ، ان کے متعلق بھی ہمیں آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میرے بھائی قاری علی تجمل نقوی بڑی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ وہ فارسی زبان میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے بھی منسلک رہے ۔ میں عنقریب ان کا فارسی دیوان بھی شائع کرنے والا ہوں ۔ جس میں انہوں نے علامہ لکھنؤی و علامہ مودودی پر بھی قصائد سپرد قلم کیے ہیں ۔ بھائی کی شیعہ شعراء کے ساتھ امروہہ میں نوک جھونک چلتی رہتی تھی ۔ ایک بار بھائی کے ایک قصیدے کا جواب رئیس امروہوی صاحب نے اپنے تئیں دینے کی کوشش بھی کی لیکن جب یہ قصیدہ خود اہل تشیع مکتبہ فکر کی مجلس میں پیش کیا گیا تو قابلِ رد قرار دیا گیا کہ اس میں فارسی ادبیت کی وہ چاشنی نہ تھی جو بھائی کے قصیدہ میں ملحوظِ خاطر رکھی گئی تھی ۔ بھائی کو مولانا لکھنؤی ، مولانا مودودی ، علامہ اقبال اور جگر مرادآبادی سے بے حد عشق و تعلق تھا ۔

الواقعة:آپ کے بھائی علامہ موسیٰ جار اللہ سے بھی متعلق رہے ، اس حوالے سے بھی کچھ فرمائیے؟
سیّد علی مطہر نقوی: آپ کو معلوم کہ علامہ موسیٰ جار اللہ کا شمار کبار روسی علماء میں ہوتا ہے ۔ بھائی کے ان سے برادرانہ تعلقات تھے ۔ علامہ موسیٰ جار اللہ مجاہد آدمی تھے ۔ اسٹالن ان سے بہت خائف رہتا تھا ۔ اسٹالن اپنے مخالفوں کو ایک لمحہ برداشت نہ کرتا تھا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا ۔ اس نے علامہ سے بھی کہاکہ مزاحمت و تنقید کرنا چھوڑ دو ورنہ موت کے لیے تیار ہوجائو ۔ اس پر علامہ موسیٰ جار اللہ نے فرمایا کہ اسی باب شہادت کا تو میں منتظر ہوں ۔ تاہم اسٹالن اپنی اس سرکشی سے باز رہا لیکن پھر انہیں جلا وطن کردیا۔ پھر وہ وہاںسے ہندوستان چلے آئے ۔ یہاں وہ پشاور کے ہوٹل میں مقیم تھے ۔ میرے بھائی وہاں ان سے ملنے گئے اور پھر متعدد بار ملے یوں ان سے خوشگوار تعلقات استوار ہوئے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ تھوڑی تھوڑی اردو سمجھنے بھی لگے تھے ۔ تاہم روانی سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے ۔ بھائی نے ان کو سید مودودی کی کتاب '' الجہاد فی الاسلام '' اور دیگر کتب پیش کیں ۔ '' الجہاد فی الاسلام '' پر علامہ نے تین علمی نوعیت کے نقد کیے جن میں سے ایک سید صاحب نے تسلیم بھی کرلیا تھا ۔ پرویزیوں اور منکرینِ حدیث کا لٹریچر بھی علامہ صاحب تک کسی نے پہنچادیا تھا جس کو پڑھ کر وہ کافی اشتعال میں آگئے تھے ۔ بھائی نے یہ صورتحال دیکھی تو علامہ صاحب کو '' تفہیمات '' لا کر دی ۔ اس کو پڑھ کر آپ کا دل ٹھنڈا ہوا اور فرمانے لگے میں تو پرویز صاحب کا جواب لکھنے کی تیاری کرچکا تھا لیکن استاذ مودودی کے قوت استدلال نے مجھے اس سے مستغنی کردیا ۔ بھائی علامہ صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض دفعہ آبدیدہ ہوجاتے تھے اور پھر ان سے اپنی ملاقاتوں کا منظر کھینچتے تھے کہ میں جب جاتا وہ بے حد خوش ہوتے ، بڑی گرم جوشی سے ملتے ، خود اٹھ کر دودھ گرم کرتے اور گلاس میں لا کر دیتے ، یہ تواضع ان کا روزانہ کا معمول تھا ۔ 

الواقعة:آپ افکار عامرعثمانی کے بھی ناشر ہیں ، اس حوالے سے آپ ہمیں علامہ عامر عثمانی کے گفتار و افکار کے بارے میں بھی بتائیے؟
سیّد علی مطہر نقوی:  علامہ عامر عثمانی حق و اہل حق کے وکیل تھے اور ہمیشہ حق بات ہی کی وکالت کرتے تھے ۔ چاہے انہیں اپنے اساتذہ ہی سے کیوں نہ مخالفت کرنی پڑے ۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنا ایک مخصوص علمی پسِ منظررکھتے تھے اور دیوبندی مدرسہائے فکر میں ان کا خانوادہ منصبِ امامت و علمیت پر فائز ہے ۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ان کے چچا تھے ۔مفتی عزیز الرحمن ( مولف '' فتاویٰ دارالعلوم دیوبند '' ) و مفتی حبیب الرحمن تایا تھے ۔ اس کے علاوہ مشہور پیر طریقت علامہ مطلوب الرحمن ان کے والد محترم تھے جبکہ مولانا فضل الرحمن صاحب ( جن کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں ہوتا ہے ) دادا تھے ۔ خود مولانا عثمانی ، مولانا حسین احمد مدنی کے تلامذہ میں سے تھے ۔ جب مولانا حسین احمد مدنی نے '' مودودی دستور و عقائد '' میں سید مودودی پر تنقید لکھی تو مولانا عثمانی نے پورے ادب و احترام کے ساتھ اس کا جواب لکھا ۔ مولانا محمد میاں صاحب نے خلافت و ملوکیت کے رد میں '' شواہد تقدیس '' لکھی تو اس کا جواب '' تجلیات صحابہ '' کے نام سے دیا جو میں نے شائع کردیا ہے ۔ اسی طرح مولانا احمد رضا بجنوری اور مولانا انظر شاہ صاحب سے مولانا کا تحریری مناظرہ ہوا جو '' تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں '' کے نام سے شائع شدہ موجود ہے ۔ مولانا مودودی کی حمایت ہی کی پاداش میں ان کے مکتبہ کو دو بار آگ لگائی گئی مگر ان کی طبیعت میں ذرا سی مصالحت و مفاہمت دیکھنے میں نہ آئی وہ جب علمی محاسبہ کرتے تو مخالف کی دھجیاں اڑا دیتے تھے ۔ ان کے زورِ قلم کا تو ایک زمانہ قائل ہے ۔

الواقعة:مولانا عثمانی آپ کے نزدیک عالم بڑے ہیں یا ادیب؟
سیّد علی مطہر نقوی:گو ادیب تو وہ بڑے ہیں لیکن ان کے ادب میں چاشنی و ثقاہت ان کے علم کی وجہ سے ہے اور ان کے علمی مقالوں میں ادبیت خود ان کے ادب کی وجہ سے ہے ۔

الواقعة :کیاعثمانی صاحب کے ماہنامہ '' تجلی '' دیوبند کی ساری فائلیں آپ کے پاس ہیں اور کیا ان کے خانوادے میں کوئی ایسا صاحبِ جستجو بھی ہے جو مولاناعثمانی کے علمی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کا متمنی ہو؟
سیّد علی مطہر نقوی: جہاں تک بات ہے ''تجلی ''کی تمام فائلوں کی تو اس کی صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ عثمانی صاحب کی اہلیہ پاکستان دو بار آئیں تھیں ، میں نے ان کی آمد پر ان کی دعوت بھی کی تھی ، ان کو یہ افسوس تھا کہ عثمانی صاحب کے بعد ان کے بچوں میں وہ علمی ذوق منتقل نہ ہوسکا جس کے خود مولانا عثمانی نمائندہ تھے ۔

الواقعة :''اکابر صحابہ اور شہدائے کربلا پر افترا'' مولانا عبد الرشید نعمانی کی تصنیف ہے اس پر آپ کا پیشِ لفظ موجود ہے ۔ کیا مولانا نعمانی مرحوم سے بھی آپ کے علمی روابط رہے ہیں ۔ آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میںخود کو مولانا عبد الرشید نعمانی کا کف بردار و ادنیٰ شاگرد سمجھتا ہوں اور ان کی حیات میں میری یہ کوشش رہتی تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاروں ۔ ردّ ناصبیت کی وجہ سے وہ اور میں ہم ذوق واقع ہوئے تھے ۔ مولانا اسحاق سندیلوی جو مائل بہ ناصبیت تھے ، ان کے افکار سے علامہ نعمانی حد درجہ بیزار تھے ۔ چنانچہ انہوں نے مجھے مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے جریدے '' صدقِ جدید '' کی قدیم فائلیں سپرد کیں ۔ اسی میں اسحاق صاحب کا وہ تحسینی خط بھی تھا جو انہوں نے محمود احمدعباسی صاحب کی کتاب '' خلافت معاویہ و یزید '' کے متعلق تحریر کیا تھا ۔ یہ خط میں نے علامہ نعمانی کو بتا کر شائع کردیا تھا جو ان کے جامعہ بنوریہ سے اخراج کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تھا۔

الواقعة :حضرت محدث بنوری اور مفتی ولی حسن صاحب سے اپنے علمی روابط کے حوالے سے آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  علامہ یوسف بنوری صاحب سے تو میرے قریبی روابط رہے ۔ علامہ بنوری کی '' معارف السنن '' کی تین جلدیں میں نے ہی الحجاز پرنٹنگ پریس سے چھپوائی تھیں ۔ مفتی ولی حسن صاحب سے بھی قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ میری کتاب '' محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں '' کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ شائع شدہ موجود ہے ۔

الواقعة:مولانا حسین احمد مدنی سے آپ کے خانوادے کے روابط رہے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی ذرا روشنی ڈالیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: ان رو ابط کی نوعیت اصلاحی تھی ۔ میری اہلیہ ، بہن ، بھائی اور بھاوج ان سے اصلاحی تعلق رکھتے تھے اور ان سے بیعت تھے۔

الواقعة :امروہہ میں رفض کی اشاعت کے پیچھے کیا عوامل کار فرما رہے ہیں ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  اصل سبب تو خود وہاں کے حکمراں تھے جیسا کہ '' تاریخ امروہہ '' میں تصریح ہے کہ آصف الدولہ خود رافضی تھا ۔ جو شخص اس دور میں رافضی ہوجاتا اس کو جائیداد ملتی ۔ اس حوالے سے خود ہمارے اجداد کو آفر ہوئی لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

الواقعة :علامہ تمنا عمادی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  میرا ان سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا تاہم سنا ہے کہ وہ لائق اور ذہین آدمی تھے ۔

الواقعة :مولانا محمد چراغ ، مولانا معین الدین خٹک اور مفتی محمد یوسف بونیری سے آپ کے روابط رہے ہیں ، تفصیل بیان فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: مفتی محمد یوسف مرحوم سے ملاقات کی خواہش تو رہی لیکن ہو نہ سکی البتہ مولانا محمد چراغ سے ملاقات رہی ہے ۔ مولانا معین الدین خٹک تو نہایت ہی قابل و فاضل محقق تھے ۔ میں جب بھی کوہاٹ جاتا تھا انہی کے یہاں قیام کرتا ، ان دنوں وہ کوہاٹ کے امیر جماعت ہوا کرتے تھے انہوں نے اس ناچیز کی پُر تکلف دعوت بھی کی ۔
الواقعة :مولانا مسعود عالم ندوی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: یقینا  مولانا مسعود عالم ندوی نے سید صاحب کی فکر کی اشاعت میں جو حصہ لیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وہ بڑے ذہین و قابل فرد تھے ۔ ان کی کتاب  '' محمد بن عبد الوہاب -ایک مظلوم و بدنام مصلح '' عمدہ تالیف ہے اور اہم تاریخی حقائق کا اس میں بیان ہے ۔

الواقعة :پاکستان کے تین اہم مسالک دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا ان کے مابین اتحاد کی کوئی سبیل یا نکتہ اشتراک ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:میں خود دیوبندی فکر سے وابستہ ہوں اور اسے مبنی بر صواب قرار دیتا ہوں ۔ اہل حدیث فکر کوبھی درست سمجھتا ہوں ۔ بریلوی مسلک کو بدعات سے متعلق جاننے کے باوجود اہل سنت و الجماعت سے خارج نہیں سمجھتا ۔ میرے خیال میں یہ تینوں ہی اہل سنت و الجماعت کا حصہ ہیں ۔

الواقعة:اپنی زندگی کا کوئی خوشگوار لمحہ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  (مسکراتے ہوئے ) کوئی خاص نہیں فی الحال تو یہی ہے کہ آپ جیسے صاحبِ ذوق سے محو گفتگو ہوں ۔

الواقعة :ادارہ الواقعة کے توسط سے امت مسلمہ کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: پیغام تو یہی ہے کہ دنیا و آخرت کی فلاح دین ہی سے وابستہ ہے ، لہٰذا دین پر ثابت قدمی و تصلب اختیار کیا جائے ، انسان کی زندگی کس قدر محدود ہے اس کا اندازہ بہر کیف ہر کسی کو جلد ہی ہونے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے امان میں رکھے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے