بدھ، 26 ستمبر، 2012

سلسلۂ نفرت و دشنام ----آخرکب تک ؟


سلسلۂ نفرت و دشنام ----آخرکب تک ؟

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

(اداریہ )

جریدہ "الواقۃ" کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/  اگست ، ستمبر 2012

تحریکِ استشراق کے آغاز کا اصل مقصد اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی تنقید و تنقیص تھا ۔ اس فکری تحریک کا بھرپور آغاز چند صدیوں قبل ہوا ۔ عصرِ جدید میں بھی اس بدعقیدہ اور فکری لحاظ سے انتہائی گمراہ تحریک کا سلسلۂ طعن و تشنیع جاری ہے ۔
فرق صرف یہ ہے کہ کل اس کا ذریعۂ اظہار قلم اور قرطاس تھا اور آج اس کی جگہ کیمرے اور اسکرین نے لے لی ہے ۔ کل مجمع میں کہی ہوئی بات بھی مغرب سے نکل کر مشرق تک پہنچتے پہنچتے صدا بصحرا ہوکر رہ جاتی تھی جبکہ آج بند کمروں میں کہی ہوئی بات بھی لمحوں میں دنیا بھر کو اپنے دائرئہ اثر میں لے لیتی ہے ۔ لیکن ایک قدر آج بھی مشترک ہے ۔ وہ ہے نفرت ، تعصب اور عناد ۔ نفرت کے شعلے ان کے سینوں کو دہکاتے ہیں اور تعصب کی چنگاری انہیں اپنے بغض و عناد کے اظہار پر مسلسل اکساتی ہے ۔ ان کا مذہب مسیح علیہ السلام کی تعلیمات پر مبنی '' محبت '' نہیں رہا بلکہ اسلام دشمنی کے جذبۂ فاسدہ نے '' نفرت '' کو ان کا مذہب بنا دیا ہے ۔ 


اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی تسلسل کے ساتھ پیغمبر اسلامؐ کی توہین و تنقیص کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ردّ عمل بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ مگر کس طرح ؟ چند روزہ احتجاج اور اس کے بعد دوبارہ وہی زندگی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ وہی معمولات روز و شب ، وہی مجالسِ عیش و طرب ، جو زندگی کا حصہ ہیں ۔ گزشتہ ١٢ برسوں کا تجربہ یہی ہے ۔ 


درحقیقت یہ بش جونیئر کی آغاز کردہ صلیبی جنگ کا ایک حصہ ہے ۔ یہ ایک مسلسل اور تھکا دینے والی ذہنی و نفسیاتی جنگ ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس کا شعور و ادراک بھی نہیں رکھتے ۔ ہمارا عمل محض ایک ردّ عمل کا نتیجہ ہے ۔ اپنے املاک کو نقصان پہنچا کر ہم اپنی ہی معیشت کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ہماری حالت اس دیوانے کی سی ہے جسے کوئی گالی دے اور وہ غصے میں آکر اپنا ہی سر دیوار پر دے مارے ۔ 


اس انتہائی اہم و حساس معاملے کے دو پہلو ہیں ایک ایمانی اور دوسرا سیاسی و سماجی ۔ جہاں تک ہمارے جذبۂ ایمان کا تعلق ہے تو ہمارے اعمال کی سطحیت نے اسے سخت مجروح کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم دینی تقاضے بھی غیر دینی طریقوں سے نبھاتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ ''کوکاکولا'' کا '' لوگو'' اسلام دشمنی پر مبنی ہے اور'' پیپسی '' کی کمائی اسلام دشمنی پر صرف ہوتی ہے لیکن کیا ہمارے بازاروں میں یہ بکنا بند ہوگئے ؟ کیا ہم نے اسے پینا ترک کردیا ؟ جب ہم لذت کام و دہن کی انتہائی ادنیٰ سی قربانی نہیں دے سکتے تو کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنا سر دے کر بازی جیتنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ 


اے وہ کہ جس کی نگاہوں پر حجابِ غفلت ہے اور جس کی عقل پر تیرگی کی نحوست ! اگر ہو سکے تو اپنے جذبات کو مقدس احساس میں منتقل کرلو اور وہ عزم پیدا کرو جو تمہاری ہر ساعتِ مدہوشی کا مداوا ہو اور ہر وقتِ زیاں کا ازالہ۔


جہاں تک اس معاملے کی سیاسی و سماجی سطح کا تعلق ہے تو اس کی اصل ذمہ داری مسلم ممالک کے اصحاب اقتدار گروہ پر عائد ہوتی ہے ۔جن کے لیے صرف یہی کہا جا سکتا ہے 


الٰہی نہ وہ سمجھے ہیں ، نہ سمجھیں گے میری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور


جذبات سچے ہوں تو پتھروں کو بھی گویائی مل جاتی ہے ۔ پہاڑ بھی صدقِ عزائم کے سامنے چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔ سمندر کی گہرائیا ں بھی بلند حوصلگی کے سامنے ہار جاتی ہیں ۔ لیکن ایمان بازاروں میں نہیں بکتا کہ خرید کر دل کو ایک تحفۂ نایاب دیا جائے ۔ یہ تو محض ایک احساسِ لطیف ہے جو قلبِ انسانی کے کسی گوشے میں زندگی کی حرارت بن کر دھڑکتا ہے ۔ جب یہ دھڑکن ہی رُک چکی ہو تو تقاضا کیسا ؟


ہم سیاسی سطح پر استیلائے مغرب کے سامنے محض گزارشات کر سکتے ہیں مگر انہیں مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی سرکشی سے باز آجائیں ۔

یہ ایک سازش ہے جو گزشتہ سازشوں کا تسلسل بھی ہے اور شاید انسانی تاریخ کے کسی نئے موڑ کا نکتۂ آغاز بھی ۔


اب  مسلمانوں کی قوت برداشت کا امتحان ہے ۔کیونکہ یہ محض ایک سازش ہی نہیں بلکہ ایسی سازش ہے جو شاید تاریخ کو تبددیل کردے اور دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دے ۔ بایں وجہ کہ مسلمان کتنا ہی بداطوار کیوں نہ ہوجائے اپنے سینے میں زندگی بن کر دھڑکنے والی محمد ؐ کی محبت سے دستبردار نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ اسلام اور کفر کا اصل وجۂ نزاع نسبتِ محمدیؐ ہے ۔ مغرب کی مادّی فکر اس راز کو کبھی نہیں پا سکتی کہ مسلمان اپنے نبیؐ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں ۔ کیونکہ ایمان صحرائے یقین و محبت کا وہ گوشۂ لذت و آگہی ہے جہاں افکار کی رَسائی نہیں ہوسکتی ۔


تنزیل ، وہ کیا سمجھیں گے کیا ہے ایمان
محمد ؐ  کی غلامی پر ہر آزادی ہے قربان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے